طلسم : قسط نمبر 8
وہ اس قبرستان کے پار چلی گئی تھی۔
یہاں بنی بستی زیادہ تر سرخ اینٹوں سے بنی پرانے طرز کے چھوٹے چھوٹے مکانوں پر مشتمل تھی ۔ جو اتنے سالوں بعد بھی نہیں بدلے تھے ۔ اسی لیے اس کو اپنے ماموں کا مکان ڈھونڈنے میں ذرا سی بھی پریشانی نہیں ہوئی تھی ۔ دروازہ دوسری دستک پر ہی کھول دیا گیا تھا۔
سامنے کھڑی لڑکی تقریباً تیس سال کی تھی ۔ اونچا قد، ہلکا سانولا رنگ اور شیفون کی ساڑھی پہنے وہ اس کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
پھر تھوڑی دیر اس کو دیکھتے رہنے کے بعد عزہ چاندنی کو اور چاندنی اس کو پہچان ہی گئی۔
’’ عزہ؟‘‘چاندنی کی سوالیہ نظروں پر عزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ جس وقت یہ گھر چھوڑ کر روشنی کے ساتھ اپنے ددھیال گئی تھی، چاندنی ایک ٹین ایجر تھی اور شاید اس کی شریک غم بھی مگر وہاں جا کر اس دنیا سے سارے رابطے چھوٹ گئی تھے ۔ دوسری طرف خون آپ کو کبھی نہ کبھی واپس بلا ہی لیتا ہے ۔ چاندنی نے ایک نظر حیرت سے اس کے ہاتھ میں پکڑے بیگ کو دیکھا اور اندر آنے کے لیے راستہ چھوڑ دیا ۔ پھر آداب میزبانی نبھانے کو اس کو ایک بانس کی چارپائی پر بیٹھنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔
کتنی دیر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور چند ایک سوال جواب کے علاوہ کچھ نہیں کہا گیا۔
چاندنی بھی الگ ہی کردار تھی ۔ ہلکے پیازی رنگ کی ساڑھی پہنے ہوئے اور اتنی گرمی میں بھی کھلے بال…
ماں باپ یعنی عزہ کے ماموں ممانی، مرنے سی پہلے مسلمان ہو گئے تھے اس لیے وہ کہیں اور شفٹ ہو چکے تھے ۔ ان کے جانے کے بعد وہ دوبارہ یہاں آ گئی تھی ۔ جادو نہیں کرتی تھی بلکہ مقامی کالج میں کیمسٹری پڑھاتی تھی ۔ چاندنی نے اس کو وہاں بیٹھے بیٹھے یہ سب معلومات فراہم کی تھیں۔
پھر آخر کار چاندنی سے برداشت نہیں ہوا تو پوچھ ہی بیٹھی۔
’’ یہ بیگ لے کر کیوں آئی ہو؟ بہن نے نکال دیا ہے کیا؟‘‘
عزہ نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’شادی ہو گئی ہے اس کی۔‘‘
’’ اور یہاں آنے کا مقصد ؟ ‘‘اس نے عزہ کے سامنے چائے رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
عزہ نے ایک نظر چاندنی کو غور سے دیکھا اور پھیکا سا مسکرا دی۔
’’جادو سیکھنا ہے مجھے۔‘‘
’’ وہ کیوں ؟ ‘‘ چاندنی نے اپنے کپ سے چائے کی چسکی لے کر دلچسپی سے پوچھا۔
جب وہ وہاں تھی اور ماموں مامی کا دین ایمان صرف جادو تھا تب اس نے یہ سامنے بیٹھی لڑکی کو جادو کی مشق کرتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’ بس سیکھنا ہے۔‘‘عزہ نے کندھے اچکا کر لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’ویلکم ٹو دی ہوگورٹس سکول آف وچکرافٹ اینڈ وزرڈری … کون سے ہاؤس میں آنا پسند کریں گی آپ؟ سلی تھرین ٹھیک رہے گا ۔ مجھے وہی پسند ہے وہاں پر سب امیر لوگ رہتے ہیں ۔ ‘‘چاندنی چائے کا کپ رکھ کر چھڑی گھمانے کے انداز سے بولی تو وہ مسکرا دی۔
’’ اور تعصب پسند بھی…‘‘عزہ نے بھی لقمہ دیا۔
چائے کے بعد وہ اس کو اپنے کمرے میں لے آئی تھی۔
’’ ساتھ والا کمرہ خالی تو ہے مگر اس میں صرف کباڑ بھرا پڑا ہے ۔ تھوڑے دن یہاں رہنا ہے تو میرے کمرے میں ہی رہ لو اگر زیادہ عرصے کے قیام کا ارادہ ہے تو وہاں شفٹ ہو جانا۔‘‘
عزہ نے سر ہلا کر اپنا بیگ سائڈ پر رکھا اور خود بیڈ پر بیٹھ گئی۔
’’ اس وقت تک یہی رہنا جب تک میرا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔‘‘
عزہ کی بات پر چاندنی سوچ میں پر گئی۔
’’ اور وہ مقصد کیا ہے ؟ ‘‘ چاندنی بھی اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔ انداز میں دلچسپی تھی، جیسے وہ عزہ کی یہاں غیر متوقع آمد پر اپنا تجسس نہیں چھپا پا رہی تھی۔
’’ کسی کو اپنی محبت میں مبتلا کرنا ہے۔ کیا یہ جادو کے ذریعے ممکن ہے ؟ ‘‘عزہ نے بہت امید سے پوچھا ۔
چاندنی کے چہرے پر اس کی بات پر مایوسی پھیلی تھی۔
’’ کھانے میں کیا کھاؤ گی؟‘‘چاندنی کا لہجہ پھیکا اور درد بھرا تھا، جیسے اس کے پاس اس کے سوال کا جواب نہیں تھا۔
٭…٭…٭
اگلے دو دن تک چاندنی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا ۔
تیسری رات کو سونے سے پہلے چاندنی نے اس کو ہدایت دی تھی کہ اگر وہ جادو سیکھنا چاہتی ہے تو صبح روشنی ہونے سے پہلے اٹھ جائے ۔ عزہ نے اثبات میں سر ہلادیا مگر پھر بھی خود سے نہیں جاگ پائی تو چاندنی نے اس کو خود ہی جگا دیا ۔ ایک پل کے لیے چاندنی کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر وہ ڈر ہی گئی تھی۔
’’ اٹھو، تمہیں کہیں لیے کر جانا ہے۔‘‘
عزہ نے باہر کھڑکی سے اندھیرے کو پھر چاندنی کی کو دیکھا ۔ پھر رات والی بات یاد آئی تو اثبات میں سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ چاندنی نے اس کو صحیح سے آنکھیں کھولنے کا بھی موقع نہیں دیا تھا اور ہاتھ پکڑ کر باہر گھسیٹ کر لے آئی تھی ۔ چند قدم کے فاصلے پر وہ جہاں اس کو لے کر گئی تھی وہاں کے منظر کو دیکھ کر عزہ کی نیند آنکھوں سے اُڑ گئی تھی۔
’’ یہ سب کیسے ممکن ہے؟‘‘
چاندنی رازدارانہ انداز سے مسکرا دی۔
’’جادو سے…‘‘
عزہ کے سامنے کا منظر جیسے کسی نے فنٹیسی فلم سے نکال کر اس کے سامنے چسپاں دیا تھا۔
چند بچے سفید فراک پہنے گول گول گھوم رہے تھے اور ان کے ارد گرد جگنو منڈلا رہے تھے مگر ان جگنوؤں سے زیادہ کچھ اور تھا جس کو عزہ نے مبہوت کر دیا تھا ۔ وہ تھے ہوا میں تیرتے پھول ۔ وہ جگہ کوئی باغ کی تھی اور وہ پھول عزہ نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے، انٹرنیٹ پر بھی نہیں ۔ عزہ قریب گئی اور ان پھولوں کو چھونے کی کوشش کی مگر جیسے ہی عزہ نے اُن کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ جیسے کسی جاندار کی طرح اس سے دور چلے گئے ۔ وہ ٹیولپ کی شکل کے پھول تھے جنکی پنکھڑیاں ٹیولپ سے کہیں زیادہ تھی اور رنگ سفید تھا۔
عزہ نے حیرت آنکھوں میں بھر کر مڑ کر چاندنی کو دیکھا۔
’’ یہ سب کیا ہے ؟ ‘‘چاندنی اس کے پوچھنے پر اس کی طرف بڑھی۔
’’ ہماری بستی اس کو جادو کہتی ہے مگر میری نظر میں سائنس ہے ۔ ‘‘
عزہ نے اس کو سوالیہ نظریں سے دیکھا تو چاندنی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’پھر کبھی بتاؤں گی، چلو تمہیں ایک اور چیز دکھاتی ہوں۔‘‘
اس کے کہنے پر وہ چاندنی کے پیچھے چل دی تھی۔
چاندنی اس کو کیاریوں کی طرف لے گئی تو وہاں اس کو انہی پھولوں کی کلیاں دکھی تھیں، جن کے اوپر جگنو منڈلا رہے تھے ۔ وہ مبہوت ہو کر وہی بیٹھ گئی ۔ اس کے بیٹھنے پر کتنے جگنوؤں نے اس کے لیے راستہ چھوڑا تھا۔
’’ یہ دیکھو ۔ ‘‘چاندنی کے اس کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر اس نے دیکھا کہ چاندنی نے ایک کلی کو انگلی سے چھوا تو وہ کھل اٹھی۔
اس نے تحیر سے چاندنی کو دیکھا ۔
’’یہ تم نے کیسے کیا؟‘‘
’’تم بھی کر سکتی ہو ! ‘‘چاندنی اس کو اطلاع دی۔
’’کیسے؟‘‘
’’ ہماری بستی میں جب پہلی بار بچوں کو جادو سیکھایا جاتا ہے تو انہیں سب سے پہلے یہی لایا جاتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ کے خون میں جادو ہے تو یہ پھول آپ کے چھونے پر کھل جائیں گے ۔ ‘‘چاندنی نے توقف کیا،پھر بولی ۔
’’ تم بھی دیکھو شاید تمہارے چھونے سے کھل جائیں ۔‘‘
اس کی بات پر عزہ نے تذبذب سے چاندنی کو دیکھا۔
’’میں کیسے؟‘‘
’’کر کے تو دیکھو۔’’
چاندنی کی حوصلہ افزائی پر اس نے ڈرتے ڈرتے ایک پھول کی طرف ایسے انگلی بڑھائی جیسے وہ اس کو کاٹ لے گا اور عین وقت پر جب وہ اس کو چھونے والی تھی تو اس نے آنکھیں بند کر دی اور تھوڑی دیر تک بند ہی رکھی تھیں ۔ پھر ڈر کر ایک آنکھ کھول کر سامنے دیکھا تو حیرت اور خوشی سے اپنی ہتھیلی پر رکھے ہوئے کھلے ہوئے پھول کو دیکھا جس پر جگنو تتلیوں کی طرح منڈلا رہے تھے ۔ کتنے عرصے بعد سچی خوشی نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا ۔ پھر وہ مسکان ہنسی میں بدل گئی تھی۔
وہ وہاں سے اٹھی تھی اور ان چھوٹی لڑکیوں کے ساتھ مل کر گول گول گھومنے لگی تھی ۔ پھول اس کے ہاتھ میں ہی تھا اور پھر جب وہ گول گھومی تو اس کے ہاتھ سے پھول اُڑ کر ہوا میں تیرنا شروع ہو گیا اور وہ وہی حیرت سے کھڑے ہو کر اپنے پھول کو پرواز کرتے دیکھتی رہی ۔ وہ پرواز جو اس کے نصیب میں نجانے تھی بھی یا نہیں۔
چاندنی مسکراتے ہوئے اس کے پاس آ گئی اور کھڑے ہو کر اس کے پھول کو دیکھنے لگی تھی۔
’’ میں نے تو سنا تھا کہ جادو گندگی اور جنوں کے ذریعے ہوتا ہیں، تو یہ کیا ہے ؟ ‘‘ اس نے اس ناقابل یقین دیکھنے والے منظر کے بارے میں چاندنی سے پوچھا جو اس کے ارد گرد بکھرا ہوا تھا۔
’’ صحیح سنا تھا مگر یہ سفید جادو ہے؟‘‘
’’ سفید جادو؟‘‘اس نے الجھ کر چاندنی کو دیکھا۔
’’ادھر آؤ…‘‘
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو باغ سے باہر لے آئی ۔ چاندنی نے غور سے اس کو سامنے کا منظر دیکھنے کو بولا تو اس نے غور سے دیکھا تو اس کو لگا جیسے اس منظر میں کچھ ایسا تھا جو غلط تھا، کچھ نقلی پن سا، جس پر اگر غور نہیں کیا جائے تو سامنے والا سمجھ نہیں پائے ۔ وہ بھی اس منظر کے راز کوسمجھ نہیں پائی تھی۔
’’ یہ سائنس ہے ۔ یہ پھول ایسے کیمیکل پیدا کرتے ہیں کہ اس سارے باغ میں ایک الوہی سی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اسی کیمیکل کی وجہ سے یہ جگنو اٹریکٹ ہوتے ہیں ۔ ‘‘چاندنی نے اس کے سامنے آ کر اطلاع دی۔
’’ اور پھولوں کا ہوا میں اڑنا۔ ‘‘عزہ نے نیا سوال اٹھایا تو چاندنی نے کندھے اچکا دیے ۔ کچھ سوالوں کے جواب سوائے وقت کے کسی کے پاس نہیں ہوتے۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ گھر کی طرف چلنا شروع ہو گئیں ۔ اس منظر سے باہر نکلنے کے بعد نیند نے عزہ پر ایک بار پھر سے حملہ کر دیا ۔ اس نے جمائی روک کر اس منظر کو دوبارہ مڑ کر دیکھا جو اس دنیا کا منظر لگ ہی نہیں رہا تھا ۔ پھر چاندنی سے وہ سوال پوچھا جو کئی دنوں سے اس کے دماغ میں چل رہا تھا۔
’’ویسے یہ جادو ہوتا کیا ہے ؟ ‘‘
چاندنی نے چونک کر اس کو دیکھا اور تھوڑی دیر اپنی نگاہیں آسمان پر ٹمٹماتے تاروں پر ٹکا دیں۔
’’ ہمیں کوئی جادو کی ڈیفینیشن نہیں پڑھائی گئی مگر میرے خیال سے جہاں لاجک ختم ہوتی ہے وہاں سے جادو شروع ہوتا ہے۔‘‘
عزہ نے اس کو الجھ کر دیکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر کی طرف جاتے قدم بھی رکے تھے۔
چاندنی نے مسکرا کر اپنی بات جاری رکھی۔
’’ سب سے بڑا جادو تو دل سے دل ملنا ہوتا ہے ۔ جیسے کہ ہم کسی پیارے کی بات اس کے کہے بغیر سمجھ جاتے ہیں، وہ بھی جادو ہے ۔ جب ماں اپنے بچے کو پہلی بار دیکھتی ہے اور اس کا دل محبت سے بھر جاتا ہے تو وہ محبت بھی جادو ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر آپ کی دعا بھی جادو ہے ۔ جب وہ آسمان چیر کر اوپر پہنچتی ہے اور کائنات حرکت میں آ جاتی ہے ۔ ‘‘