طلسم : قسط نمبر 6
’’بس یہی ۔ ‘‘ مائی مڑ کر ہانڈی میں چمچ ہلانے لگی۔
’’میرا مطلب ہے کہ آپ کو خدشہ نہیں ہوا کہ وہ کوئی کریمنل… میرا مطلب ہے مجرم وغیرہ ہو تو ۔ ‘‘ وہ ان کی کہانی سے مطمئن نہ تھا۔
’’اس وقت یہ خیال تو نہیں آیا مجھے ۔ میں نے تیری ماں کو دیکھا تھا کاکے‘ اتنی خوبصورت عورت ۔ یہ لمبے کمر تک آتے بال، یہ موٹی موٹی گائے جیسی آنکھیں ۔ ‘‘ انہوں نے اپنی آنکھ کی طرف اشارہ کر کے کہا تو ان کے انداز پر وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہلکا سا مسکرا دیا۔
’’ایسا حسن کہاں دیکھنے کو ملتا ہے؟ میں تو ڈر گئی تھی۔ تو تو باہر رہتا ہے تجھے تو پتہ ہے کہ باہری دنیا میں انسان کے روپ میں شیطان بستے ہیں ۔ ایسے کیسے اس کو چھوڑ دیتی، پھر پورے دن تھے ۔ کہاں جاتی وہ ؟ میرے پاس سے اس کو لینا بھی کیا تھا؟ پناہ ہی چاہ رہی تھی، سو دے دی ۔ آس پڑوس والوں کو کہہ دیا کہ دور کی بیوہ رشتے دار ہے، کوئی آسرا نہ پا کر میرے پاس آ گئی ہے۔‘‘
’’آپ کوخیال نہ گزرا کہ کہیں وہ کوئی گناہ تو نہیں لیے پھر رہی ؟ ‘‘ اس کے سوال میں کوئی جھجک، کوئی شرم مانع نہ تھی، صرف تلخی تھی۔
’’ایسا ممتا کا نور تھا تیری ماں کے چہرے پر کہ کیا بتاؤں۔ ایسے نور گناہ والیوں کے چہرے پر تھوڑی ہوتے ہیں ۔ مہینہ بھر رہی تھی وہ میرے پاس، مگر کوئی بری حرکت نہ دیکھی تھی اس میں میں نے میرے اٹھنے سے پہلے ایسے کام نبٹا دیتی جیسے کوئی جن ہو اس کے اندر ۔ نماز کا صحیح سے اہتمام کرتی تھی ۔ بس کیا بتاؤں، دل کبھی نہ مانا کہ اس کے بارے میں برا سوچوں اور برا بول کر بہتان لگانے والوں میں سے نہ ہونا چاہتی تھی ۔ ‘‘ اب وہ تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے سالن بھون رہی تھی۔ فضاء میں سبزی کی بھینی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
’’تو کبھی تجسس نہ ہوا کہ پوچھوں تو سہی کہ اصل قصہ کیا ہے ؟ ‘‘ وہ ابھی بھی ان کی کہانی سے مطمئن نہ تھا۔
’’میں تو بڑی ماری بندی ہوں ۔ کیسے نہ نفس سے ہار مانتی ۔ کئی بار خیال آیا تو تھک کر ایک بار پوچھ بیٹھی تو تیری ماں بولی کہ اس کے سسرال والے کوئی حرام کام کرتے تھے ۔ وہ نہ چاہتی تھی کہ ان کے کرموں کی سزا تجھ تک پہنچے، اس لیے تجھے بچانے کو وہ گھر سے بھاگ آئی تھی ۔‘‘
اس نے مائی کی بات پر بے یقینی سے سر ہلا دیا۔
’’اچھا، ایسا کون سا حرام کام کرتے تھے میرے گھر والے ؟ جس سے میری ماں مجھے بچانا چاہتی تھی؟‘‘
مائی کا جواب اس کے رونگٹے کھڑے کرنے کو کافی تھا۔
’’کالا جادو۔‘‘
٭…٭…٭
وہ جو کہہ رہا تھا کہ وہ واپس نہیں جائے گا تو وہ واپس چلے آیا تھا۔ بہت سارے سوال ابھی بھی باقی تھے۔
’’ تو مجھے سیریس ہو کر سکھائے گا یا پھر میں نوکری چھوڑ دوں ؟ ‘‘ اس نے سامان رشی کے فرشی گدے پر پھینکتے ہوئے کہا۔
جیسا کام، ویسی زبان… شوبز کی انڈسٹری میں شستہ اردو اور انگریزی، دکانداری میں چرب زبانی اور اب رشی کے ساتھ رہ کر تو ترا سیکھ گیا تھا ۔ مگر اس کو معلوم تھا کہ کس انسان سے کس زبان اور کیسے لہجے میں بات کرنی تھی اور رشی سے بات کرنے کا یہی لہجہ تھا۔
’’یار کیا کرتا ہے تو؟ میری ساری کون سر ٹیشن ہی خراب کر دی۔‘‘ رشی نے مراقبے کے آسن سے نکل کر اس کو آنکھیں دکھائی۔
اس نے اس کی بات کو ہوا میں اڑایا اور اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
’’دیکھ… میرا کوئی ارادہ نہیں ہے تیرا کمپٹیٹر بننے کا ۔‘‘
’’کم…کیا؟‘‘ رشی نے منہ کھول کر الجھ کر پوچھا۔
’’ حریف بننے کا ۔ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے وہ سیکھا جو مجھے میری پریکٹیکل زندگی میں کامیاب بنا دے۔‘‘ وہ ہاتھ نچا کر بولا ۔
’’میں پوری زندگی سرکس میں نہیں گزارنا چاہتا ۔ ‘‘ اس کی بات پر رشی نے لمبی انگڑائی لے کر اپنے جوڑ سیدھے کیے پھر سیدھا ہو کر بیٹھا اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
’’تُجھے پتہ ہے ۔ تو بڑا اچھا ٹیلی پیتھیسٹ بن سکتا ہے ؟‘ ‘ یہ جادوگر تھا۔
’’کہاں ان چھوٹی موٹی شعبدہ بازیوں میں وقت ضائع کرتا ہے؟ ٹیلی پیتھی کیوں نہیں سیکھ لیتا؟‘‘
’’تو نے ہی تو کہا تھا کہ یہ ناممکن ہے۔‘‘
’’میں نے کہا تھا یہ مشکل ہے مگر تیری سیکھنے کی رفتار دیکھ کر ہی میں کہتا ہوں کہ تو یہ کر سکتا ہے ۔ ‘‘ وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر پیچھے ہوا۔
’’یاد ہے، تو نے کیسے اس عورت کو شیشے میں اُتارا تھا ؟ ‘‘ رشی نے اس کو پچھلے مہینے کا قصہ یاد دلایا تھا۔
وہ جرنلسٹ عورت، جو ہری مائی کو پریشان کر رہی تھی ۔ ہری مائی ہاتھ دیکھ کر حال بتاتی تھی ۔ ہاتھ تو نجانے کہاں دیکھنا آتا ہوگا، اب اس عمر میں چشمہ جو لگ گیا تھا مگر روزی روٹی تو چل رہی تھی ۔ پھر ایک جرنلسٹ عورت اپنی رپورٹ میں سرکس کو کور کرنے آئی تھی اور ہری مائی کا کیمرے کے سامنے خوب مذاق بنا رہی تھی ۔ پہلے تو وہ رشی کی ہدایت پر اس کو نظر انداز کر رہا تھا مگر پھر برداشت نہ ہوا تو اس کے سامنے آ گیا۔
’’اگر میں یہ ثابت کر دوں کہ یہ مائی صحیح کہتی ہے تو ؟ ‘‘ وہ مائی کے سٹال کے سامنے بیٹھ گیا اور سینے پر ہاتھ باندھے اس جرنلسٹ عورت کو دیکھ رہا تھا۔
عورت طنزیہ مسکرائی۔
’’اچھا پھر یہ دیکھو میرا ہاتھ…‘‘ اس نے اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔
شہریار نے ایک نظر اس کے ہاتھ کو دیکھا پھر اس کی آنکھوں کو جو چشمے کے پیچھے چھپی تھی۔
’’مجھے ہاتھوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنا چشمہ اتارو…‘‘ اس نے اس کے دھوپ کے چشمے کی طرف اشارہ کیا۔
’’ہیں؟‘‘ اس نے حیرت کا اظہار کیا۔
’’اپنا… چشمہ… اتارو…‘‘ اس نے اب کی بار ہر لفظ پر زور دیا ۔
خطاب ایسا تھا کہ ایک پل کے لیے اس عورت کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر گزرتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اس نے اب کی بار کوئی احتجاج کیے بغیر چشمہ اُتار دیا ۔ شہریار نے اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھا ۔ وہ یہ تجربہ رشی کے ساتھ سینکڑوں بار کر چکا تھا ۔ کبھی کامیاب ہو جاتا تو کبھی ناکام‘کسی اجنبی انسان کا دماغ پڑھنے کا اس کا پہلا تجربہ تھا ۔ اس نے گہری سانس لی اور اس کے دماغ پر دستک دی ۔ وہ گہرے رازوں تک نہیں جا سکتا تھا مگر اوپری اوپری چیزیں دیکھ سکتا تھا ۔ جیسے کہ اس کا نام…
’’تمہارا نام ملکہ ہے مگر تم مختلف جگہوں پر کوئین کے نام سے لکھتی ہو کیونکہ تم جس قسم کا مواد لکھتی ہو، تمہیں خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی تم تک پہنچ نہ جائے ۔ ‘‘
وہ اب کی بار جزبز ہوئی۔
’’کون کوئین؟ میرا تو اینجل سروے کے نام سے یوٹیوب چینل ہے۔‘‘ وہ اس کے سامنے سے اٹھتے ہوئے بولی اور بیگ اٹھا کر اپنے کیمرہ مین کو چلنے کا اشارہ کیا۔
اس کے جانے کے بعد رشی نے اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر شاباشی دی ۔ اس کے رد عمل کے بعد کسی کو بھی اس کا دماغ پڑھنے کی ضرورت نہیں تھی، وہ سب جان گئے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔
’’ہاں، مگر وہ تجربہ کوئی اتنا کامیاب بھی نہیں تھا۔‘‘
’’کوشش تو کر میرے یار! تو میری مان، سارے کام چھوڑ صرف دھیان لگا ۔ میرے ساتھ تو تین اور لوگ تھے جن کے پیٹوں کو میں نے پالنا تھا ۔ اس لیے ایک پل کے لیے بھی نوکری سے ہٹ کر دھیان نہیں لگا سکا مگر تم چاہو تو کر سکتے ہو۔ باقی میں تو ہوں نا تیرے ساتھ۔‘‘
اس کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔ اگر وہ ایک اس کام میں کامیاب ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو روک نہیں سکتی تھی ۔ اس کے خیالوں کی رو بھٹکی ۔ اس نے رشی کو بات پر کمر کس لی اور اگلے دن ہی کام پر لگ گیا ۔ بنیاد تو اس کی پہلے سے ہی بنی ہوئی تھی ۔ وہ اکثر ہی رشی کے ساتھ مشق کرتا تھا، مگر کبھی بھی اس کام کو سنجیدہ ہو کر نہیں کیا تھا ۔ کون مہینوں صرف ایک نقطے پر نظر لگا کر بیٹھا رہے یا موم بتی کی لو سے لو لگائے رکھے ۔ دو مہینوں میں ہی وہ اس کام سے اُکتا گیا تھا ۔ کتنے کتنے گھنٹے ایک ہی نکتے پر نظر جمائے رکھنے سے وہ اب اُکتانے لگ گیا تھا ۔ مستقل مزاجی تو ویسے بھی اس کی فطرت میں نہیں تھی ۔ اس دن تو اس نے تنگ آ کر سوچا تھا کہ بس اب اور نہیں… بس اب وہ واپس چلا جائے گا۔
پھر ان دنوں ایک عجیب واقعہ ہوگیا ۔ وہ ایک عام سی دوپہر تھی ۔ چھٹی کا دن تھا اور اس وقت وہ رشی کے کسی کام سے باہر نکلا تھا ۔ وہ جلد از جلد وہ کم نبٹا کر گاؤں مائی پاس جانا چاہتا تھا ۔ اس نے رشی کو بتا دیا تھا کہ اس کا اس فیلڈ میں کوئی کیریئر نہیں تھا اور رشی بھی سمجھ گیا تھا اور اس کو جانے کی اجازت دے دی تھی ۔ گرمیوں کی دوپہروں میں اکا دکا کتوں کے علاوہ راستے میں کسی انسان کا نام و نشان نہ تھا ۔ گلی کا موڑ مرتے ہوئے اس کو ایک آدمی دکھائی دیا ۔ پہلے پہل تو وہ اس کے پاس سے گزرنے لگا مگر پھر چونک کر رک گیا ۔ وہ واپس پلٹا تو وہ آدمی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اس آدمی نے بھورے رنگ کا لمبا جبا پہنا ہوا تھا ۔ اکثر فقیروں کو اس نے ایسے جبے پہنے ہوئے دیکھے تھے۔
مگر وہ انسان فقیر نہ تھا ۔ اس کے کندھے تک آتے سرمئی بال صاف ستھرے تھے اور اس کے کپڑے بھی ۔ جو چیز اس کو عجیب بناتی تھی وہ اس کی آنکھیں تھی ۔ سرمے اور وحشت سے بھری آنکھیں شہریار نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ ایسی خوفناک اور وحشت بھری آنکھوں سے وہ چاہ کر بھی نظریں ہٹا نہیں پا رہا تھا ۔ ایسے جیسے ان آنکھوں نے اس پر کوئی جادو کر دیا ہو ۔ نجانے کتنے لمحے شہریار کے ان آنکھوں کو گھورتے ہوئے گزر گئے۔ شہریار کے لاشعور نے اس آدمی کے دماغ پر دستک دینے کی کوشش کی مگر اس آدمی کی آنکھیں پرسرار سی تھیں ، جیسے اس کو سمجھ آ رہی ہو کہ شہریار کیا کر رہا تھا ۔
پھر وہ آدمی کچھ کہے بغیر دوسری طرف پلٹا اور آگے بڑھ گیا ۔ شہریار کے قدم بھی خود بہ خود اس کی طرف بڑھتے گئے ۔ وہ لوگ جب اس کے محلے اور آبادی سے کافی دور نکل آئے تو وہ آدمی اس کی طرف پلٹا اور اس کو دیکھتے ہوئے ہی وہاں پر قریب ہی ایک طرف فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ شہریار بھی اس کی دیکھا دیکھی وہاں صاف جگہ ڈھونڈ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
’’مجھے پتہ تھا کہ تم آؤ گے ۔ ‘‘ یہ سوال نہ تھا، مگر شہریار نے بے خیالی میں سر ہلا دیا۔
’’تمہاری ماں نے بڑا ہی مضبوط حصار کھینچ رکھا تھا ۔ کاش کہ وہ میرے حق میں ہوتی ۔ خیر جو ہو گیا سو ہو گیا ۔ تم بتاؤ، نام کیا ہے تمہارا ؟ ‘‘
اس کے انداز میں عجیب سا نقلی پن تھا۔ عجیب سی بے نیازی تھی ۔ اس کو پہلی ہی نظر میں یہ انسان عجیب لگا تھا، پھر دوسری نظر میں اس نے اس کو نا پسند کر دیا تھا۔
’’تم میرا نام نہیں جانتے؟‘‘ اس کو حیرت ہوئی۔ اس کو لگا کہ اگر یہ انسان اس کی تلاش میں تھا تو نام پتے کے ساتھ تلاش میں ہوگا۔
اگر وہ اس کا نام نہیں جانتا تو وہ کیسے جانتا تھا کہ وہ کون تھا ۔ اس آدمی نے جیسے اس کا دماغ پڑھ لیا تھا۔
’’اس کائنات میں جتنی بھی جاندار چیزیں ہیں، ان کی اپنی اپنی انرجی ہوتی ہیں ۔ جیسے ہر انسان کا دستخط الگ ہوتا ہے جو اس کی پہچان ہوتی ہے ۔ ایسے ہی سمجھ لو، ہر جاندار کی انرجی اس کا دستخط ہوتی ہے ۔ ایک بار آپ اس دستخط کو پڑھنا جان جائو، آپ جان جائوگے کہ وہ انسان کون ہے ، بھلے آپ اس کا نام جانتے ہو یا نہیں ۔ ‘‘ اس کی آواز گرجدار تھی مگر لہجہ نرم تھا ۔ مسکراتے ہوئے اس کے چوڑے جبڑے اور دانت صاف دکھ رہے تھے۔
اس کو دیکھ کر شہریار کو ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا ایسے جیسے اس نے اس کو پہلے بھی کہیں دیکھا تھا ۔ ایسے جیسے یہ واقعہ پہلے بھی کہیں گزرا تھا، مگر اس کو یاد نہیں آرہا تھا کب؟
عجیب سی ڈے جا وئو کی سی کیفیت…
’’تو تم نے میری انرجی کیسے پہچانی؟‘‘
اس کے اندر سے آواز آ رہی تھی کہ اس کو اپنا نام بتانا غلطی ہوگی۔
’’ہمیں ہمارے ماں، باپ سے صرف ڈی ان اے نہیں ملتا، ان سے ان کی انرجی بھی ملتی ہے ۔ میں تمہارے ماں باپ کی انرجی پہچان کر تم تک پہنچا ہوں ۔ حالانکہ تمہاری ماں نے پوری کوشش کی تھی کہ میں تم تک نہ پہنچوں۔‘‘
وہ آدمی کیا باتیں کر رہا تھا، اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ مگر اس کی چھٹی حس اس کو کہہ رہی تھی کہ وہ آدمی سچ بول رہا تھا ۔ اس نے اس آدمی کو غور سے دیکھا ۔ کیا وہ اس کا باپ تھا؟ شہریار کے دماغ میں نجانے کیوں یہ خیال آیا ۔ مائی نے بتایا تھا کہ اس کی ماں اس کو اس کے ددھیال سے بچانے کو یہاں لائی تھی ۔ کیا پتہ کہ اس انرجی کا تعلق کالے جادو سے ہو ۔ ایسے تو نہیں جادوگر میلوں دور بیٹھے انسان پر جادو کر دیتا ہے ۔ ذہین تو وہ شروع سے ہی تھا فوراً ہی کڑیوں سے کڑیاں ملا دی ۔ اس نے ایک بار پھر سے اس شخص کو غور سے دیکھا ۔ اس آدمی کی رنگت میں ایسی زردی گھلی ہوئی تھی جیسے اس نے زندگی میں ایک لمبے عرصے تک سورج نہ دیکھا ہو ۔ وہ بدصورت نہ تھا، صحیح حالت میں ہوتا تو شاید وجیہہ مرد ہوتا مگر اس کے چہرے پر عجیب سی پھٹکار پڑی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اس کو دوبارہ دیکھنے کا دل نہ چاہتا تھا ۔ نہیں، وہ اس کا باپ نہیں تھا۔
’’تم کون ہو ؟ ‘‘ اس کے منہ سے یہ سوال بے اختیار نکلا۔ وہ خود بھی نہ جانتا تھا کہ یہ سوال اس نے ہی پوچھا تھا۔
‘‘اتنا جان لو کہ میرا نام جعفر ہے ۔ ‘‘ شہریار کو ایسا لگا جیسے سارے کے سارے ٹکڑے اپنی جگہ پر آ گئے ہیں۔
اس کو سمجھ آ رہی تھی کہ اس کو ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ اس نے اس آدمی کو کہیں دیکھا تھا ۔ الف لیلیٰ کے الہ دین کی کہانی میں اس کے جادوگر کا نام بھی جعفر تھا ۔ وہ آدمی اس کو اسی کی یاد دلا رہا تھا ۔ یہ بات سن کر شہریار زور زور سے ہنسنے لگ گیا تھا۔
’’اب تم کہو گے کہ تم ایک جادوگر ہو؟‘‘
جعفرنے اثبات میں سر ہلا دیا۔
شہریار مزید زور زور سے ہنسنے لگ گیا۔
’’اور اب تم مجھے بولو گے کہ تم میرے چاچو ہو اور میں الہٰ دین ہوں ۔ ‘‘
اس کی بات پر جعفر بھی مسکرا دیا۔
’’نہیں میں ایسا نہیں بولوں گا‘کیونکہ نہ میں تمہارا چچا ہو اور نہ ہی تم الہ دین ہو ۔ ہاں یہ ہے کہ ہم اس کہانی کے کردار ضرور ہیں ۔ ‘‘
ایسا کہتے ہوئے جعفر کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔ شہریار کو یہ مسکراہٹ اچھی نہیں لگی تھی ۔ ایسا لگا کہ اس بار وہ جو بھی بولے گا اس کو پسند نہیں آئے گا۔
’’اچھا تو پھر تمہارا کردار جادوگر کا ہے تو میرا کون سا کردار ہے اس کہانی میں ؟ ‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