ارومیٹک ڈائین : احتشام شامی

پڑھائی میں میری دلچسپی شروع سے نہ ہونے کے برابر تھی۔ سیمسٹر کا نتیجہ کافی برا آیا تھا۔ ابا جی نے وجہ پوچھی تو میں نے صاف کہہ دیا۔
’’ابا جی مجھے پڑھائی نہیں کرنی۔‘‘ میری بات پر وہ چونکے۔
’’پھر کیا کرنا ہے؟‘‘
’’مجھے کسی ادارے سے کھانا بنانا سیکھنے کے بعد اپنا ریسٹورنٹ کھولنا ہے۔‘‘ میں نے جوش سے انہیں اپنا پروگرام بتایا تھا۔ اس کے بعد جو میری بے عزتی ہوئی، بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ کرتے کرتے ایک سیمسٹر مزید گزر گیا۔ سائنس کی باتیں اور ریاضی کے فارمولے میری سمجھ سے بالاتر تھے۔ میرے دوست ہاسٹل میں مجھ سے کچھ نہ کچھ پکواتے اور میں تعریف بٹور کے خوش ہوتا۔ اس سیمسٹر کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح برا تھا۔ اس بار ابا جی نے برا بھلا کہنے کے بجائے مجھے چیک تھما دیا تھا۔
یہ کروڑوں روپے نہیں تھے کہ میں ایک بڑا سا ریسٹورنٹ کھول کر بیٹھ جاتا۔ یہ محض چند لاکھ تھے۔ مجھے اسی معمولی رقم سے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔ اس میں مجھے سب دوستوں کی مدد درکار تھی۔ میں انہیں پیزہ کھلانے لے گیا اور اپنا پروگرام ان کے سامنے رکھا۔
’’لیکن تم یونی کے ساتھ ساتھ بھی یہ کام کر سکتے ہو۔‘‘ سدرہ نے بولا۔
’’جب وہ کہہ رہا ہے اس سے نہیں پڑھا جاتا تو پیسہ کیوں ضائع کرنا۔‘‘ فراز نے بگڑ کے کہا۔
’’پڑھا تو تم سے بھی نہیں جاتا۔ حمزہ اسے بھی اپنے ساتھ ملازم رکھ لینا۔‘‘ سدرہ نے ناگواری سے جواب دیا تھا۔ ان دونوں کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔
’’تم دونوں اپنی چونچ لڑانا بند کرو۔‘‘ شبلی نے انہیں ڈانٹا۔
’’گائز، مجھے سمجھاؤ میں ان پیسوں سے کیسے شروعات کروں؟ کیا میں کوکنگ کورس کر کے ملازمت ڈھونڈوں یا کچھ اور سوچوں؟‘‘ میں نے اپنا مدعا ان کے سامنے رکھا۔
’’فوڈ پانڈا پر کام شروع کردو۔‘‘ قرۃ العین نے مشورہ دیا۔
’’میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے۔‘‘ طلحہ نے سب کو متوجہ کیا۔
’’تم کوکنگ کلاسز لو۔ پاکستانی کھانے تمہیں بنانے آتے ہی ہیں۔ اب غیر ملکی کھانے بنانا سیکھو۔ ساتھ ایک چھوٹا سا سیٹ اپ بناؤ۔ ہاسٹل کے اکثر لڑکے لڑکیاں باہر سے کھانا کھاتے ہیں جو مزے کا بھی نہیں ہوتا۔ جب کہ تمہارے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔ کوئی بھی تمہارے کھانے کا دیوانہ ہو سکتا ہے۔ دوپہر کو جو لوگ یونی، کالج یا جاب پر ہوتے ہیں، تم انہیں کھانا پہ پہنچاؤ۔ آہستہ آہستہ تم اس کام کو بڑے پیمانے پر پھیلا سکتے ہو۔‘‘ طلحہ نے تفصیل بتائی اور سب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
اگلا مرحلہ اس پر عمل کرنے کا تھا۔
فراز اور طلحہ نے ایک اپارٹمنٹ تلاش کیا جس میں دو کمرے اور باورچی خانہ تھا۔
