سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 5

سال کا پہلا مووی ویک اینڈ تھا اور وہ لوگ خلاف توقع اس وقت حرا کے گھر جمع تھے ۔ یہ پہلی بار تھا جب وہ لوگ غازی کی طرف انوائٹڈ تھے ۔ جیسے ہی مووی شروع ہوئی تو غازی کو نجانے کیا سوجھی کہ بشائر کو اس وقت چھت پر لے آیا تھا ۔ وہ بھی آ گئی کہ اس نے بھی غازی سے کچھ بات کرنی تھی۔
’’ کاشان بھائی کو تم پسند نہیں آئے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ انہیںتو اپنی چھوٹی لاڈلی بہن کے لیے کوئی بھی پسند نہیں آ سکتا ہے ۔ شایان کا کہنا ہے کہ اس کا تمہیں بغیر دیکھے پسند کرنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم مجھے پوری زندگی بھگتو گے تو اس سے بڑھ کر کسی کا حوصلہ کیا ہوگا ؟ اماں اور ابا نے کاشان بھائی سے تمہاری تفصیل سن کر اتنا تو کہا ہے کہ وہ تم سے ملنا چاہیں گے اور دادی نے کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ تمہاری دادی سے مل کر کریں گی ۔ ‘‘ اس نے بیٹھتے ہی ساری بات غازی کے گوش اتاردی۔
’’ دادی سے ؟ ‘‘ وہ الجھا۔
بشائر نے لاپرواہی سے کندھے اچکا دِیے ۔
’’ان کی اپنی منطق ہے، ان کو ہی پتہ ہوگا۔‘‘
اس کی بات پر غازی نے سر ہلا دیا۔
’’ اور تمہاری طرف کیا حال ہے ؟ ‘‘ اس نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
جنوری کی شاموں کی اداسی ماحول میں بھی گھل رہی تھی۔
’’ اماں بی اور حرا کا تو رویہ تم نے دیکھ لیا تھا ۔ ‘‘ اس نے توقف کیا۔
’’ رہی بات بابا کی…‘‘
اس جملے کے ساتھ ہی اس کی آواز دھیمی ہو گئی تھی ۔ غازی نے کبھی کہا نہیں تھا مگر اتنا تو وہ جان ہی گئی تھی کہ غازی اور اس کے والد کے آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔
’’ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کوئی بھی فیصلہ تم سے اور تمہارے گھر والوں سے ملے بغیر نہیں کریں گے۔‘‘
بشائر نے سر ہلا دیا۔
’’ تو پھر تم بتاؤ کہ کب تمہارے گھر آئو ں ؟‘‘
’’ میں تم سے آگے چل رہی ہوں ۔ میں نے پہلے ہی اپنے گھر والوں سے پوچھ لیا ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ تمہارے بابا کو فیملی سمیت کاشان بھائی کی شادی پر ابا خود انوائٹ کریں گے ۔ اسی بہانے دونوں فیملیز مل بھی لیں گی ۔ ‘‘
’’ گریٹ! تم نے سب کچھ پہلے ہی طے کر لیا ہے ۔ ‘‘ اس کے انداز میں توصیف تھی۔
’’ تم اپنے بابا کا نمبر دے دینا ۔ میں اماں کو دے دوں گی، وہ بابا کو دے دیں گی ۔‘‘
اس کی بات پر غازی نے سر ہلا دیا ۔ پھر غازی نے دیکھا کہ اس نے ایک دم دونوں ہونٹ بھینچ کر نظریں چرالی ۔اس کی نظریں اس وقت ڈوبتے ہوئے سورج پر تھی۔
’’ تم نے کچھ کہنا ہے کیا ؟ ‘‘ غازی کے پوچھنے پر بشائر نے حیرت سے آنکھیں پھیلا کر اس کو دیکھا۔
وہ کب سے اس کو صحیح صحیح جاننے لگ گیا تھا ؟ اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا، پھر بند کر لیا ۔ کچھ لمحے ایسے ہی خاموشی سے ان کے درمیان سرک گئے، جن میں نہ بشائر نے کچھ کہا اور نہ غازی نے کچھ پوچھا۔
’’ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں…‘‘ اس نے بہت ہمت کر کے بات کی شروعات کر ہی دی۔
’’ میں تم سے کچھ باتیں کلیئر کرنا چاہتی ہوں غازی ۔ ‘‘ اس نے بات کے آخر میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
’’کیسی باتیں…‘‘
اس نے ایک پل کے لیے اس سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا ۔ اس کی صاف رنگت دھوپ سے سنہری ہو رہی تھی، اس نے غور کیا کہ اس کی عنبر رنگ آنکھوں کا حصار لیے ہوئے اس کی پلکیں بھی اسی رنگ کی تھی، یا پھر یہ دھوپ کا کمال تھا، وہ جان نہیں پائی تھی۔
غازی نے جب اس کے بولنے پر اس کی طرف نظریں اٹھائی تو ان نظروں میں اس کے لیے اتنی نرمی تھی کہ وہ ایک پل کے لیے بھول گئی تھی کہ اس نے کیا کہنا تھا،مگر کہنا بھی تو ضروری تھا ۔ سوال زندگی کا تھا، اور زندگی کے سوال کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے۔
’’ میں صرف کاروبار پڑھتی ہی نہیں، میرا دماغ بھی کاروبار سوچتا ہے میں کیلکولٹرسک پر یقین رکھتی ہوں غازی ۔ میں نے تم سے محبت کر کے اپنے دل کو داؤ پر لگا کر ایک رسک لے لیا ہے ۔ ‘‘
کیا اس نے یہ کہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی ہے؟
’’ شادی کرنے کا مطلب ہے کہ میں اپنی زندگی بھی تمہارے ہاتھ میں دے رہی ہوں ۔ ‘‘ وہ تھوڑی دیر رکی اور سامنے بیٹھے شخص کو ایک بار پھر سے نظروں سے تولا۔
اس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’ اگر کسی اور نظریے سے دیکھا جائے تو شاید تمہارے بابا کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو انہوں نے کیا ہے ۔ ‘‘ اس نے آخر بلی تھیلے سے باہر نکال ہی لی۔
پھر اس نے دیکھا کہ راجہ اشعر کے ذکر پر کیسے غازی کا سنہری رنگ ایک پل میں سیاہ ہوا تھا۔ مگر کچھ چیزیں کڑوی گولی کی طرح ہمیں چپ چاپ کھا لینی چاہیے۔
’’ انہوں نے جو کچھ کیا اس کی کوئی جسٹی فیکیشن نہیں ہے اور نہ ہی میں انہیں جسٹیفائی کر رہی ہوں ۔ مگر بعض اوقات جب تک ہم کسی جگہ پر خود جا کر کھڑے نہیں ہوتے، ہمیں کوئی حق نہیں بنتا، کسی کے فیصلے کو چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو کو جج کر سکے ۔ ‘‘
غازی نے کچھ کہنا چاہا تو بشائر نے اس کو اشارے سے کچھ دیر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
’’ ایک وقت آئے گا غازی کہ تم ان کی کرسی پر بیٹھو گے اور پلیز انکار نہیں کرنا ۔ یہ دنیا کی ریت ہے ۔ ہم اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ۔ ‘‘ غازی کے چہرے پر احتجاج کے رنگ دیکھ کر وہ تیزی سے بولی۔
’’ اور جب یہ وقت آئے گا تو ہو سکتا ہے کہ میرے جذبات تمہارے لیے وہ نہ رہیں اور تمہارے جذبات میں بھی شاید وہ آنچ نہ رہے، جو اب ہے ۔ اور وقت آنے پر اگر میں تمہیں بیٹا نہ دے سکی…‘‘ وہ تھوڑی دیر رکی اور گہری سانس لی اور اپنا جملہ مکمل کیا۔
’’ یا سرے سے اولاد ہی نہ دے سکی تو ہم دونوں اس وقت کہاں کھڑے ہوگے ؟ ‘‘ اس کی بات پر غازی سوچ میں پڑ گیا۔
پھر بولا۔
’’ تمہیں یاد ہے میں نے تم سے اپنی وفا اور ساتھ کا وعدہ کیا تھا؟‘‘
بشائر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ پھر اس کے بعد بھی کیا مجھ پر بھروسہ نہیں ہے ؟ ‘‘ اس کی آواز دھیمی اور لہجہ جیسے ہر احساس سے عاری تھا، جیسے اس کی بات نے اس کو مایوس کیا تھا۔
کس دعوے سے اس نے اس کے بھائی کو بولا تھا کہ اس کو اپنی بہن کے انتخاب پر بھروسہ رکھنا چاہیے تھا۔کیا اس کا مان غلط تھا؟
’’ تم پر ہے مگر زندگی پر نہیں ہے۔’’
’’ زندگی کسی کی بھی سیدھی لکیر نہیں ہے، یہ میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی جانتی ہو ۔ سو زندگی نے ہمارے لیے جو بھی بہانے چھپا کر رکھے ہوئے ہیں۔ میں دیکھنا چاہوں گا ۔ ‘‘ وہ ٹھہرا اور اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھا۔
’’ اور جو تبدیلی ہمارے جذباتوں میں آئے گی ۔ ‘‘ بشائر بے یقین نہ تھی مگر زندگی کے تجربات نے اس کو یہ تو سکھا ہی دیا تھا۔
’’ تبدیلی زندگی کا حصہ ہے ‘اچھی یا بری ۔ ‘‘ اس کا لہجہ اس کی ناراضگی کو ظاہر کررہا تھا۔
’’ پہلی بات کہ میں تمہارے جذبات کو تبدیل ہونے بھی نہیں دوں گا،کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ تبدیلی کے باوجود تم مجھے کبھی بھٹکنے نہیں دوگی ۔ ایسا ہوا تو مجھے ہر تبدیلی منظور ہے بس تمہارا ساتھ ہو، اور پھر زندگی جو بھی میرے لیے رکھے، مجھے منظور ہے ۔ ‘‘
اب کی بار نہ اس کا لہجہ احساس سے عاری تھا اور نہ ہی عام سا تھا ۔ مگر جیسا بھی تھا، بشائر تک ان جذبوں کی آنچ پہنچ گئی تھی ۔ اور وہ ایک پل کے لیے ششدر ہی رہ گئی تھی، اتنا بھروسہ، اتنا مان ؟ تھوڑی دیر تک وہ دونوں چپ چاپ وہی بیٹھے رہیں ۔ بشائر نے آسمان پر چھائے رنگوں کو دیکھا ۔ دن آہستہ آہستہ شام کے سفر پر گامزن تھا اور سورج اب آرام کرنا چاہتا تھا۔
’’ سب جارہے ہیں، مجھے بھی اب گھر جانا چاہیے۔ ‘‘ اس نے دیکھا کہ باقی سب بھی اب مین گیٹ سے جا رہے تھے۔
’’ مگر جانے سے پہلے میں نے تم سے ایک بات اور کرنی تھی ۔ ‘‘ اس نے دور کہیں آسمانوں کے بدلتے رنگوں سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
’’ وہ ارمان…‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا۔
’’ اس سے بات کر لی ہے میں نے ۔ تھوڑی دیر بعد تم مجھے گھر ڈراپ کر دینا ۔ ‘‘ بشائر نے جواب دیا۔
’’ میں نے ایک بار کہا تھا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں ایک دوسرے کے شیطانوں کے بارے میں پتہ ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے بارے میں سب جانتی ہوں غازی ۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میرے شیطان کیا تھے؟‘‘
’’ کیا یہ ضروری ہے ؟ ‘‘ غازی کا لہجہ دھیما تھا اور اس کے چہرے پر ابھی بھی بشائر کی باتوں کا اثر تازہ تھا۔
’’ ہاں، ضروری ہے۔‘‘ بشائر نے ایک نظر سامنے بیٹھے انسان کو دیکھا اور گہری سانس بھری۔
اب وقت آ گیا تھا کہ وہ بات کہہ دی جائے جس کو جاننے کا حق غازی کو پہلے دن سے تھا ۔ اب کی بار وہ کچھ چھپا کر غلطی نہیں کرے گی۔
’’ محبت… محبت ہے میرا سب سے بڑا شیطان غازی!‘‘
٭…٭ …٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے