طلسم : قسط نمبر 6
مائی بھی اکثر ہی شام کو ان کے پاس ہی پائی جاتی ۔ اب کی بار وہ بھی ان کے پیچھے چل دیا ۔ مائی کے پوچھنے پر بتایا کہ اس کو حویلی میں کام تھا ۔ عورتوں کی بھیڑ میں رہائشی حصے کی طرف جانا اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا ۔ بشائر کے کمرے میں اس وقت نیم اندھیرا تھا اور وہ اپنے بیڈ پر گھٹنوں پر سر دے کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ خاموشی سے دروازے کے قریب جا کر ایسے کھڑا ہو گیا کہ اگر وہ مڑ کر دیکھ لیتی وہ پردے کی اوٹ میں ہو جاتا ۔ چند لمحے گزرے تو اس کو ادراک ہوا کہ وہ رو رہی تھی ۔ اس کے آنسو اس کو پسند نہ آئے اور اس کو لگا کہ اگر کسی کے آنسو اس کی موت ہوسکتے تھے تو وہ اس کے آنسو تھے ۔ اس کو یاد آیا کہ وہ کسی فون کی فرمائش کر رہی تھی ۔ اس کے پاس اتنی سیونگ تو تھی کہ وہ ایک فون لے سکے ۔ اس نے دماغ میں حساب کتاب کیا کہ شہر جانے اور واپس گاؤں آنے میں اس کو کتنا وقت لگے گا ۔ اپنی زندگی کے چند گھنٹے تو وہ اس لڑکی کے لیے قربان کر ہی سکتا تھا ۔ اگلی صبح سے پہلے اس نے وہ فون لا کر اس کے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔
٭…٭…٭
اگلے کچھ دن اپنے کام کے سلسلے میں مصروف ہی رہا تھا ۔ یہ ایک واحد کام تھا جو وہ ٹک کر کرنا چاہتا تھا ۔ بشائر چوہدری ایک بہت بڑے گھر کی بیٹی تھی ۔ اگر وہ اس کو اپنی زندگی میں لانا تھا تو اس کو زندگی کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا ۔ چوہدری شجاعت کی فیکٹری گاؤں اور شہر کی حدود میں انڈسٹریل ایریا میں تھی ۔ وہاں سے گھر آنے جانے میں اس کی موٹر بائیک کی سہولت کی وجہ سے مسئلہ نہیں تھا ۔ ہاں، جب لاہور جانا ہوگا، تب مسئلہ ہوگا ۔ ابھی تک وہ عزیز کے انڈر یہی پر کام کر رہا تھا۔
پھر اس نے دیکھا کہ چوہدری شجاعت کچھ پریشان تھے تو وہ پھر ان کے گھر میں گیا مگر وہاں خاموشی کا راج تھا ۔ وہ جو اپنا ڈیڑھ سال ضائع ہونے پر اُداس تھا تو اس کو اب اندازہ ہو رہا تھا کہ کوئی بھی سیکھی ہوئی چیز بیکار نہیں جاتی، کہیں نہ کہیں کام ضرور آتی تھی ۔ اس کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کی شعبدہ بازیاں چوہدری شجاعت کی حویلی کے چور دروازے ڈھونڈنے میں کام آئے گی ۔ دوسروں کی نظروں سے بچنے سے اور بشائر کو دیکھنے کے لیے…
یہ تقریباً گیارہ بجے کے بعد کی بات تھی ۔ چوہدری شجاعت کے ملازمین تک جلدی سونے کے عادی تھے ۔ اتنے دونوں میں وہ کئی بار حویلی کے چکر مختلف اوقات میں لگا چکا تھا ۔ اس لیے اس کو کافی حد تک ان کی روٹین کا اندازہ ہو گیا تھا ۔ وہ جیسے ہی بشائر کے کمرے میں گیا تو پریشان ہی ہو گیا۔
وہ لڑکی ایسے سوئی ہوئی تھی جیسے بہت زیادہ روئی ہو ۔ اس کو دیوار کے پاس اس کا دلایا ہوا فون دکھا تھا ۔ اس کی سکرین کے پروٹیکٹر میں کریک آیا ہوا تھا ، ایسے جیسے اس کو بہت زور سے دیوار پر مارا گیا تھا۔
مگر اس کو فون کا افسوس نہ تھا۔ اس کو غصہ بشائر کے آنسوؤں کا تھا ۔ اس کا دل کیا کہ اسی وقت اس حویلی کو آگ لگا دے ۔ اس کے ہاتھوں نے بشائر کے گالوں پر خشک آنسوؤں کے نشانوں کو چھوا تھا ۔ اس نے اپنی جیب سے چھوٹی سی ڈائری جو وہ کام اور ایڈریس کو نوٹ کرنے کے لیے رکھتا تھا، وہ نکالی اور پین نکال کر ایک کاغذ پر چند الفاظ اتارے۔
’’میں نے پانچ مہینوں کی پوری سیلری سے یہ فون خریدا تھا، اس کی ایسی بے حرمتی ۔ ‘‘ اور وہاں سے چپ چاپ اٹھ گیا۔
بشائر کو اپنے وجود کا ادراک کروانا ضروری تھا ۔ وہ اس کے لیے وہ پہیلی بننا چاہتا تھا، جس کو حل کرنے کی چاہ میں وہ اس کی طرف کھینچتی چلی جائے۔
٭…٭…٭
کوئی کسی کو ایسے دیوانہ بنا سکتا تھا، جیسے بشائر نے اس کو بنا دیا تھا ۔ وہ یہ دیوانگی یک طرفہ نہ چاہتا تھا ۔ وہ بشائر کو بھی ایسے ہی بے اختیار کرنا چاہتا تھا جیسے وہ ہوگیا تھا ۔ اس دن وہ جب بازار گیا تو راستے میں اس کے لیے چوڑیاں اٹھا لیں ۔ ابھی تک وہ اس کی موجودگی کو محسوس کر پائی تھی یا نہیں، وہ نہیں جانتا تھا ۔ مگر اب اس کے سامنے آنے سے پہلے اس کو اپنی موجودگی محسوس کروانا چاہتا تھا ۔اس نے چپ چاپ وہ چوڑیاں اس کے کمرے میں چھوڑ دی۔
’’موبائل کی جیسی بے حرمتی کی ہے ۔ اس کی مت کرنا…‘‘ اس نے ایک چٹ پر یہ پیغام لکھ کر چوڑیوں کے پاس رکھ دی اور چپ چاپ اس کے کمرے سے باہر نکل آیا۔
پھر آہستہ آہستہ جیسے کسی چیز کا نشہ چڑھتا ہے، ویسے ہی اس کو بشائر کا نشہ ہوتا جا رہا تھا ۔ بشائر کو یہ بتانے کے بعد کہ وہ فون اس کو اس نے لے کر دیا تھا ۔ وہ کافی دن تک اس کی طرف نہیں گیا تھا ، لیکن جب بھی اس کے پاس وقت ہوتا، وہ دن کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر گھر کے آس پاس پھر کر تھوڑی دیر اس کو دیکھ لیتا ۔ کبھی وہ دادی کے پاس بیٹھی ہوئی ہوتی یا پھر کبھی شایان چوہدری سے لڑ رہی ہوتی تھی ۔ کبھی کبھار رات کے اندھیرے میں وہ اس کے کمرے تک ہو کر آتا تھا ۔ اس کی شعبدہ بازیاں یہاں کام آ رہی تھی ۔ اس کو یاد تھا، ایک کرتب کے دوران اس کو غائب ہونا سیکھنا تھا تو رشی نے کیا کہا تھا؟
’’اصل میں کوئی ہوا میں غائب نہیں ہو سکتا مگر جادو اصل میں ہے کیا؟‘‘
’’جادو نظر کا دھوکا ہے ۔ تو پھر نظروں سے غائب ہونے کے لیے تُجھے ہوا میں غائب ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ کیا کہتے ہیں انگریزی میں… کموفولج ؟ ‘‘ رشی نے دماغ پر انگلی رکھ کر پوچھا۔
’’کیموفلاج…‘‘ اس نے سوچ کر جواب دیا۔
’’ہاں وہی‘تُجھے اپنے ماحول میں اس طرح بلنڈ (بلینڈ) ہونے کی ضرورت ہے کہ تو سامنے تو ہو، مگر کسی کو دکھائی نہ دے۔‘‘
اس نے دو سال اس چیز کی مشق کی تھی ۔ بس فرق یہ تھا کہ سرکس میں کام کے دوران وہ اسٹیج خود اس طرح سے تیار کرتے کہ نظروں کو دھوکا دینا آسان ہو جاتا مگر اب اس کو ماحول کے مطابق خود کو ایسے ڈھالنا تھا کہ دوسروں کی نظروں کو دھوکا دیا جا سکے ۔ ایسا کرتے ہوئے اکثر شرمندگی اور ندامت دل میں جگہ بناتی مگر وہ اس کو میٹھی نیند سلا دیتا ۔ اس کو قریب سے دیکھنے میں ایک الگ ہی سکون تھا ۔
جب ایک دن وہ اس کے کمرے میں گیا تو وہ جاگ رہی تھی ۔ وہ چونک کر پردے کی اوٹ میں ہو گیا۔
’’کیا تم یہاں ہو ؟ ‘‘ بشائر کی نظریں وہی پر ہی تھی، جہاں پر وہ چھپا تھا۔
پہلے اس کا ارادہ چپ چاپ دروازے سے باہر نکلنے کا تھا مگر پھر سوچا کہ کیوں نہ اس کو آزمایا جائے ۔
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں پر ہوں؟‘‘ وہ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے بولا۔
’’چھٹی حس نام کی چیز میرے اندر زیادہ ہے ۔ ‘‘ وہ اب کی بار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی، جیسے وہ اس کی ایگزیکٹ لوکیشن کا اندازہ لگانا چاہ رہی ہو۔
وہ مسکرا دیا۔ اس کو اس کی بات پر یقین نہ آیا تھا۔ مگر وہ اتنا جان گیا تھا کہ وہ لڑکی بیوقوف نہیں تھی ۔ تقریباً دو مہینوں سے وہ مختلف چیزیں اس کے کمرے میں چھوڑ کر جا رہا تھا ۔ وہ اس کے آنے کا وقت کا کیسے اندازہ لگا پائی تھی، وہ نہیں جانتا تھا ۔ اس نے اپنے قیام کے دوران یقیناً کوئی ایسی غلطی کی تھی جو اس کی نظروں میں آ گئی تھی ۔ بشائر نے اس طرف دیکھنے کی کوشش کی جہاں سے آواز آ رہی تھی ۔ اس نے اپنا آپ اس پر ظاہر کر دیا تھا ۔ وہ اس کی طرف ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اس نے کوئی شرط جیتی ہو۔
’’تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگ رہا ؟ ‘‘ اس نے اپنے لہجے کو پرسرار بنا کر کہا ۔ مقصد صرف تھوڑا سا مذاق تھا اور اس سامنے بیٹھی لڑکی کا رد عمل دیکھنا تھا۔
’’ ڈر… کس چیز کا؟‘‘
وہ تھوڑی دیر اس کی طرف دیکھتا رہ گیا، پھر کچھ سوچ کر کندھے اچکا دیے۔
’’صحیح کہا، ڈر کس چیز کا؟‘‘
’’کیا تم انسان نہیں ہو ؟ ‘‘ وہ تھوڑا سا آگے ہو کر جوش سے بولی۔
اس کو اس کا جوش سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ کیا وہ اتنے دنوں کی اس کی کاروائی کو کسی ماورائی مخلوق کا کام سمجھ رہی تھی ؟ اگر ایسا تھا تو یہ لڑکی سچ میں پاگل تھی۔
’’صحیح بولوں تو مجھے خود بھی نہیں معلوم…‘‘ وہ یاسیت سے بولا ۔ جعفر کی باتیں اس کے دماغ میں گونجی۔اگلے ہی پل سر جھٹک کر اس کے پاس آ کر سائڈ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
’’جو بھی ہوں ۔ بس سمجھ لو کہ تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ فکر مت کرو، تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا ۔ ‘‘ وہ اس کو جو بھی سمجھے، مگر یہ گفتگو طویل ہوتی جائے۔
’’یعنی تم انسان ہی ہو۔ تمہیں کسی نے بتایا نہیں کہ کسی لڑکی کے کمرے میں بلا اجازت آنا بد تمیزی ہے ۔ کون ہو تم؟ اور کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ وہ زبردستی اپنے لہجے کو رعب دار بنا کر بولی۔ اس کو شاید اب احساس ہوا تھا کہ ایک لڑکے کا رات کے اس وقت اس کے کمرے میں آنا ٹھیک نہیں تھا۔
شہریار اگر اس کے چہرے کو غور سے دیکھتا تو اندازہ کر سکتا تھا کہ وہاں ڈر اور تجسس دونوں کے نشان واضح تھے۔
’’نہیں، مگر مجھے کسی نے یہ ضرور کہا تھا کہ خوبصورت لڑکیوں کو اپنا نام نہیں بتانا چاہیے ۔ وہ ہمیں قابو کر لیتی ہیں۔ ‘‘ اب کی بار اس نے ٹون بدلی ۔ ظاہر ہے،وہ ایک زبردست اداکار جو تھا۔
’’کیوں؟ تم جن ہو کیا ؟ ‘‘ اس کی آواز کپکپائی تھی۔
’’شاید…‘‘ اس نے کندھے اچکائے ۔
اس کو اسے چھیڑنے میں مزہ آ رہا تھا۔ اس کے معصوم چہرے کے اتار چڑھاؤ، بچوں جیسی حیرت کو قریب سے دیکھنے کا اپنا ہی لطف تھا۔
’’تم سچ میں انسان نہیں ہو کیا ؟ ‘‘ کیا یہ لڑکی یہ جان کر ڈرنے کے بجائے، پرجوش ہو رہی تھی؟
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’کم از کم پورا تو نہیں ۔ میں آدھا انسان ہوں۔‘‘
’’اور آدھے…؟‘‘ اس نے جوش سے آگے ہو کر پوچھا۔
’’آدھا جادوگر…‘‘ اس نے کسی خیال کے تحت کہا۔
’’مگر جادوگر تو پورے انسان نہیں ہوتے ۔ ‘‘ بشائر نے منہ بنا کر پوچھا۔ چہرے پر الجھن کے صاف نشان تھے۔
’’نہیں، ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ اور جادو کرنے کی قیمت یہ ہوتی ہے کہ آپ کو اپنی آدھی انسانیت چھوڑنی پڑتی ہے ۔ ‘‘
نجانے کیوں وہ یہ بولتا گیا ۔ نظروں کے سامنے جعفر کا چہرہ رہ رہ کر آ رہا تھا۔
پھر اس نے ایک نظر گنگ بیٹھی بشائر کو دیکھا اور دھیمے سے بولا۔
’’میں دوبارہ آؤں گا۔ کیا تم میرا انتظار کرو گی؟‘‘
بشائر نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلا دیا۔ اس کو یہ سامنے بیٹھا انسان سمجھ نہیں آیا تھا مگر وہ اس کو سمجھنا چاہتی تھی ۔ اور وہ یہی چاہتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ بھلے ایک پہیلی کی صورت ہی کیوں نہ ہو، مگر وہ اس کے بارے میں سوچے اور سوچتی رہے ۔ دل پر قبضہ جمانے سے پہلے، دماغ پر قبضہ جمانا زیادہ ضروری تھا۔ وہ دماغ جو اگر ساتھ چھوڑ دے تو زندگی بیکار ہو جائے۔
٭…٭…٭
کہانی حرا کے گھر سے دوبارہ شروع کرتے ہیں، جہاں پر ہم بشائر اور غازی کو اس وقت کے سفر میں چھوڑ کر آئے تھے ۔ اس نے ایک بار منہ کھولا، ہونٹ ہلے مگر کوئی لفظ باہر نہیں آیا۔
’’محبت… محبت ہے میرا سب سے بڑا شیطان غازی!‘‘
وہ بولنا چاہتی تھی، مگر محض سوچ ہی سکی،الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ دوبارہ لفظوں کو منانے کی کوشش کی‘ پھر سے کوشش کی گئی ۔غازی نے اس کے ہونٹوں کی جنبش کو غور سے دیکھا ۔ یہ مرحلہ اس کے لیے مشکل تھا ۔ محبت کا تقاضا تھا کہ محبوب کو مشکل میں نہ ڈالا جائے ۔ وہ منڈیر پر بیٹھ کر اٹھ گیا اور دھیمے سے مسکرایا۔
’’ مجھے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ زندگی میں بہت سے حادثے ہو جاتے ہیں اور ہر زخم دکھانا ضروری نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نے سیڑھیوں کی قدم طرف بڑھا دیے ۔ امید تھی کہ وہ بھی اس کے ساتھ آگے بڑھ جائے گی۔ ماضی کی خاک نہیں اڑائے گی۔
ویسے بھی بشائر کی زندگی میں بڑے سے بڑا حادثہ کتنا بڑا ہو سکتا تھا ؟ جو گزر گیا اس پر دھول ہی رہنے دی جائے تو اچھا تھا۔
’’میری زندگی میں کوئی تھا ۔ ‘‘ بشائر کے الفاظ نے غازی کے قدم وہی زنجیر کر دیے۔
جتنے بھی مناظر اس نے بشائر کے ماضی کے متعلق اپنے دماغ میں سوچے تھے ان میں سے ایک بار بھی اس کے گمان میں یہ منظر نہ آیا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ کچھ تھا جو بشائر کی آنکھوں میں اداسی بڑھ دیتا تھا مگر وہ کچھ ’’کوئی‘‘ ہو گا وہ یہ نہ جانتا تھا۔
’’ہمم…‘‘ وہ کھنکارا ۔ بغیر پلٹے اس نے وہی کھڑے کھڑے سوال پوچھا ۔
’’کیا تمہیں اس سے محبت تھی ؟ ‘‘ اس کی نظر ڈوبتے ہوئے سورج پر تھی۔
’’نہیں ۔ ‘‘ بشائر کی آواز اب کی بار مضبوط تھی۔
اس کے اندر سکون اُترا مگر وہ سکون ایک لمحے بھی نہ ٹھہر پایا۔
’’مجھے اس سے عشق تھا ۔ ‘‘ غازی کے اندر کوئی بہت زور کی ہنسا تھا۔
لوگوں نے اپنے شیطان پنجرے میں قید کر کے رکھے ہوتے ہیں ۔ غازی کا زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ۔ بشائر کے ایک جملے نے غازی کے شیطانوں کی زنجیریں کمزور کردی تھیں۔
اگر عشق تھا ہی تو کیا بتانا ضروری تھا؟
’’میں بیمارِ عشق ہوں غازی اور یہی میرا شیطان ہے۔‘‘
غازی نے اس کو کچھ نہیں کہا، اور نہ پلٹ کر دیکھا ۔ اگر وہ دیکھتا تو اس کی آنکھوں کی سرخی، اس کا مٹھی میں بند ضبط، سب کچھ بشائر کو دکھ جاتا۔
’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ اس نے بمشکل دو لفظ ادا کیے۔
’’ٹھیک ہے؟ اور کچھ نہیں کہو گے؟‘‘ بشائر کی آواز میں نمی چھلکی تھی۔
غازی کو اپنا آپ کمزور لگا مگر وہ یہ کمزوری اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ٹھیک ہے…‘‘ اس نے وہی کھڑے کھڑے بغیر پلٹے، گردن موڑ کر اس کو دیکھا۔
’’تم نے کہا اور میں نے سن لیا، بس بات ختم…‘‘ اس نے یہ کہہ کر سامنے دیکھا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
بشائر نے اس کی پیٹھ دیکھی اور اس کو اپنی نظروں کے سامنے سے اوجھل ہوتے ہوئے دیکھا۔
’’مرد اپنی محبت میں بہت پوزیسیو ہوتا ہے ۔ میرا بس چلے تو تمہیں ہواؤں سے بھی بچا کر رکھوں ۔ دنیا کی کوئی شے تمہیں نہ چھوئے، تمہیں کوئی نہ دیکھے، سوائے میرے…‘‘
کسی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی ۔ وہ اس پل جان گئی تھی کہ غازی وہاں سے نہیں، اس کی زندگی سے چلا گیا تھا ۔ اس کے دل میں پچھتاوے کی شدید لہر اٹھی ۔ پچھتاوا غازی کو سچ بتانے کا نہیں تھا بلکہ محبت کو ایک اور موقع دینے کا تھا۔
جاری ہے