ارومیٹک ڈائین : احتشام شامی

’’تو تم ہو امیر ۔‘‘ سامنے کھڑا آدمی مجھ سے مخاطب تھا۔
میں ایپرن باندھے کھانا بنا رہا تھا۔ اطلاعی گھنٹی پر احمر نے دروازہ کھولا اور مجھے بتایا کہ باہر کوئی انکل آپ کا پوچھ رہے ہیں۔
میں نے باہر نکل کر سلام کیا اور سر سے پاؤں تک اس شخص کو بغور دیکھا۔ اس نے گھسی ہوئی پینٹ پر سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ لمبا قد، متناسب جسم، گھنی مونچھیں، بڑھی ہوئی شیو۔ دیکھنے میں وہ ٹھیک ٹھاک خوبصورت آدمی تھے۔ ان کی شکل مجھے کچھ جانی پہچانی سی لگی تھی۔
’’نہیں حمزہ بھائی تو غریب ہیں۔‘‘ ساتھ کھڑا احمر اچانک بولا تھا۔ ایک قہقہہ تھا جو پورے اپارٹمنٹ میں گونج گیا۔ میں بھی مسکرانے پر مجبور ہوا۔
’’جی میں ہی امیر حمزہ ہوں۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’اچھا تو غریب حمزہ، میں نے تمہارے کھانے کی کافی تعریف سنی ہے۔ آج یہاں سے گزر رہا تھا تو سوچا آزماتا جاؤں۔‘‘ وہ دلچسپی سے ادھر ادھر کا جائزہ لے رہے تھے۔
’’جی بیٹھیں۔ کیا کھانا پسند کریں گے آپ؟‘‘
میں نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’جو تم سب سے اچھا بناتے ہو، میں وہی کھاؤں گا۔‘‘
’’میں بینگن سب سے اچھے بناتا ہوں۔‘‘ میں نے شرارت سے کہا۔ ان کا قہقہہ دوبارہ گونج اٹھا۔
’’اچھا ہے… مجھے بینگن پسند ہیں۔‘‘ میں نے دلچسپی سے انہیں دیکھا۔
’’لیکن بینگن کھانے کے لیے آپ کو کسی اور دن آنا ہو گا کیوں کہ آج نہیں بنے۔‘‘
’’جو بنا ہے، وہی لے آؤ۔‘‘ ہاتھ میں پکڑی کتاب میز پر رکھتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ گئے۔
’’آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ابھی کھانا بننے میں کچھ دیر ہے۔‘‘ میں نے گھڑی دیکھ کر بتایا۔
’’کوئی بات نہیں، میں انتظار کر لوں گا۔‘‘
’’جی بہتر۔‘‘ میں کچن میں جانے لگا۔
’’تم کدھر چل دیئے لڑکے، مجھے تم سے بات کرنی ہے۔‘‘ میں رک گیا۔ وہ ڈبی نکال کر سگریٹ سلگانے والے تھے۔
’’پہلی بات، یہاں سگریٹ پینا منع ہے۔ دوسری بات میں یہاں رکا تو کھانا کون بنائے گا؟ ‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
’’ٹھیک کہہ رہے ہو۔ چلو جلدی سے کچھ بنا کر لے آؤ۔‘‘ لائٹر اور سگریٹ کی ڈبی واپس جیب میں رکھتے ہوئے انہوں نے کہا۔
میں مسکراتا ہوا کچن میں گیا۔ ایک چولہے پر چکن کڑھائی بن رہی تھی، دوسرے پر آلو گوبھی… اماں بیدہ آٹا گوندھ کر فارغ تھیں۔ میرے ذہن میں ’’جو تم اچھا بنا لیتے ہو‘‘ گونجا۔ میں نے دو انڈے ابلنے کو رکھے۔ ایک فرائنگ پین میں پیاز ہلکا براؤن کر کے لہسن، ادرک، ٹماٹر اور باقی لوازمات ڈالے اور اچھا سا آمیزہ تیار کیا۔ اماں بیدہ کو روٹی بنانے کا کہہ کر انڈے چھیلے اور ان میں کٹ لگا کر آمیزے میں ملائے پھر دودھ شامل کیا۔ روٹی پک گئی اور ’’انڈہ ملائی قورمہ‘‘ بھی تیار تھا۔ میں کھانا لے کر باہر آیا۔ وہ صاحب مطالعہ میں غرق تھے۔ کھانا ان کے سامنے رکھا تو وہ متوجہ ہوئے۔
’’آہا… تو تیار ہو گیا کھانا۔‘‘ انہوں نے ٹرے قریب کھینچی۔
’’جی، آپ اسے میری خاص الخاص ڈش کہہ سکتے ہیں۔‘‘ میں پلٹنے لگا۔
’’گویا یہ تمہاری ایجاد کردہ ڈش ہے۔‘‘ انہوں نے کھانا شروع کیا۔
’’نہیں، دراصل میں نے کسی اور سے بنانا سیکھی تھی۔ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی کھانا بھی ہے۔ ویسے میں پکاؤں تو اکثر لوگوں کو پسند آ جاتا ہے۔‘‘ میرے ذہن میں وہ بنانے والی شخصیت آئی۔ میں نے شمائلہ دلعباد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا، جن کی بدولت میں نے یہ ڈش بنانا سیکھی تھی۔
’’بیٹھو۔‘‘ انہوں نے مجھ سے کہا۔
’’سر آپ کھانا کھائیں، مجھے ابھی کام ہے۔‘‘ میں مسکرا کر کچن میں چلا گیا۔
ان کا نام شہریار ظہور تھا۔ اس کے بعد وہ کبھی اکیلے اور کبھی دوستوں کے ساتھ آنے لگے۔
دوستوں کے ساتھ اکثر ان کی محفل جم جاتی۔ شعر و شاعری کے ساتھ کھانا کھایا جاتا، کبھی چائے پہ چائے منگوائے جاتے۔ پہلے میں نے منع کیا تھا کہ میں چائے نہیں بناتا لیکن اپارٹمنٹ ایک ادبی بیٹھک بن گیا تو میں شہریار کو منع نہ کر پایا۔
البتہ ’’نو اسموکنگ‘‘ کا بڑا سا بورڈ لگا دیا تھا۔
شہریار ایک دلچسپ انسان تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے اور میں ان کی شاعری کا مداح ہو چکا تھا۔ ان کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی تھی جو انہوں نے مجھے بطور تحفہ دی۔ کتاب پر لگی تصویر میں نے پہلے بھی کہیں دیکھی تھی۔ پہلی ملاقات میں وہ مجھے کچھ جانے پہچانے لگے تھے۔ میری ان سے اچھی سلام دعا ہو گئی تھی۔
’’آپ اکیلے کیوں رہتے ہیں؟‘‘
ان کا تعلق گجرات سے تھا۔ سارا خاندان وہیں آباد تھا۔ وہ یہاں اکیلے رہتے تھے۔ انہوں نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی۔
’’تنہائیوں سے اچھی نبھتی ہے میری۔‘‘ انہوں نے چائے کی پیالی اٹھا کر ہونٹوں سے لگائی۔
’’یہ کوئی جواب نہیں ہے۔ اصل جواب دیں۔‘‘
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فراز آؤ ستارے سفر کر کے دیکھتے ہیں
انہوں نے جواب میں اشعار پڑھ کے سنا دیئے۔
’’وہ مجھے جامعہ میں ملی تھی اور ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک وہ غائب ہو گئی۔ پھر سامنے آئی تو بالکل بدل چکی تھی۔ میں نے اسے منانے کی بہت کوشش کی کہ وہ مجھے ہر روپ میں پسند تھی لیکن اس نے خود تک آتا ہر راستہ بند کر دیا۔ اس نے جامعہ چھوڑی تو میرا دل بھی پڑھائی سے اچاٹ ہو گیا۔ اس دن کے بعد میں بھی پڑھنے نہیں گیا۔ ‘‘ شعر کے ساتھ انہوں نے اپنی کہانی بھی سنا دی۔
’’اب رابطہ نہیں ان سے آپ کا؟‘‘ میرے پوچھنے پر انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’خیر چھوڑو… یہ بتاؤ تم کب تک یہ چھوٹا سا کام کرتے رہو گے؟‘‘
’’ہر کام شروع میں چھوٹا ہی ہوتا ہے شہریار صاحب۔ میں غریب بھلا کیسے بڑے ریسٹورنٹ سے شروعات کر سکتا تھا؟‘‘
’’ہاں ہو تو تم غریب حمزہ لیکن آگے کا بھی سوچنا پڑتا ہے نا۔‘‘
’’میں نے بھی کافی کچھ سوچ رکھا ہے۔ بس آپ کی دعا چاہیئے۔‘‘
’’میرے ساتھ پارٹنر شپ کرو گے؟‘‘ میں نے چونک کر انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’تم جانتے ہو میں یہاں اکیلا رہتا ہوں۔ ہم دو بھائی ہیں۔ میں ملازمت نہیں کرتا۔ گجرات میں زمین جائیداد ہے جسے ابا جان اور بھائی سنبھالتے ہیں۔ ابا جان کئی دفعہ کہہ چکے ہیں کہ اگر واپس نہیں آنا تو اپنے حصہ سے وہیں کوئی کاروبار شروع کر لو۔ میں ان کی بات ٹال دیتا تھا لیکن اب سوچ رہا ہوں کچھ کر ہی لینا چاہیئے۔ کب تک ابا جان اور بھائی کے اسہارے بیٹھا رہوں گا۔ سو کیوں نہ ہم پارٹنر شپ کر لیں۔ ایک ریسٹورنٹ بناتے ہیں، پیسہ میں لگاؤں گا اور محنت تمہاری ہو گی۔‘‘ انہوں نے تفصیل بتائی۔
’’ہماری پارٹنر شپ کتنے فیصد پر ہو گی۔‘‘ کچھ دیر غور کے بعد میں نے پوچھا تھا۔
’’پچاس فیصد پر۔‘‘
’’سیریسلی؟ آپ نے میرے ساتھ ہی پارٹنر شپ کا کیوں سوچا؟ آپ اپنا ریسٹورنٹ بنا کر وہاں ملازم بھی رکھ سکتے ہیں۔‘‘ اس پیش کش نے مجھے حیران کیا تھا۔ میں پوچھے بناء نہ رہ سکا۔
’’کیا ملازم اس دل کے ساتھ کام کریں گے جس طرح تم کرتے ہو؟ کیا اس کے ہاتھ میں وہ ذائقہ ہو گا جو تمہارے پاس ہے؟ خود سے پوچھو، تم کیوں نہیں باورچی رکھتے؟‘‘ انہوں نے مجھے لاجواب کر دیا۔
’’لیکن ایک شرط ضرور ہو گی۔ ہم جتنے بھی ملازم رکھیں گے ان کی تنخواہ تم دو گے۔‘‘
’’میں سوچ کر بتاؤں گا۔‘‘
’’اچھی طرح سوچ لو۔ ہم اس بارے میں تفصیل سے بات کریں گے۔ یہ تمہارے لیے ایک بہترین موقع ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ اٹھا کر چل دیئے۔
٭…٭…٭
وہ اتوار کا دن تھا۔ موسم بدل رہا تھا۔ مجھے ہلکا سا بخار محسوس ہو رہا تھا۔ ناشتہ کر کے دوا لی اور سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو دس بج رہے تھے۔ بستر سے نکل کر سیدھا باورچی خانے کی طرف گیا۔
’’اماں بیدہ جلدی سے آٹا گوندھ دیں تاکہ وقت پر روٹی بن جائے۔‘‘ کچن سے آتی احمر کی آواز نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا۔ اماں بیدہ دیر سے آتی تھیں جبکہ ابھی دس بجے تھے۔
دروازے سے جھانکا تو احمر میرا ایپرن باندھے چولہے کے پاس کھڑا تھا۔ ایپرن اتنا لمبا تھا کہ اس کے پاؤں میں جھول رہا تھا۔
’’احمر چلو جلدی سے ٹماٹر دھو کر کاٹو۔‘‘ میری نقل اتارتے وہ دیگچی میں کف گیر ہلاتا سامنے بیٹھی بلی سے مخاطب تھا۔
’’جی حمزہ بھائی کاٹتا ہوں۔‘‘ پھر اپنی آواز میں جواب دیا۔
’’ٹماٹر کاٹنے کے بعد مٹر نکالو، میں تب تک مصالحے بھونتا ہوں۔‘‘ جو میں کہتا تھا، اسی کی نقل کر رہا تھا۔ میں ہنسی دباتا واپس کمرے میں آ گیا اور احمر کو آواز لگائی۔
’’جی حمزہ بھائی۔‘‘ وہ بھاگا بھاگا آیا۔
’’بیٹھو۔‘‘ میں نے اسے اپنے سامنے بٹھایا۔
’’پڑھائی ٹھیک جا رہی ہے؟ کوئی مسئلہ تو نہیں یہاں رہنے میں؟‘‘ اسے آئے چند ماہ ہوئے تھے۔
’’نہیں حمزہ بھائی مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور پڑھائی بھی اچھی چل رہی ہے۔‘‘ وہ معصوم لہجے میں بولا۔
’’چلو میں چکر لگاؤں گا تمہارے اسکول کبھی۔ یہ بتاؤ ابھی کچن میں میری نقل کیوں اتار رہے تھے؟‘‘ میں نے پیار سے پوچھا تاکہ اسے یہ نہ لگے میں غصے سے پوچھ رہا ہوں۔
’’کچھ نہیں، بس ایسے ہی۔‘‘ چوری پکڑے جانے پر وہ شرما گیا۔
’’میں غصہ نہیں ہوں، نہ مجھے برا لگا ہے۔‘‘ میں نے اس کے بال انگلیوں سے بکھیر دیئے۔
’’ہمارے اسکول میں اس ہفتے کریکٹر ڈے منایا جائے گا۔ ہمیں اس دن ایک کردار لینا ہے اور بالکل اس جیسا نظر آنا ہے۔ سر نے کہا تھا وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے جو ہمارا آئیڈیل ہو۔‘‘ اس نے بتایا۔
’’واہ مجھے خوشی ہے کہ میں تمہارا آئیڈیل ہوں مگر اس دن تم کسی ایسی شخصیت کی طرح نظر آؤ جسے سب جانتے ہوں۔ جیسے قائداعظم یا علامہ اقبال۔ سائنس میں تم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرح بن سکتے ہو یا پھر راشد منہاس شہید، کوئی شاعر یا کوئی ادیب۔‘‘ میں نے اسے پیار سے سمجھایا۔
’’لیکن میں بڑا ہو کر شیف ہی بنوں گا۔‘‘ وہ میری بات غور سے سن کر کچھ دیر چپ رہ کر بولا۔
’’ہاہاشیف ہی کیوں؟ ڈاکٹر کیوں نہیں یا پھر کچھ اور؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کیا شیف بننا برا ہے؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
’’نہیں، بالکل بھی نہیں لیکن باقی بچوں کی خواہشیں اور طرح کی ہوتی ہیں نا۔ پہلے تم کیا بننا چاہتے تھے؟‘‘
’’میں نے اس بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا۔ چاچی مجھ سے کام کرواتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں تمہارے امی ابو نہیں ہیں تو تمہیں محنت مزدوری کرنی ہو گی۔ چار جماعتیں پڑھو اور پھر کوئی کام کرنا۔ جب میں یہاں آیا تو میرے سر نے بھی سب سے پوچھا کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا مجھے شیف بننا ہے کیوں کہ شیف اچھے ہوتے ہیں۔‘‘ اس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ اب بھلا میں اس سے کیوں پوچھتا وہ شیف کیوں بننا چاہتا تھا؟
٭…٭
Behtreen tehreeer