جامعہ کا ایک اور لڑکا ہمارے ساتھ آ گیا۔ یوں ہمیں اپارٹمنٹ اتنے میں پڑا، جتنے میں ہاسٹل میں کمرہ ملتا تھا۔ پھر پمفلٹ بنوائے، ضرورت کے مطابق برتن اور مصالحے خریدے۔ بالاخر میرا کچن آباد ہو گیا تھا۔
پہلے دن پلاؤ اور قورمہ بنایا، ساتھ ایک سبزی…
فراز اور طلحہ نے ہاسٹل کے دوستوں کو دعوت دی۔ اگلا سیمسٹر شروع ہو چکا تھا۔ جامعہ سے بھی کچھ لڑکوں کو بلایا۔ اس رات کھانا میری طرف سے مفت تھا جس کی سب نے تعریف کی۔
’’گائز، آپ سب لوگ یہاں آئے، آپ کا بہت شکریہ۔ کھانا بنانا میرا شوق ہے۔ میرے ہاتھ کا کھانا آپ نے چکھ لیا ہے۔ میں یہ کام مستقل بنیادوں پر شروع کرنا چاہتا ہوں۔ اس میں مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ باہر سے کھانا کھاتے ہی ہیں، اس کے بجائے مجھ سے بنوا لیا کریں۔ آپ کے جو دوست باہر سے کھاتے ہیں، انہیں بھی میرے بارے میں بتائیں۔‘‘
میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ کچھ نے فوراََ ہامی بھر لی، کچھ نے دوستوں سے مشورے کا بولا۔ میں نے پمفلٹ تقسیم کیے، جن میں روز کا مینیو اور باقی تفصیل درج تھی اور ان سے دوستوں میں بانٹنے کی درخواست کی۔
’’امی، آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔‘‘ میں نے گھر سے آتے ہوئے کہا تھا۔
’’میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔‘‘ انہوں نے شفقت سے مجھے دیکھا۔
’’مجھے آج بھی یاد ہے جب تم نے پہلی مرتبہ چاول بنائے تھے۔‘‘ وہ پرانا وقت یاد کرکے مسکرائی تھیں۔
’’میں نے آپ سے جو سیکھا ہے، میرے بہت کام آئے گا ان شاءاللہ۔‘‘
مینیو میں دو کھانے ہوتے تھے، میں کھانا بنا کر ڈسپوزیبل ڈبوں میں پیک کر دیتا تھا۔ جس کا جو دل چاہتا، منگوا لیتا۔ چند لڑکوں سے آغاز ہوا تھا لیکن مجھے امید تھی میں کامیاب ہو جاؤں گا۔
٭…٭…٭
’’پھپھو تمہیں یاد کر رہی ہیں۔ کہہ رہی ہیں کسی دن چکر لگا لو۔‘‘ ایک دن قرۃ العین نے پیغام دیا تھا۔
میری کوکنگ کی کلاسیں شروع ہو چکی تھیں۔ میں ابھی کلاس لے کر ہی نکلا تھا۔
’’انہیں میرا سلام دینا۔ کسی دن آؤں گا۔‘‘ میں نے بائیک اسٹارٹ کرتے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’وہ تمہارے ہاتھ کے ذائقے کو بھی یاد کر رہی ہیں۔‘‘ اپارٹمنٹ پہنچ کر موبائل دیکھا تھا۔ قرۃ العین کا اگلا پیغام پڑھ کے مسکرا دیا۔
’’چلو کوشش کروں گا کچھ بنا کے لے آؤں۔‘‘ میں نے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جواب دیا۔
’’میں بھی یاد کر رہی ہوں۔‘‘ اگلا پیغام پڑھ کر میں ایک پل کو رکا تھا۔ اس کا مجھ میں دلچسپی لینا محسوس ہوتا تھا، لیکن اقرار…
’’تمہارے کھانوں کو۔‘‘ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد اس کا اگلا پیغام چمکا… میں سر جھٹک کر مسکرا دیا۔
