سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 5

سولہواں سال بڑا ہی کوئی رومانوی ہوتا ہے ۔ کوئی سنگیت ہو یا کوئی شاعری، اس میں سولہ سال کی عمر کا ذکر ضرور ہوتا ہے ۔ یہ وقت بچپن کو باقاعدہ خیرباد کہنے کا اور جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کا ہوتا ہے ۔ لڑکیوں کے لیے گڑیا کو چھوڑ کر خود ہی گڑیا بننے کا وقت ہوتا ہے ۔ یہ جسم میں تبدیلیوں کے ساتھ، ساتھ جذبات میں بھی تبدیلیوں کا نام ہے ۔ جب جذبات کا جوار بھاٹا اورلوڈ ہو جائے ، وہی عمر سولہ سال کی ہوتی ہے۔
بشائر کے لیے بھی یہ عمر آئی تھی، اور بڑی من چلی ہو کر آئی تھی ۔ وہ گھر بھر کی شہزادی تھی ۔ اور اپنے آپ کو ایک شہزادی ہی سمجھتی تھی ۔ وہ اپنے کھلونے غریب بچوں کو دے چکی تھی ۔ اور اب اس کا خوابوں سے کھیلنے کا زمانہ تھا ۔ وہ اب بچوں کے شوز کو چھوڑ کر لمبی لمبی سیریز دیکھتی اور رومانس پڑھتی ۔ ان میں سے ایسے رومانس بھی تھے، جو روح پر بڑے گہرے نشان چھوڑ دیتے تھے ۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اپنے آپ کو ایک پریوں کی کہانی کی شہزادی سمجھنے لگ گئی تھی ۔ کہنے کو تو اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جو ایک شہزادی کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ بس کمی تھی تو ایک شہزادے کی ۔ اور اس شہزادے کو اس نے خواب میں کئی بار سوچا تھا۔
ایک ڈارک، مسٹیریس سا نوجوان، جو خوبصورت ہو اور طاقت ور بھی،جو اتنا با اختیار ہو کہ اس کو بے اختیار کر دے ۔ اور پھر اس کو وہ نوجوان مل بھی گیا۔ ایسے ملا کہ اس کے سارے رشتے اس سے چھڑوا دیے اور اس کو ایسے بے اختیار کیا کہ جب اس نے اس سے جان چھڑائی تو وہ محبت کے نام سے بھی ڈرنے لگ گئی تھی۔
٭…٭ …٭
یہ سال تھا 2012، ہماری کہانی کے حالیہ زمانے کی تقریبا سات سال پہلے کی بات ہے ۔ بشائر کو کچھ دن سے ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی اس کے کمرے میں ہے ۔ پہلے پہل تو اس کو یہ اس کا وہم لگا مگر جب اکثر اس کو اپنی استعمال کی چیزیں اپنی جگہ پر نہ ملتی تو اس کو اور پکا یقین ہو جاتا کہ یہ اس کا وہم نہیں تھا ۔ گھر والوں سے بات کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی موویز چھڑوا دی گئی۔
’’ یہ جو رات رات بھر جاگ کر خون پینے والوں کی فلمیں دیکھتی ہو، یہ اس کا نتیجہ ہے ۔ ‘‘ ہمیشہ کی طرح عمارہ کا سارا الزام اس کے ٹی وی اور انٹرنیٹ پر تھا۔
وہ جواباً احتجاج ہی کر سکی، مگر جب اس کی ماں کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو اس کے ابّا بھی ان کو اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو کچھ دن تک ایسا محسوس ہونا بند ہو گیا ۔ یہ الگ بات کہ اس نے یہ بات اماں کو نہیں بتائی ورنہ انہوں نے ’’دیکھا، میں نا کہتی تھی‘‘ کا جو تاثر دینا تھا وہ اس کے لیے ناقابل قبول تھا۔
آنے والے کچھ دنوں میں اس کی اماں کی بات غلط ثابت ہونے والی تھی ۔ یہ اس دوران کی بات تھی جب وہ سترہ سال کی ہوئی تھی اور سکولنگ سے فارغ ہو کر گھر چھٹیاں گزار رہی تھی ۔ سوائے اس کے اس کی ساری دوستوں کے پاس اس دوران فون تھا ۔ عمارہ اتنی جلدی فون لینے کے حق میں نہ تھی ۔ یہ اس کی پہلی ضد تھی جو پوری نہیں ہو رہی تھی ۔ باقی سب اس کو جتنا بھی سر پر چڑھائیں مگر اس کو تیر کی طرح سیدھا کرنے کا کام عمارہ کا تھا ۔ اس کی ماں ان عورتوں میں سے تھی جو بچوں کو اتنا سر پر چڑھانے کے حق میں نہ تھی ۔ اسی لیے جب اس نے لیٹیسٹ آئی فون کی فرمائش کی تو عمارہ سب سے پہلے مخالفت میں بولی اور صاف منع کر دیا۔
’’ رزلٹ دیکھا ہے اپنا تم نے؟‘‘
’’ اماں، اب اتنے برے گریڈز بھی نہیں آئے ۔ ‘‘ اس کے ابّا ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے وہ ذرا پھیل کر بولی۔
’’ تم اس سے بہتر کر سکتی تھی، مگر آج کل تم مووی اڈیکٹ ہوئی ہو کہ تمہارا دل پڑھائی میں لگتا ہی نہیں ہے ۔ جب بچے بہتری سے بد تری کی طرف جانے لگ جائیں تو یہ ماں باپ کا فرض ہوتا ہے کہ ان کو ہاتھ پکڑ کر واپس لے کر آئیں۔ ‘‘ عمارہ کا انداز قطعی تھا۔
’’ مگر اماں…‘‘ اس نے ہٹیلے پن سے کچھ کہنا چاہا مگر عمارہ نے وہی کیا جو ہر ماں کرتی ہے۔
انہوں نے اس کو ایسی شیر کی نگاہ سے دیکھا کہ وہ بلی کی طرح دبک کر بیٹھ گئی ۔ اس نے مدد طلب نظروں سے باپ اور بھائی کو دیکھا تو انہوں نے کندھے اچکا دیے ۔ پھر دادی کی باری آئی تو وہ ایسے تسبیح پڑھنے میں مصروف ہو گئیں جیسے آج ہی سارے گناہ بخشوا کر چھوڑے گی ۔ کوئی مدد نہ پا کر اس نے ہٹ دھرمی سے زور سے پاؤں زمین پر مارے اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ پیچھے سے اماں اس کے ابا اور دادی کو کہہ رہی تھی کہ وہ انہی کی شہ پر اتنی بگڑی ہوئی تھی اور شایان، اماں کا چمچہ جو چھٹیوں پر آیا ہوا تھا، ان کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا ۔ کمرے میں آ کر اس نے تکیے میں اپنا سر دے دیا اور اپنے پیارے تکیے کو اپنا دکھڑا سنانے لگ گئی کہ کس طرح اس کے گھر والے اس پر ظلم کرتے تھے اور اس سے اس کی اماں بالکل بھی پیار نہیں کرتی ۔ شاید شایان صحیح کہتا تھا کہ اس کو اس کے ابا نے کچرے کے ڈھیر سے اٹھایا ہوگا ۔ ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی تو اس کو بیٹی بنا کر پال لیا ہوگا مگر اماں اور دادی چونکہ ظالم ملکائیں ہیں تو وہ برداشت نہیں کر رہی تھی کہ کوئی شہزادی ان کی جگہ لے ۔ دور کہیں ستاروں نے اس منہ بسورتی شہزادی کو دیکھا اوراس کی نادانی پر مسکرا دیے۔
کسی ستارے نے نیند کی پری کو اشارہ کیا اور وہ اس کے پاس آئی، اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور اس کو لوری دے کر کسی اور جہانوں میں لے گئی ۔ جب وہ جاگی تو اس کا پسندیدہ فون اس کے ڈریسنگ پر رکھا ہوا تھا۔
٭…٭ …٭
’’ یہ فون تم نے کہاں سے لیا ؟ ‘‘ یہ عمارہ تھی جس نے اس کے ہاتھ میں فون دیکھ کر پوچھا۔
’’ ابا نے لے کر دیا ہے ۔ ‘‘ عمارہ کے تو سر پر لگی تلووں میں بجھی۔
’’ جھوٹ نہیں بولو بشائر۔ ابا نے تمہارے لیے کوئی فون نہیں لیا ۔‘‘
اس کی بات پر بشائر ایک پل کے لیے سوچ میں پڑ گئی۔
’’ پھر کاشان بھائی نے بھجوایا ہوگا ۔ ‘‘ اس نے تکا لگایا۔
کاشان کا اس کے لیے کچھ بھی بھیجنا اتنا انوکھا نہ تھا ۔ اس کی بات پر عمارہ چپ ہو گئی۔
’’ فون آئے کاشان کا‘ اس کو پوچھتی ہوں ۔ ‘‘ اماں پوری طرح ڈانٹنے کے موڈ میں تھی۔
’’ ایک فون ہی تو ہے ۔ ‘‘ وہ منہ بنا کر بولی۔
اس وقت تو بات آئی گئی ہو گئی ۔ بات اس وقت بگڑی، جب ابا نے اس کے ہاتھ میں فون دیکھا۔
’’ بیگم آپ کمال کرتی ہیں ۔ مجھے منع کر دیا اور خود اس کو فون لے دیا ۔ ‘‘ اس کی بات پر عمارہ چونکی۔
’’ میں نے اس کو فون نہیں لے کر دیا ۔ یہ کاشان نے بھجوایا ہے ۔ آپ کو نہیں بتایا اس نے؟ حیرت ہے ۔‘‘
’’ کاشان نے؟ مگر اس نے اتنی جلدی فون کیسے بھجوایا؟‘‘
’’ مجھے کیا معلوم؟ وہ وہی کرتا ہے جو اس کی مرضی ہوتی ہے ۔ ‘‘ عمارہ بیگم کاشان کے ان کی پسند کی ہوئی لڑکی سے شادی سے انکار کرنے کی وجہ سے ویسے ہی تپی ہوئی تھی۔
انہوں نے شایان کی طرف دیکھا تو اس نے ہاتھ اٹھا دیے۔
’’ میری طرف ایسے مت دیکھیں ۔ میں کچھ دن چھٹیوں پر آیا ہوں، آپ کی لاڈلی کے لاڈ اٹھانے نہیں ۔ ‘‘ وہ بھی بشائر کے ہی انداز میں منہ بنا کر بولا۔
’’ میں آپ کی چھٹیاں سپوئل کر بھی نہیں رہی اور اگر کاشان بھائی نے مجھے کچھ بھیج ہی دیا ہے تو آپ کو جیلس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ‘‘ وہ بھی جواباً تپ کر بولی۔
’’ بشائر، مائنڈ یور لینگویج۔‘‘ عمارہ کے صرف ایک جملے نے اس کو ٹھنڈا کر دیا۔
وہ جو یوٹیوب پر نیل آرٹ دیکھ رہی تھی منہ بنا کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور شایان جو کچھ کہنے والا تھا، ماں کی ایک نگاہ میں بدک کر ’’مجھے اسائنمنٹ بنانا ہے‘‘ کہہ کر اٹھ گیا۔
عمارہ نے فون پر کاشان کے لتے لیے تو ان کو اندازہ ہوا کہ اس کو فون کاشان نے نہیں لے کر دیا۔
’’ جھوٹ تو نہیں بول رہے؟‘‘
’’ اماں میں جھوٹ بولتا ہوں ؟ ‘‘ اس کے سوال کرنے پر عمارہ چپ ہو گئی کیونکہ کاشان جو بھی کام کرتا تھا صاف کرتا تھا۔
’’ پھر فون آیا کہاں سے؟‘‘
پھر اس دن زندگی میں پہلی بار بشائر کی عدالت لگی۔
’’ جوان اولاد باغی ہو جاتی ہے‘ تحمل سے بات کرنا ۔ ‘‘ چوہدری شجاعت کو سمجھ نہیں آیا کہ اس حالت میں وہ کیا کریں۔
بھلے انہوں نے بشائر کو تھوڑا سا بگاڑ دیا تھا مگر ان کو یقین نہیں تھا کہ بشائر صرف اپنی ایک ضد پوری کرنے کے لیے کوئی غلط قدم اٹھائے گی ۔ عمارہ نے لب بھینچ لیے ۔ انہوں نے اکیلے میں ہی بشائر سے بات کرنے کا سوچا تھا ۔ جب وہ بشائر کے کمرے میں گئی تو بیڈ پر اوندہی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے پاؤں ہوا میں تھے۔ ان کا دل کیا کہ اس کے اس طرح لیٹنے پر تاسف کا اظہار کریں۔
’’ اماں، یہ دیکھیں مجھے کتنے لائکس ملے ہیں۔ ‘‘ وہ جوش سے اپنی ماں کو دکھا رہی تھی۔
فون بہت مہنگا تھا اور بشائر پیسے جمع کرنے کی عادی نہ تھی ۔ مگر اس نے یہ فون لیا کیسے؟ وہ نہیں جانتی تھی۔
’’ تم نے یہ موبائل کہاں سے لیا بشائر ؟ ‘‘ انہوں نے الزام لگانے کے بجائے وہ پوچھا جس کا جواب ان کو چاہیے تھا۔
’’ بتایا تو ہے اماں کہ کاشان بھائی نے بھجوایا ہے ۔ ‘‘ اس کے جھوٹ پر وہ خون کے گھونٹ بھر کر رہ گئی۔
ان کو ایک پل کے لیے سمجھ نہیں آیا کہ آخر وہ کیسے بشائر سے بات کریں ؟ سب کہتے تھے کہ بیٹوں کی پرورش بیٹیوں سے زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ مگر ان کے بیٹوں نے تو یہ سب تو نہیں کیا تھا جو وہ کر رہی تھی ۔ ابھی وہ عمر کے نازک دور میں تھی جس میں بچوں کو باغی ہونے میں وقت نہیں لگتا تھا۔
’’ تم نے یہ فون کسی سے منگوایا تھا ؟ ‘‘ انہوں نے سوال بدلا۔
اتنا تو وہ جانتی تھی کہ بشائر اس سارے دورانیے میں باہر نہیں گئی تھی۔
’’ میں نے آپ کے سامنے ہی تو ابا کو کہا تھا کہ مجھے یہ فون لے دیں ۔ ابا نے ہی کاشان بھائی کو کہا ہوگا تو انہوں نے کسی کے ہاتھ مجھے سرپرائز دینے کے لیے بھجوا دیا ہوگا ۔ ‘‘ اس نے لاپرواہی سے کہا۔ نظریں ابھی بھی فون پر تھی ۔ عمارہ نے کچھ سوچ کر سر ہلا دیا۔
’’ یعنی کہ تم کہہ رہی ہو کہ یہ فون تمہیں کاشان نے کسی کے ہاتھ بھجوایا تھا ۔ کس کے ہاتھ؟‘‘
’’ کیا ہوا ہے اماں؟ مجھے کیا معلوم کہ کس کے ہاتھ بھجوایا تھا ۔ مجھے تو یہ فون اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر اس کی اگلی صبح ملا تھا جس رات میں آپ لوگوں سے ناراض ہو کر کمرے میں گئی تھی ۔ ‘‘ اب کی بار اس نے فون سائیڈ پر رکھ کر ان کی طرف دیکھ کر جواب دیا ۔ عمارہ ایک پل کے لیے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر چپ ہو گئی ۔ اس کے چہرے کے تاثرات اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ وہ سچ کہہ رہی ہے مگر ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کوئی بھی گھر میں ایسا انسان نہیں تھا جو اس کو فون دلا کر صرف عمارہ کے غصے سے بچنے کے لیے سارا الزام بشائر پر ڈال دے ۔ سب اس سے اتنا پیار کرتے تھے کہ اس کو بچانے کے لیے اس کا الزام لے تو سکتے تھے مگر اس پر الزام لگا نہیں سکتے تھے ۔ یہاں تک کہ شایان بھی نہیں، بھلے وہ جتنا مرضی اس سے لڑے، مگر وہ اس طرح کی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔
’’ تو تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں اسی دن یہ فون اپنے ڈریسنگ ٹیبل پر ملا تھا ؟ ‘‘ عمارہ نے اتنے تحمل سے پوچھا جتنا وہ کر سکتی تھی۔
بشائر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ کیوں کچھ ہوا ہے کیا؟‘‘ اب کی بار اس نے پریشانی سے پوچھا۔
کچھ تو تھا عمارہ کے لہجے میں جو اس کو ٹھٹکنے پر مجبور کر رہا تھا۔
’’ بشائر، یہ فون تمہیں کاشان نے نہیں بھیجا ۔‘‘
’’ اچھا پھر کس نے بھیجا ہے؟ شایان کو تو مجھ پر رحم نہیں آ گیا ؟ ‘‘ بشائر کے لہجے میں اتنی معصومیت تھی کہ عمارہ اس کو دیکھ کر رہ گئی۔
’’ گھر میں کسی نے بھی یہ فون تمہارے لیے نہیں لیا ۔ تم نے یہ موبائل کہاں سے لیا ہے اور اس کے پیسے کہاں سے آئے؟‘‘
بشائر کو ایک پل کے لیے توعمارہ بیگم کی بات سمجھ ہی نہیں آئی اور جب سمجھ آئی تو اس کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ اپنی ماں کے الزام میں کیا کہے؟
’’ میں سچ کہہ رہی ہوں اماں کہ میں اس دن جب اپنے کمرے میں سو کر اٹھی تو یہ موبائل مجھے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا ملا تھا۔‘‘
اس بات پر عمارہ نے اس کو ایسی نظروں سے دیکھا کہ وہ اندر تک سن ہو گئی۔
’’ میں سچ کہہ رہی ہوں۔‘‘ مگر جب اس نے دیکھا کہ عمارہ کو اس کی بات کا ابھی بھی اعتبار نہیں آیا تو اس نے ایک لمبا سا ہنکارہ بھرا اور کمرے سے باہر ابا کے پاس چلی گئی۔
’’ بیٹا اگر آپ نے یہ فون اپنی سیونگ وغیرہ سے لیا ہے تو آپ ہمیں بتا دیں کہ آپ نے کس سے منگوایا ہے ۔ ‘‘ چوہدری شجاعت نے تحمل سے پوچھا۔
’’ میرے پاس اتنی سیونگ نہیں ہوتی کہ میں اس سے اتنا مہنگا موبائل لے سکوں ۔ میں سچ کہہ رہی ہوں مجھے یہ ڈریسنگ ٹیبل سے ملا ہے۔‘‘
باپ کو بھی اس نے وہی چیز بولی، مگر وہاں پریشانی کے سوا کوئی تاثر نہ ڈھونڈ پائی ۔دادی کی طرف دیکھا تو وہاں بھی سوائے تاسف کے اور کچھ نہ تھا۔
’’ ٹھیک ہے میں کاشان بھائی کو فون کر کے پوچھتی ہوں۔‘‘
اور کاشان کی طرف سے بھی یہی جواب تھا ۔ جب اس کو کچھ نہیں سوجھا تو شایان پر چڑھ دوری۔
’’ تم نے یہ سب کچھ کیا ہے ناں؟ مجھے اماں ابا کی نظروں سے گرانے کے لیے ؟‘‘
وہ شایان جو اس سے ہمیشہ اس بات پر لڑتا رہتا تھا کہ اس نے دنیا میں آ کر اس کی اہمیت کم کر دی تھی کہ اس گھر کا سب سے چھوٹا بچہ اس کو ہونا چاہیے تھا، سوائے افسوس بھرے لہجے میں کہے گئے اس جملے کے اور اس کو کچھ نہ کہہ سکا۔
’’ میں تمہیں ایسا دکھائی دیتا ہوں؟‘‘
’’تو میں آپ لوگوں کو ایسی دکھائی دیتی ہوں کہ میں چوری کروں گی یا کوئی غلط کام کروںگی وہ بھی اس فون کے لیے جو مجھے یقین ہے کہ میں ذرا سا رؤں گی تو میرے ابا مجھے دلا دیں گے ۔ ‘‘ بے بسی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
’’ ضروری نہیں چوری کی ہو، تم ہر وقت رومانس پڑھتی ہو اور ہر وقت پاگل لڑکیوں کی طرح شرماتی رہتی ہو یا سجتی سنوارتی رہتی ہو تو…‘‘ یہ عمارہ تھی۔
اس نے نوٹ کیا جیسے ہی عمارہ نے یہ بات کی تھی ابا نے اماں کو ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ نظروں ہی نظروں میں عمارہ کو کچھ کہنے سے منع کر رہے ہو۔
’’ تو ؟ ‘‘ اس کو اماں کی بات سمجھ نہ آئی ۔ اس چیز کا بھلا اس کے فون سے کیا تعلق؟
’’ تو ہو سکتا ہے کہ تمہارے کسی دوست نے تمہیں یہ دیا ہو؟‘‘
اماں کا لہجہ جھجک لیے ہوئے تھا۔
’’ عمارہ۔ ‘‘ اس نے باپ کی تنبیہہ سنی، مگر اماں نے نظر انداز کر دیا۔
’’ میرے سب دوستوں کو آپ لوگ جانتے ہیں اور اگر ان میں سے کسی نے دیا ہوتا تو میں اتنی وضاحتیں کیوں دیتی ؟ ‘‘ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔
’’ان کا مطلب تھا کہ تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہوگا جس نے یہ تمہیں گفٹ کیا ہو ۔ ‘‘ شایان نے صاف گوئی سے وضاحت دی۔
اس تیر جیسے سیدھے الزام پر وہ بوکھلا ہی گئی۔
’’ شایان اپنی حد میں رہو ۔ ‘‘ ابا ابھی بھی لاڈلی بیٹی پر کوئی الزام برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔
مگر اس نے جیسے ابا کی بات سنی ہی نہیں، بس شایان کا الزام یاد رہا ۔ وہ آنسو، جو کب سے پلکوں کی بار پر صبر سے ٹکے ہوئے تھے اس الزام پر ایک دم بوکھلا کر باہر آ گئے ۔ اس کے آنسو دیکھ کر سب کا خود بہ خود دل پگھل گیا۔
’’ ہمارا مطلب تھا بیٹا…‘‘ یہ دادی تھی مگر اس نے کچھ نہیں سنا۔
وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف گئی ۔ زور سے اپنے کمرے کا دروازہ پٹخ کر بند کیا اور اپنے بستر پر گر گئی ۔ آنسو تھے کہ مسلسل نکلے ہی جا رہے تھے اور اب وہ تیز آواز میں لگاتار غم اور غصے سے روئے جا رہی تھی ۔ اس کے گھر والوں نے اس کو ایک کانٹا تک نہیں چبھنے دیا تھا اور اب ایک دم اتنی بے اعتباری ۔اس نے روتے روتے اپنے فون کو دیکھا ۔ یہ وہ فساد کی جڑ تھا جس کی وجہ سے وہ سب کی نظروں میں وہ قصور وار بنی تھی ۔ اس نے پورا زور لگا کر فون سامنے دیوار پر دے مارا اور دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ جب وہ ہمیشہ کی طرح روتے روتے سو گئی تو اس کو پتہ بھی نہیں چلا کہ اس کے کمرے کا دروازہ کسی نے اندر سے لاک کیا تھا ۔
وہ وجود اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ کر انتہائی نرمی سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا۔

جاری ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے