سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 6

’’یہ کون سا انوکھا کام ہے، یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے سارا تماشہ غور سے دیکھنے کے بعد نتیجہ نکالا۔
اگلے دن ہی وہ سرکس کے مالک سے ملنے چلا گیا تھا اور وہ اس کی بات سن کر ہنس دیا تھا۔
’’یہ بازیگری ، یہ سرکس تیرے جیسے نوجوانوں کے لیے نہیں ہیں ۔ تو اپنی پڑھائی کر،دماغ نہ کھا ۔ ‘‘ مالک نے اس کو ہاتھ کے اشارے سے پرے جانے کا اشارہ کیا۔
’’اگر میں کر کے دیکھا دوں تو ؟ ‘‘ اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر چیلنج کیا۔
مالک استہزائیہ انداز سے ہنس دیا ۔
’’اچھا، چل ایک کام کر، رومال سے کبوتر نکال کر دیکھا دے ۔ ‘‘ اس نے شوخی ہو کر کہا۔
ایک پل کے لیے شہریار نے ادھر اُدھر دیکھا۔
’’رومال سے کبوتر تو نہیں، آپ کی گھڑی نکال کر دیکھا سکتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے اس کی گھڑی کی طرف اشارہ کیا تو مالک ہنس دیا۔
’’ہاں، ہاں کیوں نہیں…‘‘
’’ یہ میرا رومال ہے ، دیکھو خالی ہے ۔ ‘‘ اس نے نیوی بلیو رنگ کے رومال کی تہیں کھول کر مالک کو دکھائی۔
’’ اب میں اس کو بند کرتا ہوں ۔ ‘‘ اس نے ایک ایک کر کے رومال کی دوبارہ تہیں لگائی اور اس کو دونوں ہاتھوں کو درمیان دبایا اور مٹھیاں کھول کر رومال واپس لگایا۔
پھر رومال کھول کر ٹیبل پر جھاڑا تو خنک کی آواز کے ساتھ رومال سے گھڑی نکل کر ٹیبل پر بجی تھی۔
مالک نے دل پر ہاتھ کر’’یہ کرنے سے پہلے بتاتا تو صحیح…‘‘ کہا اور فوراً گھڑی کو الٹ پلٹ کر کے تسلی کی کہ کہیں کوئی نقصان تو نہیں ہو گیا۔
’’ میں نے تو آپ کوبتایا تھا، آپ نے خود ہی یقین نہیں کیا تھا۔‘‘ اس نے کندھے اچکا کر لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’اچھا بھئی سئی (صحیح) ہے ۔ ایک کام کر، اس جادوگر کو بول کہ تُجھے شاگرد رکھ لے اور اگر وہ رکھ لیتا ہے تو تیری نوکری پکی مگر پھر ہمارے ساتھ شہر شہر پھر سکے گا؟‘‘
اس کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا ۔ کچھ دنوں میں اس کو امتحان کی تیاری کے لیے چھٹی دے دی جائے گی ۔ پھر وہ دوسرے شہر جا سکتا ہے ۔ امتحان کے دنوں میں چھٹی لے کر کچھ دن کے لیے واپس آ جائے گا۔ اس نے کچھ سوچ کر سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭
اس نے پہلی بار سرکس اندر سے دیکھا تھا ۔ وہ جو کسی جادوئی دنیا کی امید کر رہا تھا تو میک اپ اور کاسٹیوم اترنے کے بعد عام سے چہروں کو دیکھ کر مایوس ہو گیا۔
ٓاصل جادوئی دنیا تو جادوگر ارشد کے خیمے میں تھی ۔ خیمہ کیا تھا؟ شعبدہ بازی کا سارا سامان تھا جو اس خیمے میں سمٹا ہوا تھا ۔ جگہ جگہ تاش کے پتے بکھرے ہوئے تھے، کبوتر، خرگوش … ہر کوئی نکل کر اپنی مرضی سے جہاں دل کیا، وہاں جا رہا تھا ۔ خیمے کے چاروں طرف گہرے جامنی سلک کے پردے لگے ہوئے تھے اور اسی کپڑے کی چادر فرشی گدے پر بچھی تھی اور ہم رنگ گاؤ تکیے جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے ۔ ان سب کے بیچ میں بیٹھا جادوگر مراقبے کا آسن اختیار کیے ہوئے تھا ۔ آنکھیں البتہ کھلی ہوئی تھی،جو کہ خیمے کے نیم اندھیرے میں ادھ جلی موم بتی پر ٹکی ہوئی تھی ۔ شہریار ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کو مخاطب کرے یا نہ کرے، جادوگر نے اپنی سرخ آنکھیں اٹھا کر اس کو دیکھا ۔ شہریار ایک قدم پیچھے ہوا اور کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ۔ وہ جو اس کو اپنے آنے کا مقصد بتانے ہی والا تھا کہ جادوگر نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس کو چپ ہونے کا اشارہ کیا۔
پھر وہ اس کے پاس آیا اور اس کا منہ اپنے ہاتھ میں ایسے بھینچا کہ اس کا جبرا اور دونوں گال اس کی انگوٹھیوں سے بھرے ہاتھوں کے درمیان تھے ۔ پھر اس کی آنکھوں میں ایسے جھانکا،جیسے وہاں کچھ تلاش کر رہا ہو۔
’’ نوکری کے لیے آئے ہو؟ کالے سرکار کو متاثر کر دیا ہے۔‘‘ اس کی آواز کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اور آنکھیں اس نے شہریار کی آنکھوں میں گاڑی ہوئی تھی ۔ ایسے جیسے وہ اس کی آنکھوں سے کچھ پڑھ لینا چاہتا تھا۔
’’کالا سرکار کون؟‘‘
’’وہی ہمارے سرکس کا مالک…‘‘ جادوگر نے جواب دیا۔
’’واہ! کیا نام ہے۔‘‘ شہریار نے سوچا۔
’’میرے دماغ میں بھی پہلی بات یہی آئی تھی چھوٹے…‘‘
’’ کیا اس نے غلطی سے اپنی سوچ منہ سے نکال دی تھی؟‘‘ اس نے الجھ کر جادوگر کو دیکھا مگر منہ سے کچھ نہیں پوچھا۔
’’ نہیں، میں نے تمہاری سوچ پڑھ لی تھی ۔ میں ایک ٹیلیپتھیسٹ ہوں ۔‘‘ اس نے اب کی بار اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے آزاد کیا اور تھوڑا پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا۔
’’ وہ کیا بلا ہے؟‘‘
’’دماغ پر قبضہ ۔ اگلے انسان کی سوچ کو پڑھ لینا ۔ ‘‘ اس طرح کی بھی کوئی چیز وجود رکھتی تھی؟ شہریار کی سوچ کر آنکھیں چمکی۔
’’ کیا یہ مشکل کام ہے؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا۔
ایک انسان اگر جان جائے کہ اگلا انسان کیا چاہ رہا ہے، اس سے بڑھ کر طاقت کیا ہوگی؟ اس طریقے سے وہ ہر انسان سے اپنی مرضی کے کام نکلوا سکتا تھا۔
’’یہ نا ممکن کام ہے میرے دوست،میں نے سالوں ریاضت کی ہے‘تب جا کر اس حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے کہ اپنے سامنے کھڑے انسان کی آنکھوں میں دیکھ کر کم از کم ستر فیصد تک اس کی سوچ کا اندازہ لگا سکتا ہوں ۔ وہ بھی وہ سوچیں جو اس وقت اس انسان کے دماغ میں موجود ہوں ۔ گہرائی تک نہیں پہنچ پاتا ۔ ‘‘ جادوگر اب دوبارہ فرشی گدے پر اپنی نشست سنبھال چکا تھا۔
’’کیا اس سے بڑھ کر بھی امکان ہے ؟ ‘‘ اس کو حیرت ہوئی کیا یہ اتنی بڑی فیلڈ ہے کہ اس سے آگے بھی کوئی بڑھ جائے؟
’’جی میرے دوست، اس سے بھی بڑھ کر امکان ہے ۔ میں نے سنا ہے کہ فرانس میں ایک انسان ٹیلیپٹھی کا ماہر ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ ایک بار ایک انسان کی آنکھیں پڑھ لے تو اس کو کہیں بھی بیٹھ کر قابو کر سکتا ہے۔‘‘
جادوگر کے بتانے پر وہ متاثر نظر آیا۔
’’اچھا، ذرا میرے بارے میں مزید بتانا ۔ ‘‘ اس نے اس کو مزید آزمانے کا سوچا۔
ایک انسان کا کسی چیز کے بارے میں فوراً رد عمل کیا ہوگا، اس کے بارے میں بہت سے لوگ جو انسانی فطرت کو اچھے سے جانتے تھے، اندازہ لگا سکتے تھے ۔ کیا معلوم جادوگر بھی انہی لوگوں میں سے ہو اور ٹیلی پیتھی کا نام لے کر اس کو بے وقوف بنا رہا ہو ۔ اس انسان کا یہ کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا ۔ وہ سرکس میں کام کرتا تھا اور اس کا کام ہی شعبدہ دیکھا کر لوگوں کو متاثر کرنا ور ان کو بے وقوف بنانا تھا ۔ ایسے میں اس کے لیے یہ جاننا کہ اس وقت شہریار کے دماغ میں کیا چل رہا ہے کچھ انوکھا نہیں تھا۔
’’ اچھا، دو منٹ ادھر میرے قریب آنا ۔ ‘‘ اس نے اپنے قریب رکھے ہوئے جامنی فرشی گدے کی طرف اشارہ کیا۔
شہریار نے آزمانے کا سوچا اور سامنے جا کر بیٹھ گیا۔
’’ تم کھوئے ہوئے ہو۔‘‘ جادوگر نے اس کی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
’’کہاں کھویا ہوا ہوں میں ؟‘‘ اس نے دلچسپی سے پوچھا ۔ کھویا ہوا تو کوئی بھی ہو سکتا تھا؟ یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔
’’تمہاری پہچان کھوئی ہوئی ہے ؟ ‘‘ اب کی بار اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ غائب ہوئی اور وہ اپنی جگہ جزبز ہوا۔
’’اچھا؟‘‘ اس نے جز بز ہو کر کہا۔
’’تم اپنے ماں باپ کو تلاش کرنا چاہتے ہو‘ ہیں ناں؟‘‘ اب کی بار اس کا تیر نشانے پر لگتا دیکھ کر شہریار نے نظریں چرالی۔
اس کے دماغ میں کئی بار یہ سوال اٹھا تھا کہ اس کے ماں باپ کون تھے؟ خاص طور پر اس کا باپ…کیا وہ کہیں تھا ؟ کیا وہ زندہ تھا؟
’’ ایک یتیم انسان اپنے ماں باپ کو کیوں تلاش کرے گا ۔ ‘‘ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر دوبارہ اسی کرسی کی طرف بڑھا، جہاں وہ پہلے بیٹھا ہوا تھا ۔ نظریں سامنے کی طرف تھی اور رخ جادوگر سے موڑا ہوا تھا، مبادا کہ وہ دوبارہ اس کی آنکھیں نہ پڑھ لیں۔
’’ یتیم دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جنہیں اپنے والدین کا علم ہوتا ہے اور ایک وہ جنہیں اپنی پہنچان نہیں معلوم ہوتی۔ تم دوسری قسم سے ہو۔‘‘
’’ یہ تمہاری ٹیلی پیتھی کہتی ہے ؟ ‘‘ وہ اب کی بار کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا، ازلی خود اعتمادی دوبارہ عود آئی تھی۔
’’ نہیں، یہ میرا تجربہ کہتا ہے ۔ یہ سرکس ہے میری جان! یہاں دوسری قسم کے یتیم بھرے پڑے ہیں۔‘‘
’’ اوہ!‘‘ شہریار نے ہونٹ گول کیے۔
’’اسی لیے تم نے میرے بارے میں صحیح تکا لگایا ۔ ‘‘ اس نے ہوا میں تیر پھینکا۔
جادوگر کھل کر ہنس دیا۔
’’ نہیں یار! ٹیلی پیتھی سچ میں ہوتی ہے ‘مگر کوئی اس پر عبور حاصل نہیں کر سکتا ۔ میں بھی کچھ چیزیں ہی پڑھ پاتا ہوں، باقی اگلے انسان کا ری ایکشن دیکھ کر تکا ہی لگاتا ہوں ۔ ‘‘
’’خیر، باتیں ایک طرف اگر یہاں کام کرنا ہے تو کوئی سستی نہیں ۔ چلو اٹھو کام پر لگو، ہمیں سب کچھ سمیٹ کر لاہور کوچ کرنا ہے ۔ ‘‘ وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا تو شہریار بھی گہری سانس بھر کر اٹھ گیا۔
جب نوکری کرنی تھی تو نخرہ کیسا؟ مگر اس کے دماغ میں مسلسل یہ سوچ دستک دے رہی تھی کہ اگر ٹیلی پیتھی ایک اصلی چیز تھی اور وہ اس پر عبور حاصل کر سکے تو کیا برا تھا ؟ یہ صلاحیت اس کی زندگی بدل سکتی تھی ۔ یہ خیال ہی اس کو پرجوش کر رہا تھا ۔ اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے آپ کو ملامت بھی کر رہا تھا ۔ جہاں کہیں وہ نئی چیز دیکھتا تھا، جس چیز پر وہ پہلے کام کر رہا ہوتا تھا ، وہ چھوڑ کر نئی چیز کی طرف بڑھ جاتا ۔ اور حیرت انگیز طور پر اس کو کامیابی بھی مل جاتی تھی ۔ بھلا اتنی ساری صلاحیتوں کا کیا فائدہ؟ جب کام کچھ نہیں آنا؟
وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ انسان جس جس راستے سے گزرتا ہے وہاں ایک نشان چھوڑ جاتا ہے ۔ وہ نشانات آخر میں اس کو منزل پر پہنچنے کے کام آتے ہیں ۔ وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کی یہی صلاحیت آگے جا کر اس کے لیے ترپ کا پتہ ثابت ہونے والی تھی۔
٭…٭…٭
’’ مائی، میری ماں کون تھی؟‘‘
وہ چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا ۔ انٹرمیڈیٹ کے نتیجے میں اس کے شاندار نمبر آئے تھے۔ مگر سرکس کی وجہ سے وہ اپنا ایک سال گنوا چکا تھا ۔ سرکس آج کل کراچی تھا اور اس کا نجانے کیوں اب واپس جانے کا ارادہ نہیں تھا ۔ ہمیشہ کی طرح جب اس کو ایک کام میں کامیابی ملنے لگ گئی تھی تو اس کا اس سے دل اوبنے لگ گیا تھا ۔ ایسے جیسے ویڈیو گیم کا ایک لیول بہت بار کھیل کر انسان بور ہو جائے اور اب اگلے لیول پر جانا چاہے ۔ کچھ یہ بھی تھا کہ ارشد عرف رشی جادوگر اچھا شعبدہ باز تھا ۔ اس نے اتنے دنوں میں اس کو بھی کافی حربے سکھائے تھے۔ مگر اس کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس کو ہر چیز نہیں سیکھا رہا تھا ۔ وہ ان استادوں میں سے تھا، جو شاگرد کو آخری داؤ نہیں سکھاتے تھے کیونکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن میدان میں آکر انہی شاگردوں نے ان کے مقابلے پر آ جانا ہے ۔ وہ یہ بھی اعتراف کرتا تھا کہ رشی جادوگر نے بہت ساری باتوں میں اس کا دماغ کھول دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ مائی سے وہ سوال پوچھ بیٹھا تھا جو اس نے کبھی بھی نہیں پوچھا تھا۔
یہ سوال زبان کی نوک پر آتا بھی تو رک جاتا ۔ بچپن میں جب وہ مائی کو ہی اپنی ماں سمجھتا تھا تو اپنے باپ کے بارے میں پوچھتا تھا ۔ مائی کہتی تھی کہ وہ اللہ پاک کے پاس تھا تو وہ مزید سوال کرتا کہ وہ وہاں کیسے گئے اور کب واپس آئے گے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ مائی اکثر جھنجھلا کر اس کو پرے کر دیتی ۔ جب اس کو ادراک ہوا کہ مائی اس کی ماں نہیں تھی تب بھی اس نے ان سے اپنی ماں کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا ۔ اس کو اندر ہی اندر احساس تھا کہ اس کا سوال نجانے کس راز کے دروازے کھول دے؟ اس کے اندر ایک عجیب سا ڈر تھا۔
مگر آج اس نے وہ سوال پوچھ ہی لیا جو وہ کبھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ شاید مائی کو اس کے باپ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو، مگر کم از کم اس کے پاس اپنی ماں کا حوالہ تو تھا ۔ کیا پتہ وہ عورت جو اپنے آپ کواس کی ماں گردانتی تھی اس کو کہیں سے اٹھا لائی ہو ۔ مائی نے اس کو کبھی بھی اس کے خون کے رشتوں کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا ۔ اس نے بھی کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ مگر اب لگتا تھا کہ وقت آ گیا تھا کہ اس کو اپنی اصلیت پتہ چل جائے ۔
اس کی بات پر مائی نے اس کو چونک کر دیکھا۔
’’ آج یہ خیال کیسے آیا کاکا ؟ ‘‘ مائی کا لہجہ سادہ تھا۔
’’ اس کے پیچھے وجہ ہے ۔ کچھ سوال تلاش کر رہا ہوں میں، شاید آپ کے سوال کے جواب میں مجھے کوئی راستہ دکھ جائے۔‘‘
مائی سمجھ تو گئی تھی مگر چہرے سے ظاہر نہ کیا۔
’’سچ کہوں تو میں نہیں جانتی کہ تیری ماں کون تھی کاکے؟‘‘
’’کیا مطلب، آپ تو کہہ رہی تھی کہ وہ آپ کی رشتے دار تھی ۔ ‘‘ وہ چونک کر بولا۔
’’یہ میں نے یہ کہانی بنائی تھی۔‘‘
’’ تو پھر اصل کہانی کیا ہے مائی؟‘‘
’’ ایک رات میرے دروازے پر آئی تھی تیری ماں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کو میرا پتہ کس نے دیا تھا ۔ مگر مجھ سے پوچھنے لگی کہ مائی رحمتے سے ملنا ہے ۔ میں نے کہا، میں ہی ہوں۔ ‘‘ وہ جیسے کسی یاد کے سائے دور خلا میں دیکھنے لگی۔
’’مینوں کہن لگی کہ میں نے پناہ لینی ہے ۔ بھلا میں کسی کو پناہ دینے والی کون ہوتی ہوں ؟ یہ تو رب سوہنے کا کام ہے اور اس نے مجھے تیری ماں کے لیے وسیلہ بنا دیا ۔ ‘‘
’’بس یہی؟ انہوں نے پناہ مانگی اور آپ نے دے دی؟‘‘

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page