سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 5

’’ میرے گھر آؤ گی ؟ ‘‘ وہ اس کو جانے سے پہلے کسی سے ملوانا چاہتا تھا۔
’’ عمر کوٹ؟‘‘
’’ وہاں بھی آ سکتی ہو، اگر چاہو تو‘ فی الحال حرا کے گھر آؤ گی؟‘‘
’’ تیمور بھائی کے ؟ ‘‘ بشائر ان لوگوں کو اتنا نہیں جانتی تھی ۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ارمان کے توسط سے ان سے سلام دعا تھی ۔ حرا تو ان کی اکنامک کی ٹیچر تھی تو وہ اس کو رشتے دار سے زیادہ ٹیچر کی حیثیت سے جانتی تھی۔
’’ حرا سے ملوانا ہے ؟ ‘‘ وہ متذبذب تھی۔
’’ ان سے تم ملی ہوئی ہو،کسی اور سے ؟ ‘‘ وہ ابھی بھی مبہم تھا۔
’’ تم نے ہمارے بارے میں…‘‘ وہ ایک دم جھجکی ۔
’’ ہمارے بارے میں کیا ؟ ‘‘
’’کسی کو بتایا ہے؟‘‘
’’نہیں، صرف اپنی اماں بی کو بتایا ہے کہ کوئی ہے جو میری زندگی میں آیا ہے، مگر وہ جانتی نہیں۔ کہ وہ کون ہے؟‘‘
’’ اماں بی؟‘‘ غازی نے اس کو اماں بی سے غائبانہ تعارف کروا دیا تھا۔
’’ کیا مجھے تمہارے باقی گھر والوں کا بھی اپروول لینا ہوگا؟‘‘ وہ فکر مند ہوئی۔
’’سچ بولوں؟‘‘
اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ کسی کا بھی نہیں ‘مجھے خوشی ہوگی کہ میری اماں بی کو تم اچھی لگی تو، مگر باقی سب کا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
’’ تم نے واپس کب جانا ہے ؟ ‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولی۔
’’ دو تین دن میں۔‘‘
’’ مجھے کل کاشان بھائی نے لینے آنا ہے، تم ان سے ملو گے؟‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ ‘‘ ان کے آس پاس بھیڑ بڑھنے لگی تھی ۔ وہ جلد از جلد بات کو سمیٹنا چاہتی تھی۔
جب اس نے سوچنے میں ایک پل نہیں لگایا تو وہ کیوں لگائے ۔ وہ کاروبار پڑھتی تھی اور ہر چیز میں لین اور دین پر یقین رکھتی تھی۔ تھوڑا اس نے دیا تھا، تھوڑا وہ دے گی۔ اس نے بھی فوراً ملنے کی حامی بھر لی۔
’’ آج رات ؟ ‘‘
وہ کہنا چاہتی تھی کہ بہت جلدی ہے مگر آج یونیورسٹی کا آخری دن تھا۔ جو بھی طے کرنا تھا آج ہی کرنا تھا۔
’’ ٹھیک ہے ۔ ‘‘
’’ میں لینے آؤں ؟ ‘‘ سامنے سے ارمان آ رہا تھا۔
’’ نہیں، مجھے تیمور بھائی کے گھر کا پتہ معلوم ہے۔‘‘
’’ تم نے کیا کرنا ہے تیمور بھائی کے گھر جا کر ؟ ‘‘ ارمان نے اس کی آخری بات سن لی تھی۔
’’ حرا میم سے کام ہے ۔ ‘‘ اس کو انعم کا رد عمل یاد تھا۔ وہ ابھی کسی کو بھی اپنے رشتے میں جج نہیں بنانا چاہتی تھی۔
٭…٭ …٭
’’تم تیمور بھائی کے گھر جا کیوں رہی ہو ؟ ‘‘ ارمان کو شک تھا کہ معاملہ کچھ اور تھا۔
’’ کہا ہے نا، مجھے حرا میم سے کام ہے۔’’
’’ رات کو ؟ ‘‘ وہ مطمئن نہیں تھا۔
اس نے دن میں فون کر کے اماں سے اجازت تو لے لی تھی اور کچھ کچھ غازی کے متعلق بھی بتادیا تھا، مگر وہ فی الحال ہر بات فائنل ہونے کے بعد ہی سب کو سب بتانا چاہتی تھی ۔ حالاں کہ اس کو معلوم تھا کہ یہ بات کم از کم ارمان سے تو زیادہ دیر تک چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ ابھی فی الحال جب ارمان اس کو محمود جیلانی کے گھر ڈراپ کر رہا تھا تو اس کو شک تو تھا، مگر پتہ نہیں ان دونوں کے آخری بار کے واقعے کے بعد سب نے از خود ہی سمجھ لیا تھا کہ ان دونوں کے درمیان اب کچھ بھی صحیح نہیں ہو سکتا تھا ۔ جب وہ گھر کے اندر آ گئی تو بشائر نجانے کتنے عرصے بعد اس طرح نروس ہوئی تھی ۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ وہ اپنے چہرے سے کچھ بھی ظاہر نہ کریں ۔ اس نے تیاری بھی بڑی احتیاط سے کی تھی۔ جتنا وہ دادی ٹائپ کی مخلوق کو جانتی تھی وہ لوگ پرانے زمانے کی ہوتی تھی، اس کی پوری کوشش تھی کہ لباس تھوڑا سا ہی سہی مشرقی پہنے ۔ وہ بالکل اپنی فطرت کے خلاف جا کر کسی کو متاثر نہیں کر سکتی تھی ۔
انسان کا سب سے بڑا دھوکہ اگلے انسان کو اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ کسی سے وہ بن کر ملے جو وہ درحقیقت نہ ہو۔ وہ غازی کے گھر والوں سے بشائر کے ہی روپ میں ملنا چاہتی تھی۔ باقی ان کی مرضی کے وہ اس کو پسند کریں یا نہ کریں ۔ کسی اگلے انسان کی پسند ناپسند پر بشائر کا بس نہیں تھا۔ صد شُکر تھا کہ ارمان غازی سے ملنے کا کہے بغیر اس کو ڈراپ کر کے چلا گیا تھا۔
’’ میں آتے ہوئے اس سے مل لوں گا ۔ ‘‘ وہ یہ کہہ کر گاڑی زن سے اڑا لے گیا۔
یہ پہلی بار نہیں تھا کہ وہ اس گھر میں آئی ہو، مگر کبھی بھی اکیلے نہیں آئی تھی ۔ غازی اس کو دروازے پر ہی مل گیا تھا۔
’’ یہ سب کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ ‘‘ کیا غازی بھی اسی کی طرح نروس تھا۔
کم از کم اس کو تو اس کا لہجہ ایسا ہی لگا تھا۔
’ ’پتہ نہیں ۔ ‘‘ کاشان نے فون کر کے اس سے بات کر لی تھی۔
اس نے اس کو غازی کے بارے میں بتا دیا تھا ۔ سب کچھ نہیں، بس یہی سب کہ وہ اس کا کلاس فیلو ہے، اور وہ چاہتی ہے کہ وہ اس سے مل لیں ۔ باقی کاشان خود ہی سمجھ دار تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ ملنے کا کیا مطلب ہوتا تھا ۔ غازی کے سنگ اندر جاتے ہوئے اس کے پیٹ میں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ابال اٹھ رہے تھے ۔ جیسے انسان نے کبھی بچپن میں کوئی بہت اونچا جھولا جھولا ہو اور اونچائی پر جاتے ساری جیسی گدگدی پیٹ کو چھو جاتی ہے، ویسی ہی گدگدی نے بشائر کے پیٹ میں بسیرا ڈالا ہوا تھا۔ اس نے خوامخواہ مسکرا کر اس احساس کو کم کرنا چاہا، مگر کر نہیں پائی ۔ اس نے سامنے کھلے دروازے کو دیکھا جس کے پار نجانے کون سا امتحان اس کا منتظر تھا ۔ اس نے ایک گہری سانس بھری اور آگے بڑھ دی۔
کیوں کہ زندگی کا کام ہی آگے بڑھنا ہے۔
٭…٭ …٭
غازی کے رویے میں تبدیلی تو انہوں نے اس وقت سے محسوس کی تھی جب سے وہ کراچی آیا تھا ۔ مگر پچھلے سال کے آخر میں جب اس نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی آ گیا تھا تو فضیلہ بیگم کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ خوش ہوں یا پرتشویش ۔ اس طرح کے ابال نوجوان لڑکوں کو اپنی عمر میں اٹھتے ہی رہتے ہیں، بھلے غازی کی طرح وہ لڑکے مختلف ہی کیوں نہ ہو ۔ جب ایک دم ہی غازی نے آ کر ان کو یہ خبر سنائی کہ وہ ان کو اس لڑکی سے ملوانا چاہتا تھا تو وہ جان گئی تھیں کہ یہ ابال وقتی نہیں تھا۔
’’ بشائر ؟ ‘‘ حرا سے جب انہوں نے اس لڑکی کے متعلق پوچھا تو اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس بات کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
اس وقت وہ کچن میں شام کی چائے کی تیاری کر رہی تھی، جب وہ بھی اس کے پیچھے آ گئی تھی ۔ انہوں نے سب سے پہلے نوکروں کو باہر بھیج دیا تھا۔
’’ رات کے کھانے پر بلایا ہے غازی نے اس کو۔‘‘ انکا لہجہ عام سا تھا۔
’’بشائر اور غازی؟ مجھے پتہ کیوں نہیں چلا ۔ ‘‘ وہ چائے چھوڑ کر ان کی طرف پلٹی۔
’’ جانتی ہو اس کو ؟ ‘‘ یہ سوال نہیں تھا۔
’’ جی، ارمان کو تو جانتی ہیں نا آپ، اس کی خالہ زاد ہے ۔ دونوں یونیورسٹی میں ساتھ ہی پڑھتے ہیں ۔ حیرت ہے مجھے پتہ کیوں نہیں چلا ۔ ‘‘ حرا کے چہرے کی خوشگواری بتا رہی تھی کہ وہ اپنے بھائی کے لیے خوش تھی۔
مگر جو کچھ فضیلہ بیگم نے دیکھا تھا وہ حرا نے نہیں دیکھا تھا۔ عمر کوٹ کی حویلی کی تاریکیوں کو فضیلہ بیگم جانتی تھی۔ اور وہ غازی کے شیطانوں سے بھی واقف تھی ۔ ان کی نظر میں غازی کے لیے پہلے سے ہی کچھ لڑکیاں تھی۔ ایسی لڑکیاں جو سوال کم کریں اور دیکھ کے بھی اندھی ہو جائے ۔ ایک مکمل مشرقی عورت جو غازی کی بیوی کے روپ میں آئے تو اس کے شیطانوں سمیت اس کو نہ صرف اپنائے بلکہ کوئی گلہ بھی حرف زبان پر نہ لے کر آئے ۔ ایسی کئی لڑکیاں ان کی نظر میں تھی۔ مگر یہ بشائر…؟
حرا آہستہ آہستہ بشائر کا شجرہ نسب اس کو بتا رہی تھی۔ اکلوتی، پڑھی لکھی، پر اعتماد ، لڑکوں سے دوستی کرنے والی لڑکی ، لڑکوں سے عشق لڑانے والی لڑکی ۔ اس طرح کی لڑکیاں چپ نہیں رہتی ۔ اس طرح کی لڑکیوں کو سانس لینے کے لیے کھلی کھڑکیاں چاہیے ہوتی ہیں ۔ وہ حویلی کے بند دروازوں کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتی۔
’’ میں ایک کام کرتی ہوں کہ چائنیز اور پاستا بنوا لیتی ہوں بشائر کے لیے ۔ آج کل کی لڑکیاں اس طرح کے کھانے پسند کرتی ہیں ۔ ‘‘ حرا خوشی خوشی اب پلیٹ میں نمکو نکالتے ہوئے رات کا پروگرام ترتیب دے رہی تھی۔
فضیلہ بیگم نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کھانے روایتی ہی بنائو ۔ اگر اس نے ہماری زندگی کا حصہ بننا ہے تو شروع سے ہی روایتوں کو اپنانا سیکھنا چاہیے ۔ ‘‘
ان کی بات پر حرا نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’روایتیں اچھی چیز ہے اماں بی، مگر تبدیلی بھی وقت کے ساتھ اپنا لینی چاہیے۔‘‘
’’ حرا تم نے وہ کچھ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا ہے ۔ ہر تبدیلی اپنے اندر بہتری نہیں لیے ہوئے آتی ۔ ‘‘ وہ کچھ سوچ کر بولی۔
٭…٭ …٭
فضیلہ بیگم نے اس جھجک کر اندر آتی ہوئی لڑکی کو دیکھا ۔ اس نے ہلکے گلابی رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور شال نما آتشی گلابی رنگ کا بڑا سا دوپٹہ اپنے دائیں کندھے کے کنارے پر ٹکایا ہوا تھا ۔ تھوڑی کو چھوتے بال کھلے ہوئے تھے اور آنکھوں میں کاجل دل کھول کر بھرا ہوا تھا ۔
بشائر نے اس نفیس سی دادی کی طرف دیکھا ۔ جہاں اس کی اپنی دادی شفقت سے بھری ہوئی تھی، اس عورت کی جو خوبی سب سے نمایاں تھی وہ ان کی شخصیت کا رعب تھا ۔ بشائر نے مسکرا کر ان کو دیکھ کر سلام کیا اور سر آگے بڑھا دیا، جیسے وہ اپنے خاندان کے کسی بڑے سے پیار لیتے ہوئے کرتی تھی ۔ انہوں نے بھی مسکرا کر اس کے سر پر پیار دے دیا ، مگر وہ مسکراہٹ اس کو مزید غیر آرام دہ کر گئی ۔ اس نے مدد کے لیے غازی کی طرف دیکھا مگر غازی نے آنکھوں سے اشارہ کر کے اپنے ساتھ کا یقین بھی دلادیا اور اس کو ایک اور بات بھی یاد کروا دی جو بشائر ایک پل کے لیے بھول گئی تھی کہ اس کو بشائر پر پورا اعتماد تھا ۔ اس کے ایک اشارے نے بشائر کو پر سکون کر دیا۔
فضیلہ بیگم نے نظروں کا یہ تبادلہ بڑی گہری نظروں سے دیکھا ۔ وہ اب پورے اعتماد کے ساتھ فضیلہ بیگم کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ پیٹ میں جو تتلیوں نے شور مچا رکھا تھا وہ اب کم ہو گیا تھا۔
’’آپ کے گھر والوں کو پتہ ہے کہ آپ یہاں ہو ؟ ‘‘
ان کے سوال پر بشائر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’آپ کے گھر والوں کو پتہ ہے کہ آپ یہاں کیوں ہو؟‘‘
اس نے امی اور کاشان کو بتا دیا تھا اور اماں نے ابا سے اجازت لے کر ہی اس کو اجازت دی تھی ۔ اس نے پھر سے اثبات میں سر ہلا د یا ۔ زبان تھی کہ جیسے تھوڑی دیر کے لیے ساتھ چھوڑے جا رہی تھی ۔ اس کی بات پر فضیلہ بیگم نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا ۔ انہوں نے تیز نظروں سے ایک بار پھر سے سامنے بیٹھی لڑکی کا مشاہدہ کیا ۔ اس نے آج کل کے نوجوانوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ نہیں رکھی تھی‘ بلکہ سیدھی ہو کر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ جھجکی ہوئی ضرور تھی مگر اس کے انداز میں نقلی پن نہیں تھا ۔ کچھ دیر خاموشی کی نظر ہو گئے ۔ ملازمہ جوس لے آئی تو اس نے پکڑ لیا۔
’’ کھانا سب کے ساتھ کھاؤ گی یا یہی منگوا لوں ؟ ‘‘
فضیلہ بیگم کے سوال پر بشائر ایک پل کے لیے بوکھلا گئی۔
کھانا بھی اس کو کھانا ہوگا، وہ یہ تو جانتی ہی نہ تھی ۔ ابھی شام کے سات بج رہے تھے اور وہ دیر سے کھانا کھانے کی عادی تھی ۔ اس نے ایک نظر فضیلہ بیگم کو دیکھا ۔ وہ بظاہر اس کے جواب کی منتظر نظر آ رہی تھی مگر ان کے انداز میں کچھ اور بھی تھا ۔ ایسا کچھ جوغور سے دیکھے بغیر معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اس نے ایک پل کے لیے ان کے چہرے کو دیکھا اور دوسرے ہی پل ان کے تاثرات کو پڑھ کر ان کے سوال کا راز جان لیا۔
’’ میں سب کے ساتھ ہی کھاؤ گی ۔ ‘‘ اس نے اب کی بار پورے اعتماد سے کہا۔
پیٹ کی تتلیاں اب سستا رہی تھی۔
’’ ابھی یا پھر کچھ دیر ٹھہر کر ؟ ‘‘
’’ جب آپ لوگ کھانا کھاتے ہیں اس وقت ۔ ‘‘ اس کا جواب نپا تلا تھا۔
انہوں نے اپنے گلاس میں سے ایک بھی گھونٹ لیے بغیر اس کو شیشے کی میز پر رکھ دیا۔ انہوں نے غازی کی طرف دیکھا، وہ ان کا اشارہ سمجھ کر اٹھ کر چلا گیا مگر جانے سے پہلے اس کی طرف دیکھ کر مسکرا گیا تھا ۔ بشائر کے لیے یہ غازی کی سب سے خوبصورت مسکراہٹ تھی۔ ایسی مسکراہٹ جو اپنے ساتھ کا یقین پوری طرح دلا دیں ۔ غازی جانتا تھا کہ یہ بشائر کا امتحان تھا ۔ وہ بھی جان گئی تھی ۔ اب صرف اس کو اس امتحان پر پورا اترنا تھا ۔ اور غازی کی مسکراہٹ کہہ رہی تھی کہ نتیجہ جو کچھ بھی ہو، وہ اس کے ساتھ تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page