سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 8

عزہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔ عزہ سے زیادہ ارمان نے اس کو حیرت سے دیکھا ۔ عزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا اور اس کے ساتھ آگے کی طرف چلی گئی ۔ دل ابھی بھی چوری پکڑے جانے کے ڈر سے زور زور کی دھڑک رہا تھا ۔ جب غازی نے دیکھا کہ وہ سب سے کی حد نگاہ سے دور ہو گئے تھے تو وہ تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے کی طرف لے آیا تھا کہ اگر کوئی دور سے دیکھتا تو ان کو ان دونوں کے درمیان کچھ اور ہی لگتا ۔ غازی نے اس کو ڈیپارٹمنٹ کی دیوار کے ساتھ لگا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑ دی۔
’’ زندگی میں پہلی بار میں نے اپنا غصہ کنٹرول کیا ہے اور اس کی وجہ وہ اندر بیٹھے ہوئے لوگ ہیں ۔ مجھے پر سکون دیکھ کر یہ مت سمجھنا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ ‘‘غازی کی آواز اس کو پتال سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔
عزہ کو بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کون سا کیمیکل ری ایکشن تھا جو غازی کے دماغ پر اثر کر رہا تھا ۔ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ سمندر کی موجیں دیکھ کر اس کی گہرائی کا اندازہ لگانا نا ممکن تھا۔ غازی نامی سمندر میں اترنا ان کے لیے ہی ممکن تھا جن کو وہ اجازت دیتا تھا۔
’’ کک…کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’ تم نے میٹھے میں کیا ملایا تھا؟‘‘غازی نے غصے سے گھور کر اس کو دیکھا ۔ عزہ کی تو ایک پل کے لیے گھگھی بند گئی تھی۔
’’ اس میں کچھ نہیں تھا۔‘‘اس نے ایک سانس میں جھوٹ بولا تھا۔
غازی نے آنکھیں چھوٹی کر کے اس کو بے یقینی سے دیکھا ۔ میٹھے میں کچھ تھا اور اس کو یقین تھا کہ جو بھی تھا وہ اس سامنے کھڑی لڑکی نے ہی ملایا تھا۔
غازی کے اندر ایک دماغ اور دل کی جنگ جاری تھی ۔ دماغ کا سروائیونگ سسٹم ایکٹیویٹ ہو کر اس کو فلائٹ یعنی کہ یہاں سے بھاگ جانے کا کہہ رہا تھا کیونکہ یہاں پر رہنا اس کو خطرے میں ڈال سکتا تھا ۔ وہ سامنے کھڑی لڑکی نے جو بھی اس میں ملایا تھا اس کا اثر اس کے دماغ پر ہو رہا تھا ۔ وہ اس کو اتنی بری نہیں لگ رہی تھی، اس کا غصّہ آہستہ آہستہ بیٹھتا جا رہا تھا۔
جبکہ دل غصے سے ابلا پڑا تھا اس کے اندر کا شیطان اس کو اکسا رہا تھا کہ لڑکی تھی تو کیا ہوا ؟ تھی تو اس کی دشمن ہی ناں ؟ گستاخ تو تھی جس نے اپنی حدود سے نکل کر غازی کی حدود میں آنے کی کوشش کی تھی ۔ اور حدود توڑنے والوں پر سزا لازم تھی۔
’’ بولا تھا ناں کہ جادوگرنی کچھ جادو ٹونے کا ملایا ہوا ہوگا ۔ ‘‘کوئی اس کے اندر بولا تھا۔
’’تم نے تعویذ ملایا ہے اس میں؟ مگر کیوں؟‘‘اس نے اپنے خیال کو الفاظ کا چولا پہنایا۔
غازی کی اگلے بات پر عزہ کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ اتنا صحیح اندازہ کیسے لگا لیا اس نے؟
عزہ نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا ۔ غازی نے غصے سے اس کو دیکھا، عزہ نے خوف کے مارے اپنی آنکھیں بھینچ لیں ۔ جب کچھ لمحوں کے بعد اس کی آنکھیں کھلی تو سامنے کا منظر بدلہ ہوا پایا ۔ غازی اس سے دور سامنے بشائر کے ساتھ کھڑا تھا جو اس سے وہاں آنے کا سبب پوچھا رہی تھی ۔ غازی نفی میں سر ہلا کر اس کو کچھ کہہ رہا تھا ۔ کچھ دیر پہلے کاغازی کا غصہ کہیں ہوا میں غائب ہو گیا تھا ۔ اب چہرے پر نرم سی مسکراہٹ تھی ۔ وہ دونوں وہاں سے پلٹ گئے تھے۔ بشائر نے غازی کے شیطانوں کو سدھا لیا تھا۔
جبکہ عزہ کہیں پس منظر میں چلی گئی تھی ۔ اس کو احساس ہی نہیں تھا کہ کئی بار ہم زبردستی دوسروں کی کہانی کا حصہ بننے کا چکر میں ایک پس منظر کا کردار بن جاتے ہیں۔
وہ پس منظر جس کو احساس ہی نہیں تھا کہ وہ اس کہانی کا حصہ نہیں تھی، اس کو اپنی کہانی بنانی تھی۔
مگر وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں زبردستی غازی کا نام لکھنے پر تلی تھی۔
کسی اور کی کہانی میں زبردستی اپنا نام لکھنے کے چکر میں وہ اپنی کہانی لکھنا بھول گئی تھی۔
٭…٭…٭
وہ ایک بار پھر سے ہار گئی تھی اور بشائر ایک بار پھر سے جیت گئی تھی۔
کچھ لوگوں پر تقدیر اتنی مہربان ہوتی ہیں کہ وہ کچھ نہ کر کے بھی ساری بازیاں اپنے حق میں کر لیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگوں سے ایسی ناراض کہ و ہ ساری محنت کر کے بھی ہار جاتے ہیں۔
عزہ بھی دوسرے قسم کے لوگوں میں سے تھی۔
چاندنی کو عزہ کی شکل دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ کیا ہو تھا ؟ اس پر کسی جادو نے اثر نہیں کیا تھا۔
’’ کیا تم اس کے سامنے نہیں تھی ۔ ‘‘چاندنی نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ میں سامنے ہی تھی، وہ مجھے الگ کونے میں لے گیا مگر پھر…‘‘اس نے آہستہ آہستہ اس کو سب بتا دیا۔
چاندنی سن کر چپ ہو گئی۔
’’ اب کیا کرنا ہے۔ ‘‘اس نے کچھ دیر بعد ایک آس سے پوچھا تھا۔
’’ اب کچھ نہیں کرنا صبر کرو ۔ ‘‘چاندنی نے مسکرا کر کہا۔
عزہ صبر کرنے کو تیار نہیں تھی۔
’’ میری زندگی میں بس یہی تو چاہیے مجھے…‘‘اس نے اپنے سر کو اپنے ہاتھوں میں گرا کر بے بس سے کہا۔
’’ زندگی کی ہر خواہش پوری نہیں ہوتی عزہ!‘‘چاندنی نے اس کے پاس آ کر اس کر کندھے پر ہاتھ رکھا۔
’’ ہر خواہش کہاں پوری ہوتی ہے؟ کیا ہے میرے پاس؟ اب صرف ایک غازی پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی ۔ ‘‘اس سے زیادہ یہ اس کی ضد بول رہی تھی۔
چاندنی نے ٹھنڈی سانس بھر کر عزہ کو دیکھا ۔
’’میں نے بھی کسی سے محبت کی تھے ۔ ‘‘عزہ نے چاندنی کی طرف دیکھا، جو اب اس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ پھر یہ ہوا کہ اس کو بھی مجھ سے محبت ہو گئی ۔ شادی پر بھی راضی ہو گیا ۔ مجھے اپنے گھر والوں سے بھی ملوایا ۔‘‘
عزہ مسکرائی تھی۔ کم از کم کسی کو تو اپنی محبت ملی تھی۔
’’پھر…‘‘
’’ پھر جب اس کو معلوم ہوا کہ میں کہاں سے تعلق رکھتی ہوں ۔ میرے پاس میرے ماں باپ نہیں ہیں۔ جہیز میں دینے کے لیے کچھ ہے نہیں اور سب سے بڑھ کر میرا تعلق اس معاشرے کے اعلیٰ خاندان سے نہیں تو اس نے مجھے میری محبت کی اوقات دکھا دی ۔‘‘اس بات پر وہ کھل کر ہنسنے لگ گئی اور عزہ منہ کھول کر اس کو دیکھ کر رہ گئی۔
’’ پھر آپ نے کچھ کیا نہیں؟‘‘عزہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’کیا ناں!‘‘
’’ کیا؟‘‘
’’میں اوقات میں آ گئی ۔ عزہ تم خوش نصیب ہو کہ کم از کم باہر کی دنیا میں تمہیں ایک باپ کا نام تو ملا ہیں ناں؟ ماں کا کون پوچھتا ہے ۔ تمہاری بہن نے بھی کسی کو نہیں بتایا کہ تم اس کی سوتیلی بہن ہو، سگی نہیں ۔ پھر تم جوان ہو، خوبصورت ہو ۔ اور تو اور شہر کی ٹاپ کی یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے اور ابھی بھی کہہ رہی ہو کہ تمہارے پاس ہے ہی کیا ؟ تمہاری بہن جیسی بھی صحیح، دنیا اور خاندان والوں کے ڈر سے ہی سہی، تمہارے لیے کچھ عرصے میں اچھے خاندان کا اچھا لڑکا بھی دیکھ لے گی ۔ اس لیے واپس لوٹ جاؤ اور جس شخص کو خدا نے تمہارے نصیب میں نہیں لکھا اس کے لیے اپنا راستہ کھوٹا مت کرو ۔ ‘‘ چاندنی کا لہجہ نرم اور اس میں مخلصی بولتی تھی۔
عزہ نے چاندنی کو بے یقینی سے پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھا۔
’’ تمہارے لیے کہنا آسان ہے۔ میرے لیے نہیں… تم میری محبت کی انتہا نہیں جانتی ۔ میں اس کو دیکھتی ہوں تو بس دل کرتا ہے کہ دیکھتی جاؤں ۔ اگر وہ نگاہ اٹھاکر دیکھ لے تو میں وہی بیٹھی رہوں ۔ اگر وہ اشارہ کر دے تو میرے لیے حکم کا درجہ بن جائے۔‘‘
چاندنی اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گئی اور اس کو کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کیا۔
’’یہ محبت نہیں ہے، یہ جنون ہے، یہ غلامی ہے۔‘‘
اس نے اس کے کندھوں سے اس کے ہاتھ جھٹکے کر کھڑی ہو گئی۔
’’غلامی ہے تو غلامی ہو صحیح۔‘‘
’’پھر رہو ایسے ہی۔‘‘
چاندنی بھی غصّہ ہو کر وہاں سے چلی گئی تھی۔
ایک بار پھر سے عزہ اکیلی ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭
پھر کتنے دن ایسے ہی گزر گئے۔ بلکہ دن کیا، مہینے گزر تھے۔
وہ یونیورسٹی کی ٹاپ کرنے والی سٹوڈنٹ ایک مقامی اسکول میں چند ہزار میں نوکری لگ گئی تھی ۔ چاندنی بات بات پر اس کو یاد دلاتی رہی کہ اس کو اپنی ڈگری کو استعمال کرنا چاہئے۔
مگر وہ صرف اپنی ہار کو منانا چاہتی تھی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ایک نیند کی کیفیت میں تھی ۔ اس دوران اس کو روشنی کا بھی کبھی کبھار فون آتا تھا ۔ آج کل وہ امید سے تھی اور اپنے سسرال والوں سے نخرے اٹھوا رہی تھی ۔
اپنے آخری دنوں میں غیر متوقع طور پر عزہ کو روز ہی فون کرتی اور اپنے اور اس کے والد کی بات کرتی ۔ کبھی کبھار رو بھی دیتی اور کبھی کبھار اس کو اپنے پاس آنے کی دعوت بھی دے دیتی ۔ وہ ہوں، ہاں کر کے فون بند کر دیتی۔
ایک دن جب روشنی کا فون آیا تھا کہ اس کی ساس کو عزہ کے لیے ایک رشتہ ملا تھا ۔ اس نے سنتے ہی صاف انکار کر دیا تھا ۔
اپنے دل کے چکر میں اس نے اپنا کیرئیر شروع بھی نہیں کیا تھا ۔ خالی پانچ ہزار کی نوکری سے اس کا گزارہ تو نہیں ہوتا تھا ۔ ابھی تک روشنی ہی تھی جو اس کو پیسے بھیج رہی تھی اور وہ بے غیرتوں کی طرح لے بھی رہی تھی ۔ رہتی وہ بھلے ہی چاندنی کے گھر پر تھی مگر چاندنی کزن تھی اور روشنی جیسی بھی تھی بہن تھی ۔ یہ فرق اس کو جلد ہی سمجھ آ گیا تھا۔
نفرت کا ہی سہی مگر رشتے تو تھا ہی‘ دنیا کو بھی دکھانا ہی تھا ۔ سب سے بڑی خبر روشنی نے جو دی یہ تھی کہ کچھ دنوں میں وہ سب بشائر کی تاریخ رکھنے والے تھے ۔ اس کو جتنا معلوم تھا کہ وہ دونوں دو سالوں تک شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ تقریباََ ایک سال تو روشنی اور کاشان کی شادی کو ہونے والا تھا۔
روشنی نے اس کو بتایا تھا کہ لڑکے والے جلدی شادی کرنا چاہتے تھے اور دیر کرنے کا جواز بھی نہیں تھا کیونکہ دونوں ہی اپنے پیروں پر کھڑے تھے۔
اس نے کچھ کہہ سن کر فون بند کر دیا۔
اس رات سردی تھی مگر حبس بھی بہت زیادہ تھی ۔ وہ گھبرا کر باہر نکل کر صحن میں رکھی چارپائی پر لیٹ گئی تھی۔
اس بستی کا آسمان کبھی کبھار عزہ کو کراچی کا نہیں لگتا تھا یا پھر آدھی رات گزرنے کی وجہ سے روشنی کی آلودگی نے آسمان کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا ۔ اس لیے آسمان نیلا اور روشن تھا ۔ ایسے جیسے ستاروں نے کھل کر سانس لی تھی ۔ اس نے خالی خالی نظروں سے ان چمکتے ستاروں کو دیکھا جن کی روشنی مصنوئی روشنی میں ماند پڑجاتی تھی ۔ اس کو اپنا آپ ان ستاروں کی طرح لگا تھا جبکہ بشاور وہ مصنوئی روشنی تھی، جس کے سامنے نہ وہ کھل کر سانس لیے سکتی تھی اور نہ ہی چمک سکتی تھی۔
’’ کیا غازی اتنا ضروری ہے ؟ ‘‘دماغ نے سمجھایا کہ اب اس لا حاصل سفر پر مزید آگے نہ بڑھا جائے مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہیں تھا۔
یہ محبت نہ ہوتی تو زندگی کتنی پر سکون ہوتی ۔ وہ اس وقت کہیں انٹرن شپ کر رہی ہوتی ۔ اپنے کیریئر کی کہیں نہ کہیں شروعات کرتی ۔ ایک پرجوش زندگی کے لیے نئی اُمنگوں کے ساتھ آگے بڑھتی۔ شاید کسی اچھے انسان کا ہاتھ تھام کر آگے بھی بڑھ جاتی مگر وہ تو یہاں محبت کے جوگ میں زندگی کو بریک لگا کر بیٹھی تھی۔
کیا غازی سچ میں اتنا ضروری تھا کہ زندگی کا ایک سال اس نے اس کے فراق میں ضائع کر دیا تھا اور اگلا کرنے کو تیار تھی؟
مگر کم بخت دل کا جواب ہر بار ہاں میں آتا تھا ۔ ایک بار وہ نہ کر دیتا تو وہ دماغ کی مان کر اپنے زخم سی ہی لیتی مگر دل ہر مشکل کے لیے تیار تھا ۔ کسی اذیت پسند انسان کی طرح اس غم کو سینے سے کسی متاع کی طرح لگائے رکھنا چاہتا تھا۔
تھوڑی دیر گزری تھی کہ چاندنی اس کی اندر غیر موجودگی محسوس کر کے شال لپیٹ باہر آ گئی۔
’’ اتنی ٹھنڈ میں کیسے بغیر کمبل کے لیٹی ہوئی ہو؟‘‘
’’ بس کبھی کبھار دماغ اتنا سن ہو چکا ہوتا ہے کہ باہر کی ٹھنڈ جسم پر اثر ہی نہیں کرتی۔‘‘
’’ دراصل دماغ اس وقت سن ہوتا ہے جب…‘‘اس سے پہلے کہ چاندنی اپنی بات مکمل کرتی، عزہ نے ہاتھ اٹھا دیے۔
’’بس، ابھی مجھے تمہاری سائنس کی وضاحت نہیں سننی ۔‘‘ چاندنی کی باتیں اب پرانی ہو گئی تھی، ویسے دلچسپ نہیں لگتی تھی، جیسی شروع میں لگتی تھی۔
اس کی بات پر چاندنی ہنس دی ۔ جب عزہ نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور بدستور آسمان پر اپنی نگاہیں ٹکائے رکھی تو اس کی مسکراہٹ بھی سمٹ گئی۔
’’ کب تک ایسے رہو گی؟‘‘آخر کار چاندنی نے پوچھ ہی لیا۔
اوراس نے چاندنی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں اس کے لیے فکر مندی تھی ۔ شاید کہیں نہ کہیں وہ عزہ میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی ۔ عزہ کو اس پل اندازہ ہوا تھا کہ جس نے بھی چاندنی کا نام رکھا تھا صحیح ہی رکھا تھا۔
’’ صرف ایک چانس لوں گی۔ اتنی جلدی تو ہار نہیں میںمانوں گی میں ۔ ‘‘اس کا ارادہ پختہ تھا۔
’’ کیا کرو گی؟‘‘چاندنی کے لہجے میں ڈر بول رہا تھا۔
’’ تم بتا رہی تھی کہ یہ تمہاری سفید جادو کی شعبدہ بازی میں ایک ایسی بھی چیز ہے جو دماغ پر قبضہ کر لیتی ہی ۔‘‘
’’ ٹیلی پیتھی… وہ صرف ایک لیجنڈ ہے۔ اور اسے ویسے بھی تم نہیں کر سکتی ۔ اس کے لیے بہت زیادہ خاموش اور پر سکون دماغ چاہیے ہوتا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے۔ اور میرا نہیں خیال کہ ٹیلیپٹھی کسی کو آتی بھی ہوگی ۔ ‘‘
’’کیا ہے یہ ٹیلی پتھی ۔ میں نے تو سنا تھا کہ اس سے ایک انسان دوسرے انسان سے دماغ کے ذریعے باتیں کر سکتا ہے۔ پھر یہ کسی انسان کے دماغ پر قبضہ کیسے کر سکتی ہے؟‘‘
’’ وہ ایسے کہ کوئی ٹیلی پیتھیسٹ اپنی مرضی کا خیال اگلے انسان کے دماغ میں ڈال دے اور بار بار وہ خیال رپیٹ کرتا جائے تو جس کے دماغ میں یہ خیال ڈالا جائے گا وہ ٹیلی پتھیسٹ کا کہ ماننے پر مجبور ہو جائے گا ۔ خاص طور پر جب انسان کو معلوم بھی نہیں ہو کہ یہ خیال اس کا اپنا ہے یا کسی اور کا ڈالا ہوا۔ ‘‘
’’ یعنی یہ جادو ہو یا شعبدہ بازی سب دماغ کا کھیل ہے ۔ ‘‘عزہ نے پوچھا۔
چاندنی نے کندھے اچکا دیے۔
’’ کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’ پھر تو میرے سامنے ایک ہی آپشن بچا ہے ۔ ‘‘عزہ کی نِگاہیں دوبارہ آسمان پر ٹک گئی تھی۔
’’ وہ کیا؟‘‘چاندنی کو لگا تھا کہ وہ جو بھی جواب دے گی، صحیح نہیں ہوگا۔
‘‘ کالا جادو؟‘‘
’’ پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟ تم نے کبھی کالے جادوگروں کو دیکھا ہے ؟ اس جادو کی طاقت کے نشے میں وہ ایسے ایسے کام بھی کرتے ہیں جوایک عام انسان سوچ کر ہی کانپ جائے۔ دین تو پہلے ہی چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور دنیا کے بھی نہیں رہتے ۔ ان سب کے باوجود کالے جادو کرنے کے لیے بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں جیسے کہ تمہیں غازی کی کوئی ایسی چیز اس جادوگر کو دینی ہوگی جس میں اس کا ڈی این اے ہوگا، وہ کہاں سے لاؤ گی۔ اور ان سب کے باوجود تمہارے محبوب پر تک اثر نہیں کیا تو؟ تو پھر کیا کرو گی؟‘‘
اس بات پر عزہ پوری طرح چاندنی کی طرف مڑ گئی ۔ چاندنی کو اس رات کے اندھیرے میں اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک دیکھی تھی۔
’’ تم سے کس نے کہا میں غازی پر کالا جادو کروائوں گی۔‘‘
’’تو پھر۔‘‘
’’تم خود سمجھدار ہو۔‘‘
’’بشائر؟‘‘چاندنی کے کہنے پر عزہ کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

جاری ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے