ارومیٹک ڈائین : احتشام شامی

گھر والوں اور دوستوں سے مشورے کے بعد میں نے شہریار ظہور کو اثبات میں جواب دے دیا تھا۔ ایسی پیش کش مجھے دوبارہ نہیں ملنی تھی۔ میں محنت پر یقین رکھتا تھا لیکن ان کی بات ٹھیک تھی پتہ نہیں مجھے کتنے سال لگ جائیں گے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں۔ یہ میں بھی نہیں جانتا تھا۔ شہریار ظہور نے ہی جگہ کرائے پر لی۔
دن رات کا فرق بھلا کر میں اس جگہ کو اپنے خوابوں کی تعبیر کی شکل میں ڈھالنے میں جت گیا۔ دیکھنے والوں نے حیرت سے دیکھا۔ کارپینٹرز کے ساتھ مغز ماری، پینٹ کے برش تھامے، کارڈ بورڈ کے پھٹوں سے لے کر ہر کام میں نے دل سے کروایا تھا۔ جب ریسٹورنٹ تیار ہو گیا تو لوگ ٹھٹکنے لگے۔ اس کی تزئین و آرائش دل موہ لینے والی تھی۔ وہ عمارت مجھے عجیب سے انداز میں اپنی طرف کھینچتی تھی۔ شیشے اور لکڑی کے کام نے اسے جدت اور قدامت کا حسین شاہکار بنا دیا تھا۔ شاہکار ایسے ہی نہیں بن جاتے، انسان کی عمریں لگ جاتی ہیں۔ شہر کے چوک میں بہت سی عمارتوں کے جھرمٹ میں "The Aromatic Dine” آگرہ کے تاج محل جیسی شان رکھتا تھا۔
ساری تیاریاں مکمل تھیں۔ نئے سال کے آغاز پر ریسٹورنٹ کا افتتاحی دن رکھا گیا۔
پہلے دن کا کھانا ہم نے غریبوں میں تقسیم کرنے کا سوچا تھا۔ شہریار ظہور کی جانب سے ان کے چند دوست مدعو تھے جبکہ میری جانب سے امی ابا جی، نمرہ، اماں بیدہ، احمر، میرے دوست اور مہمانِ خصوصی پھپھو تھیں۔ سب لوگ پہنچ چکے تھے، بس پھپھو کی آمد کا انتظار تھا۔
’’ہاں بھئی کہاں رہ گئیں آپ کی مہمان خصوصی۔ ہم کب سے انتظار میں سوکھ رہے ہیں۔‘‘ شہریار ظہور میری جانب آئے۔
’’بس آنے والے ہیں وہ لوگ۔ میں انہیں ہی فون کر رہا تھا۔‘‘ میں نے سڑک پر نظر دوڑائی۔
’’چلو پھر مجھے بلا لینا۔‘‘ وہ واپس چلے گئے۔ میں بے تاب نظروں سے پھپھو اور قرۃ العین کی راہ تکنے لگا۔ اسی اثناء میں ایک گاڑی میرے سامنے رکی۔ میں جلدی سے آگے بڑھا۔ قرۃ العین باہر نکلی اور ہم نے پھپھو گاڑی سے نکال کر وہیل چیئر پر بٹھایا۔
’’شکر ہے آپ آ گئیں۔ آپ کے بنا یہ تقریب ادھوری رہتی۔‘‘ میں نے ان سے کہا۔
’’بس تمہاری خاطر آئی ہوں۔ تمہاری کامیابی پر میرا آنا بنتا تھا۔‘‘ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’مہمان آ گئے تمہارے…‘‘ سامنے سے آتے شہریار ظہور کی بات ادھوری رہ گئی۔ ان کی نگاہیں پھپھو پر مرکوز تھیں۔
’’جی آ گئیں پھپھو، چلیں مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے افتتاح کرواتے ہیں۔‘‘
’’مہ پارہ یہ تم ہو؟‘‘ شہریار ظہور نے میری بات سنی ہی نہیں۔ وہ پھپھو کو ششدر نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
’’شہریار آپ۔‘‘ پھپھو نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔
میں نے قرۃ العین کو دیکھا تو اس نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیئے۔ دونوں کے رویوں سے لگ رہا تھا وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔
’’میرا خیال ہے پہلے ہم اپنا کام کر لیں۔ پھر آپ لوگ بعد میں بت بنے رہیئے گاـ‘‘ میں نے کھنکار کر کہا۔ دونوں نے چونک کر میری جانب دیکھا۔ میں نے ریسٹورنٹ کی جانب اشارہ کیا۔ شہریار ظہور پھیکا سا مسکرا کے پلٹے۔ میں پھپھو کی وہیل چیئر تھام کر ریسٹورنٹ کی جانب بڑھا۔
سب لوگ جمع ہو گئے تب پھپھو اور امی نے فیتہ کاٹ کر ریسٹورنٹ کے دروازے کھولے۔
’’میں آپ سب سے کچھ کہنا چاہوں گا۔‘‘ اندر جاتے ہی میں نے سب کو متوجہ کیا۔
’’آج میرا وہ خواب پورا ہو گیا ہے جو میں نے کبھی دیکھا تھا یعنی ایک ریسٹورنٹ بنانے کا خواب۔ میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تعبیر پانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ اس کا سہرا آپ سب کے سر جاتا ہے جنہوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ میرے ابا جی جنہوں نے مجھے اجازت دی میں جو چاہوں، کر سکتا ہوں۔ میرے دوست جنہوں نے مجھے مفید مشوروں سے نوازا۔ وہ لوگ جن کی دعائیں پل پل میرے ساتھ رہیں۔‘‘ میں نے امی، اماں بیدہ اور پھپھو کو دیکھا۔
’’اور شہریار صاحب جن کی بدولت ہم یہاں کھڑے ہیں۔‘‘ میں نے ممنون نظروں سے کھوئے کھوئے سے شہریار ظہور کو دیکھا۔
’’ہمارے معاشرے میں ایک لڑکا گھر میں کھانا بنائے تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ مرد و عورت دونوں کھانا کھاتے ہیں تو مرد پکا کیوں نہیں سکتا؟ شاید بڑے شہروں میں اس چیز کو عجیب نہ سمجھا جاتا ہو لیکن گاؤں میں آج بھی مرد کے پکانے پر چہ مگوئیاں ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کوکنگ ایک ہنر ہے سو ’’ارومیٹک ڈائین‘‘ میں خوش آمدید، جہاں میں اپنا یہ ہنر آزماؤں گا۔ ریسٹورنٹ کا پہلا ظہرانہ آپ سب کے نام۔‘‘ سب نے زبردست تالیاں بجائیں۔ میں نے میزوں پر کھانا چنوا دیا۔
’’ابا جی، اب آپ سب کو فخر سے بتا سکیں گے کہ میرے بیٹے کا ریسٹورنٹ ہے۔‘‘ میں نے کھانے کی میز پر ابا جی کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ دھیما سا مسکرا دیئے۔
میں شہریار ظہور کو لیے ایک کونے میں گیا۔
’’ہاں جی، اب بتائیں کچھ دیر پہلے آپ بت کیوں بن گئے تھے؟‘‘
’’امیر حمزہ، مہ پارہ ہی میری محبت ہے۔ پندرہ سال پہلے بھی میں اسے وہیل چیئر سمیت اپنانا چاہتا تھا اور آج بھی میرے دل پر اسی عورت کی حکمرانی ہے۔‘‘
’’کیا سچ میں؟‘‘ میں نے چونک کر انہیں دیکھا۔ میرے دماغ میں جھماکہ ہوا۔ ان کی کتاب میں نے پھپھو کے پاس دیکھی تھی۔ کتاب کے سرورق پر لگی تصویر کی وجہ سے وہ مجھے جانے پہچانے لگے تھے۔
وہ محض سر ہلا گئے۔
