سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 7

’’ کاش جس دن میں نے تمہیں دیکھا تھا تم بھی پلٹ کر دیکھتے ۔ تم مجھے دیکھ کر مسکراتے، میں شرما جاتی ۔ پھر وہاں سے پزل ہو کرچلی جاتی ۔ تم اگلے دن وہی میرا انتظار کرتے، میں تمہیں وہی ملتی۔ اور تمہارے قدم سے قدم ملا دیتی۔ پھر ہم ہر قدم پر ساتھ ہوتے اور پھر…‘‘اور پھر ہچکی دوبارہ بند گئی۔
’’ ایک انسان ہی تو ہے ۔ ‘‘ دماغ کی منطقی جانب نے اس کو سمجھایا۔
’’ کچھ دن گزریں گے تو دل کو قرار آ ہی جائے گا۔‘‘
یہ سوچ کر اس نے آنسو صاف کر کے دل کو دوبارہ تسلی دی۔ وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہو کر اپنے بیڈ پر چلی گئی۔ اس پر لیٹ کر کتنی دیر اپنے سامنے رنگ اڑی دیواروں کو خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہی تھی۔ اس کو نہیں معلوم کہ کب اس کو نیند نے آغوش میں لے لیا۔
اس کے دماغ میں آخری خیال یہی تھا۔
’’ایک شخص ہی تو ہے، دل کو قرار آ ہی جائے گا۔’’
٭…٭…٭
مگر دل کو قرار نہیں آیا ۔ دو دن کی چھٹی کر کے وہ یونیورسٹی دوبارہ گئی تھی ۔ اس ایک شخص کی خواہش میں وہ اپنے کیرئیر کو داؤ پر نہیں لگا سکتی تھی ۔ حالانکہ وہ لگانا تو چاہتی تھی ۔ کیرئیر کیا وہ تو اپنی جان بھی داؤ پر لگانے کو تیار تھی ۔ مگر دل کا کیا تھا؟ دماغ بھی تو ایک شے ہے ۔وہ دماغ جو اس کے جسم کو گھسیٹ کر یونیورسٹی تک لے کر آیا تھا ۔ کلاس میں جا کر کتابیں کھلوائی تھی ۔ ویسے بھی اس نے کل گاؤں کے لیے نکل جانا تھا ۔ وہاں جا کر یہ سوگوار چہرہ لے کر پھرتی تو روشنی نے اس کو قتل کر دینا تھا ۔دماغ کا سروائیونگ سسٹم اس کو چلائے جا رہا تھا۔
ویسے بھی گاؤں جا کر بشائر کا چہرہ دیکھ کر اس کے زخموں سے خون رسنا ہی تھا تو یونیورسٹی جا کر ابھی سے پریکٹس کر لی جائے ۔ مگر آج شاید ستارے اس پر مہربان تھے کہ سوائے ہانہ اور روشان کے علاوہ بشائر کے گروپ میں کوئی بھی یونیورسٹی نہیں آیا تھا ۔ اس میں سے ایک نے اس کو دیکھ کر دھیمے سے سلام کیا تھا اور دوسرے کا چہرہ اس کودیکھ کر کھل اُٹھا تھا۔
’’ باقی سب کہاں پر ہیں ؟ ‘‘ اس نے ان دونوں کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ وہ سب گاؤں کے لیے نکل گئے ہیں ۔ صرف میں، مس شائی اور مسٹر سڑیل آئے ہیں ۔ ‘‘ روشان کو ان کی خاصیت کے حساب سے لوگوں کو پکارنے کی عادت تھی ۔ عزہ نے مسٹر سڑیل کے نام سے ادھر اُدھر دیکھا ۔ آج اس کے دل نے اس کے وجود کی گواہی کیوں نہیں دی تھی؟ مگر وہ کلاس میں نہیں تھا۔
’’ وہ ابھی لائبریری میں ہے۔ ‘‘ روشان نے اس کے ان کہے سوال کا جواب دیا۔
’’مجھ سے یا ہانہ سے کیا بات کرے گا، نہ ہی بشائر ہے اور نہ ہی ارمان…‘‘ روشان نے کب سے اس کے اندر کی باتیں پڑھنا شروع کر دی تھی؟
پروفیسر آئے تو کلاس شروع ہو گئی، تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان کے سامنے بیٹھا تھا ۔ اس کی نظروں نے اس کے وجود کا طواف کیا ۔ یہ دیکھے بغیر کہ اس کی نظروں کا کسی اور کی نظروں نے طواف کیا تھا ۔ ان نظروں میں بھی ایسی ہی اُداس بھر گئی تھی جو عزہ کی نظروں کا حصہ تھی ۔
کلاس ختم ہو گئی، غازی اپنی جگہ سے اٹھ گیا تو وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ دماغ سمجھا رہا تھا کہ اس شخص کے قدموں سے قدم ملانے کا مطلب ریت پر قدموں کے نشان بنانے جیسا تھا ۔ وہ دماغ کو نظر انداز کر کے دل کی سن کر آگے بڑھتی گئی۔
’’ عزہ کہاں جا رہی ہو؟ شائد یہ تم بھول گئی ہو کہ مسٹر سڑیل ہماری پرنسیس کے ساتھ انگیجڈ ہونے والے ہیں ۔ ‘‘ روشان کی بات پر اس کے قدم ریت کے اندر ہی دھنس گئے تھے۔
وہ وہاں سے پلٹی نہیں تھی مگر مڑی بھی نہیں تھی ۔ روشان اس کے ریت پر بنے قدموں کے نشان پر ایک ایک قدم رکھ کر تیزی سے اس کے پاس پہنچا تھا۔
عزہ کی نظریں غازی کے اوجھل ہوتے وجود پر تھی ۔ روشان کا مسکرایا ہوا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے آیا توغازی کا وجود اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا ۔ روشان بشائر نہیں تھا جس کے لیے وہ مروت نبھاتی ۔اچانک سے ایک بائیک اس کے پاس سے گزری تو روشان نے تیزی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو فٹ پیٹھ پر کھینچا ۔
’’دو دن سے کہاں غائب تھی ؟ ‘‘ روشان کا لہجہ نرم اور خوشگوار تھا۔
وہ کہنا چاہتی تھی کہ تم سے مطلب؟ وہ تو وہاں جانا چاہتی تھی جہاں غازی جا رہا تھا ۔ وہ زخمی تھا، وہ اس کے زخم سینا چاہتی تھی مگر حقیقت یہی تھی کہ وہ تو اپنے زخمی دل کی دوا کے لیے اس کے پاس جانا چاہتی تھی۔
’’ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟‘‘ روشان نے اپنا سوال دہرایا۔
دل نے تو عزہ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا ۔ دماغ نے سمجھایا کہ سب کچھ تو کھو دیا تھا، کم از کم ذات کے وقار کو ہی بچا لیا جائے ۔اس نے بے نیازی کا خول چہرے پر سجایا اور روشان کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھا۔
’’ تم جانتے ہو کہ بشائر کے بھائی کی میری بہن سے شادی ہو رہی ہے تو روشنی آپی کے ساتھ شادی کی تیاری میں مصروف تھی ۔ ابھی بھی اس لیے آئی ہوں کہ کچھ نوٹس لے لوں۔‘‘
’’ تو وہ نوٹس مسٹر سڑیل سے لینے جا رہی تھی ؟ ‘‘ اس کے لہجے میں طنز چھلکا تھا۔
’’ تم سے مطلب؟‘‘ اس کی بات پر روشان کے چہرے پر ایک زخمی سی مسکراہٹ آ کر ٹھہر گئی۔
عزہ روشان کو جاننے کا دعویٰ نہیں کرتی تھی مگر پچھلے چھ سالوں سے اس کو تقریباً روز ہی دیکھتی تھی ۔ اتنا تو وہ کہہ ہی سکتی تھی کہ یہ مسکراہٹ روشان کے ہونٹوں کے لیے نئی تھی۔
’’ جن سے مطلب نکلوائے جاتے ہیں، ان سے مطلب بھی رکھا جاتا ہے عزہ!‘‘
عزہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا مگر کوئی لفظ نہ سوجھ پایا تو بس اس کو دیکھ کر رہ گئی ۔ اس لمحے وہ جان کر بھی جان نہیں پائی تھی کہ وہ محبت جو جگہ جگہ سرائے میں قیام کرتی تھی، اس کو اب ایک گھر مل گیا تھا ۔دوسری طرف روشان یہ ضرور جان گیا تھا کہ اس نے جس گھر کی تلاش کی تھی اس میں تو پہلے سے کوئی اور مکین تھا ۔ روشان نے نظریں عزہ کے چہرے پر سے ہٹا کر پیچھے مڑ کر اس جگہ دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے غازی تھا۔ اب وہ وہاں نہیں تھا۔
’’ تم نے صحیح کہا۔ مجھ سے کیا مطلب؟‘‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
مسکراتے ہوئے ابھی بھی اس کے آگے کے دو دانت کسی ویمپائر کی طرح دکھتے تھے۔ مگر اس بار عزہ کو وہ کوئی کیوٹ سا ویمپائر نہیں لگا تھا ۔ اس بار تو وہ اس کو ایک ایسے ویمپائر کی طرح لگا تھا ۔ جو صدیوں سے اپنے کفن میں بند ہو اور اب اس میں خون کی ایک بوند بھی نہیں بچی تھی ۔روشان نے کسی کوچ بان کے سے انداز سے ہاتھ لہرا کر عزہ کو ان قدموں کے نشانوں پر چلنے کی دعوت دی جو اب مٹ چکے تھے ۔عزہ نے دیکھا کہ غازی اس کے تاحد نگاہ میں کہیں نہیں تھا ۔ وہ اپنی منزل پر پہنچ گیا تھا۔ عزہ کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔
عزہ نے ایک نظر روشان کو دیکھا اور اس کے ہاتھ کے اشارے کو ۔ پھر نہ ہی وہ روشان کے پاس رکی اور نہ ہی وہ غازی کے قدموں کے نشانوں پر بھٹکی تھی ۔ وہ وہاں سے پلٹی اور یونیورسٹی کے گیٹ کی طرف مڑ گئی ۔
کئی بار منزلیں وہاں نہیں ہوتی جہاں ہم راستوں کا تعین کرتے ہیں۔
٭…٭…٭
کئی بار راستے تب مل جاتے ہیں جب ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا ۔ وہ بس میں بیٹھی ڈرائیور کا انتظار کر رہی تھی کہ کوئی اس کے پاس آ کر کھنکارا تھا ۔ اس نے چونک کر دیکھا تو وہ غازی تھا ۔ کچھ دیر کو اس کا وہ وہاں ہونا اپنا وہم سمجھی تھی ۔ غازی نے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا ۔ آج وہ اپنی زندگی کا سب سے مشکل کام کرنے والا تھا ۔اس کی گاڑی خراب تھی اور حرا نے اس کو لفٹ دینے کے بجائے یونیورسٹی بس کی طرف موڑ دیا تھا ۔ اور وہ وہاں کھڑا اس آخری سیٹ کو دیکھ رہا تھا جو اس لڑکی کے ساتھ بچی تھی۔
بیٹھنا مناسب تھا بھی یا نہیں؟ اس کو شاید کھڑے ہو جانا چاہیے تھا ۔ عزہ نے الجھے ہوئے غازی کو دیکھا اور اپنے پاس چپ چاپ اس کی جگہ بنا دی۔
’’ کنوینس کے لیے کافی دیر ویٹ کرنا پڑے گا، اس لیے بہتر ہے کہ بیٹھ جاؤ ۔ ‘‘
وہ جگہ بنانے کے باوجود بھی نہیں بیٹھا تو اس کو بولنا پڑا ۔ تھوڑی دیر میں بس نکلنے والی تھی اور کوئی اور اس کے پاس آ کر بیٹھ جاتا تو زندگی کی پہلی مہربانی بھی اس سے چھن جاتی ۔ غازی نے سر ہلادیا اور پہلے اپنا بیگ بیچ میں رکھا اور پھر بیٹھ گیا۔
’’ تم بس میں کیا کر رہے ہو ؟ ‘‘ عزہ کے پوچھنے پر اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’ یہ لڑکیاں بولے بغیر کیوں نہیں رہتی؟‘‘ اس کے اندر سے آواز آئی مگر اس نے اس آواز اور اپنے ساتھ بیٹھے وجود کو ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر دیا۔
جب عزہ نے دیکھا کہ اس کو اس کا جواب دینے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی تو کھڑکی سے باہر دیکھنے لگ گئی۔
’’ گاڑی خراب ہو گئی تھی۔‘‘ غازی کی آواز پر اس نے چونک کر اس کو بے یقینی سے دیکھا۔
اس کی نظروں کا رخ سامنے کی طرف تھا ۔ اور شاید اب بیگ سے کچھ تلاش کر رہا تھا ۔ اس ایک جملے نے عزہ کی حوصلہ افزائی تو کر دی تھی مگر سمجھ نہیں آیا کہ کیا بات کریں اس لیے چپ چپ باہر دیکھنے لگ گئی ۔ دل تھا کہ دوبارہ یاد دلا رہا تھا، اس سے جڑا تعلق بھی اور اس سے ملا زخم بھی ۔ بس چلنے لگی تو کن انکھیوں سے اس کی جانب دیکھا گیا ۔ ایسا اس کو اپنے اتنے قریب دیکھنے کا موقع زندگی میں نجانے کب ملے گا ۔ اب تو ویسے بھی ان کا آخری سمسٹر چل رہا تھا ۔ پھر اس کے بعد وہ بشائر کا ہو جائے گا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے…
اس خیال کے ساتھ ہی دل میں جیسے کسی نے سوئی چبھو دی تھی ۔ اس نے کرب سے آنکھیں موند لی اور اس کے لا پرواہ چہرے پر سے نگاہیں چرا لیں۔ پھر دوبارہ جی بھر کر قریب سے دیکھنے کی خواہش پر قابو نہیں کر پائی تو آنکھیں کھول کر دیکھ ہی لیا ۔ مگر مقابل کو اپنی طرف دیکھتا ہوا پا کر سٹپٹا گئی تھی ۔ یہ دل بھی اس کو ذلیل کروا کر رہے گا۔
اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نظروں کی دوسری طرف کرتی غازی کی آواز نے اس کی نظریں موڑ لی۔
’’ گاؤں کے لیے کب نکلنا ہے ؟ ‘‘
’’ ہونہہ؟‘‘ اس کو تو امید بھی نہیں تھی کہ وہ اس سے ایسا کچھ پوچھے گا۔
’’ کل …کل نکلنا ہے‘ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
غازی نے کندھے اچکا دیے۔
’’ایسے ہی…‘‘
پھر ان دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھا گئی تھی ۔ غازی اپنی دنیا میں گم ہو گیا اور وہ غازی میں…
’’ تم مجھے اتنے غور سے کیوں دیکھ رہی ہو ؟ ‘‘ غازی کی آواز نے اس کو خیالوں کی دنیا سے نکالا۔
’’نن… نہیں، میں تو کچھ سوچ رہی تھی۔‘‘
اس نے سر ہلادیا۔
’’ ایک بات پوچھوں؟‘‘
بھلا غازی کو عزہ سے اجازت کی کیا ضرورت تھی ؟ عزہ نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ غازی نے ایک پل کے لیے اس کی طرف غور سے دیکھا۔
’’ تمہارے خاندان میں کوئی جادو جانتا ہے ؟ ‘‘ غازی کی اگلی بات پر اس کو لگا کہ جیسے کسی نے اس کو آسمان سے زمین پر لا پٹخا تھا۔
’’ جج… جادو؟ نن نہیں تو؟ کیوں؟‘‘
’’ بس کبھی کسی دیکھ کر انسان کے دماغ میں ایک امیج بنتی ہے تو تمہیں دیکھ کر میرے دماغ میں بھی ایک امیج بنی تھی۔‘‘
’’ کیسی تصویر ؟ ‘‘
غازی کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہیں تھی اور آنکھیں جیسے کسی دور نُقطے پر مرکوز تھی ۔ مگر اس کے جواب نے عزہ کی جان نکال دی تھی۔
’’ میرا سٹاپ آ گیا۔‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا تو وہ اس کی پیٹھ کو دیکھ کر رہ گئی مگر اس بار نہ ہی اس کے ہونٹ ہلے اور نہ ہی دماغ میں کافی دیر تک کوئی خیال آیا۔
کسی میکانکی احساس کے تحت وہ گھر تک پہنچی تھی ۔ کتنی دیر بعد دماغ کچھ سوچنے کے لائق ہوا تو بس یہی خیال دماغ میں آیا کہ وہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہنے والا شخص اس کے بارے میں اتنی اہم بات کیسے کہہ سکتا تھا ۔ کیا کہا تھا غازی نے کہ اس کے دماغ میں عزہ کو دیکھ کر کیسی شبیہہ بنتی تھی؟
’’جادوگرنی کی…‘‘غازی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔

جاری ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے