سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 7

’’ ایسی کیا چیز ہے وہ ؟ ‘‘ غازی کا سوال کسی کھائی سے نکلتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
’’ کہاں کھو گئے ہم ذاد ؟ ‘‘ کسی نے اس کو خیالوں سے جگایا تو اس نے سامنے بیٹھے وجود کو دیکھا جو صرف اس کو دکھتا تھا۔
’’ وہ میں کیا کہہ رہا تھا کہ اب بشائر مادام تو ایک بار پھر سے دھوکے باز نکلی، تو یہ شادی وادی کا سلسلہ کب روکنا ہے؟‘‘
غازی نے سکون سے اپنا بیگ نکالا اور کاپی اور رجسٹر لے کر بیٹھ گیا ۔ وہ شخص اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
’’ مجھے عشق تھا کسی سے۔‘‘ اس نے غازی کے کان میں سرگوشی کی۔
’’ عشق…محبت اور عورت دونوں ان چھوئی ہوئی چاہیے ۔ اور یہاں تو دل کو تو پہلے ہی کسی نے چھوا ہوا ہے۔ کیا پتہ جسم بھی کسی کو سونپ آئی ہو۔‘‘
اب کی بار غازی نے زور کی مٹھی بھینچی اور زخمی نگاہوں سے اس وجود کو دیکھا، جو دن رات اس کے لیے اذیت تھا ۔ جس کا کوئی علاج نہیں تھا ۔ جو اس کو کبھی بھی ایک سیدھی اور اچھی راہ پر چلنے نہیں دیں گا ۔ شیطان تو سب سے ساتھ ہوتے ہیں’ مگر اس کے والا تو اس کو کبھی کبھار سارے شیطانوں کا راجہ محسوس ہوتا تھا ۔
اس نے ایک گہری سانس لی ۔ شیطانی وسوسے سے بچنے کا آسان طریقہ یہی تھا کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے ۔مگر جو شیطان اس کے پیدا ہونے سے پہلے اس کے ساتھ ہو، وہ کیسے نہیں اس کی رگ رگ سے واقف ہوگا۔
’’بشائر جیسی لڑکیوں کو محبت اور مردوں دونوں کا تجربہ ہوتا ہے ۔ وہ اچھی بیویاں نہیں بن سکتیں کیونکہ وہ قابو میں جو نہیں آتی ۔ ‘‘ اس کا یہ ہم زاد اس کی کتابوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
غازی اس کو نظر انداز کر بھی دیتا تو اس کو نظر میں آنے کا ہنر آتا تھا ۔ غازی نے عجیب نظروں سے اپنے ہی ہم شکل کو دیکھا، جیسے کہنا چاہتا ہو کہ ’’بیویوں کو قابو کو کرنا چاہتا ہے؟‘‘
مگر اس کی بات پر اس کے ہم زاد نے کندھے اچکا دیے۔
’’یہ تو تمہارے خون میں ہے۔‘‘
’’ ویسے میری نظر میں تمہارے لیے ایک لڑکی ہے۔ بالکل دل سے ان چھوئی…‘‘
اس کی بات پر غازی چونکہ تھا مگر کوئی سوال نہیں کیا۔
’’ وہ لڑکی ہے نا؟ بشائر کی بھابھی کی بہن؟‘‘ اس نے منہ پر انگلی رکھ کر پوچھا۔
’’ عزہ!‘‘ غازی کے منہ سے نے اختیار نکلا تھا جس پر اس نے غازی کو فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔
’’ ہاں وہی عزہ… تمہیں جس نظروں سے دیکھتی ہے ۔ زندگی بھر تمہاری غلامی کرے گی، اگر تم اس پر ایک نظر ڈال دو تو۔‘‘
’’ مجھے دلچسپی نہیں…‘‘ غازی نے پھر نظریں اپنے نوٹس پر ٹکا دی۔
’’ پھر کس میں ہے؟ بشائر میں؟ واپس جاؤ گے اس کے پاس؟‘‘ اس کا ہم زاد رکا اور غور سے ملگجے سے اندھیرے میں غازی کا چہرہ دیکھا۔
’’ تم واپس جاؤ گے اس دھوکے باز کے پاس…اس سے دور نہیں رہ سکتے ۔ کیا کریں اس کو دیکھ کر دل ہی قابو میں نہیں رہتا ؟ کیا دل ہی نہیں رہتا یہ کچھ اور بھی نہیں رہتا ؟‘‘ اس کا معنی خیزی سے پوچھے جانے والا سوال غازی کے اندر آگ لگا گیا تھا۔
اگر وہ شخص نار نہ ہوتا مٹی سے بنا ہوتا تو وہ اس کو بتاتا۔
’’ ویسے ایک کام کرو، شادی وادی چھوڑو بس ایسے ہی ٹائم پاس کرو اور شادی کسی باکرہ لڑکی سے کر لینا ۔ ‘‘ اس کے شیطان نے اس کے کان میں نئی تجویز پھونکی تھی۔
’’ شادی تو میں بشائر سے ہی کروں گا۔‘‘ غازی کا لہجہ قطعی تھا۔
’’ اوہ! شادی کے بغیر وہ ملے گا نہیں نا جو تم چاہتے ہو!‘‘
اب کی بار غازی نے اپنے ہی وجود کو خفگی سے دیکھا۔
’’ کہاں سے آتی ہے تمہارے دماغ میں یہ واہیات باتیں ؟ شیطانوں کا کوئی خاص اسکول ہے جہاں پر یہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔‘‘
اب کی بار اس کا ہم زاد کھل کر مسکرایا تھا۔
’’ تم بھول گئے ہو راجہ غازی کہ میں تم ہوں اور تم میں‘ تمہاری آنکھوں سے ہی اس دنیا کو میں نے تم سے زیادہ غور سے پرکھا ہے ۔ وہ چیزیں بھی دیکھ سکتا ہوں، جو تمہاری آنکھوں سے چھُوٹ جاتی ہے ۔ اور تمہارے اندر کے سیاہ رازوں سے بھی واقف ہوں، جو تم نے اپنے دل کے چور دروازوں میں بند کر کے رکھے ہوئے ہیں ۔ جس کی چابی میرے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔‘‘
غازی نے کچھ پل اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا ۔
’’ تم صرف میرا خیال ہو، اور کچھ نہیں… میں اب تم سے نہیں ڈرتا اور نا ہی تمہاری باتوں میں آنے والا ہوں ۔ تم نے مجھ سے جو کچھ کروا لیا وہی کافی ہے ۔ ‘‘ اس نے سانس بھر کر اپنا رجسٹر بند کیا۔
’’ تم بھول رہے ہو غازی کہ تم دنیا کے واحد گئے چنے لوگوں میں سے ہو جنہوں نے اپنے ہم زاد کو پا لیا ہے ۔ لوگ تمہیں دیکھ کر پاگل سمجھتے ہوگے مگر تمہیں تو خود پر فخر ہونا چاہیے۔‘‘
غازی نے اس کی ہر بات پر غور کرنے کے بجائے آنکھیں اب نئی کتاب پر گاڑ دی ۔ کچھ دیر تک اس کے شیطان نے انتظار کیا پھر دوبارہ وار کیا۔
’’ ایک کام کرو، دونوں سے شادی کر لو۔ بشائر سے بھی اور عزہ سے بھی۔ ایک کو بیوی بنالینا، ایک کو محبوبہ…‘‘
اب کی بار غازی نے اس کو خفگی سے دیکھا۔ ’’ایسا کون کرتا ہے؟‘‘
’’میں کیا کہوں؟ یہ تو تمہارے خون میں ہے۔‘‘ کندھے اچکا کر بے نیازانہ جواب دیا گیا۔
مگر غازی نے اس کی طرف اب کی بار غور سے دیکھا۔ کچھ چیزیں وہ بھی اس ہم زاد کے متعلق جاننے لگا تھا۔
’’ویسے تمہیں اس عزہ میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟‘‘ غازی نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دلچسپی سے پوچھا۔
’’تمہارے لیے…‘‘
’’میرے لیے تو ہے۔ مگر بات وہ نہیں جو تم بتا رہے ہو۔‘‘ اس نے اس کی آنکھوں سے نظریں ہٹائے بغیر نڈر ہو کر پوچھا۔
’’ مجھے اس سے بو آتی ہے۔‘‘ اس کے ہم زاد نے کھوئے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔
غازی نے آگے ہو کر سرگوشی میں پوچھا۔
’’کیسی بو؟ ‘‘ اس کی سرگوشی رات کے سناٹے میں حویلی کی سفید دیواروں میں کسی راز کی طرح دفن ہو گئی۔ وہ دیواریں جنہوں نے اس حویلی کے اکلوتے وارث کو خود سے ہی باتیں کرتے ہوئے دیکھا۔
’’جادو کی بو…‘‘
٭…٭…٭
دل کے نہاں خانوں میں چھپا پچھتاوا ایک بار پھر سے کسی سانپ کی طرح کنڈلی مارے اس کے بستر پر بیٹھا تھا ۔ آپ اپنی پہلی محبت کو کبھی نہیں بھولتے کیونکہ کئی بار آپ کی پہلی محبت آپ کا پہلا پچھتاوا بھی ہوتا ہے ۔ اور دوسری کو وہ کیا کہے گی؟
’’ غازی…؟ ‘‘ اس کے لبوں نے اس کا نام ضرور لیا تھا مگر نہ ہی دل میں کوئی پچھتاوا تھا اور نہ ہی آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’ تم صحیح تھے غازی کہ محبت کسی بد دعا کا دور ہو جانا ہے ۔ مگر میرا تو وجود ہی بد دعا ہے جو شائد کسی کا نصیب نہ بن سکے ۔ کون مرد ہوگا جو ایسی لڑکی کو اپنائے گا جس کا دل اور دماغ کسی اور کے قبضے میں ہوگا؟ خالی خولی جسم کے طلبگار کو تو میں بھی اپنا آپ نہیں سونپنے والی ۔ تو پھر ثابت ہوا بشائر چودھری کہ تمہاری پہلی محبت پچھتاوا تو دوسری بد دعا ہے ۔ ‘‘
مگر بشائر چودھری ایک جنگجو تھی ۔ وہ کسی بد دعا سے نہیں ڈرتی تھی ۔ محبت کی تھی اور کسی جنگ کی طرح کی تھی ۔ ہار گئی تو کیا ہوا؟ ایک مرد کے ساتھ اپنی زندگی کی خوشیوں کو کیوں مشروط کریں گی وہ ؟ لہٰذا چھٹیوں کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ یونیورسٹی واپس گئی ۔ غازی کو دیکھ کر اس بار اس کی ماورائی نہیں کیا تھا ۔ اس بار اس کو دیکھ کر مسکرا کر سلام کیا تھا اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئی تھی ۔ آخر کو وہ اس کی ہونے والی منگیتر تھی ۔ اس نے بشائر سے بات کرنا بند کر دی تھی مگر بڑوں میں بات چل رہی تھی ۔ غازی نے اپنے گھر پر اس رشتے سے انکار نہیں کیا تھا۔
سو اس نے بھی اپنی طرف سے کوئی بات کر کے خود کو رسوا نہیں کیا تھا ۔ بس دیکھنا تھا کہ یہ سامنے بیٹھا انسان اس کی روح سے محبت کرتا تھا یا پھر شادی کر کے جسم کو حاصل کرنے چاہتا تھا ۔ دن ‘رات ریس لگا کر گزر رہے تھے ۔ کاشان کی شادی قریب آتی جا رہی تھی ۔ اس کے بعد بھی اگر غازی خاموش رہا تو وہ آفیشلی اس کی ہو جائے گی مگر یہاں تو ان دونوں کے درمیان ایک برف کی دیوار جمی ہوئی تھی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اندر کی کشمکش بڑھتی جا رہی تھی ۔ دماغ کہہ رہا تھا کہ شادی تو کرنی ہی تھی تو جو ہو رہا تھا، اسے ہونے دو ۔ دل کہتا تھا کہ اس انسان سے ایک بار جواب تو طلب کر و ۔ وہ کوئی اجنبی ہوتا تو چپ چاپ یہ گھونٹ بھی پی جاتی مگر دل شوہر کی بے رخی برداشت کر سکتا تھا، محبوب کی ایک چپ خنجر کے زخم سے بھی گہری ہوتی ہے۔
اس خاموشی کو نہ جانے کتنے دن برداشت کرتی رہی تھی ۔ یہاں تک کہ کاشان کی شادی کا کارڈ اس کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ اپنے گھر والوں کو شادی میں لے کر آئے گا ۔ ان دونوں کی بات چلے گی اور وہ اس کے نام سے منسوب ہو جائے گی جو اس کا نام بھی لینا پسند نہیں کرتا تھا ۔ یا پھر وہ شادی میں آئیں گے ہی نہیں، اور وہ ایک بار پھر سے اپنے گھر والوں کے سامنے رسوا ہو جائے گی ۔ اس نے کارڈ بانٹنے تھے اور پھر اگلے دن گاؤں واپس چلے جانا تھا ۔ اس نے پہلے ہی بہت دن صرف اس اُمید پر گنوا دیے تھی ۔ گھر سے کال پر کال آ رہی تھی ۔ وہ صرف بہانہ بنا رہی تھی مگر کتنے دن ٹال سکتی تھی؟
یہ اس دن سے ایک دن پہلے کا واقعہ تھا جب اس نے غازی کو کارڈ دے ہی دیا تھا ۔ امی نے کاشان کے ہاتھ حرا سمیت سب کے گھر کارڈز بھجوا دیے تھے، تو اس کو اس کو خاص طور پر بولنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اوراس نے بہانہ بنایا اور دل کو تسلی دی کہ بس اب گھر لوٹ جانا چاہیے تھا اور جو کیا تھا اس کے نتیجے کے لیے تیار رہنا تھا ۔ وہ اس دن یونیورسٹی آئی تو اس کو گیٹ کے پاس ہی مل گیا جس کو وہ کتنے عرصے سے ڈھونڈ رہی تھی۔
اس نے غازی کو دیکھ کر آنکھیں نہیں چرائی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح مسکرا کر سلام کیا تھا جس کا اس نے اس بار جواب بھی دے دیا ۔ بشائر نے ان بھوری آنکھوں میں دیکھا اور پھر آنکھیں جھکا لیں اور ان جھکی ہوئی آنکھوں سے ایک طرف سے نکل گئی۔
’’ زندگی کی خوشیاں ایک مرد کی محبت سے مشروط نہیں ہوتی۔ ‘‘
اس نے دماغ میں منتر پڑھا مگر محبت ہر دم ہر دارو سے دور ہوتی ہے ۔ یہ ایک ایسا منتر ہے جو آپ پر پڑھ دیا جائے تو انسان باقی جادو سے امیون ہو جاتا ہے ۔ یہ کسی مرض کی طرح بیمار کا علاج کر دیتی تھی ۔ بشائر لاعلاج ضرور تھی، مگر زندہ تو تھی۔
دوسری جانب غازی کی زندگی کی ڈور بشائر سے شروع کر اسی پر ختم ہوتی تھی ۔ جس شخص سے اس کو اس کاشیطان بھی دور نہ کر پایا ہو تو اس کو کیوں وہ زندگی سے بھی زیادہ پیار نہ کرتا؟
تو کیا ہوا کہ وہ کبھی کسی اور کی تھی، اس پل تو وہ اسی کے نام ہونے جڑنے جا رہی تھی ۔ خود غرضی ہی سہی اس کی محبت اپنی زندگی کو گنوانا نہیں چاہتی تھی ۔ اس سے پہلے کہ وہ اس کے پہلو سے نکل جاتی ، غازی نے اس کے آگے آ کر اس کے نکلنے کے سارے راستے مسدود کر دیے ۔ بشائر نے اپنی آنکھوں میں جگنو بھر کر غازی کی طرف دیکھا تو وہ سارے لفظ جو اس نے بشائر کو بولنے کے لیے جمع کر کے رکھے ہوئے تھی وہ کسی ٹوٹی ہوئی مالا کی طرح کہیں آس پاس بکھر گئے تھے۔
’’ تم رو رہی ہو؟ ‘‘
غازی کو بھول گیا تھا کہ اس بولنا کیا تھا۔
دوسری طرف بشائر تھی، فائٹر…
جس نے ان آنسوؤں کو آنکھوں کو قید ہی رکھا ۔ ان کو گرا کر خود کو اپنی محبت کے سامنے رسوا نہیں ہونے دے سکتی تھی ۔ کتنے دن بعد وہ سامنے تھا، بات کرنا چاہتا تھا، چپ نہیں تھا، بے رخی نہیں دکھا رہا تھا ۔ وہ جو کہہ رہی تھی کہ اس کی خوشیاں ایک مرد کی محبت سے مشروط نہیں تو یہ ان آنسوؤں کی کیسی شرط تھی کہ ایک غازی کی چپ ٹوٹنے پر بکھرنے کو تیار تھے ۔ وہ اپنے گلے کے اندر بننے والی آنسوؤں کی گلٹی کو پی گئی، آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے آنسوؤں کو وہی قید میں رکھا اور پلکیں اٹھا کر اس کو دیکھا۔
’’ بشائر چودھری کم ظرف انسانوں کے لیے رویا نہیں کرتی۔‘‘
اس کی بات پر غازی کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ ٹھہری تھی ۔
’’ہاں میں کم ظرف ہوں کیونکہ محبت کے معاملے میں مجھے بہت کم ملا ہے ۔ اس لیے کبھی اس دل کے ظرف کو وسیع ہونے کا موقع ہی نہیں ملا۔ پھر بھی جب اس دل میں کوئی بس جاتا ہے تو وہ پھر باہر نہیں جا پاتا ۔ پھر اس کے سو گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔‘‘
بشائر نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
’’ کوئی دل میں بسا ہو یا نہیں مگر گناہ کسی کے معاف نہیں ہونے چاہیے ۔ جدائی گناہ گاروں کا مقدر ہونی چاہیے ۔ ‘‘ بشائر کے لہجے میں کٹیلا پن تھا۔
’’ چلو ایسا ہے تو ایسا ہی سہی؟ پھر میری سزا کیا ہے؟ جدائی ؟ ‘‘ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
’’ سزا تو میری ہونی چاہیے تھی ؟ ‘‘ بشائر کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے آنسو بھی راستہ بھٹکے تھے اور گالوں پر بہہ نکلے تھے۔ اس نے اپنے گالوں پر ہاتھ رکھ کر حیرت سے انہیں دیکھا اور غازی نے اس کے ہاتھوں کو ۔ اس کا لہجہ نرم ہو گیا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے