سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 8

باب ششم : ایک ساحرہ تھی
مصنفہ : صبا زین

’’ میں نے ایک ساحر سے پوچھا کہ یہ سحر کیا ہوتا ہے ؟
اس نے مجھے جواب دیا: یہ نظر کا دھوکا ہے۔
میں نے پوچھا کہ اگر ایسا ہے تو یہ محبت، جو دنیا کا سب سے بڑا جادو ہے، جو سر چڑھ کر بولتا ہے تو بھلا پھر وہ کیا ہے؟
اس نے جواب دیا۔
’’ محبت… دل کو دیے جانے والا دھوکا ہے ۔ جو انسان خود ہی خود کے دل کو دیتا ہے ۔ جو نظر کے دھوکے سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘
از ادا بنت شفیع
عزہ نے اپنی ماں کے نام پر ہاتھ پھیرا ۔ جب وہ اپنے ماموں کے گھر سے یہاں آئی تھی تو چند ایک چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی ماں کی ڈائریوں کا ڈھیر بھی اُٹھا کر لے آئی تھی ۔ مقصد ماں سے محبت نہیں تھا ۔ خود کی یقین دہانی تھا کہ عشق نہیں کرنا اور اگر کر بھی لیا تو دیوانہ نہیں ہونا۔
اب عشق تو کر لیا تھا۔
اور دیوانگی؟
دیوانگی یہی کہیں بھٹک رہی تھی ۔ بین بجارہی تھی ۔ وہ بین جو دیوانہ بنا دے،مدہوش کر دے اور عزہ کسی ناگن کی طرح اس بین پر رقص کو تیار تھی۔
اس نے آس پاس ڈائریوں کے ڈھیر کو دیکھا ۔ یہ ڈائری لکھنے والے لوگ بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔ ایسے لوگ ایک کتاب کے سامنے کیسے اپنا دل کھول دیتے ہوگے ؟ عزہ کا نہیں خیال تھا کہ یہ ڈائری لکھنے والے لوگ دل کا ہر حال اس میں لکھ دیتے ہوگے ۔ کہیں نہ کہیں دماغ کے کسی تنہا گوشے میں ان کومعلوم ہوتا ہوگا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب ان کی ڈائری پڑھی جائے گی ۔ تو اس کا نہیں خیال تھا کہ وہ ہر راز اس ڈائری میں لکھتے ہوں گے ۔ کئی گہرے سیاہ راز مرنے والے اپنے ساتھ ہی قبر میں لے جاتے ہوگے۔
’’ تم یہی بیٹھی رہو گی یا نکلنے کی تیاری بھی کرو گی ؟ ‘‘اس نے سر اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا جو آج کل ہواؤں میں اُڑ رہی تھی۔
اس کا یہ روپ اس کے اندر کی آگ میں تیل کا کام کر رہا تھا۔
’’ اب اٹھو اور نکلنے کی تیاری کرو اور جو جو میں نے کہا ہے وہاں جا کر اس پر عمل بھی کر لینا‘ ورنہ اس مکان کو بھول جانا ۔ ‘‘روشنی کے لہجے میں تنبیہہ تھی۔
عزہ نے ڈائری بند کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ روشنی جو باہر کی طرف مڑی تھی کچھ سوچ کر عزہ کی طرف پلٹی تھی۔
’’ ویسے روشان سے معاملہ کچھ آگے بڑھا؟‘‘
اس کی بات پر عزہ نے اس کو چونک کر دیکھا۔
’’ تمہیں اس معاملے میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘‘
’’ مجھے نہیں ہے، کاشان کو ہے ۔ اس کو لگتا ہے کہ میری شادی کے بعد تم اکیلے رہ جاؤ گی ۔ اس نے تو یہ تک کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد ہمارے پاس رہنے آ سکتی ہو ۔ تم سے پیچھا چھوٹنے کے بعد میں تمہیں اپنے پاس واپس تو نہیں لانا چاہوں گی ۔ اس لیے اگر تمہارا کوئی انتظام ہو سکتا ہے تو ہو جائے ۔ ‘‘روشنی کے لہجے میں بظاہر بے نیازی تھی مگر اندر کہیں تجسس بھی چھپا ہوا تھا۔
کبھی کبھار انسان اتنا تھک جاتا ہے کہ بحث کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ہے ۔ وہ بھی اسی تھکاوٹ کا شکار تھی ۔ خاص طور پر اب بشائر، غازی اور روشان کا سامنے کرنے کے نام سے اس تھکاوٹ میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔
اس نے ایک خالی خالی نظر روشنی پر ڈالی اور چپ چپ ڈائریوں کا ڈھیر ٹھکانے پر لگانے لگی ۔ روشنی نے اس کو ایک نظر دیکھا، پھر نخوت سے ہنکارہ بھر کر اپنے کمرے کی طرف مڑ گئی۔ اس بار وہ دونوں کنویں کے دہانے پر نہیں کھڑی تھیں، روشنی اس کنویں سے نکل چکی تھی جبکہ عزہ اس کی گہرائی میں بیٹھی ہوئی خالی نگاہوں سے آسمان کو دیکھ رہی تھی ۔ اس گہرائی میں وہ اب ان لوگوں کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی جن کا سامنا اس روشنی کے گھر میں اس کے وجود میں مزید اندھیرا بھر دے گا۔
مگر کیا کہے کہ روشنی جو اس کی رگ رگ سے واقف تھی اس نے شرط ہی یہی رکھی تھی کہ اگر وہ وہاں جا کر اچھا برتاؤ رکھے گی تو ہی اس کو یہ مکان ملے گا، جس پر قانونی اور شرعی طور پر اس کا حصہ تو تھا مگر دادی نے مکان مرنے سے پہلے ہی روشنی کے نام کر دیا تھا ۔
لہٰذا عزہ کو چار و نا چار اپنے وجود کو اٹھا کر اس تماشے کا حصہ بننا تھا جس میں اس کی حیثیت ایک موم کی گڑیا کی سی تھی۔
٭…٭…٭
وہی موم کی گڑیا جب بشائر کی حویلی میں داخل ہوئی تو اس کو ایک پل کے لیے لگا کہ اتنی روشنیاں اور اتنے چہرے دیکھ کر وہ پگھل ہی جائے گی ۔ وہ جو ہمیشہ سے ہی اندھیرے کی باسی تھی، روشنی میں آ کر ایک اجنبی سا احساس دل میں لے کر تقریباً ہر تقریب ایک کونے میں بیٹھ کر اس نے گزاری تھی ۔بشائر کی حویلی بہت بڑی تھی اور اس کا دل بہت چھوٹا ۔ روشنی نے اس کے ہر تقریب کے کپڑوں سے لے کر جیولری تک کی شاپنگ کی تھی ۔ یہاں تک کہ گھر پر پہننے والے کپڑے بھی ہر دن کے نئے بنائے تھے مگر جب دل پر بوجھ ہو تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا ۔ کچھ روشنی نے اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کو ان کریزی سیون کے حوالے کر دیا تھا۔
شادی جو خوشیوں کا پیغام ہوتی ہیں، آج کل لمبے چوڑے فنکشنز کے نام پر کوئی اور ہی شکل اختیار کر گئی ہے ۔ یہ بھی شکر تھا کہ کاشان اور روشنی اس جنریشن سے تعلق رکھتے تھے جن پر ابھی کسی انوکھی شادی کے وائرس کا اثر نہیں ہوا تھا ۔ شادی کے تین فنکشنز پر بھی رونقیں اور انوکھی رسومات بشائر کی مرہون منت تھی جس کو اپنے بھائی کی شادی پر خوب ہلا کرنا تھا مگر عزہ جیسی لڑکی کے دل میں اپنی بہن کے لیے ایسے کوئی ارمان نہیں تھے ۔ جتنے لوگ اس کے آس پاس ہوتے تھے اتنی ہی اس کے اندر وحشت بڑھتی جاتی تھی۔
دوسری طرف غازی کی کیفیت ان دونوں کے مقابلے میں درمیانی تھی ۔ اس کے اس طرح کی محفلوں سے وحشت تو نہ ہوتی تھی مگر وہ بیزار جلد ہی ہو جاتا تھا ۔ پھر اتنے عرصے کے تجربے کے بعد اس نے اپنے شیطان کو اتنا تو قابو کر لیا تھا کہ اس کے اندر کی تنہائی دوسروں کی خوشیوں پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی ۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو اب اس کا شیطان اتنا سمجھدار تو ہو ہی گیا تھا وہ ویب سائٹ کے پوپ اپ ایڈز کی طرح ہر وقت نہیں اُبھرتا رہتا تھا بلکہ جب ضرورت ہوتی، تب ہی وار کرتا ۔ وہ اس کی رگ رگ کو جاننے والا، اس کا دشمن بھی تھا اور ساتھی بھی۔
جب غازی نے تھوڑے الگ تھلگ کونے میں بیٹھے اپنے گھر والوں کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ یہ عادت شاید اس کو ورثے میں ملی تھی ۔ اس نے اپنے گھر والوں کے پیچھے بیٹھی عزہ کو دیکھا، جو شائد اسی کی طرف دیکھ رہی تھی، نظر ملنے پر نظر چرا گئی تھی۔
یونیورسٹی کی کینٹین میں بیٹھے غازی کو اس کے آنسو یاد آئے اور پوائنٹ میں بیٹھے اس کا حیرت میں ڈوبا چہرہ جب غازی نے عزہ کو جادوگرنی کہا تھا تو وہ اپنے خیال سے ہی نظریں چرا گیا ۔ پھر ارمان کے اس کو بلانے پر اس طرف متوجہ ہو گیا ۔ ایسے کہ عزہ نامی لڑکی کا خیال بھی اس کے دماغ کو چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔
دوسری طرف، مہندی کے فنکشن میں وہ چپ چاپ مہمانوں کی بھیڑ میں تھوڑا پیچھے کی طرف جا کر بیٹھ گئی تھی ۔ غازی کی طرف اس کی نظریں اٹھی تھی، وہ اس وقت باقی لڑکوں کے برعکس سفید شلوار قمیص میں تھا ۔ وہ اچھا لگ رہا تھا ۔ وہ جیسا بھی ہوتا، عزہ پر فرض تھا کہ وہ اس کو اچھا لگے ۔ غازی نے ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر اس کو دیکھا تو وہ شرم سے نظریں چرا گئی۔
’’ نجانے کیا سوچتا ہوگا میرے بارے میں ؟ ‘‘ خوامخواہ کی شرمندگی ہو رہی تھی۔
’’ کچھ خاص نہیں، بس جادوگرنی سمجھتا ہوگا ۔ ‘‘ اس کے اندر سے آواز آئی تو چہرے پر ایک اُداس سی مسکراہٹ ٹک گئی تھی۔
پھر اپنا دھیان بٹانے کے لیے سامنے دیکھنے لگ گئی۔
’’ یہ ہے وہ لڑکی ؟ ‘‘راجہ اشعر نے اسٹیج پر ہلا مچاتی بشائر کو دیکھ کر فضیلہ بیگم سے پوچھا ۔
بشائر اس وقت لیموں رنگ کی لمبی میکسی میں تھی، جس پر سفید موتیوں کا کام ہوا ہوا تھا ۔ جس کی آستین صرف نام کی ہی تھیں۔
’’ ابھی تھوڑی دیر پہلے تو ملے تھے ان سے ان کے والدین سمیت … ‘‘ فضیلہ بیگم نے ان کو یاد دلایا تھا۔
’’ خاندان تو غازی نے چن کر پسند کیا ہے مگر…‘‘ راجہ اشعر کی نگاہیں ابھی بھی اسٹیج پر ہی ٹکی تھی جہاں ابھی فیملی فوٹوشوٹ ہو رہا تھا۔
’’ مگر لڑکی ویسے نہیں جیسی بہو آپ کو چاہیے تھی ۔ ‘‘فضیلہ بیگم نے ان کے دل کی بات پڑھی تھی۔
’’ آپ لڑکی کی فکر نہ کریں، چودھریوں کی اکلوتی صاحبزادی ہے، اپنی ریاست بڑھانے کے بارے میں سوچیں ۔ ‘‘ راجہ اشعر نے حیرت سے اُنہیں دیکھا۔
’’ آپ مجھے ایسا سمجھتی ہے ؟ ‘‘
ٹھیک ہے غلطیاں ان سے ہوئی تھیں، مگر وہ سب کوششیں نسل قائم رکھنے کے لیے تھیں ۔ انہیں مزید دولت کی خواہش نہیں تھی۔
فضیلہ بیگم نے کندھے اُچکائے۔
’’ مجھے لگا آپ کو دلچسپی ہوگی۔‘‘
راجہ اشعر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’نہیں، خاندان اونچا ضرور چاہیے تھا مگر لڑکی کی جائیداد مجھے جہیز میں نہیں چاہیے ۔ غازی، جو کچھ ہمارے پاس ہے وہی سنبھال لے تو بڑی بات ہے۔‘‘
’’ آپ اب بھی اپنے بیٹے پر بھروسہ نہیں کرتے ؟ رہی بات بشائر کی تو آج کل کی ساری لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ خاندان کو مان دے رہا ہے اور لڑکی ایسی خاندانی چنی ہے کہ آپ کو کہیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔‘‘
اتنا سننے کے بعد ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ دونوں رعب داب سے دیکھنے والے بزرگ اور کوئی نہیں غازی کے گھر والے تھے ۔ ان کی باتیں سن کر اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ٹھہر گئی تھی ۔ پس ثابت ہوا کہ وہ ایسی لڑکی کبھی نہیں بن سکتی تھی جو غازی کی خاندانی عظمت کے مخمل میں مزید چاند ستارے ٹانک دے۔
مگر وہ ایک جادوگرنی تو تھی ناں؟
اس کے دل نے اس کو اپنی اصلیت ضرور یاد دلائی تھی۔
٭…٭…٭
کراچی جہاں پر مارچ میں بہار کے ساتھ گرمی بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد جھلک دکھا کر بتاتی تھی کہ وہ آنے والی ہے، پنجاب کے اس گاؤں میں ابھی بھی اچھی خاصی خنکی تھی ۔ اس نے تاسف سے اپنے چھوٹے چھوٹے آستینوں کو دیکھا اور فنکشن ختم ہونے کے بعد اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی جب اس کو کھڑکی کے پاس کھڑا غازی دکھ گیا تھا ۔ بشائر چہرے پر شرارتی مسکراہٹ سجائے اس کی طرف بڑھی اور اس کو پیچھے سے ’’بوں‘‘کیا۔ پھر وہ شرارتی مسکراہٹ نروٹھے پن میں ڈھل گئی جب غازی چونکے بغیر اس کی طرف مڑا تھا۔
’’ کیا تھا اگر تم ڈر جاتے ۔ ‘‘اس نے شکایتی لہجے میں پوچھا۔
غازی سینے پر ہاتھ باندھے مسکرا دیا۔
’’تم یہاں مجھے ڈرانے آئی تھی۔‘‘
’’ نہیں، میں تو اپنے کمرے میں جا رہی تھی، تمہیں دیکھا تو یہاں آ گئی۔ یہاں کھڑے کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’ باتھ روم خالی ہونے کا انتظار کر رہا ہوں ۔ ‘‘غازی نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔
بشائر پہلے سمجھی کہ وہ مذاق کر رہا تھا مگر اس کے چہرے کو دیکھ کر اندازہ ہی گیا تھا کہ وہ صحیح کہہ رہا تھا ۔ ویسے بھی اس کو گروپ کے باقی لڑکوں کے ساتھ کمرہ شیئر کرنا پڑ رہا تھا ۔ اسے ابھی داماد والا پروٹوکول نہیں ملا تھا۔
’’ خیر، شادی کے گھروں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے ۔ سو انجوائے اور اب میں جا رہی ہوں ۔ ‘‘
’’سنو …‘‘ وہ جو پلٹنے لگی تھی، غازی کے روکنے پر رک گئی تھی ۔ ویسے بھی جب سے اس کا رشتہ بشائر کے لیے آیا تھا، اس کا رویہ تھوڑا سا لچک اختیار کر گیا تھا۔
’’ ٹھیک ہے، دس منٹ رک جاتی ہوں مگر تمہیں نہیں لگتا کہ تمہیں مجھے اپنا کوٹ آفر کرنا چاہیے ۔ ‘‘اس نے اپنے ہاتھ اپنے بازؤں پر رگڑتے ہوئے پوچھا، گویا کہ اس کو احساس دلانا چاہ رہی تھی کہ اس کو سردی لگ رہی تھی۔
’’ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جب تم لڑکیوں کو اتنی سردی لگتی ہے تو آخر تم ایسے کپڑے پہنتی کیوں ہو ! ‘‘اس نے اس کے آستینوں کی طرف اشارہ کیا تو وہ بشائر نے اس کو گھور کے دیکھا۔
’’ کتنے ان رومانٹک ہو تم؟ ایسی سچویشن میں ہیرو ہیروئن کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے اپنا کوٹ دیتا ہے اور تم ہو کہ…‘‘
’’ میں تو صرف اپنی حیرت ظاہر کر رہا ہوں۔‘‘غازی نے ایسے انداز سے کہا جیسے کہہ رہا ہو کہ بھلا اس کا ان سب میں کون سا قصور نکلتا تھا؟
’’ اپنی حیرت اپنے پاس رکھو۔ ایک تو ویسے بھی تمہارے امی اور بابا سے مل کر مجھے اینزائیٹی ہو رہی ہے ۔‘‘
بشائر کو وہ چائے کی ٹرے پکڑ کر غازی کے گھر والوں سے ملنا یاد آیا تو اس نے ایک زور دار جھرجھری لی۔
’’ وہ کیوں ؟ ‘‘غازی نے حیرت سے اس کے رد عمل کو دیکھا۔
’’ میرے ہونے والے سسرال والے جو ہیں؟ ڈر تو لگے گا ہی۔‘‘اس نے بہانہ بنایا۔
در حقیقت ان کو وہ لوگ عجیب سے لگے تھے ۔ اس کے نرم مزاج اور پیار کرنے والے گھر والوں کے مقابلے میں بالکل الٹ‘ مگر جیسے بھی تھے، تھے تو غازی کے گھر والے، اس لیے پہلی بار وہ غازی سے بات کرتے ہوئے محتاط ہوئی تھی۔
غازی نے غور سے اس کو دیکھا، پھر کاندھے اچکا دیے۔
’’ ہاں، میرے گھر والوں سے ویسے بھی ڈرنا چاہیے۔ ان کے دماغوں میں کیا چلتا ہے میں بھی نہیں جانتا۔‘‘
غازی کی بات اور وہ ایزی ہو کر کھل کر مسکرائی تھی۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page