’’عین، ہم کچھ دیر بات کر سکتے ہیں؟‘‘ میں نے اسے الگ لے جا کر شہریار ظہور اور پھپھو کی کہانی بتائی۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ پھپھو کی بھی ایک کہانی تھی۔‘‘ وہ بے یقینی سے مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’اور کہانی بھی اتنی ہینڈسم۔‘‘ اب کہ وہ ہنس پڑی تھی۔
’’کیا خیال ہے ان دونوں کو ملانے کے لیے کوشش کرنی چاہیئے۔‘‘ میں نے اس کی خوبصورت ہنسی کو غور سے دیکھا تھا۔
’’شہریار صاحب تو مانے ہی ہوئے ہیں۔ پھپھو کو منانا آسان نہ ہو گا۔ ماما پاپا کو بھی یقیناََ خوشی ہو گی اگر پھپھو کی بے رونق زندگی میں بہار آ جائے۔ ویسے اتنے ہینڈسم بندے کو میں کیسے شہریار پھپھا کہوں گی۔‘‘
’’اب یہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔‘‘ شہریار کی اتنی تعریف پر میں نے حسد محسوس کیا۔
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا پتہ ان کا کوئی بھانجا بھتیجا یا کوئی کزن ہو، جو ان جیسا ہی ہینڈسم ہو۔ ‘‘ وہ جیسے فریفتہ ہو کر بولی۔
’’تم نے ہی کہا تھا میں تم سے بہتر ڈیزرو کرتی ہوں۔‘‘ اس نے میری جلن محسوس کر کے یاد دلایا۔
’’ویسے بھی وہ کوئی عشق تو نہیں تھا جو میں جوگ لے کر بیٹھ جاتی۔‘‘ وہ بھگو بھگو کر لگا رہی تھی۔
’’عین… تم واقعی اُس امیر حمزہ سے بہتر ڈیزرو کرتی تھیں، جو آج تمہارے سامنے کھڑا ہے۔ عشق تو واقعی نہیں تھا لیکن کچھ ارومیٹک سا تھا جو مجھے اپنے حصار میں لیے رکھتا تھا۔‘‘ میں نے اسے اپنی نظروں کی حصار میں لیا۔ ’’اب میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ تمہارے پاپا کے معیار پر پورا اتر سکوں۔ کیا خیال ہے رشتہ بھیجوں؟‘‘
’’نہیں، پہلے میں پھپھو کے متعلق سوچوں گی۔ پھر ڈگری لے کر جاب کروں گی یا ہو سکتا ہے باہر پڑھنے جاؤں۔ اس کے بعد سوچوں گی۔‘‘ وہ نخوت سے کہہ کر چلی گئی۔
’’عین۔‘‘ میں نے اسے پکارا مگر اس کے پیچھے نہیں گیا۔
میں نے محبت بھری نظروں سے ارومیٹک ڈائن کے چاروں طرف دیکھا۔ خوشیاں چاروں طرف رقصاں تھیں۔ سوچوں میں گم پھپھو کو میں نے اور قرۃ العین نے مل کر منا ہی لینا تھا۔
٭…٭…٭
زندگی مصروف ہوتی چلی گئی۔
ریسٹورنٹ کا خواب دیکھنا آسان تھا، اسے چلانا مشکل تھا۔ یہ بہت محنت طلب کام تھا۔ دو مددگار رکھنا پڑے جو کھانا بنانے میں میری مدد کرتے تھے۔ اماں بیدہ کو بھی کچن میں کام کرنے کے لیے رکھا تھا۔ احمر کا کام پہلے جیسا ہی تھا۔ صبح اسکول جاتا، واپسی پر میرے ساتھ لگا رہتا۔ وہ مجھ سے کھانا بنانا بھی سیکھ رہا تھا۔
’’کیا میں رشتہ بھیج دوں؟‘‘ شہریار میرے پیچھے پڑے تھے۔
’’نہیں، مجھے لگتا ہے جب تک پھپھو رضامندی نہ دیں، آپ کو رشتہ نہیں بھیجنا چاہیئے۔‘‘
’’تم بات کرو نا یار۔ مہ پارہ کو دیکھ کر میرے سوئے جذبات بیدار ہو چکے ہیں۔ میں ایک پل بھی اس سے دور نہیں رہنا چاہتا۔‘‘ ان کی بے چینی دیکھ کر مجھے ہنسی آئی۔
’’ٹھیک ہے میں وقت نکال کر جاؤں گا۔ عین سے بھی میں نے کہا ہے کہ وہ پھپھو کو منانے کی کوشش کرے۔‘‘ میں نے انہیں حوصلہ دیا۔
’’تو انتظار کس بات کا ہے۔ میں ادھر رکتا ہوں، تم ابھی چلے جاؤ۔‘‘ ان کا بس نہیں چلتا تھا لمحوں میں بینڈ بجوا لیتے۔
مجھے پھپھو کی طرف جانا پڑا۔ وہ صحن میں بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں۔
’’کیسا چل رہا ہے ریسٹورنٹ؟‘‘ معمول کے حال احوال کے بعد انہوں نے پوچھا۔
’’الحمدللہ شروعات اچھی ہے۔ آگے آپ کی دعائیں چاہئیں۔‘‘ میں نے شہریار کی بات کا سرا تلاش کرتے ہوئے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھی بات ہے۔ اللہ تمہیں مزید کامیاب کرے۔‘‘
’’شہریار صاحب کا ساتھ رہے گا تو کامیابیاں ملتی رہیں گی۔‘‘
’’اب راولپنڈی میں ہی گھر بنا لو اور اپنے والدین کو یہیں لے آؤ۔ آگے تم نے گھر بھی بسانا ہے۔‘‘
انہوں نے شہریار کی بات کو نظر انداز کر کے مشورہ دیا۔
’’گھر تو شہریار بھی بسانا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے بات کا سرا پکڑ ہی لیا۔
’’اس کے وکیل بن کر آئے ہو؟’‘‘
’’وکیل تب بنتا اگر وہ مجرم ہوتے۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو لیکن منانے تو آئے ہو۔ ایک وکیل پہلے ہی گھر میں موجود ہے۔‘‘ انہوں نے میری چوری پکڑ لی۔
’’آپ مان کیوں نہیں جاتیں؟‘‘
’’کیوں کہ میں ادھوری ہوں۔‘‘ وہ اداسی سے بولیں۔
’’شہریار آپ کا یہی ادھورا پن ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ایک ادھورے وجود کے ساتھ وہ کیسے زندگی گزار سکتے ہیں؟ انہیں اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہیئے تھا۔ عین نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ کیا میں قصور وار ہوں؟‘‘ وہ سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔
’’بالکل نہیں، اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن وہ آپ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔ میں نے ان کی کتاب میں اپنا آپ دیکھا ہے۔ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی میں ان کے دل میں میرا مقام ہے۔ کبھی کبھی دل چاہتا تھا، ان سے رابطہ کروں لیکن مجھے خیال تھا، وہ شادی کر چکے ہوں گے۔ کتاب تو بس ماضی کی یادوں پر لکھ دی ہو گی لیکن یہ جان کر مجھے سکون نہیں مل رہا کہ وہ وہیں رکے ہوئے ہیں جہاں میں نے چھوڑا تھا۔‘‘ مجھے محسوس ہوا قرۃ العین نے ان کو کافی حد تک منا لیا ہے۔
’’وہ کہتے ہیں آج بھی ان کے دل پر آپ کی حکمرانی ہے۔‘‘ میرے کہنے پر ان کے صبیح چہرے پر ایک پل شرمگیں مسکراہٹ ابھری۔
’’پھپھو، آپ کی اس معذوری میں آپ کا قصور نہیں۔ وہ آپ سے محبت کرتے تھے، آپ کی ٹانگوں سے نہیں۔ زندگی انہوں نے آپ کے ساتھ گزارنی تھی۔ آپ نے ظلم کیا خود پر بھی، ان پر بھی۔ جو لوگ ہم سے اتنی محبت کرتے ہوں کہ ہمارا ہر حال میں ساتھ دینا چاہتے ہوں، ان کو یوں چھوڑنا نہیں چاہیئے۔‘‘
ان کی نم آنکھیں دھوپ کی روشنی میں چمکنے لگیں۔
’’وہ ایک مکمل انسان ہیں۔ ان کا حق تھا کہ ان کو ایک مکمل جیون ساتھی ملتا۔ میں بس ان کی خوشی چاہتی تھی۔‘‘ آنسو کا ایک قطرہ ٹپک کر ان کی گود میں گرا۔
’’ان کی خوشی آپ کے ساتھ میں ہے۔ پندرہ سال پہلے بھی اور آج بھی۔‘‘ میری بات سن کر وہ کچھ نہ بولیں، بس ہاتھ سے اپنا چہرہ صاف کیا۔
’’تو پھر میں یہ رشتہ پکا سمجھوں؟‘‘ میں نے شرارت سے پوچھا۔
’’بھاگ جاؤ لڑکے۔ رشتہ گھر کے بڑے طے کرتے ہیں اور یہ کام بھائی بھابھی کا ہے۔‘‘ ان کی طرف سے یہ گرین سگنل تھا۔ میں نے سکھ کا سانس لیا۔
ایک ماہ کے اندر سارے معاملات طے پا گئے۔ شہریار اپنے والد اور بھائی بھابھی کے ہمراہ رشتہ مانگنے آئے تھے۔ قرۃ العین اپنے والدین کو پہلے ہی سب بتا چکی تھی سو ان کی طرف سے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی۔ کوئی ظالم سماج بیچ میں نہ آیا اور شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔
اور آج شادی کا دن تھا۔ میں پورے خاندان کے ساتھ مدعو تھا۔ شادی سادگی سے ہونا تھی لیکن پھر بھی کافی لوگ جمع ہونے سے تقریب کا سماں بن گیا۔ بارات پہنچ چکی تھی۔ میں راستے میں تھا۔ شہریار اور قرۃ العین کے پیغامات آ رہے تھے تو ہم لوگ سیدھا شادی ہال پہنچے تھے۔
پھپھو ہلکے گلابی رنگ کے سوٹ میں دلہن بنی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ شہریار بھی پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ شاید خوشی کے زیرِ اثر یا وہ کچھ زیادہ تیار ہو کر آئے تھے۔
امی اور نمرہ سے قرۃ العین کا ذکر میں پہلی ہی کر چکا تھا۔ میرے ساتھ وہ ان کی نگاہوں کا بھی مرکز بنی ہوئی تھی۔ اس کے والدین مجھ سے رسمی سا ملے۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ مجھے دیکھ کر جزبز ہوئے ہیں۔
’’کوئی جاب کر رہے ہو آج کل آپ؟‘‘ قرۃ العین کے پاپا مجھ سے مخاطب تھے۔
’’سلمان بھائی، امیر حمزہ ہی میرا پارٹنر ہے۔‘‘ میرے بجائے شہریار نے جواب دیا تھا۔
شہریار کی بات سن کو وہ چونکے اور مجھے گہری نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے بعد امی ابا جی سے وہ خوش دلی سے ملے تھے۔
آہ! مادیت پرست لوگ….
ایسے لوگ ہماری زندگی میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن انہیں میں نے ہمیشہ برداشت کرنا تھا۔ آخر میرے ہونے والے ساس سسر جو تھے۔
نکاح ہو رہا تھا۔ شہریار اور مہ پارہ کی کہانی کا ایک خوشگوار موڑ شروع ہو رہا تھا۔ مجھے قوی امید ہے کہ میری اور عین کی کہانی کا بھی ایسا ہی خوبصورت انجام ہونا تھا۔
٭٭
Behtreen tehreeer