ناولٹ

ارومیٹک ڈائین : احتشام شامی

’’تمہیں کتنی بار کہا ہے جب لوگ کھانا کھا رہے ہوں تو اندر جا کر مت مانگا کرو۔‘‘ ہوٹل کا ملازم ایک عورت کو سنا رہا تھا۔
شروع میں آرڈر کم آتے تھے تو روٹی خود بناتا تھا لیکن کام بڑھنے پر میں نے روٹی ہوٹل سے لینا شروع کر دی تھی۔ ابھی میرے پاس ملازم رکھنے کی گنجائش نہیں تھی اور روٹی بنانے میں وقت زیادہ لگتا تھا۔
’’بیٹا میں مجبور عورت ہوں، شوق سے نہیں مانگتی۔ تھوڑا کھانا ہی دے دیا کرو۔‘‘ آواز ندامت سے چور تھی۔ اس نے اپنا چہرہ چھپایا ہوا تھا۔
’’جاؤ ماں جی ہم نے کوئی لنگر خانہ نہیں کھول رکھا فقیروں کے لیے۔‘‘ ملازم نے جھڑک دیا۔ وہ عورت مڑ گئی۔
میں روٹیوں کے پیسے دے کر جلدی سے باہر نکلا۔ وہ عورت سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی۔
’’بات سنیں۔‘‘ میری پکار پر اس نے پلٹ کر دیکھا۔
’’میں یہاں قریب ہی رہتا ہوں اور آپ کو کھانا دے سکتا ہوں۔‘‘
’’شکریہ بیٹا، یہ میرا روز کا معمول ہے ادھر ادھر سے مانگنا۔ آج بھی مل جائے گا کہیں سے۔ آپ تکلیف نہ کرو۔‘‘ وہ جانے لگی۔
’’میں آپ کو روز دیا کروں گا۔‘‘ میری بات پر وہ رکی تھی۔
’’آپ یہیں ٹھہریں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔‘‘ میں جلدی سے ایک ڈبے میں کھانا ڈال کر لایا۔ عورت وہیں بیٹھی تھی۔ کھانا ملنے پر مجھے دعائیں دینے لگی۔
’’کل اسی وقت آ جائیے گا۔ میں انتظار کروں گا۔‘‘ میں کھانا پہنچانے نکل گیا۔
چند دن بعد میں نے انہیں اپنے متعلق بتانے کا بولا۔ وہ پہلے تھوڑا جھجکیں، پھر بتانا شروع کیا۔
’’ہم دو بہن بھائی تھے، میں بڑی تھی اور بھائی چھوٹا… میرے ابو نشہ کرتے تھے۔ مجھے نہیں پتہ ان کو نشہ کرنے کی لت کب لگی لیکن ہم نے جب سے ہوش سنبھالا، انہیں نشہ کرتے دیکھا۔ اماں گھروں میں کام کرتی تھیں تب ہم لوگوں کا گزارا ہوتا تھا۔ میرے منہ پر بچپن سے چیچک کے داغ ہیں۔ اماں مجھے اگر ساتھ لے جاتیں تو مالکن منع کرتیں کہ بیٹی کو نہ لایا کرو، بچے ڈر جاتے ہیں۔ وقت بدلتا رہا… ہم جوان ہو گئے لیکن نہیں بدلا تو میرا چہرہ نہیں بدلا۔ بھائی بھی کام کرنے لگا تھا۔ میں گھر میں اکیلی ہوتی تھی۔ مجھے باہر نکلنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے، مجھ پر ہنستے اور فقرے کستے تھے۔‘‘ وہ سانس لینے کو رکیں۔ آج میں نے پہلی بار ان کا چہرہ دیکھا تھا۔ ان کی عمر لگ بھگ پچاس سال تھی۔
’’بھائی کی شادی ہو گئی مگر میری نہ ہو سکی… اماں کوشش کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں لیکن مجھے بھلا کس نے اپنانا تھا۔ بھابھی کو میں بوجھ لگتی اور باپ نہ ہونے برابر تھا۔ بھائی کے بچے بھی مجھ سے دور رہتے کیوں کہ ماں سکھاتی یہ ڈائن ہے۔ میں پینتیس سال کی تھی جب میرے لیے ایک عمر رسیدہ آدمی کا رشتہ آیا جس کی ایک ہی بیٹی تھی۔ اسے بیوی کم ملازمہ کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس نے کبھی مجھے بیوی سمجھا نہ اس کی بیٹی نے ماں۔ وہ ایک بد کردار لڑکی تھی۔ لڑکوں سے دوستی اس کے لیے عام سی بات تھی۔ باپ کو کچھ خبر نہ تھی۔ میرے ایک دو دفعہ سمجھانے پر بھی وہ نہ مانی، گھر سے نکلوانے کی دھمکی دے کر مجھے چپ کروا دیا۔ لیکن قسمت بھی عجیب ہے جس گھر سے وہ مجھے نکلوانا چاہتی تھی، میں اسی کی مالکن بن گئی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ میں نے بے اختیار پوچھا۔
’’باپ نے اس کی شادی کر دی مگر وہ چند ماہ بعد ہی پیٹ میں بچہ لیے گھر آ بیٹھی۔ اس صدمے نے اس کے باپ کی جان لے لی۔ وہ سارا دن بستر پر پڑی رہتی اور مجھے اس کی دیکھ بھال کرنا پڑتی۔ اس کی بیٹی پیدا ہوئی تو اسے میرے حوالے کر کے چل بسی۔ گھر ایک کمرے کا تھا لیکن اپنا تھا جو شوہر کے مرنے کے بعد میرے نام ہو گیا۔ اس کی بیٹی کو میں نے اپنی بیٹی مان لیا۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرائیں۔ میں نے محسوس کیا ان کے چہرے پر ممتا کے سارے رنگ تھے۔
’’اب میری بیٹی دس سال کی ہے۔ وہ مجھ سے نہیں ڈرتی۔ میں اس کی ماں ہوں نا۔ مجھے اس کی پرورش کرنی ہے۔ اسے اچھی تعلیم دلوانی ہے لیکن بچپن کی طرح اب بھی مجھے کوئی کام پر رکھنے کو تیار نہیں، کیوں کہ بڑے لوگوں کے بچے ڈر جاتے ہیں۔‘‘
’’ایک دن میں اپنا ریسٹورنٹ بناؤں گا اور آپ کو کام دوں گا۔ وہاں آپ سے کوئی نہیں ڈرے گا۔ یہ آپ اور آپ کی بیٹی کے لیے کافی ہو گا۔ مجھے فی الحال بس ایک چیز چاہیئے اور وہ ہے آپ کی دعا۔‘‘ میں نے ان سے کہا تھا۔ انہوں نے فوراً اپنی چادر کا پلو پھیلا کر آسمان کی جانب دیکھا۔ میں نے محسوس کیا، ان کی آنکھیں نم تھیں۔
٭…٭…٭
چھ ماہ گزر گئے۔ کوکنگ کی کلاسیں ختم ہو چکی تھیں۔ میرا کام آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا۔ میں نے فوڈ پانڈا پر اکاؤنٹ بنا لیا۔ ادھر سے رائیڈر کھانا لینے آتا تھا۔
میں عید کی چھٹیوں میں گھر گیا۔
جب ہم چھوٹے تھے تو امی میٹھے میں چند مخصوص چیزیں بناتی تھیں۔ حلوہ، میٹھی سویاں اور زردہ…
’’امی ہم اور کچھ کیوں نہیں بناتے؟‘‘ میں شکوہ کرتا۔
’’کیوں کہ مجھے یہی بنانا آتا ہے۔‘‘ وہ سوجی بھونتے ہوئے کہتیں۔
’’ٹی وی پر اتنی مزے کی چیزیں سکھاتے ہیں۔ آپ بھی وہاں سے سیکھ کر کچھ بنایا کریں نا۔‘‘ میرے ذہن میں مختلف چیزیں گھوم گئیں جو میں اکثر ٹی وی پر دیکھتا یا رسالوں میں پڑھتا تھا۔ کسٹرڈ، فیرنی، رس ملائی، شاہی ٹکڑے، شیر خورمہ، لبِ شریں اور بھی بہت کچھ۔ اب میں خود بہت کچھ بنا لیتا تھا۔ میں نے دو تین ڈشیں بنا کر محلے میں بھیجیں حالاں کہ اب میٹھا بنا کر دوسرے گھروں میں بھیجنے کا رواج نہیں رہا تھا۔
’’ماسٹر صاحب آپ جانتے ہیں احمر میرے بھائی کی اکلوتی اولاد ہے۔ ایک حادثے میں بھائی اور بھابھی احمر کو چھوڑ کے اس دنیا سے چلے گئے۔ اب وہ بارہ سال کا ہو چکا ہے۔ میرے اپنے تین بچے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں ایک اضافی فرد پالنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ میرا تو سگا بھتیجا ہے لیکن اس کی چاچی کو اس سے بہت مسئلے ہیں۔ اکثر وہ اس معصوم کو روئی کی طرح دھنک دیتی ہے۔ اپنی اولاد کو وہ اچھا کھانے پہننے کو دیتی ہے لیکن احمر۔‘‘ میں بیٹھک میں داخل ہوا۔ گاؤں کا ایک آدمی ابا جی سے باتیں کر رہا تھا۔ میں سلام کر کے ایک طرف بیٹھ گیا۔
’’یتیم بچہ ہے جی، مجھے اللہ سے ڈر لگتا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں اسے کسی کام پر لگوا دوں۔ اس لیے آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں۔‘‘
’’میں سوچ کر بتاؤں گا۔ تم پریشان مت ہو۔‘‘ ابا جی نے انہیں حوصلہ دیا۔
’’میں اسے اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں۔‘‘ میں نے اپنے ذہن میں آیا خیال ظاہر کیا۔
دونوں نے حیرت سے مجھے دیکھا۔
’’مجھے اپنے کام کے لیے ایک لڑکے کی ضرورت ہے۔ دن کو اسکول بھی جا سکتا ہے۔‘‘ میں آج کل ملازم رکھنے کا سوچ رہا تھا۔
’’کون سا کام؟‘‘ ظفر چاچا نے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’میں اپنا ہوٹل چلا رہا ہوں۔‘‘ میں نے فخر سے بتایا۔
’’ٹھیک ہے ظفر تم جاؤ میں تمہیں بعد میں بلوا لوں گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ابا جی نے اسے تسلی دی۔ وہ سلام کرتا باہر نکل گیا۔
’’میں نے ابھی کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ تم پڑھائی چھوڑ کے کام کرنے لگ گئے ہو۔‘‘ انہوں نے شاکی نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
’’ابا جی، ایک نہ ایک دن سب کو پتہ چلنا ہی تھا۔‘‘ میں نے نظریں جھکا کر کہا۔ وہ مزید کچھ نہ بولے۔
عید کے چوتھے دن میں نے راولپنڈی جانا تھا۔ ظفر چاچا اپنے بھتیجے کو لے کر آ گئے۔ احمر معصوم صورت بچہ تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں اداسی تھی اور ہاتھ میں بلی کا ایک بچہ بھی تھا۔
’’یہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘ میں نے بلی کے بچے کو سہلایا۔
’’یہ میری دوست ہے۔‘‘ اس نے جھٹ کہا۔
’’تمہارے جانے کے بعد تمہاری دوست اداس ہو جائے گی۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’جی نہیں، میری دوست میرے ساتھ جائے گی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ ہم دونوں صحن میں کھڑے تھے۔
’’لیکن میرے پاس صرف ایک کو رکھنے کی جگہ ہے۔‘‘ میں نے افسوس سے سر ہلایا۔
’’پھر اسے ساتھ لے جائیں۔ میرے بناء یہ اکیلی رہ جائے گی۔ فاروق اسے تنگ کرے گا اور چاچی اسے کھانے کو نہیں دے گی۔‘‘ اس نے بلی کے بچے کو میری جانب بڑھایا۔ مجھے اس پر ڈھیر سارا پیار آیا۔
’’یہ تو اور برا ہو گا۔ چلو ہم اسے بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔‘‘ میرے کہنے پر اس کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔
٭…٭…٭
واپس پہنچ کر میں نے مزید کچھ کام کیے۔
پہلے والے اپارٹمنٹ کا کچن اور ہال چھوٹا تھا، نیا اپارٹمنٹ لیا۔ اس میں بھی دو کمرے تھے لیکن کچن اور ہال بڑے تھے۔ اب خرچے کا وقت آ گیا تھا۔ چند کرسیاں اور میز لا کر ہال میں رکھے۔ میرے کھانے کی شہرت دور دور تک جانے لگی تھی۔ دوسرے ہوٹلوں پر چند مخصوص ڈشیں بنتی تھیں جبکہ میری کوشش ہوتی میں روز کچھ نیا بنایا کروں۔
احمر کو قریبی اسکول میں داخل کروایا۔ وہ دن کو پڑھنے جاتا تھا اور واپسی پر چھوٹے موٹے کاموں میں میری مدد کرواتا تھا۔ اماں بیدہ، جن کا اصل نام زبیدہ تھا، وہ بھی میری مدد کروانے آنے لگی تھیں۔ اب تین طرح سے میرا کام چلنے لگا تھا۔ کچھ جگہ میں پارسل دینے جاتا، کچھ لوگ یہاں آ کر کھاتے اور فوڈ پانڈا…
وہ ایک عام سا دن تھا۔ احمر اسکول گیا ہوا تھا۔ اماں بیدہ کچن میں کام کر رہی تھیں۔ میں مینیو ترتیب دے کر فوڈ پانڈا پر لگا تھا۔ گھنٹی بجنے پر میں نے دروازہ کھولا اور سامنے قرۃ العین کو دیکھ کر گڑبڑا گیا۔
’’اندر آنے کا نہیں کہو گے؟‘‘ اس سے پہلے میں کچھ کہتا، وہ اندر داخل ہو گئی۔
’’تم یہاں؟ خیریت ہے نا۔‘‘ میں نے دروازہ بند کر کے آیا۔
’’صرف ایک سوال کرنا تھا۔‘‘ وہ بغور مجھے دیکھ رہی تھی۔
’’مجھے نظر انداز کیوں کر رہے ہو؟‘‘ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس نے پوچھا۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں، میں مصروف تھا۔‘‘ نظریں چرا کر میں نے اسے بیٹھنے کا بولا۔
’’میں بہت مصروف ہوتا ہوں، سانس لینے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ بلا…بلا۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھتے ہی شروع ہو گئی۔
’’یہ تو سچ کہا تم نے۔‘‘ میں نے قہقہہ لگا کر بات ہوا میں اڑانا چاہی۔
’’اگر کوئی بات کرنا چاہے نا امیر حمزہ تو وقت نکال ہی لیتا ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
کچھ پل ہم دونوں خاموش ہو گئے۔
’’چائے بناؤں تمہارے لیے یا کچھ اور؟‘‘ میں نے خاموشی توڑی۔
’’ہاں کچھ اور’’جواب‘‘ چاہئے۔ کیا یہ اُس دن کے بارے میں تھا۔‘‘ اس نے چائے کی پیش کش نظر انداز کر دی۔
’’کون سا جواب؟ کس دن کے بارے میں؟ تم کیا کہنا چاہ رہی ہو؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’جب تم ہمارے گھر آئے تھے۔ جب ماما پاپا بات کر رہے تھے، میں نے تمہاری آہٹ محسوس کی تھی حمزہ… تم نے ہماری باتیں سنیں اور واپس پلٹ گئے۔ ہے نا؟‘‘
’’اگر میں نے سن بھی لیں تو کوئی غلط بات نہیں کی تھی انکل آنٹی نے۔ لیکن میں تمہیں نظر انداز نہیں کر رہا تھا، میرا یقین کرو عین۔ تم مجھ سے بہتر ڈیزرو کرتی ہو۔ مجھے نہیں پتہ میں ’’اُس‘‘ مقام تک کب پہنچوں گا جب تمہارے پاپا کے معیار پر پورا اتر سکوں۔ ہو سکتا ہے مجھے بیس سال لگیں یا تیس یا پھر ساری زندگی۔‘‘ جب اسے پتہ چل گیا تھا تو صاف بات کرنا مناسب تھا۔ وہ چپ چاپ مجھے دیکھتی رہی۔
’’اور ہم میں کوئی عشق تو تھا نہیں کہ جوگ لے کر بیٹھ جائیں۔‘‘ آخر میں نے قہقہہ لگا کر اپنی اداسی دور کرنا چاہی۔
وہ یک دم اٹھ کھڑی ہوئی۔ اپنا بیگ کندھے پر لٹکایا اور قدم دروازے کی جانب بڑھائے۔
’’عین، ایسے کیوں جا رہی ہو؟ سنو تو … رکو۔‘‘ میں اس کے پیچھے گیا۔
’’بہت شکریہ امیر حمزہ۔‘‘ اس نے مڑے بنا کہا اور دروازہ کھول کر سڑھیاں اترتی چلی گئی۔
’’عین…‘‘ ایک آخری آواز لگا کر میں کافی دیر وہیں کھڑا رہا۔ افف یہ لڑکیاں…
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے