سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 7

’’ تم چلو میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔‘‘ وہ ایک جگہ رک کر سلمیٰ کو بولی۔
’’ کہاں جا رہی ہیں؟’’سلمیٰ جو راستے میں کھڑی چوڑیاں دیکھ رہی تھی، چونک کر پوچھ بیٹھی۔
’’ جھولوں کی طرف…‘‘
’’ میں بھی چلتی ہوں…‘‘ وہ چوڑیاں چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔
’’ نہیں جی، تم نے اپنے منگیتر کے لیے تحفہ لینا تھا ناں وہ لو ۔ میں کوئی بچی تھوڑی ہوں جو گم ہو جاؤں گی ۔ ‘‘ وہ بظاہر اپنے لہجے کو سرسری سا بنا کر بولی مگر اندر ہی اندر دل کا راز چہرے پر آنے کا ڈر لگ رہا تھا۔
’’مگر…‘‘ سلمیٰ ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔
’’ اگر مگر کچھ نہیں، میں جانتی ہوں کہ تم نے اس سے ملنا بھی ہے اور میں کباب میں ہڈی نہیں بننے والی۔‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اس کودور بھاگنے کا اشارہ کیا تو وہ بھی شرما کر دوسری طرف چل دی۔
اس نے ایک نظر اٹھا کر وہاں دیکھا،جہاں پر شہریار کھڑا تھا۔ اب وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ شہریار نے ایک نظر اس کودیکھا اور دوسری طرف چل دیا ۔ اس کے قدم بھی خود بہ خود اس کی اور چل دیئے ۔ وہ دونوں کچھ فاصلے پر جھولوں کی طرف کھڑے تھے ۔ شہریار ایک جگہ رکا تو اس کے قدموں کو بھی بریک لگا ۔ وہ پلٹا تو وہ پیچھے ہی کھڑی تھی ۔ ایک فخریہ مسکراہٹ شہریار کے ہونٹوں کو چھو گئی ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ آئے گی ۔ اس کواپنی محبت پر یقین تھا ۔ وہ محبت اور دیوانگی جو وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتا تھا، اس کی شروعات ہو چکی تھی، اب وہ اس کوبے انتہاء کرنا چاہتا تھا۔
بے انتہا…
جس کی کوئی انتہا نہ ہو ،جس کی کوئی انتہاء ہو تو وہ شہریار پر ختم ہوتی ہو ۔ اور کوئی ابتداء ہو تو اسی سے شروع ہوتی ہو ۔ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں چاہتا تھا۔
’’کہاں چلنا پسند کریں گی مادام ؟ ‘‘ وہ ذرا سا جھک کر جادوگر کے سے انداز سے بولا تو وہ کھل کر مسکرا دی۔
’’ پہلے تو میں جھولے لوں گی،پھر گولہ گنڈا کھانے چلے گئے، اس کے بعد تمہاری مرضی…‘‘ وہ ایک ادائے بے نیازی سے بولی۔
تو اس نے سر کو خم دے کر اس کوآگے چلنے کا اشارہ کیا ۔ بشائر کو میلے میں لگے سارے جھولے لینے تھے، اس کے باوجود کہ اس کوہر جھولے کے بعد چکر آنے لگ جاتے تھے اور کولڈ ڈرنک کی طلب ہونے لگ جاتی تھی ۔ مگر اس نے ایک بار بھی اس کوبس کرنے کو نہیں کہا تھا ۔ وہ جب جھولے پر بیٹھتے ہوئے کھلکھلا کر ہنستی تو شہریار کے دل میں بس یہی خواہش جاگتی کہ وہ ایسے ہنستی رہے اور وہ اس کوایسے ہی دیکھتا رہے ۔ اس کابچپنا، اس کی شفاف ہنسی، اس کااترانا، ادائیں دکھانا ۔ وہ محبت کی پہلی سیڑھی پر تھا۔
پہلا قدم ایسا قدم ہوتا ہے، جب سب کچھ نیا نیا ہوتا ہے ۔ سب کچھ آنکھوں میں ستارے بھر کر دیکھا جاتا ہے ۔ اسی لیے سامنے دکھتے منظر میں بھی ستارے بھر جاتے ہیں ۔ اس کے لیے بھی بشائر کی طرف دیکھنا، ستاروں کو تکنے جیسا تھا ۔ جب اس ستاروں بھرے محبوب کی جھولے لینے سے بس ہو گئی تو وہ ایک طرف بیٹھ گئی۔
’’ اب گولے گنڈے کا کوئی پلان نہیں ؟ ‘‘ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کوچھیڑتے ہوئے بولا۔
ان کے آس پاس لوگ آ اور جا رہے تھے ۔ سب اپنی اپنی دھن میں مگن تھے، ورنہ کوئی نہ کوئی تو اس طرف دیکھتا ہی سہی کہ چوہدریوں کی اکلوتی بیٹی آخر مائی رحمتے کے لے پالک بیٹے کے ساتھ کیا کر رہی تھی ؟ شہریار کو اس کااحساس تھا ۔ وہ چوہدریوں کا اثر و رسوخ کا اندازہ کر سکتا تھا ۔ اگر کسی کو بھنک بھی پڑتی تو ان کی پہلی ملاقات ہی آخری ہو جانی تھی۔
’’ چلو، یہاں سے کہیں اور چلتے ہیں ۔ ‘‘ وہ اٹھ کھڑا ہوا تو وہ بھی سر ہلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
وہ دونوں چپ چاپ میلے سے نکل کر کھیتوں کی طرف چل دیئے۔ وہ چلتے چلتے آموں کے باغ میں آ گئے تھے ۔ یہ چھوٹا مگر صاف ستھرا باغ اس کااپنا تھا، جو مائی نے اس کے عروج کے دنوں میں خریدا تھا ۔ گو کہ کم ہی سہی مگر اس سے اچھی آمدنی ہاتھ آ جاتی تھی ۔ وہ ایک درخت کے سائے میں بیٹھا تو وہ بھی اس کی تقلید میں کچھ فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی۔
’’ شام ہو رہی ہے۔‘‘ بشائر نے سورج کی ڈھلتی ہوئی سرخی کو دیکھ کر تبصرہ کیا۔
’’ شاماں پے گیا…‘‘ وہ گنگنایا تو وہ کھسیانا سا ہنس دی۔
’’ میں بہت برا گاتا ہوں کیا؟‘‘
شہریار کے پوچھنے پر بشائر نے نفی میں سر ہلایا۔
’’پھر…؟‘‘ شہریار نے اب کی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا تو وہ پزل ہو گئی۔
یہاں تک آ تو گئی تھی مگر اب عجیب سے احساس نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا تھا۔ ایسے جیسے، اس کویہاں ایسے اکیلے اس کے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا ۔ اسی چیز کا اظہار اس نے شہریار کے سامنے کیا تو اس کے مسکراتے لب سمٹے تھے ۔ پھر اس کی حالت کا اندازہ کر کے وہ پھر ہلکا سا مسکرا دیا۔
’’ اچھا یہ دیکھو…‘‘ اس نے اپنے موبائل میں ٹائمر لگا کر اس کے سامنے کیا۔
’’صرف دس منٹ‘ پورے دس منٹ بعد ہم یہاں سے چلے جائے گے ۔ ‘‘ شہریار نے اس کوتسلی دی تو وہ بھی پر سکون ہو کر بیٹھ گئی۔
’’ اب تم اپنے بارے میں کچھ بتاؤ…‘‘ شہریار نے بات کی شروعات کی ۔
اب کی بار اس نے ان دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھایا تھا۔ وہ اس کومزید گھبراہٹ کا شکار نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ کیا بتاؤں ؟ ‘‘ بشائر نے اپنے پسینے سے تر ہاتھوں کو مسلتے ہوئے کہا۔
وہ اتنی دیر اے سی کے بغیر رہنے کی عادی نہیں تھی ۔ کبھی کبھار پورا دن جوش میں آ کر گھوم تو لیتی مگر پھر ذرا دیر میں گھبرا بھی جاتی تھی ۔ ابھی اس پر وہی گھبراہٹ والی کیفیت طاری تھی۔ دوسری طرف وہ اس کااتنا خیال کر رہا تھا کہ وہ اس کوکچھ بتانا نہیں چاہتی تھی۔
’’ یہی کہ تمہیں کیا پسند ہے ؟‘‘
’’مجھے…؟‘‘ فوری طور پر تو اس کوکچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ اس کوبہت کچھ پسند تھا۔ اور ہر چیز اس کی دسترس میں تھی۔
اس نے ایک نظر آسمان کو دیکھا اور پھر شہریار کی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔
’’مجھے آتش بازی بہت پسند ہے ۔ ہمارے یہاں کے میلوں میں نہیں ہوتی ۔ جاپان میں خاص طور پر آتش بازی کے فیسٹیول لگتے ہیں، جس میں لوگ خاص طور پر آتش بازی دیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔ ‘‘ وہ ہاتھ لہرا لہرا کر بولی تو وہ کھل کر مسکرا دیا۔
’’ اچھااور کیا کیا پسند ہیں تمہیں ؟ ‘‘ وہ دلچسپی سے پوچھ رہا تھا اور وہ بتا ہی رہی تھی کہ موبائل کا ٹائمر بجنے لگ گیا۔
اس نے مایوسی سے شہریار کو دیکھا۔ امید تھی کہ وہ ٹائمر بند کر کے اس کواپنی بات جاری رکھنے کا کہے گا، مگر وہ موبائل کا الارم بند کر کے کھڑا ہو گیا تھا تو وہ بھی مایوسی سے کھڑی ہو گئی۔
واپسی کا سفر خاموشی لیے ہوئے تھا ۔ اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ان دونوں نے الگ ہو جانا تھا۔
شہریار نے اس کے صبیح چہرے کو دیکھا اور ایک خیال نے اس کے دماغ کو روشن کیا تو وہ کھل کر مسکرا دیا۔
’’ میں کل چلا جاؤں گا۔‘‘ اس نے اطلاع دی تو بشائر نے سر ہلا دیا۔
اس نے جب تک آنا تھا، بشائر نے بھی چلے جانا تھا۔
’’ تو پھر اللہ حافظ…‘‘ اس نے دور سے ہاتھ ہلایا تو بشائر نے بھی جھجکتے ہوئے ہلا دیا اور گھر کی طرف اپنا رخ کر لیا۔
وہ ایسے ہی اپنے گھر جاتی رہے گی اور وہ اس کوایسے ہی چھوڑتا رہے گا ۔ یہ وہ مستقبل نہیں تھا، جو وہ ان دونوں کے لیے چاہتا تھا۔
اور جو وہ چاہتا تھا، اس کووہ ممکن بنانا جانتا تھا۔
٭…٭…٭
’’اپنی کھڑکی سے باہر دیکھو ۔ ‘‘ یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا،جب ایک اجنبی نمبر سے اس کے موبائل پر کال آئی تھی، اس نے اٹھایا تو وہ شہریار کی کال تھی۔
’’ کیا ہے وہاں ؟ ‘‘ اس نے نیند سے بھری آواز کے ساتھ پوچھا۔ اس کوسوئے ہوئے ابھی پانچ منٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔
’’ بس دیکھو تو سہی…‘‘ دوسری طرف سے اصرار کیا گیا۔
’’کہیں وہ رومیو بن کر کھڑکی سے باہر نہ کھڑا ہوا ہو ۔ ‘‘ اس نے سوچا اور اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا دی۔
’’ کہاں ہو تم؟‘‘ اس نے نیچے کی طرف دیکھا۔ چاروں اور صرف خاموشی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
’’ آسمان پر دیکھو۔‘‘
’’ کیوں؟‘‘ اس کوسمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کیا وہ ہیلی کاپٹر لے کر آ گیا تھا۔
اپنی اس سوچ پر بھی اس کوبہت زور کی ہنسی آئی ۔ مگر دوسرے ہی پل اس کے مسکراتے ہونٹ ایک ’’آہ!‘‘ میں کھل گئے۔
آسمان پر ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوئے تھے ۔ آتش بازی ہو رہی تھی ۔ آگ پھولوں کی صورت آسمان پر بکھری ہوئی تھی ۔ کھلے ہوئے ہونٹ مسکراہٹ کی صورت کھلے تھے اور وہ کھل کر ہنس دی تھی ۔ وہ ہنسی دوسری طرف بیٹھی ہوئے انسان تک بھی پہنچی تھی اور وہ بھی مسکرا دیا تھا۔
’’ کیسا لگا میرا گفٹ ؟ ‘‘ اس کیالفاظ اور اس کی آواز دونوں میں مسکراہٹ گھلی ہوئی تھی۔
’’بہت زبردست…‘‘ اس نے کھل کر تعریف کی۔
’’ میں جانے سے پہلے تمہیں کچھ خاص دینا چاہتا تھا تاکہ تمہیں مہینے بھر بعد بھی میں یاد رہوں ۔ ‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی کہ وہ اُسے کبھی نہیں بھولے گی۔ مگر حیا نے ہونٹوں پر قفل ڈال رکھے تھے۔
دوسری طرف سے خاموشی بھانپ لی گئی تھی۔
’’پھر اللہ حافظ… میں نے پیکنگ بھی کرنی ہے۔‘‘
’’ مائی نہیں کرتی کیا؟‘‘ بے مقصد ہی پوچھا گیا، جیسے بات کو طول دینا چاہتی ہو۔
’’ نہیں بھئی، ان سے اب کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’ اچھا! چلو،ٹھیک ہے ۔ خدا حافظ…‘‘ اس نے آسمان پر نظریں جمائے ہوئے جواب دیا، آواز میں ہلکی سی مایوسی تھی۔
وہ دھیمی دھیمی کسک جو ہمیشہ اس کے ساتھ تھی، وہ اس رات بالآخر ختم ہو گئی تھی ۔ وہ کسک جو کسی کے انتظار میں تھی کہ کوئی ہوگا جو اس کی زندگی میں ایسے ہی رنگ اور آگ بھر دے گا ۔ کوئی ہوگا، جو اس کاہوگا اور وہ اس کی ہوگی ۔ کچھ دیر پہلے کی نیند کا احساس غائب تھا ۔ اس کی زندگی میں کوئی آ گیا تھا ۔ اس کومحبت ہو گئی تھی ۔ یہ احساس ہی اس کورات بھر جگانے کے لیے کافی تھا ۔ مگر وہ یہ نہ جانتی تھی کہ وہ جس کو منزل سمجھتی تھی۔ وہ تو شروعات تھی، نئے راستے کی،کانٹوں بھرے راستے کی…
٭…٭…٭
محبت کے کانٹے بھرے راستوں کا غازی بھی مسافر ہو گیا تھا ۔ جس نے اس طلسم ہوشربا کا پہلا اصول اپنا کر دل کو آگ کے دریا کی بھینٹ تو چڑھا لیا تھا ۔ مگر اب اس آگ میں خود بھی جل رہا تھا ۔ دن تو مصروفیات کی نذر ہو جاتے تھے ۔ پھر جب رات ڈھلتی تو بشائر کا ایک ہی جملہ کانوں میں گونجتا کہ اس نے کسی سے عشق کیا تھا ۔ دن ایسے ہی گزر رہے تھے کہ اس کی ملاقات کسی سے ہی گئی ۔ یہ انسان اب کی بار وہ اس کے سامنے بیٹھا معنی خیزی سے مسکرا رہا تھا۔
’’ میں سوچ ہی رہا تھا اس بار کافی دیر لگا دی تم نے آنے میں، مسٹر چینجلینگ!‘‘
غازی کی بات پر سامنے بیٹھے شخص نے ایک جاندار قہقہہ لگایا ۔ غازی کبھی ہنستا نہیں تھا، اپنے ہی چہرے پر ہنسی دیکھنا اس کے لیے کافی عجیب تھا۔
’’ آخر تم کہانیوں پر یقین کرنے ہی لگ گئے ہو راجہ غازی!‘‘
’’ کہانیوں پر نہیں، سچائی پر ۔ ‘‘ اس کو یاد تھا کہ کچھ عرصہ پہلے محمود جیلانی نے اس کو ان آوازوں کی سچائی بتائی تھی۔
’’ تمہارے اوپر کوئی سایہ، کوئی جادو نہیں ہے۔ بلکہ تم سمجھ لو کہ نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
تب وہ نیا نیا کراچی آیا تھا۔ ایک دن گھبرا کر باہر بیٹھا تو وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئے تھے ۔ وہ کوئی لمبائی داڑھی والے بزرگ نہیں تھے ۔ بلکہ کسی انگریز کی مانند دیکھتے سوٹڈ بوٹڈ انسان تھے ۔ اس وقت بھی نائٹ سوٹ پہنے، سگار دانتوں میں دبائے اس کے پہلو میں براجمان تھے۔
’’ ایسا کیوں ؟ ‘‘ اس نے ان کی طرف دیکھا جو سگار کا کش لگا رہے تھے۔
’’تم اگر کسی کرسی پر قبضہ جما کر بیٹھنا چاہتے ہو تو کیا جب تک تم یہاں بیٹھے ہو تب تک یہاں پر کوئی اور بیٹھ سکتا ہے؟‘‘
غازی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ اور اگر کوئی بیٹھنا چاہے گا تو تم کیا کر گے؟‘‘
’’ میں اس سے لڑوں گا۔‘‘ غازی کا جواب صاف تھا۔
’’ایگزیکٹلی…‘‘
’’ یہی چیز تمہیں چھوڑیں گی بھی نہیں اور کسی اور چیز کو بھی قبضہ نہیں کرنے دیں گی ۔‘‘
’’ اور اس کا علاج؟‘‘
’’ اس کا علاج تمہارے اندر کی اچھائی اور ول پاور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’ اور ایسا کیوں؟‘‘ ہر چیز کا جواب کیوں پر ہی کیوں ختم ہوتا تھا؟
’’کیونکہ تمہارے اندر کی جو آوازیں ہیں، وہ کوئی باہر کی چیز نہیں ہے ۔ وہ تمہارے اندر ہی ہے ۔ ہر کسی کے اندر یہ شیطان ہوتا ہے ۔ مگر تمہارے اندر سے وہ باہر ضرار کی وجہ سے آیا ہے ۔ اس کو ضرار کی شیطانی قوتوں نے طاقتور کر دیا تھا۔‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے