سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 6

’’تمہیں وہ الہ دین کے چراغ کا جن معلوم ہے جس کو لینے کے لیے الہ دین غارمیں اترتا ہے؟‘‘
شہریار نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ اس نے لاکھوں نہیں تو یہ کہانی ہزاروں بار ضرور سنی تھی۔
’’تم اس کہانی میں الہ دین کے چراغ کے جن ہو۔‘‘
٭…٭…٭
وہ پہلے ہی اس سرکس بازی اور ٹیلی پیتھی کے چکر میں سال سے اوپر وقت ضائع کر چکا تھا ۔ رزلٹ آئے ہوئے بھی مہینے گزر چکے تھے مگر اس نے نہ آگے ایڈمیشن لیا اور نہ ہی کہیں نوکری تلاش کی ۔ جعفر کی بات نے اس کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ وہ شہر تو چھوڑ آیا تھا مگر جعفر کا دعویٰ تھا کہ وہ واپس آئے گا۔
’’جڑیں کسی کو نہیں چھوڑتی ۔ جڑیں، ہر پودے کو واپس بلا لیتی ہے ۔ تم بھی واپس آؤ گے ۔ زندگی میں کوئی نہ کوئی موڑ ضرور آئے گا کہ تمہیں اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے کی ضرورت پیش آئے گئی۔‘‘
جعفر کا کچھ مطلب اس کو سمجھ آیا تو کچھ نہیں…
وہ ان دنوں اٹھتے بیٹھتے مائی کے منہ سے کئی بار مہنگائی کا رونا سن رہا تھا اور اس کو خود بھی احساس تھا کہ اس کو کوئی کام کرنا چاہیے مگر کچھ تھا جو اس کو روک رہا تھا ۔ شاید پرانی ناکامی یا پھر اپنی ذات کی تلاش ۔ دوسرا وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا مگر مائی کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی تھی ۔
چوہدری شجاعت کو سب جانتے تھے ۔ یہ مائی تھی جو چاہتی تھی کہ وہ ان سے مل لے۔
’’میں نے سنا ہے کہ شہر میں بڑا کاروبار ہے ان کا ۔ تو ایک کم کر کہ ان کے پاس جا اور ان کو نوکری کا بول ۔ ‘‘ وہ نہیں جانتا تھا کیوں مگر وہ مائی کو اداس نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
وہ ان کو نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس کو ایسے چھوٹے موٹے کام نہیں کرنے۔
’’مائی، بہت پیسے جمع کر رکھے ہیں میں نے‘ آپ فکر نہ کرو ۔ ‘‘ زبان صاف تھی اور لہجہ شائستہ۔
شوبز نے اس کو جو چرب زبانی اور اداکاری سکھائی تھی، اس نے جانا تھا کہ چاہے دنیا کا کوئی بھی شعبہ ہو، آپ کو اچھی اداکاری اور زبان کا صحیح استعمال ہر میدان میں کامیابی دلا سکتا ہے۔
’’ہاں مگر بیٹھے بیٹھے تو خزانہ ختم ہو جاتا ہے ۔ ‘‘ وہ اب مائی کو کیا بتاتا کہ وہ خود اپنا آپ تلاش کر رہا ہے، اس کو اب پیسوں کی کم اور اپنے آپ سے ملنے کی زیادہ ضرورت تھی۔
’’پھر بھی تجربہ آتا ہے تو کاروبار انسان صحیح سے کر پاتا ہے ۔ چوہدری جی کا بہت بڑا کاروبار ہے شہر میں ۔ تو ایک بار مل تو سہی ۔ میں نے بات کی تھی چوہدرائن سے ۔ وہ کہہ رہی تھی کہ تجھے بھیج دوں ۔ ‘‘
اس کو پتہ تھا کہ اس کو کیا کرنا تھا۔ اس نے جا کر ملنا تھا اور آکر جھوٹ بولنا تھا ۔ جھوٹ بول کر دوسرے انسان کو آئینے میں اتارنا اس کا نیا ہنر تھا ۔ اس وقت تو وہ سر ہلا کر چوہدری کے گھر کی طرف چل دیا ۔ اگر وہ کوئی ماورائی مخلوق ہوتا اور اس کے پاس ستاروں کے پاس جا کر حال سننے کی طاقت ہوتی تو وہ پھر بھی نہ جان پاتا کہ چوہدری کے گھر جانا اس کی زندگی بدل سکتا تھا۔
٭…٭…٭
وہ اس وقت چوہدری شجاعت کے گھر بیٹھا ہوا تھا، جب اس کو وہ دکھی تھی ۔ وہ مون سون کی شامیں تھیں ۔ کچھ دیر پہلے ہی بارش زمین کو سیراب کر کے گئی تھی اور اب زمین کی خوشبو اپنی خوشی کا پتہ دے رہی تھی ۔ وہ اس وقت چوہدری کی بیٹھک میں بیٹھا بے خیالی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔
’’کب تک آنا ہے چوہدری صاحب نے ؟ ‘‘ اس کے انداز میں صاف بیزاری تھی۔
اس کا پڑوسی جمال عرف جمالا نے اس کو ایسی نظر سے دیکھا جیسے اس نے کسی بڑی ہستی کی شان میں گستاخی کر دی ہو۔
’’تمیز سے کاکے، وہ ابھی باہر ہیں ۔ انتظار کر تھوڑا اور تو ۔ ‘‘
جمال کے بچوں کی پڑھائی کا انتظام چوہدری شجاعت نے ہی کیا تھا، اس لیے اس کا ان کے لیے احترام اس کو سمجھ آتا تھا۔
وہ بیزاری سے اٹھ کر ٹہلنے لگ گیا تھا ۔ چوہدریوں کی بیٹھک میں سوائے صوفوں کے کچھ بھی قابل ستائش نہ تھا ۔ صوفوں کے علاوہ وہاں اگر کچھ اور تھا تو وہ پینٹنگز تھیں۔ تین دیواروں پر تین سے چار پینٹنگز ایک خاص ترتیب کے ساتھ لگی ہوئی تھیں، جبکہ چوتھی دیوار پر بڑا سا گھڑیال اس کا منہ چڑھا رہا تھا ۔ اس کو انتظار کرتے ہوئے تقریباً پونا گھنٹہ ہونے کو آیا تھا ۔ اور چوہدری شجاعت کیا، ان کا کوئی ملازم بھی نہ آیا تھا ۔ بس چوکیدار نے دروازہ کھولا تھا اور ان دونوں کو وہ اس کمرے میں بیٹھا کر یہ کہہ کر چلا گیا تھا کہ وہ چوہدری صاحب کو بلا کر لاتا ہے ۔ جب ٹہلنے سے بھی کوئی کام نہ بنا تو اس نے بیزاری سے بیٹھک کی کھڑکی سے باہر دیکھا تو جیسے مجسم ہو گیا ۔ باہر سے چوہدری کے گھر پر بنگلوں کے طرز پر بنا ہوا لان تھا ۔ دور تک نظر آتا گھاس کا قطعہ ہی شاید باہر ملک سے برآمد کیا گیا تھا ۔ جو پھلوں اور پھولوں کے مختلف پودوں اور درختوں کے درمیان گھرا ہوا تھا ۔ گاؤں میں رہتے ہوئے بھی چوہدریوں کے گھر کا یہ حصہ دیکھنے والوں کو ایک پل کو مبہوت ضرور کرتا تھا مگر اس وقت وہ منظر باغ کا نہیں تھا جس نے اس کی سانسیں روک دی تھی ۔ پہلے سفید پنڈلیاں تھی جو اس کو دکھائی دی تھی، پھر کمر سے بھی نیچے آتے شہد رنگ بال ۔ وہ اس وقت باغ میں کسی اونچے سٹول پر چڑھی کچھ آم اپنے ہاتھ میں پکڑی ٹوکری میں ڈال رہی تھی ۔ وہ تھوڑا آگے ہوا تو شہد رنگ بالوں کا سر اس کو دکھائی دیا تھا ۔
اس نے سر پر موتیے کے پھولوں کا تاج پہنا ہوا تھا ۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ وہ چہرہ دیکھے بغیر ہی اسیر ہو گیا تھا ۔ جمال نے اس کو پیچھے سے پکارا، مگر اس نے جیسے سنا ہی نہ تھا ۔ دن اپنے زوال کی طرف گامزن تھا ۔ موتیے کی خوشبو، مٹی کی سوندھی خوشبو، شام کا فسوں، کسی کی لمبی زلفیں، وہ چاہ کر بھی نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا۔
’’بشائر بی بی اندر آ جائیے ، بڑی بی بی کہہ رہی ہے کہ مغرب کا وقت ہو رہا ہے ۔ ‘‘ کوئی عورت اندر سے آ کر اس لڑکی کو بولی تھی۔
’’دادی کو بول دو کہ کچھ نہیں ہوتا ۔ ‘‘ وہ اس کا جواب دینے کے لیے مڑی تو وہ اس کا چہرہ دیکھ پایا تھا۔
اس کا چہرہ اس کے سراپے سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ مگر خوبصورتی سے زیادہ کچھ اور تھا جو اس چہرے کو خاص بناتا تھا ۔ ایسا معصوم چہرہ اس نے کہاں دیکھا تھا ؟ اس کو نہیں پتہ کہ خوبصورتی کا معیارر کیا تھا؟ وہ کیسی دیکھتی تھی؟ اس کے لیے اگر کوئی خوبصورتی کا معیار تھا تو وہ یہ لڑکی تھی۔
’’کاکے، یہاں آ جا‘ کیا کر رہا ہے ؟ چوہدری کی دھی ہے ۔ اپنے ساتھ مجھے بھی لے ڈوبے گا تو ۔ ‘‘ اب کی بار جمالے نے اس کو زبردستی پیچھے کیا اور صوفے پر بٹھایا، مگر اس کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔
اس کو لگا جمالے کے پکارنے پر اس لڑکی نے ایک پل کے لیے کھڑکی کی طرف دیکھا تھا، مگر اس سے پہلے ہی جمالا اس کو زبردستی وہاں سے ہٹا چکا تھا۔
’’کیا ہوا کاکے؟ تو اتنا ٹھنڈا کیوں ہو رہا ہے؟‘‘ جمالا اب کی بار کچھ تشویش سے بولا۔
اسی وقت دروازہ کھلا اور چوہدری شجاعت کا رعب دار سلام اس کے کانوں میں گونجا ۔اس نے تب بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھا ۔ اس کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے جسم میں نہ تھا ۔ وہ سب کچھ دیکھ سن رہا تھا مگر محسوس نہ کر پا رہا تھا ۔ ایسے جیسے یہ قصہ کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہو، اور اس کی حیثیت صرف تماش بین کی سی ہو ۔ اس نے دیکھا کہ کیسے اس کا جسم کانپنے لگ گیا تھا، کیسے چوہدری تشویش سے اس کو دیکھ رہے تھے ۔ انہوں نے کسی کو اس کی ماں کو بلانے کا بولا، پھر اپنے ملازم سے کہہ کر اس نے اپنے بیٹے کو بلانے کو کہا۔
ان کا بیٹا آیا اور اس کو چیک کیا۔
’’اس کا بی پی بہت زیادہ لو ہے ۔ ‘‘ اس نے بی پی چیک کرنے کے بعد، اپنے باپ اور مائی کو بتایا۔
’’موسم میں حبس بھی تو بسا ہوا ہے ۔ ‘‘ یہ جملہ نجانے کس نے کہا تھا؟ اس کو سمجھ نہ آیا۔
’’مائی رحمتے، آپ دونوں چاہیں تو اس کے ہوش میں آنے تک یہی رہیے ۔ میں کسی ملازم کے ہاتھ کھانا بھجوا دیتی ہوں ۔ ‘‘ یہ کسی عورت کی آواز تھی، جب مائی نے اس کو چودھرائن کہہ کر مخاطب کیا تو وہ جان گیا کہ یہ عورت چوہدری کی بیوی تھی۔
اس نے غور سے دیکھا تو اس کو چہرہ جانا پہچانا لگا ۔ وہ اسی لڑکی بشائر کا چہرہ تھا، مگر تھوڑا عمر دراز، تھوڑا الگ، تھوڑا کم معصوم ۔ اس کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ بیہوش تھا تو وہ یہ سب کیسے دیکھ سکتا تھا ۔ پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کو آہستہ آہستہ اپنا جسم دوبارہ محسوس ہونے لگ گیا تو اس نے آنکھیں کھولی۔
’’تو ٹھیک ہے کاکے ؟ ‘‘ مائی نے فکر مندی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ہوا کیا تھا تجھے کاکے؟‘‘ مائی کی ابھی بھی تسلی نہ ہو رہی تھی۔
اس نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا تو ایک لفظ نہ منہ سے نکال پایا، مگر مائی کے سوال میں اس کے دماغ میں ایک ہی لفظ آیا تھا۔
عشق…
٭…٭…٭
تین دن لگے تھے اس کو حویلی کے چور دروازے پتہ کرنے میں ۔ چوہدری شجاعت نے اس کو دوبارہ بلایا تو وہ وہاں آیا تھا۔ اس نے ان کو اپنا تجربہ بتایا تو وہ کافی متاثر نظر آئے۔
’’تم تو بہت ہوشیار بچے ہو شہریار ،اتنی سی عمر میں اتنا کچھ کر لیا ۔ مجھے خوشی ہوگی اگر تم میرے ساتھ کام کروگے ۔ تم ایک کام کرو کہ لاہور میرے آفس چلے آؤ ۔ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ایک چھوٹا سا انٹرویو کر لیتے ہیں ۔ پھر دیکھتے ہیں کہ تمہاری صلاحیتوں کو کہاں صحیح استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔‘‘
ان کے جواب سے وہ خوش نہ تھا ۔ وہ اس سے بڑھ کر چاہتا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟ کچھ اور ہے دماغ میں ؟ ‘‘ چوہدری شجاعت چہرہ شناسی جانتے تھے۔
’’میں چاہتا ہوں کہ ڈائریکٹ آپ کے انڈر کام کروں ۔ میں آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں کہ کاروبار کیسے شروع کروں اور اس کو کیسے وہاں تک لے کر جاؤں، جہاں پر آپ کا کاروبار ہے ۔ ‘‘ اس نے اپنا مدعا صاف صاف بیان کردیا۔
حالانکہ وہ پہلے چاہتا تھا کہ چوہدری شجاعت انکار کردیں۔ مگر جب سے وہ معصوم چہرہ دیکھا تھا تو آنکھوں میں جیسے اس کی تصویر فٹ ہو گئی تھی ۔ اب ایک بار دیکھ کر بار بار دیکھنے کی طلب تھی اور اس تک جانے کے راستے میں چوہدری شجاعت دروازہ تھے۔ اسے اب ان کے قریب رہنے کی ضرورت تھی ۔ خاص طور پر اب اس لڑکی کو دیکھنے کے بعد تو اس کے سارے راستے اسی دنیا سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتے تھے ۔ چوہدری اس کی بات پر زور سے ہنس دیے۔
’’مجھے اچھے لگتے ہیں تمہارے جیسے نوجوان ‘کسی زمانے میں میں بھی ایسا تھا ۔ مگر خوش قسمتی سے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے میرے پاس وسائل تھے۔‘‘
’’خیر صحیح بولوں تو میرے ڈائریکٹ کمانڈ میں میرا پی اے ہی ہے مگر وہ جاب تمہیں ابھی نہیں مل سکتی ۔ ‘‘ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئی افسوس سے بول کر جانے لگے تھے‘پھر کچھ سوچ کر واپس مڑے ۔
’’مگر میں تمہیں اپنے پی اے کے پی اے کی جاب دے سکتا ہوں ۔ ویسے بھی وہ بہت شکایت کرتا ہے کہ میں اس سے بہت کام کرواتا ہوں ۔ اس طرح وہ بھی خوش ہو جائے گا ۔ ہماری مین فیکٹری یہی پر ہی ہے، یہاں سے گڈز لاہور ہمارے مین آفس ٹرانسفر ہوتی ہے اور وہاں سے پھر پورے پاکستان اور ایکسپورٹ ۔ تم کل آ جانا، میرا پی اے تمہیں کام اور سیلری کی ڈیٹیلز بتادے گا ۔‘‘ وہ کھڑے ہوئے تو وہ بھی ساتھ کھڑا ہو گیا۔
’’مگر یہ یاد رکھنا، اپنے اصولوں اور کام کے معاملے میں عزیز بہت سخت ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے پی اے کے بارے میں اطلاع دی تو وہ مسکرا دیا۔
’’آپ کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی سر ! ‘‘ اس کے لہجے میں اعتماد بولتا تھا جو اس کی آنکھوں تک پہنچ کر مقابل کو اس کی ہر بات پر یقین کرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔
چوہدری شجاعت کی ایسے نوجوان کو دیکھ کر آنکھیں مسکرائی تھیں ۔ ان کو وہ پہلی ہی ملاقات میں اچھا لگا تھا ۔ انہوں نے ’’ان شاء اللہ‘‘ کہہ کر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس نے گرم جوشی سے ان کے ہاتھوں کو تھام لیا ۔ وہ مصافحہ کر کے جانے لگا ہی تھا تو کسی کی خوشبو سے وہی رک گیا۔ چند لمحے اس نے اس وجود کو دور سے ہی دیکھا تھا ، مگر سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے وہ اس کی خوشبو پہچان گیا تھا۔ اس نے چوہدری شجاعت کے گھر کے رہائشی حصے کی طرف جانے کا وہی کھڑے کھڑے انتظار کیا تھا ۔ اس کا دل کہتا تھا کہ وہ وہی تھی، کہیں قریب ہی۔
پھر جیسے خود بہ خود اس کے قدم رہائشی حصے کی طرف مڑ گئے تھے ۔ چوہدری شجاعت یاروں کے یار تھے ۔ کسی سے کوئی خاص دشمنی نہ تھی ۔ کاروباری رقیبوں سے بھی بنا کر رکھی ہوئی تھی۔ پھر آدھے وقت میں وہ اور ان کی زوجہ لاہور اور کراچی ہی رہتے تھے ۔ بچے بھی دوسرے شہروں یا ملکوں میں پڑھتے آ رہے تھے ۔ اس لیے اس گھر میں کسی بھی قسم کی سیکیورٹی نہیں تھی۔ زیادہ تر بڑی چوہدرائن سے ملنے ملانے کے لیے پورا دن عورتیں رش لگا کر رکھتی تھیں۔ ایسے میں ان کا گھر گھر کم گاؤں کے لوگوں کے لیے پناہ گاہ زیادہ تھا ، جہاں وہ بڑی چوہدرائن کے پاس کبھی بھی، کوئی بھی عورت فریاد لے کر آ جاتی تھیں ۔ یہ سب معلومات اس نے باتوں ہی باتوں میں مائی سے لی تھی ۔ خیر، یہ معلومات کوئی ڈھکی چھپی نہیں تھی، مگر اس نے کبھی چوہدری اور اس کے خاندان میں کوئی دلچسپی نہیں لی تھی کہ اس کو یہ سب معلوم ہوتا ۔ وہ رہائشی حصے کے دروازے کے سامنے ہی کھڑا ہو گیا ۔ صحیح بات تھی کہ وہ ایک دم اندر نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی اس کو کوئی بہانہ سمجھ آیا تھا ۔ اس نے ادھر اُدھر دیکھا تو ایک درخت کے پاس اس کو کھڑکی نظر آئی تھی۔
اس نے ایک طرف سے اندر جھانکا تو وہ اس کو دکھی تھی ۔ وہ بلیو جینز پر سفید لمبی کرتی پہنے ہوئے تھی۔ اپنے بابا کے گلے لگ کر وہ کسی فون کی فرمائش کر رہی تھی۔ مگر اس کی ماں کے انکار پر اس نے برا سا منہ بنایا اور پاؤں پٹخ کر کمرے میں چلی گئی ۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں لاؤنج اور اس کے کمرے کے دروازے کو ناپا ۔ شام کے وقت بڑی چوہدرائن گاؤں کی عورتوں کو پاس بلا کر درس دیتی تھیں اور ساتھ میں اگر کسی نے کوئی بات کرنی ہو، کوئی فریاد یا اِلتجا، کوئی مسئلہ بتانا ہو، وہ بھی اسی وقت سنا جاتا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page