اتوار کو میں نے ان کے گھر جانے کا پروگرام بنایا۔ قرۃ العین کے ممی اور پاپا بھی گھر پر تھے۔ ان سے سلام دعا ہونے کے بعد قرۃ العین مجھے پھپھو کے کمرے میں لے گئی۔ پھپھو مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ہاتھ میں پکڑی کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر خوش دلی سے میرا استقبال کیا۔
’’میں قرۃ العین سے روز کہتی تھی حمزہ اتنا بے وفا نکلا کہ مڑ کر دیکھا بھی نہیں۔‘‘ میں شرمندہ ہوا۔
’’ایسی بات نہیں پھپھو۔ میں آپ کو بھولا نہیں تھا لیکن پچھلے دنوں کافی مصروفیت رہی۔‘‘ میں نے وضاحت دی تھی۔
’’ہاں قرۃ العین بتاتی رہتی ہے مجھے۔ تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کامیابی تمہارے قدم چومے گی۔‘‘
’’قرۃ العین، بھائی کے لیے چائے بنواؤ۔‘‘ انہوں نے بھتیجی کو مخاطب کیا تو اس نے گڑبڑا کر مجھے دیکھا تھا۔ میں نے اپنی ہنسی روک لی۔
’’جی پھپھو۔‘‘ وہ کمرے سے چلی گئی۔
میں نے پھپھو کو بغور دیکھا۔ وہ پینتیس کے لگ بھگ تھیں۔
قرۃ العین نے بتایا تھا وہ ماسٹرز کے پہلے سال میں تھیں جب اچانک ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس حادثے میں انہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں کھو دی تھیں۔ انہوں نے دوبارہ پڑھائی کا سلسلہ نہیں جوڑا۔ ان کا کہیں آنا جانا بھی بہت کم تھا۔ ایک ملازمہ ان کی دیکھ بھول کے لیے موجود تھی۔
’’ایک بات پوچھوں آپ سے۔‘‘ میں نے خاموشی توڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے سر ہلا کر اجازت دی۔
’’آپ باہر بہت کم آتی جاتی ہیں۔ آپ کا دل نہیں چاہتا کہیں جانے یا گھومنے کو۔‘‘ میں نے ایک کونے میں ان کی وہیل چیئر دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔
’’دل تو چاہتا ہے لیکن ایک خوف ہے جو جاتا ہی نہیں ہے۔‘‘ انہوں کچھ دیر بعد جیسے مجھ سے شیئر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
’’کیسا خوف ہے؟‘‘ میں صوفے سے اٹھ کر ان کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔
’’تم نہیں سمجھو گے۔ تم نے ابھی کچھ بھی نہیں سہا۔‘‘ یہ جملہ نہیں، نشتر تھا جو دل کے آر پار ہو گیا تھا۔ میں نے تڑپ کر انہیں دیکھا۔
’’آپ کیا جانتی ہیں میرے بارے میں؟‘‘
’’عمر گزاری ہے میں نے۔ یہ وہیل چیئر…‘‘ انہوں نے طنز سے کونے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’یہ معذور وجود، میرا انتخاب ہرگز نہیں تھا۔ جو چیز میں نے اپنے لیے چنی ہی نہیں، اس پر مجھے بہت کچھ سننا پڑا۔ کبھی لفظوں کے بھالے سہے ہیں؟ بھلا تمہیں کیا پتہ ترس کی نگاہ کیا ہوتی ہے۔ خواہشات میری بھی تھیں۔ میری عمر ہی کیا تھی جب یہ حادثہ ہوا۔ اس پر لوگوں کے عجیب رویے۔ جب تک امی ابو زندہ رہے، انہوں نے میرا علاج کروانے کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی۔ مجھے وہیل چیئر پر یونی بھیجنے کی کوشش کی لیکن… بے رحم معاشرہ میرے حوصلے پست کر دیتا تھا… یہ پورے لوگ مجھے ادھورا کر کے رکھ دیتے تھے۔ تب میں شدت سے سوچتی تھی کاش مرنا حرام نہ ہوتا۔ میں اپنا نیلی فر والا کمبل اوڑھ کر ہمیشہ کی نیند سو جاتی، میٹھی پرسکون نیند… مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ساری زندگی وہیل چیئر کے پہیوں کی آواز میری سماعتوں میں زہر گھولتی رہے گی۔ لوگ مجھ پر ترس اور ہمدردی بھرے فقرے اچھالتے رہیں گے۔ جب میں ہمیشہ کی نیند سوؤں گی نا، تب نیلے فر والا کمبل اوڑھنے کا موسم بھی نہیں رہے گا۔‘‘
وہ ملگجے اندھیرے میں تلخ سا مسکرائی تھیں۔
میں پتھر کا ہو گیا تھا۔
’’آپ غلط سوچ رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے چونک کر مجھے دیکھا۔
’’میں سب سمجھ سکتا ہوں۔ لوگوں کے رویے میں نے بھی سہے ہیں۔ آپ سمجھدار تھیں مگر میں چھوٹا سا بچہ تھا۔ مجھے اپنوں کے تضحیک میں ڈوبے تیر عجیب کشمکش میں مبتلا کر دیتے تھے۔ ہمارے گھر میں امی کے علاوہ ہم دو چھوٹے بچے تھے۔ وہ ہم سے گھر کا کام کرواتی تھیں، زیادہ تر مجھ سے۔‘‘ میں نم آنکھوں سے بچپن یاد کر کے مسکرایا۔
’’برتنوں کے کنارے چھوتے چھوتے، ان میں بسے ماں کے ہاتھ کے تمام ذائقے میری پوروں میں رچ گئے۔ برتن، چولہا اور آگ دیکھتے ہی میرے ہاتھوں کی انگلیاں لمبی ہونے لگتی تھیں اور بے ساختہ برتنوں کو چھونے کی خواہش بیدار ہونے لگتی۔ لوگ زہر میں بجھے تیر پھینکتے لیکن اس زہر نے مجھے نیلا نہیں کیا۔ زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے مگر اس کا تریاق ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ خود کو زہر کے حوالے نہیں کرنا چاہیئے۔ زندگی ضروری ہے، سانس آتا رہے تو ہر کام ہو جاتا ہے۔‘‘
وہ غور سے مجھے سن رہی تھیں۔
’’سب ہو جاتا ہے؟‘‘
’’جی سب کچھ… میں نے لوگوں کے ہر رویوں کے مقابل خود کو مضبوط کر لیا تھا۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ چولہا چوکا عورت ہی کر سکتی ہے؟ ایسے کیسے بھلا؟ یہ صرف عورت کا کام تھوڑی ہے۔ سب مجھے ادھورا کرنے پر تلے تھے، تبھی کچھ کر دکھانے کی ٹھان لی۔ آج خاندان کی عورتوں سے مقابلہ رکھوں تو گول روٹی میری ہی ہو گی۔‘‘ میں نے تفاخر سے کہا تھا۔
وہ ہنس دی تھیں۔
’’تم مجھ جیسی گول روٹی پھر بھی نہیں بنا پاؤ گے۔‘‘ انہوں نے مجھے کھلا چیلنج دیا۔ میں دھیرے سے ہنس دیا۔
’’آپ سے میں جان بوجھ کر ہار جاؤں گا۔ بس کسی کو بتائیے گا مت۔ ‘‘ گول روٹی کے تذکرے نے ماحول میں رچی اداسی کو یک دم جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔
’’اونہوں… مجھ سے کیوں ہارنا ہے؟ تم بھی مجھ پر ترس کھاؤ گے؟‘‘ انہوں نے مجھے شکایتی انداز میں اپنایا۔
’’بالکل نہیں، آپ مجھ سے بڑی ہیں اس لیے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو معذور ہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور آج بھی حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ آپ کو ڈاکٹر انعم کا بتاؤں؟ وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھیں جب ان کی پیٹھ پر گولی لگی تھی۔ ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگنے کی وجہ سے معذوری کا شکار ہو گئی تھیں۔ لیکن آج وہ ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیں۔ آپ فہمیدہ فرید خان کو دیکھیں۔ وہ پیدائشی معذور ہیں لیکن وہ ایک مصنفہ ہیں، پروف ریڈر ہیں، بلاگر ہیں اور سیاحتی بلاگنگ کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ویب سائٹ بھی بنا رکھی ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر بہت متحرک ہیں۔ ایک راجہ اویس بھی ہیں، انہوں نے بھی ماسٹرز کیا ہوا ہے اور سرکاری ملازم ہیں۔ ان سب کو میں سوشل میڈیا کے حوالے سے جانتا ہوں۔ آپ انہیں فالو کریں۔ آپ بہت کچھ سیکھیں گی۔‘‘
اتنے میں قرۃ العین چائے لے کر آ گئی۔
’’کیا باتیں چل رہی ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اور پھپھو کو چائے دی۔
’’میں حمزہ سے کہہ رہی تھی میری پھوہڑ بھتیجی کو بھی کچھ بنانا سکھا دو۔‘‘ انہوں نے شرارتاً کہا۔
قرۃ العین نے منہ بنا لیا۔
چائے ختم کرتے ہی میں نے دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے رخصت لی۔
گیٹ سے باہر نکلا تو موٹر بائیک پر لٹکا شاپنگ بیگ دیکھ کر سر پیٹ لیا۔ میں پھپھو کے لیے ایک کتاب لایا تھا۔ شاپر اتار کر واپس اندر گیا مگر لاؤنج میں داخل ہونے سے پہلے اپنا نام سن کر رک گیا۔
’’یہ لڑکا تمہاری پسند ہے۔‘‘ یہ قرۃ العین کی ماما کی آواز تھی۔
’’ماما میں نے بتایا نا وہ ایک اچھا لڑکا ہے۔‘‘ قرۃ العین کی آواز دھیمی تھی۔
’’ہم نے کب کہا برا ہے لیکن اس کا مستقبل کیا ہے؟ ایک باورچی؟ تم نے بتایا تھا تمہارا کلاس فیلو ہے۔ ہم نے سوچا تمہارے ساتھ پڑھتا ہے تو اچھی فیوچر پلاننگ ہو گی۔ اب تم بتا رہی ہو اس نے یونیورسٹی چھوڑ کے کوکنگ شروع کر دی ہے۔‘‘ قرۃ العین کے پاپا کی آواز میں غصہ تھا۔
’’کک ہمارے گھر میں بھی ہے۔ یہ بھی کسی گھر یا ہوٹل میں جاب کر لے گا۔ اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے؟‘‘ ماما کی آواز ناراضگی میں ڈوبی تھی۔
’’لیکن ماما۔‘‘
’’بس عین، ہم نے ہمیشہ تمہاری پسند کو فوقیت دی کہ تم ہماری اکلوتی اولاد ہو۔ تم نے میڈیکل میں جانے سے انکار کیا، ہم نے قبول کیا لیکن تمہاری شادی کسی للو پنجو سے نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ پاپا نے قرۃ العین کو جھڑک دیا تھا۔ مجھ میں مزید سننے کی ہمت نہیں تھی۔ میں خاموشی سے پلٹ گیا۔
٭…٭…٭
Behtreen tehreeer