سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 7

’’ کیا ہمارا ایک دوسرے کو سزا دینا ضروری ہے؟‘‘
وہ بھی نرم سا مسکرا دی۔
’’میں کہاں اس لائق کہ کسی کو سزا دے سکوں؟ یہ کام تو آپ کاہے راجہ غازی!‘‘
’’ بشائر…‘‘ اس کے لہجے میں تنبیہہ تھی۔
بشائر اس کے ہونٹوں پر اپنا نام سننے کے ساتھ تھک کر وہی پاس میں سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ گئی ۔ وہ بھی وہی کونے میں ٹک گیا۔
’’میں ناراض نہیں تھا بس یہ برداشت کرنا آسان نہیں تھا کہ جس کے دل پر صرف میں اپنا راج چاہتا تھا وہاں تو پہلے سے ہی کوئی اور تھا۔‘‘
’’ جس کو میں نے خود ہی نکالا تھا ۔ ‘‘ اس کی بات پر غازی نے اس کوچونک کر دیکھا۔
’’ جو رشتے ناسور بن جائے وہ جتنے بھی پیارے کیوں نہ ہو، زندگی جینے کے لیے انہیں دل اور زندگی سے باہر پھینکنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘
غازی کو پہلے اس کی باتیں سمجھ نہیں آتی تھی ۔ مگر اب وہ کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی ۔ اس کی زندگی میں کوئی آیا تھا جس نے بشائر کو محبت سے نفرت کرنا سکھایا تھا مگر پھر بھی اس نے غازی کی محبت کو تسلیم کر لیا، اپنے دل کو داؤ پر بھی لگا کیا ۔ اب کی بار وہ خطرے کو جانتی تھی مگر پھر بھی دل کو اس کے سامنے طاق میں رکھ چھوڑا تھا اور وہ اس بات کو روگ بنا کر بیٹھا تھا کہ جہاں وہ ہے، وہاں پہلے کوئی کیوں تھا ؟ اس پل اس کو اپنا آپ اس سامنے بیٹھی لڑکی کی سامنے بہت چھوٹا لگا تھا۔
وہ تلخی سے مسکرا دیا اور اس کی طرف پورا گھوم گیا۔
’’کیا ہم سب تلخ باتوں کو بھول نہیں سکتے؟‘‘
اس کی بات پر بشائر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’پھر کیا اس کو یاد کرتے رہیں؟‘‘
بشائر نے پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ پھر کیا کروں؟‘‘ آخر کار تھک کر پوچھا گیا۔
’’تم بتاؤ کہ کیا کریں ہم؟‘‘
’’ پہلے شادی کر لیتے ہیں پھر ڈسکس کر لیں گے کہ کیا کرنا ہے ؟ ‘‘ غازی نروٹھے پن سے بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنسی دی تو وہ بھی مسکرا دیا۔
’’ اب ناراض ہوگے مجھ سے؟‘‘
’’ میری توبہ…‘‘
بشائر کھل کر مسکرا دی۔
’’ صحیح جا رہے ہو، معافی مانگنے کی پریکٹس کرتے رہو، اچھے ہسبنڈ میٹریل بن جاؤگے۔‘‘
اس کی بات پر اس نے الجھ کر بشائر کو دیکھا۔
’’ وہ کیوں؟‘‘
’’ میرے لیے…‘‘ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہ خود ہی اپنی بات پر شرم سے لال ہو گئی۔
غازی بھی سر جھٹک کر مسکرا دیا۔
’’اب اتنا لمبا ناراض نہیں ہونا۔ پلیز…‘‘ اس کے لہجے میں التجا چھلکی تھی۔
غازی کو بشائر کا یہ روپ اچھا نہیں لگا۔
’’اور اچھا ہسبنڈ میٹریل بننے کی بھی کوشش کروں گا۔ تمہارے لیے…‘‘ وہ کان کی لو کھجاتے ہوئے تھوڑا سا خجل ہو کر بولا تو وہ بھی مسکرا دی۔
اور وہاں سے اٹھ گئی ۔ پھر اس کے بعد کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا گیا۔ کوئی واپس آنا چاہے تو اس کو آنے دینا چاہیے۔
اس دن وہ جب سب کینٹن میں بیٹھے ارمان کی باتوں میں مگن تھے تو اس نے اتنے دنوں سے رکھا ہوا کارڈ اس کو تھمایا تھا ۔ غازی نے اس کارڈ کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
’’ ویسے اگر تم کہو تو تمہارے گھر جا کر دے آؤں ؟ ‘‘ وہ اس کو چھیڑنے کی غرض سے بولی تھی۔
وہ مسکرا دیا اور جھک کر اس کے کان میں بولا ۔
’’ ہمارے یہاں لڑکیاں شادی سے پہلے اپنے سسرال نہیں آتی؟‘‘
اس کی بات پر نہ چاہتے ہوئی بھی اس کا چہرہ گلابی ہوا تھا۔
’’ اچھا تو آپ کیوں اپنے ہونے والے سسرال آئیں گے ؟ ‘‘
’’ آپ؟ صحیح جا رہی ہو، وائف میٹریل بن رہی ہو ؟ ‘‘ اس کی بار بشائر نے منہ کھول کر غازی کو دیکھا جس نے ایک دن میں بہت پر پرزے نکال لیے تھے۔
’’ یار تم دونوں تو ایسے چھپ چھپ کر سرگوشیاں کرنے لگے ہوئے ہو جیسے تم دونوں کا ہم سے چھپ کر کوئی لوو افیئر چل رہا ہو۔‘‘
وہ جو اس کو جواب دینے ہی والی تھی کہ ارمان کی بات پر وہ دونوں جھینپ گئے۔
جب وہ دونوں اقرار کرکے سب سے مبارک باد وصول کر رہے تھے تو اس کی نظریں بے اختیار اپنی سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف اٹھی تھی۔
وہ جو اپنے آنسو چھپا کر خود بھی کہیں چھپنے جا رہی تھی ۔ غازی کی متجسس نگاہوں نے اس کا دور تک پیچھا کیا تھا جس کے پیچھے جانے کی کسی نے زحمت نہیں کی تھی ۔ ہمدردی کا چھوٹا سا جذبہ اس کے دل میں افسوس میں بدلا تھا۔
’’ جادوگرنی…‘‘ کوئی اس کے اندر بولا تھا۔
٭…٭…٭
بشائر اور غازی سے دور ایک تیسرا کردار تھا جو اس رات ویسا ہی بے چین تھا، جیسے وہ دونوں ہجر سے گزرتے ہوئے تھے۔ عشق کی جس منزل پر وہ تھا، اس کودیوانگی کہا جاتا ہے۔
رات کسی چڑیل کی طرح اس کی گردن میں پنجے گاڑے اس کاخون پی رہی تھی مگر ایسی راتوں سے شہریار کبھی انجان نہ تھا ۔ وہ ان راتوں کا ایسے عادی تھا جیسے کوئی سحر خیز انسان صبحوں کا ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ ایک سنسان دکان میں بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ دکان نہ جانے کب سے خالی پڑی ہوئی تھی، جو آج کل اس کاپسندیدہ ٹھکانہ تھا۔
آج چودھویں کی رات تھی۔ آج اس نے پھر آس اور ناامیدی کے درمیان گزارنی تھی۔
اس کے سر پر قطرہ قطرہ کسی ٹوٹے ہوئے پائپ سے پانی گر رہا تھا۔
شاید کل ہونے والی بارش کا پانی دوکان کی چھت میں رہ گیا تھا اور اب بارش تھمنے کے کتنے گھنٹوں بعد بھی قطروں کی صورت میں اس کے وجود کو جلا رہی تھی ۔ مگر بھلا اس طرح کی آگ کو کوئی قطرہ قطرہ پانی بھی بجھا سکتا تھا ؟آگ کو صرف پانی نہیں بجھاتا آگ کو کبھی کبھار مٹی بھی بجھا سکتی ہیں ۔اگر صحیح مقدار میں ڈالی جائے تو…
یہ آگ تو ایک خاص قسم کی مٹی سے بجھنے والی تھی،کسی شجرِ ممنوعہ سے،کسی ایسے شجر سے جس کو کسی سزا کی طرح اس کی نظروں سے دور کر دیا گیا ہو۔
اس سے اس کی جنّت چھین لی گئی تھی ۔اب زمین کے کسی گوشے میں اس کاٹھکانہ نہیں تھا ۔ دور کہیں سے کتوں کے بھونکنے کی ایسے آوازیں آ رہی تھیں، جیسے وہ کسی کا سوگ منا رہے ہو ۔ اس کوہمیشہ سے ہی یہ بھیڑیے نما جانور بڑے ہی زہر لگتے تھے ۔ کچھ اس لیے بھی کہ ان کی آوازیں ہمیشہ ہی اس کے سکون اور ارتکاز میں خلل ڈالتی تھیں۔
اس نے دور آسمان پر نظر ڈالی ۔ مطلع اتنا صاف تو نہیں تھا مگر اس کی ہر چیز دیکھنے والی آنکھیں سفید بادلوں کے پیچھے سے چاند کی پوزیشن دیکھ کر وقت کا اندازہ کر سکتی تھی ۔ بس کچھ ثانیوں بعد چاند اپنی صحیح جگہ پر موجود ہوگا اور وہ رسم شروع کر سکتا تھا ۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے یہ رسم ادا کررہا تھا مگر ابھی تک اس کوخوشخبری نہ ملی تھی۔
جعفر نے کہا تھا کہ جہاں ٹیلی پیتھی کام نہیں کرتی، وہاں کالا جادو کام کرتا ہے ۔ بقول اس کے یہ جادو اس کے خون میں تھا ۔ مگر سوائے ناکامی کے اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا ۔وہ نہیں جانتا تھا کہ بشائر کہاں تھی ؟ کہاں رہتی تھی ؟ بشائر نے بہت پہلے اپنی خالہ کے گھر کا ذکر کیا تھا مگر وہ اتنے بڑے شہر میں اس کاگھر نہیں ڈھونڈ پایا تھا ۔ اس نے کئی بار اس کوسوشل میڈیا پر ٹریس کرنے کی کوشش کی تھی ۔ یا تو وہ سوشل میڈیا پر تھی ہی نہیں، یا اس کی پروفائل پروٹیکٹڈ تھی ۔ کئی بار اس نے گاؤں جانے کی بھی کوشش کی تھی، مگر چوہدری شجاعت اور کاشان کے آدمیوں نے اس کوپکڑ لیا تھا ۔ ایک بار وہ کامیاب ہو بھی گیا تھا مگر وہ گھر پر نہیں تھی ۔ وہ یقیناً کسی اور شہر سے اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے تھی، مگر کہاں سے وہ نہیں جانتا تھا۔
صرف ایک بار وہ اس کودکھ جائے ۔ صرف ایک بار وہ اس کی آنکھیں دیکھ لے، اس کے لیے دوبارہ سے اس کے دل اور دماغ پر قبضہ جمانا مشکل نہ تھا۔
’’ بشائر! میں صرف اس ایک موقعے کی تلاش میں ہوں۔ صرف ایک موقعہ اور تم میری پھر سے ہو جاؤ گی ۔ کبھی سوچنا بھی مت کہ تم مجھ سے بچ پاؤ گی ۔ کیونکہ میرا نام ہی ابنِ جنون ہے ۔ بہت جلد…‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
وہاں قریب ہی کتے چلا کر نجانے کس چیز کا سوگ منا رہے تھے۔
٭…٭…٭
کبھی آپ نے مٹھی سے ریت پھسلتے ہوئے دیکھی ہے ؟ دھیرے دھیرے، ذرا ذرہ کر کے نیچے گرتی جاتی ہے کہ جب آخر میں انسان اپنے ہاتھ کھولے تو ان کو خالی پائے ۔ اس نے ایک نا ممکن سی امید کو دل میں قید کر رکھا تھا، جس کو وہ اپنے زخمی ہاتھوں سے سنبھالنے کی لاکھ کوشش کرتی مگر وقت بے وقت مٹھی سے وہ امید ریت کی صورت گرتی ہی جاتی تھی ۔ اور جب اس نے مٹھی کھول کر دیکھا تو اس کو اندازہ ہوا کہ وہ تو ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ تھی ۔اس نے سامنے کا منظر بہت غور سے دیکھا، بشائر کے چہرے پر ایسی روشنی تھی، جو پورے جہاں کو روشن کر سکتی تھی۔
غازی… اس نے غور سے اس انسان کا چہرہ دیکھنا چاہا جو اس کے دل کا محرم تھا، جس کو وہ اپنی زندگی کا محرم بنانا چاہتی تھی ۔ جو کسی اور کو دل میں کسی راز کی طرح سما کر بیٹھا تھا ۔ اس کا بند کتاب جیسا چہرہ، اب نجانے کیا کیا نہ کہانیاں سنا رہا تھا ۔اس کے سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا ۔ سامنے بیٹھا جوڑا سب سے مبارک بادیں وصول کر رہا تھا۔
آنسووں کی دھند میں اس کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ اب وہ کچھ دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی ۔ اس سے پہلے کہ سب اس نئے جوڑے سے ہٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے، اس کو اپنے دل کے ٹکڑے کہیں اور جا کر سمیٹنے تھے ۔ اس سے پہلے کہ اس کا وقار بھی اس کے دل کے ساتھ رسوا ہو جائے، وہ دھیما سے ایکسیوز می کہہ کر وہاں سے یونیورسٹی کے گیٹ کی طرف چلی گئی تھی جو کہ شاید روشان کے علاوہ کسی نے سنا بھی نہیں تھا ۔
چاہے کلاس ہو یا نہ ہو، اس کو پرواہ نہیں تھی ۔ وہ پورے ضبط کے ساتھ گیٹ سے رکشہ لے کر گھر پہنچی تھی ۔ تالے میں چابی لگاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپے تھے ۔وہ شادی کر رہا تھا۔ وہ بشائر سے شادی کر رہا تھا ۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچی تو بکھر گئی ۔ ایک وہی گوشہء عافیت اس کو میسر تھا ۔ جو اس کے دل کے ٹکڑے سمیٹنے کے لیے بنا تھا، جو اس کے سارے آنسوؤں کا گواہ تھا، وہ اس کا کمرہ تھا ۔ اس نے بیڈ تک پہنچنے کا بھی انتظار نہیں کیا تھا بلکہ وہی زمین پر ہی بیٹھتی چلی گئی تھی ۔ وہ چیخ نہیں رہی تھی، وہ چلا نہیں رہی تھی ۔ وہ وہی گھنٹوں پر سر رکھ کر بے آواز روئے جا رہی تھی ۔ اس گھر میں رہتے ہوئے اس کو سالوں کا بے آواز رونے کا تجربہ تھا۔
یہ کمرہ جتنا اس کا گوشہء عافیت بنا تھا اتنا ہی اس گھر اور اس کے مکینوں نے اس کو رلایا تھا۔
’’ کیوں میرے دل کے لیے کوئی مراد نہیں ؟ دنیا کی سب سے ہلکی چیزوں میں سے ایک میرا دل ہے، جو سانس تو لیتا ہے مگر زندگی نہیں دیتا۔‘‘
اے میرے دل
تو دھڑکنا نہیں چھوڑنا…
تو بہادر رہنا
تو کیا ہوا کہ زندگی گھٹ گھٹ جاتی ہے
تو کیا ہوا کہ روشنی کے دروازے بند ہیں
اے دل! تو بس دھڑکتے رہنا
تو کیا ہوا کہ محبت مُٹھی میں بند ریت کی مانند ہے…
اس نے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھا اور اپنے بے وقعت آنسوؤں کو دیکھا ۔اس کا بایاں ہاتھ کانپے جا رہا تھا ۔ اس نے غصے سے دوسرے ہاتھ سے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
وہ کانپنا کیوں نہیں چھوڑ رہا تھا ؟ہولے ہولے اس کا جسم کانپے جا رہا تھا ۔ اس کے ہونٹوں سے ایک سسکاری نکلی تھی ۔زندگی سے اس نے بہت کچھ تو نہیں مانگا تھا ۔ ایک غازی اور دوسری اس کی محبت ۔ اس کے بعد زندگی اس کو بھلے کچھ نہیں دیتی ۔اس کو نہیں معلوم تھا کہ زندگی کو ڈیزائن ایسے کیا گیا تھا کہ آپ کی منزل ہمیشہ ہی آپ سے دور رہتی تھی ۔ سارے جہاں کی نعمتیں آپ کے سامنے قطار کی صورت کیوں نہ کھڑی کر دی جائے مگر ایک چیز،ایک شخص آپ کے لیے حسرت بن جاتا ہے۔
عزہ کے لیے غازی ایک حسرت تھا۔
وہ تو راجہ تھا ان جیسی معمولی لڑکیوں کے لیے نہیں تھا ۔ وہ شہزادوں کے گھر پیدا ہوا تھا تو کیسے نہ ایک شہزادی اس کا نصیب بنتی؟
’’ کیا تم بھی دوسروں جیسے ہو راجہ غازی ؟ ‘‘ اس کے ہونٹوں نے اس کے تصور میں ابھرتے ہوئے وجود سے سوال کیا تھا ۔ ہچکی اب تک رک چکی تھی ۔ آنسوؤں کے سوکھے نشان اس کے ستے ہوئے چہرے پر دکھ کا غماز تھے۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے