طلسم : قسط نمبر 5
’’ یہاں کھانے کا کوئی وقت نہیں ہوتا ۔ عمر کوٹ میں ہم سب جلدی کھانے کے عادی ہیں ۔ ‘‘ فضیلہ بیگم نے اس کو مطلع کیا۔
اس نے ایک بار پھر سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہر بات کا جواب زبان سے دینا ضروری نہیں ہوتا۔
’’ آپ کے گھر میں کیا رواج ہے ؟ ‘‘ انہوں نے کچھ توقف کے بعد پوچھا۔
’’میں نے اپنی زیادہ تر پڑھائی گھر سے باہر کی ہے ۔ میرا ایک بھائی فوج میں ہے اور دوسرا چین میں ہوتا تھا، آج کل اسلام آباد میں ہے ۔ ہم لوگ جب ساتھ ہوتے ہیں تو دیر رات تک جاگتے ہیں ۔ تو کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا ہمارے کھانے کا۔‘‘
’’یعنی آپ کے یہاں کوئی رواج نہیں ہے۔‘‘
نہیں، رواج تو ہے۔ یہی تو رواج ہے کہ ہم لوگ جب ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہیں تو ہم کھانے کے متعلق کم اور ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔ ‘‘
’’ آپ سب جب باہر ہوتے ہیں تو گھر کے بزرگ کیا کرتے ہیں ؟ ‘‘
’’ بزرگ یعنی میری دادی ؟‘‘ اس نے جوس کا ایک گھونٹ لے کر پوچھا۔
’’ وہ بھی اور آپ کے امی اور ابا بھی۔‘‘
’’ اماں اور دادی تو حویلی میں ہی ہوتے ہیں ۔ ابا کا کاروبار کے سلسلے میں ایک پاؤں گاؤں میں تو ایک پاؤں شہر میں ہوتا ہے ۔ اکثر اماں بھی ان کے ساتھ ہوتی ہیں۔‘‘
’’ پھر آپ کی دادی کیا کرتی ہے ؟ ‘‘
’’ دادی کا اپنا بہت بڑا سوشل سرکل ہے ۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے اپنے مسئلے مسائل کے لیے ان کے پاس آتے ہیں ۔ وہ ان کی ٹیچر بھی ہیں اور درس بھی دیتی ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں اپنی دادی کے لے پیار ہی پیار تھا۔
’’مگر وہ خون کے رشتوں کا تو نعم البدل تو نہیں ہیں۔‘‘
’’ میری دادی وہ کرتی ہیں جن سے ان کو خوشی ملتی ہیں اور ہمیں انہوں نے وہ کرنے کی اجازت دی ہے، جس میں ہمیں خوشی ملتی ہیں ۔ خون کے رشتوں کو پیار اور احساس کے نام پر پابند کرنا کوئی محبت تو نہیں۔‘‘
اس کی بات پر فضیلہ بیگم کے چہرے پر ناگواری نے بسیرا کر لیا۔
’’ یعنی آپ کہہ رہی ہو کہ یہ جو زمانے کی ریت بنی ہوئی ہے ، وہ غلط ہے۔‘‘
’’ جو ریت ہمیں ہماری خوشیوں اور خوابوں سے دور کر دے وہ غلط ہے۔ میرے گھر والوں نے مجھ پر اعتماد کر کے مجھے اپنے خواب پورے کرنے کی اجازت دی ہے ۔ بدلے میں، میں ہر قدم پر اس بات کا خیال کرتی ہوں کہ کچھ ایسا نہ کروں جس سے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے ۔ میرے خیال سے یہ ریت زمانے کی اس ریت سے بہتر ہے جو لڑکی پر پابندی لگا کر اس کو بے اعتماد کردے۔‘‘ اس نے بات کے آخر میں جوس کا ایک لمبا مگر بے آواز گھونٹ بھرا اور اس کو میز پر رکھی ٹرے میں رکھ دیا۔
ساتھ ہی فضیلہ بیگم کا ان چھوا گلاس پڑا تھا ۔ فضیلہ بیگم اس کی بات پر ایک دم مسکرا دی ۔ اب کی بار جو مسکراہٹ ان کے چہرے پر تھی وہ ان کی آنکھوں تک گئی تھی۔
’’ روایتیں کسی وجہ سے ہی بنتی ہے۔ نئی نسل کو چاہیے کہ ان روایتوں کو رد کرنے کے بجائے ان کی جگہ نئی روایتیں قائم کریں، زیادہ مضبوط اور نئے دور کے تقاضوں کے مطابق…‘‘ اب کی بار وہ بولی تو لہجے میں رعب کے ساتھ مٹھاس بھی تھی۔
’’ جب میری اور غازی کی شادی ہوگی اور ہماری کوئی اولاد ہوئی تو…‘‘ فضیلہ بیگم نے غور کیا کہ اس نے جب کہا تھا، اگر نہیں۔
’’ تو آج سے تقریباً بیس سال بعد میں بھی ایک روایت بنائوں گی کہ صرف لڑکی ہی لڑکے کے گھر والوں کو پسند آنی چاہیے ۔ بلکہ لڑکی کو بھی لڑکے کے گھر والے پسند آنے چاہیے ۔ ‘‘
فضیلہ بیگم کو غیر متوقع طور پر اس کی بات اچھی لگی تھی۔
’’ آپ کو یخنی پلائو پسند ہے ؟ ‘‘ انہوں نے نرم لہجے میں پوچھا۔
’’ بہت ۔ ‘‘ وہ بھی کھل کر مسکرائی۔ تھوڑی دیر پہلے والا ماحول کا تنائو اب جیسے غائب ہو گیا تھا۔
’’تو پھر چلیں میں آج آپ کو اپنے ہاتھ کا بنا یخنی پلائو کھلاتی ہوں ، اس کے بعد بتانا کہ میں آپ کو کیسی لگی ہوں۔‘‘
وہ اٹھ کر وہاں سے گئی تو بشائر ایک دم پر سکون ہو کر بیٹھ گئی ۔ وہ امتحان جو بھی تھا، وہ جانتی تھی کہ وہ اس میں کامیاب ہو گئی تھی۔
٭…٭ …٭
کاشان کو جب بشائر نے بتایا کہ وہ اس کے کلاس فیلو سے مل لے تو وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ملنا کس سلسلے میں تھا ۔ خاص طور پر اب جب وہ خود بھی اس کے گھر والوں سے ملنے والی تھی ۔ اور جب اس کو پتہ چلا کہ اس کے گھر والے کون تھے تو وہ سوچ میں پڑ گیا ۔ اس کے بعد اس نے وہی کیا جو ایک بھائی کو کرنا چاہیے تھا ۔ وہ ایک دن پہلے ہی کراچی آ گیا تھا اور سیدھا اس نے تیمور کے آفس کا رخ کیا ۔ کسی زمانے میں وہ دونوں بہت اچھے دوست تھے، مگر وقت کی دھول میں یہ دوستی صرف سلام دعا تک رہ گئی تھی ۔ سلام دعا کے فوراً بعد ہی کاشان مدعے پر آگیا تھا۔
’’ بشائر تمہاری چھوٹی بہن ہے نا ؟ وہ اتنی بڑی ہو گئی ہے کہ اس کی شادی کے متعلق سوچا جائے ۔ ‘‘ تیمور کے لہجے میں خوشگوار سی حیرت تھی۔
کاشان بھی مسکرا د یا ۔ سچ میں، ان سب کے لیے تو وہ ابھی بھی اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر سیر کرتی ہوئی پانچ سال کی بچی تھی۔
’’ بس کیا کریں۔ بہنوں کا پتہ ہی نہیں چلتا ہیں کہ کب بڑی ہو جاتی ہیں ۔ اسی لیے یہاں آیا ہوں کہ لڑکے سے ملنے سے پہلے تم سے اس کے بارے میں پوچھ لوں ۔ ‘‘
’’ میں جانتا ہوں لڑکے کو ؟ ‘‘ تیمور کی بات سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ اس معاملے سے بے خبر تھا۔
’’ جی، بہت اچھے سے۔‘‘
’’ کہیں وہ ارمان تو نہیں ۔ ‘‘ تیمور کی بات پر وہ ہنس دیا۔
’’ مجھے بھلا ارمان کے بارے میں معلومات کروانی ہو تو وہ تم سے ہی کرواؤں گا ؟ ارمان کو میں بچپن سے جانتا ہوں۔‘‘
’’ ہاں یہ تو ہے ۔ ‘‘ وہ خجالت سے مسکرایا۔
’’ تو پھر کون ہے ؟ ‘‘ تیمور نے آگے ہو کر پوچھا۔ اس کا تجسس عروج پر تھا۔
’’ حرا بھابھی کا بھائی ہے غازی ۔ ‘‘ کاشان نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ غازی؟‘‘ تیمور کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ دور دور تک اس کے دماغ میں بشائر کے لیے غازی کا نام نہیں آیا تھا۔
کاشان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ کوئی بات ہے؟‘‘ کاشان کو تشویش ہوئی۔
اس کو لگا تھا کہ تیمور کچھ بولنا چاہتا تھا مگر جیسے اس کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بولے یا نہ بولے۔
’’ نہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہے تم بتائو کہ کیا پوچھنا ہے تم نے؟‘‘
’’ بھئی، میرا تو یہی سوال ہے کہ کیسا لڑکا ہے یہ غازی؟‘‘
’’ اگر دنیاوی حساب سے دیکھا جائے تو غازی ایک ایسا لڑکا ہے جو کوئی بھی اپنے ہونے والے داماد کے روپ میں دیکھنا چاہے ۔ وہ اچھے خاندان سے ہے ، ویل آف ہے۔ دیکھنے میں بھی اچھا ہے ۔ پڑھائی سے بھی جان نہیں چراتا ۔ کوئی بری عادت بھی نہیں ہے۔ …‘‘
’’ مگر؟‘‘
’’مگر مجھے نہیں پتہ کہ تم ان باتوں پر یقین رکھتے ہو یا نہیں، میں تو نہیں رکھتا ۔ میں نے سنا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی روحانی مسئلہ تھا۔‘‘
’’ روحانی مسئلہ، کیا مطلب ؟ ‘‘
’’ صحیح بولوں تو میں نے کبھی اپنے سسرال کے مسئلے مسائل میں اتنی دلچسپی نہیں لی کہ مجھے تفصیلات پتہ ہو ۔ میں نے سنا تھا کہ غازی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے، وہ اپنے غصے پر قابو نہیں پا سکتا ۔ مجھے تو لگتا تھا کہ یہ صرف اینگر ایشو ہے ۔ میں نے اسے کبھی بہت زیادہ غصہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔‘‘
’’ یعنی اب وہ ٹھیک ہے ؟ ‘‘
’’ صحیح بولوں تو وہ بہت زیادہ اپنے آپ میں رہنے والا لڑکا ہے ۔ بظاہر اس میں کوئی برائی نہیں ہے مگر تمہیں اس کے بارے میں ایسے انسان سے پوچھنا چاہئے جو اس کے زیادہ قریب ہو ۔ ‘‘
’’ جیسے کہ؟ ‘‘
’’ جیسے کہ ارمان ؟ ان دونوں کا تقریباً دن رات کا ساتھ ہے۔‘‘ اس کی بات پر کاشان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ کیا تمہارے خیال میں وہ بشائر سے مخلص ہے ؟ ‘‘ اس نے ایک آخری سوال پوچھا۔
’’ تمہیں پتہ تو ہے کہ کاشان کسی بھی لڑکے کی مخلصی کی اس سے بڑھ کر اور کیا نشانی ہوگی کہ وہ لڑکی کو اپنے گھر والوں سے ملوا لے اور خود لڑکی کے گھر والوں سے ملنے پر راضی ہو جائے ۔ ‘‘ تیمور کی بات پر اس نے کھڑے ہو کر مصافحہ کر کے گھر کی راہ لی۔ اس کو معلوم تھا کہ اب اس کو کیا کرنا تھا۔
٭…٭ …٭
کاشان کی آرمی کی ٹریننگ نے اس کو اور کچھ سکھایا ہو یا نہیں ، اس کو یہ ضرور سکھا دیا تھا کہ انسانوں کو پڑھا کیسے جاتا ہے ۔غازی کو اس نے جب پہلی نظر دیکھا تو اس کو لگا کہ وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے بہت زیادہ رت جگے دیکھے تھے ۔ یہ رت جگے کسی موبائل یا سوشل میڈیا کی مرہون منت نہ تھے ۔ ایسے رت جگے انسان کو اپنے شیطانوں سے لڑتے ہوئے تحفے میں ملتے ہیں ۔ ایسے رت جگے کاشان کا اس وقت مقدر ہوئے تھے ، جب وہ اپنی پہلی جنگ میں شامل ہوا تھا اور جب اس نے اپنا دل سخت کر لیا تھا ۔ اچھی بات یہ تھی کہ یہ سامنے بیٹھے ہوئے لڑکے نے اپنا دل سخت نہیں کیا تھا ۔ دل کی سختی انسان سے انسان کا ضمیر چھین لیتی ہیں ۔ وہ لوگ اس وقت شہر کے مشہور ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ کاشان نے دو گھنٹے بعد بشائر کو لے کر نکل جانا تھا ۔ ان دو گھنٹوں میں اس نے غازی کو پرکھنا تھا ۔ اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے غازی کے ہاتھ تھوڑے سے نم تھے ۔ یہ یقیناً پسینے کی وجہ سے تھے ‘یعنی کہ وہ اتنا زیادہ پر اعتماد نہ تھا جتنا وہ ظاہر کر رہا تھا۔
’’ میری بہن نے کہا تھا کہ تم سے مل لوں ۔ مجھے اپنی بہن پر اتنا بھروسہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہے ۔ اس لیے میں تم سے زیادہ سوال جواب نہیں کروں گا ۔‘‘
بیرا چائے لے آیا تھا۔ اس نے اپنی چائے پکڑ لی مگر غازی نے چائے میز پر رکھ دی۔
’’ چائے پسند نہیں کیا ؟‘‘
’’ میں بہت زیادہ گرم چائے نہیں پیتا ۔ ‘‘ غازی نے سادگی سے جواب دیا۔
’’ اچھی بات ہے۔ صبر ایک مرد کی بہترین خوبی ہوتی ہے ۔ بشائر ذرا جلد باز ہے ۔ تمہارا صبر اس کی بے صبری کو ٹھہرا دے گا۔‘‘
’’ اس کی اچھائی میری برائی کو شکست دے سکتی ہے۔‘‘
’’ کیسی ہے تمہاری برائی غازی؟‘‘ اس نے آگے ہو کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
اس کی بات پر غازی کے چہرے پر سایہ سا لہرایا، مگر وہ خاموش رہا۔
’’ تمہیں پتہ ہے تم جیسے لڑکے کیا کرتے ہیں ؟ اپنے اندر کے شیطان دکھا کر لڑکیوں کے اندر جو نرم گوشہ ہوتا ہے اس کو بیدار کرتے ہیں اور وہ نادان لڑکیاں ، اس نرم گوشے کو محبت سمجھ کر تم لوگوں کے ہاتھوں دھوکہ کھاتی رہتی ہیں ۔ یو نو بیڈ بوائے تھینگ!‘‘
اس کی بات پر غازی مسکرا دیا ۔ اب کی بار اس کی مسکراہٹ میں کوئی خجالت، کوئی جھجک نہ تھی۔
’’ آپ نے خود ہی تو ابھی کہا تھا کہ مجھے بشائر نے خود چوز کیا ہے اور آپ کی بہن بزنس مائنڈڈ ہے ۔ وہ نفع اور نقصان کو کسی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ہی جانچ لیتی ہے ۔ آپ کو لگتا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنی زندگی کو داؤ پر لگائے گی؟‘‘
کاشان نے آہستہ سے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور اس کی بات پر مسکرا دیا ۔ اس کی مسکراہٹ نے غازی کو ایک دم پرسکون کردیا ۔ یہ مسکراہٹ غازی دن میں کتنی بار دیکھتا تھا ۔ اس کو اب سمجھ آتی تھی کہ بشائر نے اپنی شخصیت کا یہ حصہ کہاں سے چرایا تھا ۔
’’ اگر کچھ سال پہلے یہ بات تم مجھ سے کہتے تو میں کچھ اور کہتا مگر اب مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ تم ٹھیک ہو، ینگ مین ۔‘‘
’’ تو میں پاس ہو گیا؟‘‘
کاشان نے اس انداز سے کندھے اچکائے جو ایک فوجی کی ذات کا خاصہ تھی۔
’’ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘‘
اور وقت کی وجہ سے ہی کاشان کو بہت پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ اگر اپنی زندگی کا فیصلہ بشائر نے خود ہی کرنا تھا تو جتنا وہ اپنی بہن کو جانتا تھا، اس کو اسی طرح کا نمونہ پسند آنا تھا ۔ کم از کم کاشان کو اس بار اتنا تو اعتبار تھا کہ اب کی بار بشائر اپنے دل کے ہاتھوں اپنی خوشیاں قربان نہیں کرے گی۔
٭…٭ …٭