طلسم : قسط نمبر 8
کسی سرور کے عالم میں چاندنی اس کو اس جادو کی وضاحت کر رہی تھی جن میں سے کوئی بھی عزہ کے لیے نہیں چلا تھا ۔ نہ کوئی اس کے دل کی بات سمجھتا تھا، نہ ہی اس کو دیکھ کر اس کی ماں کو محبت ہوئی تھی اور نہ ہی اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں؟ تو کیا جس جادو کی آس وہ یہاں لے کر آئی تھی تو وہ جادو بھی اس کے لیے نہیں تھا؟
’’ سب سے بات بڑی محبت…‘‘چاندنی کی اگلی بات نے عزہ کو اپنے خیالات سے نکالا تھا۔
’’ محبت سے بڑھ کر کوئی حصار نہیں ہوتا عزہ ۔ ‘‘چاندنی پوری طرح اس کی طرف گھوم گئی تھی۔
’’ قدرت کا ہر عمل جادو ہے عزہ کیونکہ قدرت کو جادو کرنے کے لیے ہی بنایا گیا ہے ۔ وہ، وہ چیزیں کرتی ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ اور جب وہ ہمیں سمجھ نہیں آتی تو ہم سائنس کے نام پر اس کی لوجک تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔‘‘
عزہ سچ بولے تو اس کو چاندنی کی باتیں سمجھ بھی آ رہی تھی اور نہیں بھی آ رہی تھی ۔ ایسے جیسے اس کی باتیں اس کے لا شعور میں محفوظ تو ہو رہی تھیں مگر اس کا دماغ ان کو پروسیس کرنے میں وقت لگا رہا تھا۔
’’ قُدرت کا کام ہی جادو چلانا ہے ، انسان کا کام اس قُدرت کو ہاتھ میں نہ لے ۔ اسی لیے یہی وجہ ہے کہ جادو انسان کے لیے حرام ہے۔ ‘‘
اس کی آخری بات عزہ کے دماغ نے پروسیس تو کی تھی مگر اس کو یہ بات وقت کی ٹھوکر کھانے کے بعد ہی سمجھ آئے گی۔
چاندنی کی آخری بات تھی۔
’’ عزہ، جادو آپ کا محبوب آپ کے قدموں میں لا کر رکھ سکتا ہے مگر کسی کے دل میں آپ کی محبت نہیں جگا سکتا۔‘‘
٭…٭…٭
عزہ کے فائنل کے امتحان چل رہے تھے ۔ اس کے بعد یونیورسٹی ختم اور ساتھ ہی ساتھ غازی کے دیدار کی آس بھی ۔ ایک دن وہ جب پڑھ پڑھ کر تھک گئی تو چاندنی کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔کتاب کھولتی تھی تو بشائر اور غازی کا ایک ساتھ چہرہ یاد آ جاتا اور یہ تک بھول جاتا کہ کل پرچہ کون ساتھا۔
چاندنی نے اپنے گھر میں ہی ایک چھوٹی سی لیب بنائی ہوئی تھی ۔ اتنے دنوں میں وہ اتنا تو جان ہی گئی تھی کہ چاندنی کو کیمیا گری سے بے حد محبت تھی ۔ وہ ہر چیز کی لاجک کا جواب کیمسٹری کی زبان میں دیتی تھی ۔ اس کی نظر میں کائنات میں جو بھی کچھ ہو رہا تھا وہ اور کچھ نہیں تھا بلکہ کچھ کیمیائی مادوں کا رد عمل تھا۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ جادو اور سائنس کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ ‘‘کسی کیمیائی مادے کو دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے چاندنی نے اس کو کہا تھا۔
’’ وہ کیسے؟‘‘
’’ ہمارے جسم میں ہر تبدیلی، یہاں تک کہ ہمارا ہر جذبہ اس دماغ میں بنتے کیمیکل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ اور اسی چیز کا فائدہ جادوگر اٹھاتے ہیں۔‘‘
’’ کیا مطلب؟‘‘وہ اس کے قریب آئی گو کہ چاندنی کی بہت سی باتیں اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی،مگر چاندنی باتیں دلچسپی کرتی تھی۔
’’ اور جو منتر پڑھے جاتے ہیں، اس کا کیمیکل سے کیا تعلق ؟ ‘‘عزہ نے کچھ یاد کر کے ایک نقطہ اٹھایا۔ کیونکہ ابھی بھی کسی کیمیکل کو چھوٹی شیشے کی بوتل میں ڈال کر چاندنی آنکھیں بند کر کے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ رہی تھی۔
چاندنی نے عزہ کو ہاتھ کے اشارے سے ٹھہرنے کا اشارہ کیا ۔ عزہ اثبات میں سر ہلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگ گئی ۔ وہاں پر کچھ بھی اس کی دلچسپی کا سامان نہیں تھا، اس لیے اس چھوٹے سے کمرے میں گھوم پھر کر دوبارہ چاندنی کے سامنے بیٹھ گئی ۔ جس نے شیشی میں پھونک ماری اور اس کو بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔
’’ اگر جب تم میرے گھر آئی تھی تب میں تمہیں طعنے دیتی اور ایسی باتیں کرتی جو تمہیں ناگوار گزرتی تو تمہیں درد ہوتا؟‘‘
چاندنی کے پوچھنے پر عزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تو تمہارے دماغ میں غم کے کیمیکل بنتے ۔ جب یہ غم حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہیں تو آنسو نکلتے ہیں ‘ یہ بھی جسم میں بننے والے کیمیکل کا نتیجہ ہے ۔ یہ سب کیمیکل کا کمال ہے۔ اور کچھ ایسے اجزاء اور الفاظ مل کر یہی کیمیکل جسم میں پیدا کرتے ہیں اور ہمیں وہ دکھنے لگ جاتا ہے جو حقیقت میں ہوتا نہیں ہے۔ اس طریقے سے جادو وجود میں آتا ہے۔‘‘
’’ اس کی سب سے بڑی مثال تو تمہیں ایز آ مسلم پتہ ہوئی چاہیے ۔ ‘‘
چاندنی کی اگلی بات پر اس نے چونک کر اس کو دیکھا ۔ بحیثیت مسلمان ایسی کیا بات اس سے چھوٹ رہی تھی۔ کیونکہ اس طرح کے منتر تو مسلمانوں پر حرام تھے۔
’’ کیسی مثال؟‘‘
’’ قرآن ؟ کون سی چیز ہے جس پر قرآن کے الفاظ اثر نہیں کرتے ؟ اس کے الفاظ کئی روحانی بلکہ جسمانی بیماریوں کا علاج بھی ہیں ۔ سب سے اہم چیز یہ بذات خود جادو کو روکنے کا ذریعہ ہے ۔ اس کو ایسے سمجھو کہ جیتنے زیادہ پاور فل الفاظ ہوگے، اتنا ہی سٹرونگ اس کا اثر ہوگا ۔ اور قرآن سے زیادہ پاور فل الفاظ کون سے ہو سکتے ہیں ؟ ‘‘چاندنی کی بات پر وہ ششدر رہ گئی تھی ۔
زندگی میں خوشیاں اور سکون پانے کا راز تو اس کو ایک مسلمان کی حیثیت سے سالوں پہلے تھما دیا گیا تھا تو وہ کیوں اس اجنبی جگہ پر کس چیز کی تلاش میں آئی تھی ۔
محبت کی تلاش میں؟
کیا محبت اور سکون الگ الگ چیز تھے ؟ اس کے ضمیر نے سوال پوچھا تو اس نے سارے فضول خیالات جھٹک کر چاندنی کی طرف دیکھا جو اب میز کی صفائی کر رہی تھی۔
’’ اور کالے جادوگروں کے الفاظ؟‘‘
چاندنی اس کی بات پر سوچ میں پڑ گئی۔
’’ یقین سے تو نہیں کہہ سکتی مگر میں نے سنا ہے کہ وہ اپنی طاقت بڑھانے کے لیے شیطانی جنات سے مدد لیتے ہیں ۔ کچھ جنات کو قابو کرتے ہیں تو کچھ کے پاس شیطان خود آتا ہے آفرز لے کر…‘‘چاندنی کا لہجہ پراسرار تھا۔
’’ آفرز… کیسی آفرز۔ ‘‘یہ کچھ نیا تھا۔
’’ دولت کی، طاقت کی اور کئی بار ابدی زندگی کی…‘‘
’’ کیا انہیں یہ سب مل جاتا ہیں ؟ ‘‘عزہ کی حیرت اب عروج پر تھی۔
’’یہ دنیا سراب ہے عزہ اور جادو اگر حقیقت ہے تو سراب سے کم بھی نہیں ہے ۔ یہ آپ کو خواب ضرور دیکھاتا ہے ۔ مگر آخر میں آپ کے سیاہ دل اور خالی وجود کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔‘‘
’’ اور محبت؟‘‘
’’ محبت تو بذات خود ایک جادو ہے ، سائنس کا جادو ۔ جب آپ کواپنے پسندیدہ انسان کو دیکھ کر دماغ میں کیمیکل بنتے ہیں تو آپ کو خوشی کا احساس ہوتا ہے ۔ آہستہ آہستہ یہ خوشی سر خوشی میں بدلتی ہے ۔ کسی نشے کی طرح یہ کیمیکل آپ کی محبت کو لذت بنا دیتے ہیں اور پھر محبت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ یقین کرو عزہ اس دنیا میں دو غیر محرم لوگوں کے درمیان سچی محبت جیسا کچھ نہیں ہوتا ۔ ‘‘چاندنی کی باتوں میں تجربہ بولتا تھا۔
عزہ اس سے پہلے کہ کچھ اور پوچھتی، چاندنی کی اگلی بات پر وہ چپ ہو گئی۔
’’ تجربہ کر کے دیکھنا چاہوگی ؟ ‘‘
عزہ نے الجھ کر اس کو دیکھا ۔ چاندنی نے وہی چھوٹی سی شیشی اس کی طرف بڑھائی جس میں اس نے پھونک ماری تھی۔
’’ اس کا نہ ہی رنگ بدلے گا اور نہ ہی ذائقہ ۔ بس کسی بھی میٹھی چیز میں ملا کر اپنے محبوب کو یہ کھلا دو اور کوشش کرنا کہ اس کے سامنے ہی تھوڑی دیر رہنا‘ پھر دیکھنا کمال۔‘‘
’’ یہ ہے کیا ؟ ‘‘عزہ نے شیشی کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ اس کا رنگ اب پانی کی طرح بے رنگ تھا۔
چاندنی پراسرار انداز سے مسکرائی تھی ۔
’’یہ سمجھ لو کہ یہ لو پوشن ہے ۔ اس سے غازی کے دماغ میں ایسے کیمیکل بنیں گے کہ اسے تم اچھی لگنے لگ جاؤ گی۔ ‘‘
’’ پھر ؟ ‘‘عزہ نے اتاؤلے پن سے پوچھا۔
’’ پھر کیا؟ پھر محبوب آپ کے قدموں میں ۔ ‘‘ چاندنی نے اس کے پیروں کو اشارہ کر کے کہا۔
٭…٭…٭
اگلے دن یونیورسٹی میں اس کا امتحان تھا ۔ اس نے اپنی مُٹھی میں بند پانی کو مضبوطی سے پکڑا تھا ۔ چاندنی نے کہا تھا کہ اس سے محبوب اس کے قدموں میں ہوگا ۔ اس کو غازی اپنے قدموں میں نہیں چاہیے تھا ۔ کہاں چاہیے تھا؟ اپنے ساتھ؟
مگر جو جادو محبوب کے دل میں اس کی محبت نہیں جگا پائے گا تو خالی خولی ذات کا وہ کیا کرے گی ؟ اس کے باطن نے اس سے وہ جواب مانگا جس کا جواب اس کو خود بھی نہیں معلوم تھا۔
معلوم تھا تو بس یہ کہ ایک شخص کی خواہش ہی اس کی زندگی کا مقصد بن گئی تھی ۔ محبت جنونیت اختیار کر گئی تھی۔
اور جب محبت جنون کی شکل اختیار کر جائے تو پھر انسان کہیں بھی، کبھی نہیں رکتا، جب تک یا تو وہ سامنے والے کو یا خود کی برباد نہ کر دے ۔ بربادی کی طرف ایک قدم تو اس نے بڑھا ہی لیا تھا ۔ باقی کے قدم بھی خود بہ خود طے ہو جائیں گے ۔ آخری بار کے جھگڑے کے بعد سے وہ بشائر کے گروپ سے دور ہی رہتی تھی ۔ کبھی کبھار روشان یا ارمان کا سامنا ہوتا تو وہ دونوں اچھے سے حال احوال بھی پوچھتے اور بات بھی کر لیتے ۔ دوسری طرف عزہ کو بھی اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ یہاں سارے رشتے پرائے تھے ۔ سارے تعلق منافقت کے تھے ۔ جب سگی بہن کو پرواہ نہیں تھی تو کوئی اور کیا تعلق نبھاتا۔
غازی کسی کام سے اٹھ کر گیا تو وہ ارمان کے سامنے بیٹھ گئی۔
اس نے پچھلے دنوں ہی شاہی ٹکڑے بنانے سیکھے تھے۔ وہ گھر سے بنا کر لے آئی تھی اور اس میں یہ بھی ملا لیا تھا جو اس کے پلان کا سب سے اہم حصہ تھا ۔ اب جو یہ کرنے جا رہی تھی وہ ہوا میں تیر چلانے جیسا تھا، جس کے بارے میں اس کو معلوم نہیں تھا کہ لگے گا بھی یا نہیں۔
ارمان نے حیرت سے اس کو دیکھا ۔
’’ کوئی کام تھا کیا مجھ سے؟‘‘
یہ تم دونوں کے لیے ہیں۔‘‘
اس نے میٹھے کا ڈبہ ارمان کی طرف بڑھایا جس نے حیرت سے اس کو کھول کر دیکھا۔
پھر مسکرا کر ڈسپوزیبل چمچ اٹھا کر شاہی ٹکڑے کو منہ میں ڈالا۔
’’ نہ ایگزیمز ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی تمہیں گولڈ میڈل ملا ہے تو یہ کس خوشی میں ؟ ‘‘اس نے مسکرا کر ڈبہ غازی کو پاس کیا۔
عزہ کا ارمان کی اس حرکت پر جیسے سانس اٹک گیا غازی نے کندھے اچکا کر دو چمچ لیے پھر تیسرا، پھر چوتھا… ہر حوالے کے ساتھ عزہ کی دل کی دھڑکن تیز ہی رہی تھی ۔ چور کو ہمیشہ چوری پکڑے جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ وہی حال عزہ کا تھا۔
جان اٹکی پڑی تھی ۔ چاندنی نے یقین دلایا تھا کہ اس کا ذائقہ نہیں ہوگا ۔ اور شاید غازی کو پتہ بھی نہیں چلا تھا ۔ پانچویں چمچ پر غازی نے جانچتی نگاہیں اٹھا کر عزہ کی طرف دیکھا۔
’’ یہ سفید جادو صرف کرتب بازی اور سائنس سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ پانی بھی سمجھو یہی ہے ۔ یہ دماغ میں کیمیکل ری ایکشن پیدا کرتے ہیں اور جو اس پر پڑھا گیا ہے وہ مل کر تمہارے محبوب کے دماغ میں ایسے کیمیکل پیدا کریں گے کہ جو محبت کے وقت انسان کے دل میں اپنے محبوب کے لیے پیدا ہوتے ہیں ۔ بس تم نے کچھ وقت کے لیے اس کے سامنے رہنا ۔ ‘‘چاندنی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو اس نے تھوک نگل کر غازی کی نگاہوں سے نظریں چرا کر ارمان کی طرف گھوم گئی۔
’’یہ تمہارے لیے رشوت ہے ۔ ‘‘
’’کیسی رشوت؟‘‘
’’ مجھے تم سے کچھ کام ہے ۔ ‘‘ارمان نے حیرت سے اس کو دیکھا پھر ساتھ والی سیٹ کی طرف اشارہ کر کے اس کو بیٹھنے کی دعوت دی جو اس نے قبول کر لی۔
پھر عزہ اس کو بتاتی رہی کہ اس کو نوکری کی ضرورت تھی اور جس طرح کی کیرئیر میں وہ آگے بڑھنا چاہتی تھی ۔ پھر اس نے ارمان سی التجا کی کہ اس کو اپنے بابا کی کمپنی میں ایڈجسٹ کرلے۔ ارمان سوچ میں پڑ گیا۔
’’یار میرے بابا بہت ان معمالات میں بہت سخت ہیں ۔ تم ایک کام کرو کہ مجھے اپنا نمبر دے دو، کچھ مہینوں میں ہماری کمپنی میں ویکینسیز نکلتی ہیں تو میں تمہیں بتا دوں گا ۔ تم انٹرویو دینے چلی جانا ۔ اتنی قابل تو ہو تم، دیکھنا فوراً سلیکٹ ہو جاؤ گی۔‘‘
عزہ نے مسکرا کر اس کو دیکھا۔
’’سچ میں؟‘‘
ارمان بھی مسکرا دیا۔
’’سچ میں… اگر تم سیریس ہوئی تو؟‘‘عزہ اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ عزہ مجھے تم سے بات کرنی ہے، ایک منٹ میرے ساتھ چلو گی ؟ ‘‘اس کو مخاطب کرنے والا غازی تھا۔