سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 4

’’ اس دن جب تمہاری گردن میرے ہاتھ میں تھی تو دم میرا گھٹ رہا تھا ۔ ابھی بھی یہ خیال مجھے راتوں کو کسی ڈراؤنے خواب سے جگا دیتا ہے کہ اگر اس دن تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں کہاں جاتا؟ کیا اس سے بڑھ کر میری ندامت کا کوئی ثبوت ہے؟‘‘
کیا اس کی آنکھوں کے حلقے اس کی ندامت کے گواہ تھے؟ بشائر سوچ کر رہ گئی ۔ اس کی بات پر وہ کچھ دیر کو کچھ نہ بولی ۔ اور چپ چاپ اپنے قدموں کے پاس لگی گھاس کو نوچتی رہی۔ اس گھاس کی لاتعداد اراضی میں ایک ننھی سی کونپل سر اٹھائے کھڑی تھی ۔ بارشیں روٹھی ہوئی تھی اور صبح کی ہلکی ٹھنڈ نے اس پر اوس جمادی تھی، مگر وہ کونپل ابھی بھی کسی ڈھٹائی سے اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔
اس کاہاتھ اس کونپل کی طرف بڑھا اور اس کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہا، مگر وہ کونپل خزاں میں بہار کا پیغام تھی، کیسے ہار مان لیتی ؟وہ چاہتی بھی تو اس کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینک پا رہی تھی ۔ جب اس نے اس ننھی کونپل سے ہار مان لی تو بغیر غازی کی طرف دیکھے وہ اپنا بیگ سنبھالے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ کھڑے ہو کر اس نے ایک اچٹتی سی نظر غازی کے چہرے پر ڈالی۔
’’ آؤ کلاس لینے چلیں۔ میرے اندر کی بلا ابھی وقت چاہتی ہے ۔ ‘‘اس کی بات پر وہ بھی اپنا سامان اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔
غازی نے کبھی بھی اپنا ماضی اس کے سامنے نہیں کھولا تھا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ غازی نام کی پہیلی اس کے سامنے ذرا سا کھل کر آئی تھی ۔ اس دن کلاس میں جاتے ہوئے بالکل ذرا سی مسکراہٹ بشائر کے ہونٹوں کی سنگی ساتھی تھی۔ جیسے ایک ذرا سی بازی اس نے بھی مار لی ہو۔
٭ …٭…٭
سردی تو نہ جانے کب سے کراچی سے رخصت ہو گئی تھی مگر کبھی کبھار کوئی دن ایسا بھی ہوتا کہ جب خنکی کا جھونکا اپنی یاد دلانے آ جاتا تھا ۔ وہ بھی ایسا ہی دن تھا ۔ جب بشائر نے غازی سے وہ بات پوچھ ہی لی جو کتنے دنوں سے اس کے دماغ میں تھی۔
’’ تم مجھ سے سب کے سامنے بات کیوں نہیں کرتے؟ بزدل ہو کیا؟‘‘
’’ نہیں خود غرض … بہت سے لوگوں کی محبتیں میرے پاس نہیں ہے ۔ جو ہے، اسے میں صرف اپنے لیے چاہتا ہوں ۔ ‘‘اس کے جواب میں کوئی جھجک نہ تھی۔
بشائر کا دل زور سے دھڑکا، بھلا بشائر کی محبت غازی کے لیے تھی، اس کو حیرت ہوئی ۔ وہ پوزیسسو ہونے کو جانتی تھی۔ یہ ایک ایسی بلا تھی جو گناہ کی طرح لذت دار تھی، مگر بھیانک انجام رکھتی تھی ۔ وہ کوئی چیز نہیں تھی، جس پر غازی اپنی ملکیت جتا سکے ۔ کم از کم فی الحال تو نہیں۔ اس لیے بہتر تھا کہ پہلے قدم پر ہی اس کے قدم روک دیے جائے۔
’’ میری زندگی میں بہت سے لوگ اور محبتیں ہیں ۔ اور سب کا ایک الگ مقام ہے۔ میں صرف تمہیں نہیں مل سکتی۔‘‘
’’ جانتا ہوں، میں ایسا چاہتا بھی نہیں ۔ میرے اندر کا شیطان جو بھی کہے، میں نہیں چاہتا کہ میرے ساتھ تمہارا سانس گھٹے ۔ میں بند مٹھی پر یقین نہیں رکھتا ۔ میں تو تمہارے ساتھ کچھ لمحے چاہتا ہوں جو صرف میرے ہو ۔ کیا یہ بھی غلط ہے؟‘‘
اور اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔
غازی کو لاجواب کرنے کا ہنر آتا تھا۔ اور ایسے لوگ ساری بازیاں اپنے حق میں کرنا جانتے ہیں ۔ کیا وہ غازی کے لیے ایک بازی تھی، جس کو وہ جیتنا چاہتا تھا؟
اس نے غازی کے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا مگر وہ اچھی پہیلی ہونے کے ناطے اس سے پھر سے اپنا آپ چھپا گیا۔
پھر اس کے بعد اس نے کچھ نہیں کھوجا۔
کچھ سوال وقت کے لیے چھوڑ دینے چاہیے۔
اس سوال کا جواب بھی اس کو وقت ہی بتائے گا۔
٭ …٭…٭
ڈیپارٹمنٹ کو پتہ نہیں کیا سوجھا تھا کہ جب اسائنمنٹس کا ڈھیر ان کے پاس جمع ہوا تھا تو انہوں نے پکنک کا پروگرام بنا لیا تھا۔
’’میں تو بالکل نہیں جا رہی‘ سمسٹر سر پر ہے ۔ ‘‘سب سے پہلے ہاتھ اٹھانے والی انعم تھی۔
’’ اگر شہر سے باہر ہوتا تو شاید میں جاتا، مگر اب نہیں ۔ ‘‘ ارمان نے بھی انعم کے سے انداز میں ہاتھ اٹھا لیے۔
’’ میں جا رہا ہوں ۔ ‘‘غازی کے ایسا کہنے پر وہ زیر لب مسکرا دی۔
’’آر یو سیریس؟ میں تمہیں کراچی وزٹ کروا دیتا ہوں ۔ ‘‘ارمان اس کی بات پر ایک دم بولا۔
بشائر کا دل کیا اپنی اکاؤنٹنگ کی کتاب ارمان کے سر پر دے مارے۔
’’ نہیں، مجھے اس بار کسی اور ٹورسٹ کی خواہش ہے ۔ ‘‘غازی نے سادہ سے انداز میں کندھے اچکا کر کہا ۔ اس کی بات سوائے بشائر کے کسی کو سمجھ نہیں آئی۔
جب وہ لوگ پیکنک سپاٹ پر پہنچے تو بشائر بولی۔
’’ چلو پکنک کو‘ ڈچ کرتے ہیں، کہیں اور چلتے ہے ۔ ‘‘اس کے لیے تو پلان فوراً تیار تھا۔
’’ کوئی پرابلم تو نہیں ہوگی؟‘‘اس کی بات پر بشائر کتنی دیر تک ہنستی رہی۔
’’سریسلی؟ ہم کیا کوئی اسکول کے بچے ہیں؟‘‘
پکنک کا وقت صبح سویر کا تھا ۔ ابھی ہوا سے خنکی غائب نہیں ہوئی تھی۔
’’ میرا مطلب ہے، ایسے ہم دونوں کے جانے کا مطلب؟‘‘
’’ کہ تم مجھے ڈیٹ کر رہے ہو؟ ‘‘اس کی بات بشائر نے بغیر کسی جھجک کے پوری کر دی۔
بشائر کو جیسے بے اختیار ہونا پسند نہیں تھا ، ویسے ہی اس کو اندھیرے میں بھی رہنا پسند نہیں تھا ۔ ان دونوں کے درمیان جو پل گزرے تھے وہ بیشک بہت اہم تھے مگر ان کو رد کیا جانا کوئی مشکل نہ تھا، کیونکہ انکی کوئی بنیاد کوئی نہیں تھی ۔ وہ دونوں چل کر گاڑی تک آ گئے تھے ۔ بشائر اس کی فرنٹ سیٹ کھول کر بیٹھ گئی ۔ یہ پہلی بار تھا جب غازی کی گاڑی میں بیٹھی تھی۔
’’ انگریزوں کے یہاں ڈیٹ کورٹنگ کی پہلی رسم ہوتی ہے ۔ ‘‘وہ چھیڑنے کے انداز میں بولی۔
’’ اور ہمارے یہاں؟‘‘
’’ہمارے یہاں رشتہ بھجواتے ہیں شاید۔ ‘‘ وہ لا پرواہی سے بولی۔
اس کے ہاتھ حسب معمول سی ڈی ریک کی طرف بڑھے مگر وہ خالی دیکھ کر مایوس ہو کر پیچھے ہو گئی۔
’’ تو پھر میں رشتہ بھجواؤں یا تمہیں ڈیٹ کروں؟ ‘‘
اس کی بات پر وہ ایک دم ٹھٹک گئی ۔ اس کو اس حد تک غازی سے واضح جواب کی توقع نہیں تھی ۔ ایک پل کے لیے اس کو سمجھ نہیں آیا کہ غازی کو کیا جواب دے؟
غازی نے گاڑی ایک ڈھابے نما چائے خانے کے سامنے روکی اور پوچھا۔
’’ یہاں کی چائے پیو گی ؟ ‘‘اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
وہ دونوں ایک خالی چارپائی پر آمنے سامنے بیٹھ گئے اور دو چائے کے آرڈر دے دیے۔
’’ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا ؟ ‘‘وہ کچھ دیر بعد بولا۔
’’میں یہ سوال ایکسپیکٹ نہیں کررہی تھی، اب سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کہوں ۔ ‘‘اب سورج سر اٹھا کر پوری طرح مشرق سے ابھر رہا تھا۔
’’ بشائر، میں تمہیدوں میں پڑنے والا انسان نہیں ہوں ۔ میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں، جب اور جیسے تم کہو ۔ مجھے کورٹنگ کے رولز بھی نہیں معلوم اور نہ ہی یہ جانتا ہوں کہ میں ایسا کیا کروں جو تم میری محبت کا جواب ہاں میں دو ۔ میں بس تم سے اپنی زندگی میں اپنی وفا اور ساتھ کا وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
بھاپ اڑاتی ہوئی چائے نے ان دونوں کے چہرے کو دیکھا اور کسی دعا کی طرح اس عہد و پیمان کو لیے آسمان کی طرف ہو لی۔
’’ غازی، میں بڑی پریکٹیکل لڑکی ہوں ۔ میں سمجھتی ہوں کہ لائف بڑی ان پرڈیکٹیبل (جس کے بارے میں اندازہ نہ لگایا جا سکے ) ہے ۔ میں محبت کا یا اس سے جڑے جذبات کا دعویٰ نہیں کرتی ۔ مجھے وقت چاہیے۔‘‘
اس کی بات پر غازی نے سر ہلا دیا۔
’’ اور جب وقت آئے گا تو سچ میں مجھے کورٹنگ کا رول اپنانا چاہیے؟‘‘
’’ نہیں، طریقہ مشرقی ہی ٹھیک ہے ۔ مجھے مردوں کو اپنے سامنے گھٹنوں پر جھکانے کا کوئی شوق نہیں ۔ ‘‘اس نے ناک چڑھاتے ہوئے بھاپ اڑاتی چائے کی پیالی کو ہونٹوں کے قریب کیا اور ہلکا سا گھونٹ لیا تاکہ اس کی گرمائش کو ناپ سکے۔
’’تمہیں پتہ ہے ملکہ ہر کسی کو اپنے سامنے جھکاتی ہے مگر ایک انسان اس کے سامنے کبھی نہیں جھکتا ۔ وہ اس کا بادشاہ ہوتا ہے ۔ ‘‘
کسی کی سرگوشی اس کے کانوں میں گونجی تو اس نے سر جھٹک کر غازی کو دیکھا۔
’’ اس لمحے اور ویسے بھی کسی کو اپنے سامنے جھکا کر کسی کی جیت نہیں ہوتی ۔ ‘‘وہ بات کے آخر میں مسکرا دی اور چائے کا اس بار ایک لمبا سا گھونٹ بھرا۔
غازی نے کچھ نہیں کہا اور اپنی بھاپ اڑاتی چائے کو دیکھا ۔ وہ اس کے چھونے کی منتظر تھی، مگر اس کو گرم چیزیں پسند نہ تھی۔ صبر اس کی اعلیٰ خوبیوں میں سے اعلیٰ ترین تھی ۔ وہ چائے ٹھنڈی کر کے پینے کا عادی نہ تھا، مگر وہ گرم گھونٹ بھر کر اپنا منہ جلانے پر بھی یقین نہیں رکھتا تھا۔
’’ ویسے اگر میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پروپوزل چاہتی تو تم جھکتے ؟ ‘‘اس کی آنکھوں کی شرارت میں کہیں چیلنج بھی چھپا تھا۔
’’نہیں ۔‘‘اس کا جواب یک لفظی تھا۔
’’ اچھی بات ہے، کیونکہ میں تم سے تمہاری فطرت کے خلاف جانے کو نہ کہتی۔‘‘اس نے آدھی چائے پی اور اپنے بیگ سے بسکٹ نکال کر اس کا پیکٹ کھولا۔
اس نے وہ پیکٹ اس کی طرف بڑھایا تو غازی نے ایک لے لیا۔
’’ محبت اور احساس ایک دوسرے کی خواہشوں کے نام پر دم گھوٹنے کا نام نہیں ۔ ‘‘اس نے بسکٹ کو چائے میں ڈبونے سے پہلے کہا۔
’’ پھر محبت کس چیز کا نام ہے؟‘‘اس نے ہاتھ میں پکڑے بسکٹ کو دیکھ کر پوچھا۔
سورج شفق کی چادر سے ہلکا ہلکا جھانک کر ان دونوں پر بھی اپنے سونے جیسی روشنی لٹا رہا تھا ۔ اس سونے میں بشائر کے بال بھی کسی سونے کے رنگ میں رنگے لگ رہے تھے۔
’’ میری نظر میں محبت آبشار کی طرح ہونی چاہیے۔ قطرہ قطرہ بارش کی طرح بہتی ہوئی ۔ پہاڑوں کو چیر کر اپنا راستہ بناتی ہوئی ‘ ٹھنڈے میٹھے جھڑنے کی طرح۔‘‘یہ کہتے ہوئے وہ جیسے دور کسی خلا میں دیکھ رہی تھی۔ بسکٹ اور بھاپ اڑاتی چائے وہ بھول چکی تھی۔
کسی زمانے میں محبت اس کے لیے تپتے ہوئے آتش فشاں کی طرح تھی ۔ جو اگر دھڑکنے پر آئے تو اپنے ساتھ ہر چیز کو تباہ کر دے‘ مگر اب نہیں ۔ اس نے ایک اور بسکٹ لیا اور اس کی طرف ایک اور بڑھا دیا۔ غازی نے چپ چاپ پکڑ لیا۔
’’ ہاں، مگرمیرے لیے محبت کبھی بھی ٹھہری ہوئی ندی کی طرح نہ رہی ۔ ‘‘اس نے یہ کہہ کر ایک گھونٹ میں باقی کی بچی چائے پی اور بیگ سے ٹشو نکال کر ہاتھ صاف کیے۔
’’ تمہارے لیے محبت کیا ہے غازی؟‘‘
’’ میرے لیے محبت؟‘‘وہ ایک پل کے لیے چونکا اور پھر اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا اور دھیما سا مسکرا دیا۔
ایسی مسکراہٹ جو ہونٹوں سے آنکھوں کا سفر بڑی آسانی سے کرتی ہو۔
’’ میرے لیے محبت تم ہو بشائر۔’’
اس کی بات پر وہ بالکل لا جواب ہو گئی تھی۔
اگر کسی معجزے کے تحت کسی نے ایک ننھے سے پودے کو ایک ہی دن میں تناور درخت بنتے ہوئے دیکھا تھا تو بشائر نے اپنے دل میں محبت کے بیچ کو ایک دم کسی امر بیل کی طرح اس کے دل کو شکنجے میں لیتے ہوئے محسوس کیا تھا ۔ اس دن جب اس نے غازی کی عنبر رنگ آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھا تو اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اس امر بیل کی جڑیں اس کے دل میں ہی نہیں، کہیں روح میں بھی پھیل چکی تھی۔
٭ …٭…٭
یہ چھٹیوں کے دن تھے، وہ گھر واپس آ گئی تھی ۔ وہ آدھی رات کا وقت تھا جب بشائر کی آنکھ موبائل فون کی وائیبریشن سے کھلی تھی۔ سکرین پر جو نمبر تھا، وہ اس سے بے خبر تھی ۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا، رات کے دو بج رہے تھے ۔ اس وقت کسی کا فون خطرے کی علامت ہو سکتا تھا ۔ اس نے دھڑکتے دل سے فون اٹھایا اور اگلے انسان کی ہیلو سے ہی پہچان گئی تھی کہ اس وقت کس کا فون تھا ۔ ان دونوں نے کبھی بھی فون پر رابطہ نہیں رکھا تھا، اس لیے اس کا نمبر اس کے لیے اجنبی تھا۔
’’ اس وقت خیریت ہے فون کیا؟‘‘
’’ سو رہی تھی؟‘‘اس کا اگلا سوال بتانے کے لیے کافی تھا کہ خیریت ہی تھی۔
’’ اس وقت یا تو شیطان جاگتے ہیں یا پھر عابد، میں دونوں نہیں ہوں تو آف کورس سو رہی تھی ۔ تم نے فون کیوں کیا؟‘‘اس کا لہجہ بیزار نہیں تھا مگر اس نے ایسے ہی ظاہر کیا جیسے غازی کا فون اس کے لیے بیزاری کا سبب بنا تھا۔
جو بھی تھا، ایک بات تو وہ اچھے سے جانتی تھی کہ غازی کبھی بھی اس کے لیے بیزاری کا سبب نہیں بن سکتا تھا۔
’’ کیوں؟ نہیں کر سکتا کیا ؟ ‘‘ اس کی آواز بشائر کو بے چین لگی۔
’’ نہیں… ‘‘ اس کا لہجہ ایک پل کے لیے برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا، جس کی لہر غازی کے دل تک بھی پہنچی تھی۔
دوسری طرف خاموشی پا کر اس نے ایک پل سامنے لگی گھڑی کو دیکھا، پھر ایک گہری سانس لی۔
’’ کیا ہوا ہے ؟ ‘‘اب کی بار بشائر کا لہجہ نرم تھا۔
’’ شور بہت ہو رہا تھا، نیند نہیں آ رہی تھی۔‘‘
’’ میں نے کہا تھا نا کہ اس وقت شیطان جاگتا ہے، ایک شیطان وہ بھی ہے جو تمہارے اور میرے درمیان ہے ۔ اس شیطان کو سدھائو، اس کو راہیں مت دکھاؤ۔‘‘
دوسری طرف سے دوبارہ خاموشی تھی ۔ صرف گھڑی کی ٹک ٹک اس وقت، وقت گزرنے کا پتا دے رہی تھی ۔ جب کچھ دیر تک اس کو غازی کا کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے ایک پل کے لیے سکرین کو دیکھا ۔ کال ابھی چل رہی تھی۔
’’اس وقت بات کرنا جس وقت تمہاری آوازیں تم سے دور ہو ۔ میں تمہارا اینکر(سہارا) نہیں ہوں غازی، کم از کم ابھی تو نہیں۔‘‘اس کی باتیں سخت تھی، اور لہجہ کاٹ دار مگر کچھ باتیں حدود قائم رکھنے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔
یہ وقت اس کے سونے کا تھا، اور وہ اپنے کمرے میں اس کو آرام کر کے ہی پورا کرے گی۔ اس کے گھر والے یہی جانتے تھے اور وہ خانی نہیں تھی ۔ اس نے پھر غازی کا جواب سنے بغیر ہی فون بند کر دیا ۔ وہ نہ تو عابد تھی اور نہ ہی شیطان کہ اس وقت جاگ کر عشق کی پرستش کرتی۔
٭ …٭…٭
کچھ دن ایسے ہی گزر گئے مگر غازی کی کال نہ آئی ۔ اس نے بھی نہ کی، وہ عشق کو سر پر چڑھانے کے حق میں نہیں تھی۔ کچھ دن بعد ہی غازی کی کال آگئی تھی اور اس نے سب سے پہلے معذرت کی۔
’’ آئی ایم سوری لاسٹ ٹائم کے لیے۔‘‘اس کو خوشی ہوئی کہ غازی کو احساس تھا کہ اس نے حد تجاوز کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’ تم مراقبہ کیا کرو ۔ ‘‘اس نے مشورہ دیا۔
’’ مراقبہ؟ میرے ڈاکٹر نے ایک بار مجھے مشورہ دیا تھا ۔ کئی بار کوشش بھی کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوا ۔ اندر اتنی زیادہ آوازیں ہیں کہ دل و دماغ کو پر سکون نہیں کیا جاسکتا۔‘‘اس نے وضاحت دی۔
’’میں نے کہا تھا کہ میں تمہارا اینکر نہیں ہوں‘ اور اگر میں تمہارا اینکر ہو بھی جاؤں تو یہ کشتی تم نے خود ہی پار لگانی ہے ۔ میں تمہیں ہواؤں کا رخ پڑھنا تو سکھا سکتی ہوں غازی، مگر تمہارے لیے ہواؤں کا رخ نہیں موڑ سکتی ۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں خود ہی پانی میں اتر کر سیکھنی ہوگی ۔ ‘‘
کیا وہ اس کے لہجے کی اداسی تھی جو اس سے اس کی عمر سے بڑھ کر باتیں کروا رہی تھی ؟ کچھ پل ایسے ہی خاموشی سے ان دونوں کے درمیان گزرے، جیسے وہ فون پر نہ ہو، بلکہ آمنے سامنے ہو۔
’’ مضبوط بنو‘ میں تمہیں بدلنے کا نہیں کہہ رہی غازی ۔ تمہیں بہتر بننے کا کہہ رہی ہوں ۔ ‘‘
ایسی جنگ جو وہ خود بھی سالوں سے لڑرہی تھی اور غازی کو بھی شریک کرنا چاہتی تھی ۔
اب کی بار چپ چاپ فون بند کرنے کی باری غازی کی تھی۔ وہ اس سے اب مضبوط بن کر ہی ملے گا۔

جاری ہے

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے