طلسم : قسط نمبر 8
’’ اور تمہارے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟‘‘
بشائر کی بت پر غازی نے اپنا کوٹ اُتارا اور اس کے کندھے پر ڈال دیا ۔ بشائر نے آنکھیں حیرت سے پھیلا کر غازی کو دیکھا۔
’’ یہ چل رہا تھا میرے دماغ میں۔‘‘
بشائر مسکرا دی۔
غازی نے ایک نظر تاحد نظر آتے آسمان کو دیکھا ۔ شہر سے دور ہونے کی یہی سب سے اچھی بات ہوتی ہے کہ آسمان مزید وسیع ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ بڑی بڑی عمارات ان کا راستہ روکنے کے لیے نہیں ہوتی تھیں اور نہ ہی شہر کی گندگی نے آسمان کو آلودہ کیا ہوتا تھا ۔ ایسے ماحول میں ستارے بّھی کھل کر سانس لیتے ہیں۔
’’ ایک بات پوچھوں؟ اگر برا نہ مانو تو؟‘‘کچھ دیر کی خاموشی کو غازی کی آواز نے توڑا تھا۔
’’ برا ماننے والی بات ہوئی تو شاید برا مان جاؤں مگر تمہیں پوچھنے کی ضرورت کیا ہے؟ پوچھ لو۔‘‘جواب سادہ تھا مگر انداز میں مصنوئی بے نیازی تھی۔
غازی نے شرارتی مسکان سے اس کو دیکھا ۔
’’وہی تمہاری ڈیمانڈ کے مطابق ہسبینڈ میٹریل بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
غازی کی بات پر بشائر کے گالوں پر چاندنی میں بھی گلال بکھرے تھے ۔ غازی کی گہری نگاہیں خود پر محسوس کر کے وہ خوامخواہ جزبز ہوئی تھی۔
’’ اب پوچھو بھی…‘‘یہ کہتے ہوئے گال کا ڈمپل گہرا ہو گیا تھا۔
مگر غازی کے سوال نے اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب کر دی تھی۔
’’ تم نے مجھے شہریار کے متعلق کیوں بتایا؟‘‘
’’وہ میرا پاسٹ تھا۔‘‘
’’ سب کا ہوتا ہے۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی کے درمیان اٹریکشن نیچرل ہوتی ہے ۔ ہم کسی انیسویں صدی کی مخلوق نہیں کہ دل کے آس پاس سے بھی کوئی نہ گزرا ہو ۔ اصل چیز ہوتی ہیں آپ کی اپنے پارٹنر کے ساتھ وفاداری اور مجھے تمہاری وفاداری پر کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
اس کی بات پر بشائر کھل کر مسکرائی تھی
’’ بڑی میچور باتیں کرنے لگے ہو راجہ غازی؟ تمہاری زندگی میں کتنے ماضی تھے۔ ‘‘
’’ دو…‘‘غازی نے مسکرا کر جواب دیا۔
بشائر کی آنکھیں حیرت سے پھیلی اور چہرے کی شرارتی مسکان گہری ہو گئی ۔ اس نے اپنی شرارتی آنکھیں ان نگاہوں پر گاڑ دی جس میں اب صرف اس کا ہی عکس جھلملاتا تھا۔
’’ پھر ان کو بھگایا کیسے؟‘‘
غازی کے ہونٹوں پر ایک رازدارانہ مسکراہٹ ٹھہر گئی۔
’’بس سمجھو کہ تم ٹک گئی ہو یہی کافی ہے۔‘‘
بشائر نے بھی مزید کریدنا مناسب نہیں سمجھا ۔ اس کی نظریں تھوڑی دیر کے لیے دور کہیں افق پر ٹھہر گئی تھی ۔ چہرے کی مسکراہٹ دھیمی ضرور ہوئی تھی مگر مٹی نہیں تھی ۔ نظریں کسی ایسے منظر پر ٹکی ہوئی تھی جو نظروں کے سامنے تھا ہی نہیں۔
’’ شہریار ایک ایسا لڑکا تھا جس کی ہر لڑکی کو خواہش ہوتی ہے۔‘‘
غازی نے چونک کر اس کو دیکھا ۔ ایسے لڑکے کو کوئی کیوں اپنے سے دور کرنا چاہے گا؟
’’ حد سے زیادہ خیال کرنے والا، دل کی بات چہرے سے جاننے والا پھر کچھ کہنے سے پہلے ہی اس بات کو پورا کرنے والا، حد سے زیادہ محبت کرنے واالا اور حد سے زیادہ پوزیسو…‘‘
’’تو پھر؟‘‘
ایک اُداس سی مسکراہٹ بشائر کے چہرے پر ٹک گئی۔
’’اس میں ’’حد سے زیادہ‘‘کی ورڈز ہیں غازی ۔ حد سے زیادہ چیزیں سفوکیشن کر دیتی ہیں ۔ اور جب کسی رشتے میں دم گھٹنے لگ جائے تو اس کو ختم کرنا ہی بہتر…‘‘
غازی نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔ اس سے آگے اس نے کچھ نہیں پوچھا تھا ۔ حالاں کہ کہا نہیں گیا تھا مگر دونوں ہی سمجھ گئے تھے کہ شہریار کا قصہ اب ان دونوں کے درمیان ختم ہو گیا تھا۔
دونوں نہیں جانتے تھے کہ ان دونوں کی داستان میں یہ باب دوبارہ کھلنے والا تھا۔
٭…٭…٭
شادی آخر کار انجام پا ہی گئی تھی ۔ روشنی کو عزہ سے اور عزہ کو روشنی سے چھٹکارا مل ہی گیا تھا ۔ وہ جب واپس آنے لگی تو دنیا کو دکھانے کے لیے دونوں بہنیں گلے بھی ملی تھی ۔ یہ پہلی بار تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو چھوا تھا مگر نہ ہی لمس میں گرم جوشی تھی اور نہ ہی احساس میں محبت ۔ آتے ہوئے مزید مہربانی کر کے اس کو بشائر کے گروپ کے ساتھ ہی رخصت کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت ان کا لیٹسٹ ٹاپک بشائر اور غازی کی متوقع منگنی تھی۔
’’ ویسے ایک بات ہے شادی کے بعد بشائر تمہارے نام کے ساتھ رانی تو نہیں لگ جائے گا ۔ سوچوزرا راجہ غازی کی بیوی رانی بشائر…‘‘ارمان نے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر نقشہ کھینچا تو بشائر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا ٹشو اس کو رول بنا کر دے مارا۔
’’ رانی نہیں، سلطانہ…‘‘اس بار یہ کہنے والا غازی تھا، جس کی گہری نگاہیں بشائر پر ٹکی تھی۔
وہ اب ارمان سے لڑنا بھول کے سیٹ میں دھنس گئی تھی ۔ دوسری طرف پہلے تو سب نے حیرت سے غازی کو دیکھا پھر ایک لمبی سی ’’اوہ!‘‘نکلی اور گاڑی قہقہوں سے گونج اُٹھی تھی۔
اس دوران عزہ کی بس ہو گئی تھی۔ برداشت کرنا مجبوری تھی ۔ اس نے منہ ہی منہ میں بڑبڑا کر اس وقت کو کوسا جب وہ ان سب کے ساتھ بائے روڈ جانے پر راضی ہو گئی تھی۔
اس کے چہرے کی ناگواری کو انعم کے علاوہ کسی نے بھی محسوس نہیں کیا تھا۔
کراچی پہنچ کر یونیورسٹی میں جب وہ ان کے سامنے آ کر بیٹھی تھی تو انعم نے بلند سرگوشی میں بشائر کو کہا تھا۔
’’مجھے یہ لڑکی پسند نہیں…‘‘
اس وقت صرف گروپ کی لڑکیاں ہی آئی تھیں۔
’’ اس لیے کہ وہ روشان کی پسند ہے ۔ ‘‘ہانہ کا ہونا یا نہ ہونا تقریباً برابر ہی تھا مگر اس وقت صحیح اندازہ لگانے والی وہی تھی۔
انعم نے مسکرا کر اپنی دوست کو دیکھا اور اب کی بار سادہ لہجے میں بولی تھی۔
’’ ہاں، مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ روشان جتنی جگہ پھرتا رہے ۔ کبھی میں نے اس کے کہیں جانے کو، فلرٹ کرنے کو سیریس نہیں لیا کیونکہ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ وہ کہیں بھی جائے گا مگر میرے پاس ہی آئے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا ۔‘‘
وہ تینوں ایسے باتیں کر رہی تھی، جیسے وہاں پر عزہ بیٹھی ہی نہیں تھی ۔ اس پل عزہ کو اندازہ ہوا کہ اس پرفیکٹ گروپ کی لڑکیاں اتنی بھی پرفیکٹ نہیں تھیں ۔ اس وقت اس کو ایک اور بات کا اندازہ ہوا تھا۔
’’ مجھے روشان چاہیے بھی نہیں ۔ ‘‘ اب کی بار اس نے تنک کر کہا تھا۔
’’ میں کوئی چیز نہیں ہوں کہ تم لوگ ایک دوسرے کو بانٹتی پھرو ۔ ‘‘
روشان نجانے کب ان کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا تھا ۔ اس کا لہجہ قطعی اور سنجیدہ تھا۔ عزہ نے اس کو کبھی بھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔
انعم نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر پھر روشان کا سنجیدہ چہرہ دیکھ کر چپ ہو گئی ۔ نا چاہتے ہوئے بھی عزہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ٹھہر گئی تھی ۔ انعم نے اس کو گھور کر ضرور دیکھا تھا مگر کہا کچھ نہیں تھا ۔ اس پل وہ جان گئی تھی کہ اگر کسی نے کبھی کہا تھا کہ لڑکیاں لڑکوں سے بڑی منافق ہوتی ہیں تو صحیح سے کہا تھا ۔
’’ چلو اب جو بھی مسئلہ ہے اس کو چھوڑو کلاس کے لیے دیر نہیں ہو رہی تم لوگوں کو؟ ویسے بھی گروپ کا رول ہے کہ دو لوگوں کے جھگڑے کی وجہ سے گروپ متاثر نہیں ہوگا۔‘‘روشان نے دونوں ہاتھ مل کر معاملہ نپٹانا چاہا مگر انعم نے اس کو شکایتی نظروں سے دیکھا۔
’’ اور عزہ کب سے ہمارے گروپ کا حصہ بن گئی ہے؟‘‘
’’ جیسے غازی بنا تھا۔‘‘اس کا لہجہ قطعی تھا۔
اب کی بار بشائر نے بھی اس کو شکایتی نظروں سے دیکھا ۔ عزہ وہاں کھڑی اپنی حیثیت سمجھ رہی تھی مگر نجانے کیوں کس امید پر کھڑی رہی ۔ اس کو اُن سب کی ضرورت تھی ۔ جب تک دل میں ایک امید تھی ۔ اس نے آگے جو کرنے کا سوچا تھا، اس کے اگلے قدم کے لیے اس کو غازی کا سامنے کرنا ضروری تھا اور اس کا ذریعہ وہاں کھڑے لوگ تھے۔
’’ کیا؟‘‘ روشان نے ان کو تنک کر دیکھا۔
’’ غازی کا قصہ الگ تھا ۔ ‘‘بشائر نے منہ کھول ہی لیا۔
’’ تو رہی بات گروپ کی تو یہ بھی کتنا عرصہ رہے گا ؟ تھوڑے عرصے میں ہمارا آخری سمسٹر بھی ختم ہو جائے گا ۔ پھر سب اپنی اپنی منزلوں کی طرف نکل جائیں گے اور نئے دوست بنا لیں گے ۔ تو تھوڑا عرصہ صلح صفائی کے ساتھ گزار لیتے ہیں ۔ ‘‘ ہانہ نے ان کے چہرے پر لکھی معاملے کی گھمبیرتا کو سمجھتے ہوئے مسکرا کر ہلکے پھلکے انداز سے کہا۔
’’ ابھی تک بنائے کیا ؟ ‘‘یہ کھوئی کھوئی سی آواز بشائر کی تھی ۔ وہ جیسے کسی یاد میں کھو کر مسکرا رہی تھی۔
’’ میں نے تو تم سب کے علاوہ کسی کو دوست نہیں بنایا۔ غازی کو بھی نہیں۔‘‘
انعم جو کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنے والی تھی بشائر کی اگلے بات پر چپ ہو گئی۔
’’ غازی اور میرے درمیان جو کچھ تھا وہ شروع سے ہی تھا اور وہ دوستی نہیں تھی ۔ دوستی ہوتی تو میں کبھی اس سے جھوٹ نہیں بولتی ۔ انسان محبوب سے جھوٹ بول سکتا ہے، دوست سے نہیں بولتا ۔ اور نہ ہی میں نے عزہ سے دوستی کی ہے ۔ ‘‘اس کا لہجہ سنجیدہ تھا اور آنکھیں عزہ پر ٹکی تھی۔
بشائر اندھی نہیں تھی، وہ عزہ کی آنکھوں میں اپنے لیے واضح نا پسندیدگی دیکھ سکتی تھی ۔ وہ وجہ نہیں جانتی تھی مگر اتنا تو محسوس وہ کر سکتی تھی ۔ عزہ نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔
’’ اب تم اپنی دوست کو کلاس لینے باہر لے جاؤ، مجھے اپنی دوست کے ساتھ بات کرنی ہے ۔ ‘‘
اس نے روشان کو دیکھ کر سرد لہجے میں باہر کا راستہ دکھایا ۔ روشان جو عزہ کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے ہاتھ اٹھا کر اس کو منع کر دیا۔
’’ مجھے خیرات میں دی جانے والی چیزیں نہیں چاہئے روشان! چاہے دوستی ہو یا محبت۔‘‘
وہ شکر گزار تھی کہ روشان نے سب کے سامنے اس کا بھرم نہیں توڑا تھا مگر بہتر یہی تھا کہ اس کو مزید آزمائش میں نہ ہی ڈالا جائے اور رہی بات محبت کی تو وہ اس کو خیرات میں نہیں مانگے گی بلکہ چھین کر رہے گی ۔ بشائر نے اس کو جاتے ہوئے دیکھا اور روشان کو بھی جانے کا اشارہ کیا ۔ اس کی زندگی کی پہلی دوست کو اس کی ضرورت تھی ، وہ کسی مروت کے رشتے کے چکر میں اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی ۔ جبکہ ہانہ کا کردار پھر ایک خاموش تماشائی سا بن گیا تھا۔
’’روشان کا دل کہیں اور اٹک گیا ہے ۔ کیا فائدہ انعم اس چیز کے لیے دل جلانے کا جو ملی ہی نہیں ۔ جب غازی مجھ سے دور گیا تھا تو میں نے خود سے پرامس کیا تھا کہ اپنی خوشیاں اس کی ذات سے مشروط نہیں کروں گی۔ وہ واپس آیا تو ٹھیک ورنہ زندگی میں اور بھی غم ہی محبت کے علاوہ ۔ ‘‘اس نے ان دونوں کے باہر نکلتے ہوئے وجود کو دیکھ کر انعم کو تسلی دی تھی۔
انعم بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔
’’میرے جیسی لڑکی اس دنیا کو ویمپ لگتی ہے ناں؟ شاید اسی لیے مجھ سے متاثر تو بہت لوگ ہوتے ہیں مگر محبت کوئی نہیں کرتا ۔ ‘‘اس کے دل میں اُداسی اُتری جو ہمیشہ اپنے والدین سے نظر انداز ہونے کی وجہ سے اس کی ذات کا حصہ تھی ۔ جس کو وہ میک اپ کی تہہ میں چھپا لیتی تھی ۔ اس کے والدین نے اس کو آزادی اور پیسہ تو دیا مگر وقت نہیں دیا۔
’’ تمہیں کسی کے لیے بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب صحیح انسان تمہاری زندگی میں آئے گا تو وہ تمہیں ویمپ کے طور پر بھی قبول کر لے گا۔ ‘‘
ہانہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’ شٹ اپ! ‘‘انعم آنسوؤں کے ساتھ ہنسنے لگی تو بشائر نے بے اختیار اس کو گلے لگا لیا اور ہانہ نے ان دونوں کو گہری سانس لے کر دیکھا ۔
وہ سب ہی ایک الگ ہی محبت کی داستان کے باسی تھے ۔ کچھ کی ادھُوری تھی،اس نے انعم کو دیکھا ۔ اور کچھ کی پوری … اس کی نظریں بشائر پر ٹکی تھی ۔ اور کچھ اس جیسی تھی جس کا ارادہ اپنی محبت کو دل میں دفنانے کا تھا ۔ ان کے خاندان میں لڑکیوں کی باہرشادیاں نہیں ہوتی، وہ ایسی جنگ لڑنے کو تیار نہیں تھی جس میں اس کی ہار مقدر تھی۔
وہ سب یہ نہیں جانتی تھیں کہ محبت کی ساری داستانیں ہی ادھوری ہوتی ہیں ۔ کچھ دل کے کسی کونے میں دفنا دی جاتی ہیں، کچھ کو منزل نہیں ملتی تو کچھ رشتے میں بدل کر شکل بدل لیتی ہیں۔
٭…٭…٭
’’ میں نے کبھی دعائیں نہیں مانگی تھی مگر ان دعاؤں میں اس ایک شخص کو مانگنا شروع کر دیا جو یہاں ایک ڈاکیومنٹری بنانے آیا تھا ۔ جادو کے باسیوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ میں اس کی خاطر مسلمان بھی ہو گئی۔ پھر تہجّد پڑھنا بھی سیکھ گئی ۔ تہجّد سے بڑھ کر بھی کوئی جادو ہوتا ہے ۔ اس جادو نے اس کو میرا کر دیا ۔ وہ میرا محبوب میرے قدموں میں بیٹھ کر مجھ سے محبت کرنے کا دعویٰ کر رہا تھا ۔ مگر اس نے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا۔
’’ ادا! اگر مجھ سے شادی کی تو میں خاندان کے نام پر اپنا سب کچھ پہلے ہی اپنی بیوی اور بچی کے نام کر چکا ہوں ۔ تمہیں دینے کے لیے میرے پاس نہ گھر ہے اور نہ ہی خاندان اور نہ ہی اس کا نام… صرف میں ملوں گا، وہ بھی آدھا۔ اگر قبول ہے تو بتاؤ۔ ‘‘
’’ میں نے کہا، قبول ہے۔‘‘
عزہ نمازیں پڑھنے کی عادی نہیں تھی مگر تہجّد کو اس نے روز کا شعار بنا لیا۔
مگر غازی نے جس کا ہونا تھا اس کا ہو کر ہی رہنا تھا ۔ جس دن روشنی کا بشائر اور غازی کی منگنی پر آنے کا تاکیدی فون آیا تھا تو اس خبر نے تابوت کے آخری کیل ٹھوکنے کا کام کیا تھا ۔ پھر اس نے وہی جانے کا فیصلہ کیا جہاں سے اس کی جڑیں جڑی تھیں۔
٭…٭…٭