سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 4

اس لیے اس نے کئی بار بشائر کو کہا تھا کہ وہ اس کو اپنی اصلیت بتا دے ۔ جتنا وہ غازی کو جانتا تھا ۔ اگر اس کو کہیں اور سے پتہ چلیں گا تو اچھا نہیں ہوگا۔
’’اور اس کا مختلف ہونا اس بات کو کیسے جسٹفائی کرتا ہے جو اس نے میرے ساتھ کیا ؟ ‘‘وہ بیڈ پر ہاتھ مار کر بولی۔
’’ اچھا کیا کیا اس نے؟ لاسٹ بار میں نے چیک کیا تھا تو وہ تم تھی جو اس کو بری طرح پیٹے جا رہی تھی ۔ وہ تو ایسے سن ہوا تھا جیسے تم سے کوئی سزا وصول کر رہا ہو۔‘‘
اس نے ایک غصے سے ہنکارہ بھرا، پھر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا، پھر کچھ سوچ کر پھر خاموش ہو گئی۔
جتنا وہ اس کو جانتا تھا، وہ جانتا تھا کہ اب اس کا غصہ کم ہو گیا ہے اور اب وہ ڈھیٹ بننا چھوڑ کر ٹھنڈے دماغ سے ایک پھر چیزوں کو دیکھے گی۔
’’سزا ہی تو تھی ۔ ‘‘وہ اب کی بار سر جھکا کر اتنی آہستہ سے بولی کہ ارمان نے بمشکل سنا۔
’’ کیسی سزا ؟ ‘‘اس نے آگے ہو کر بولا۔
’’ مجھے نہیں معلوم کہ غازی کو کیا پتہ چلا، مگر وہ عجیب عجیب سے سوال پوچھ رہا تھا ۔ جیسے کہ میں اتنے مہنگے کپڑے کہاں سے لیتی ہوں اور میرے پاس اتنا مہنگا فون کہاں سے آیا وغیرہ، وغیرہ ؟ ‘‘وہ ایسے ہاتھ اٹھا کر بولی جیسے اس کو ارمان کی اس پوچھ گچھ سے چڑ ہو رہی تھی۔
اب کی بار ارمان کرسی سے اٹھ کے بیڈ پر آیا اور بشائر کے قریب ایک فاصلے پر آ کر بیٹھ گیا۔ جب سے وہ لوگ بڑے ہوئے تھے ان کو اپنے حدود میں رہنا آ گیا تھا۔
’’ پلیز مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا؟ تمہیں پتہ ہے میں بڑوں کو کچھ نہیں باتوں گا‘ مگر پلیز … ‘‘ اس کا لہجہ ملتجی ہوا تو وہ بھی نرم پڑ گئی۔
اب کی بار اس کے چہرے پر غصے کے بجائے اداسی تھی ۔ اس نے آہستہ آہستہ کر کے ساری بات اس کو بتا دی ۔ پہلے تو وہ کچھ دیر اس کو خاموشی سے دیکھتا رہا ۔ اس دوران صرف شام کے دھندلکوں میں صرف ان دونوں کی سانسوں کی آواز ہی آ رہی تھی۔
’’ تمہیں نہیں لگتا کہ ان سب میں تمہارا بھی کچھ قصور ہے ؟ ‘‘اس کی بات پر جب وہ منہ کھول کر کچھ کہنے لگی تو اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’ میں تمہیں کسی بات کے لیے بلیم نہیں کر رہا ہوں ۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ کسی بھی تعلق کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے ۔ اور تم نے شروع سے ہی اس سے جھوٹ بولا ۔ تم کیا سمجھ رہی تھی کہ یہ کوئی کہانی چل رہی ہے جس میں تم ایک غریب سی ہیروئن بننے کا ڈرامہ کرو گی اور کہانی کے آخر میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ۔ تو فور یور کائینڈ انفارمیشن، حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘
’’ تمہیں سچ میں ایسا لگتا ہے کہ میں یہ کسی کہانی کی ہیروئن بننے کے لیے کر رہی ہوں ؟ میں یہ سب جانتی ہوں ۔ مجھے وہ سبق مت پڑھاؤ جو مجھے زندگی نے سکھایا ہے ارمان۔ ‘‘ وہ تلخی سے بولی۔
’’پھر تو تمہیں بالکل بھی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ ‘‘ارمان کا لہجہ ملامتی تھا۔
’’ میں ڈر گئی تھی ۔ ‘‘اس نے اتنی آہستہ سے کہا کہ جیسے اسے اپنے آپ سے بھی شرمندگی ہو۔
’’غازی…‘‘اس نے غازی کا نام ایسے لیا جیسے یہ نام اس کے لیے ممنوع ہو۔
وہ کچھ دیر رکی اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر پھر سے بولنا شروع کیا ۔ اب کی بار وہ ارمان کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔
’’ غازی کو دیکھ کر میں ڈر گئی تھی ۔ ہم دونوں پہلے بھی دو بار مل چکے تھے اور تمہیں پتہ ہے ناں کہ ایسے اتفاق اصل زندگی میں بہت کم ہوتے ہیں ۔ میں ڈر گئی تھی کہ کہیں یہ قدرت کا مذاق نہ ہو ۔ ‘‘وہ ٹھہری اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
’’ تمہیں لگا کہ تم اس کی طرف اٹریکٹ نہ ہو جاؤ ۔ ‘‘اس نے وہ بات بولی جو وہ جانتا تھا کہ وہ بولنے سے ڈر رہی تھی۔
’’ وہ مجھے سیلز گرل سمجھتا تھا تو میں نے سوچا کہ وہ میری طرف نہیں آئے گا اور آئے گا بھی تو صرف فلرٹ کرنے تو میں اس کو مزہ چکھا دوں گی تاکہ وہ دوبارہ ایسا کرنے کی ہمت نہ کرے ۔‘‘
’’ مگر ایسا نہیں ہوا ناں ؟ ‘‘اس نے پورے یقین سے کہا۔
بشائر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ اور اس نے یہ کسی طریقے سے آبزرو کر لیا کہ تم ایک غریب سیلز گرل کی طرح لائف سٹائل نہیں گزار رہی ہو ۔ اور اس نے تمہارے کردار پر شک کیا ۔ ‘‘
ارمان کا لہجہ سپاٹ تھا اور ہونٹ بھی بھنچے ہوئے تھے۔ جو کچھ بشائر نے اس کو بتایا تھا وہ اس کے لیے بھی نا قابل برداشت تھا مگر دوسری طرف بھی غازی تھا جس کو وہ اپنا سچا دوست مانتا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ غازی بھی پوری طرح قصوروار نہیں تھا ۔ ہر لڑکا ارمان کی طرح پرسکون اور سمجھ دار نہیں ہوتا ۔ بہت سو کو غصہ بھی آتا تھا اور اکثر کے شیطان بشائر کے شیطانوں سے بڑے ہوتے تھے ۔ اور جہاں بات غازی کی آتی تھی، اس کا تو قصہ ہی الگ تھا ۔ اس نے ایک نظر سامنے بیٹھی لڑکی کی طرف دیکھا ۔ اس کے چہرے پر عجیب سی اداسی نے گھیراؤ کر رکھا تھا ۔ وہ بچپن سے اس کو جانتا تھا اور اس کی ایک ایک حرکت کو پہچانتا تھا۔
’’ تم بڑوں کو کیا بتاؤ گے ؟ ‘‘کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے ارمان پوچھا۔
’’ جو بھی بتاؤں گا کوئی تم سے کچھ نہیں پوچھے گا ۔ آج تک میں نے ہماری کوئی بات باہر کی ہے؟ میں ہینڈل کر لوں گا۔ مجھ پر بھروسہ ہے نا ؟‘‘
اس پر بھروسہ تھا اس لیے وہ خاموش ہو گئی۔
’’ اب تمہارا اور غازی کا جو بھی معاملہ ہے، اس کو خود ہی سورٹ آوٹ کرو اور اگر نہیں کرنا چاہتی تو نہ کرو، مگر ایک بات پکی ہے کہ میں اس کو سب سچ بتا دوں گا اور اس کے بعد اگر وہ واپس آتا ہے تو میں اس کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔ ‘‘اس کی بات پر بشائر احتجاج کرنے لگی مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’ یہ تمہارا میس ہے بشائر‘ میں تمہاری جگہ کلین کر رہا ہوں، یہی بہت ہے۔ تمہارے گرج (کدورت) کی وجہ سے میں اپنے دوست کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔ ‘‘اس کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔
’’ اچھا، اب میری انویسٹیگیشن ختم ہوئی یا نہیں ؟‘‘بشائرکا لہجہ ابھی بھی تپا ہوا تھا۔
’’ بس ایک آخری سوال‘ اس کے بعد آئی پرامیس تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا ۔ ‘‘وہ اب اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا تھا، اس کا مطلب تھا کہ وہ آخری سوال سچ میں آخری تھا۔
’’پوچھو!‘‘
’’ تم غازی کو پسند کرتی ہو؟‘‘یہ سوال اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا گیا تھا۔
بجائے کچھ کہنے کے بشائر نے نظریں چرا لی ۔اس کے بعد ارمان نے اپنے کہنے کے مطابق اس سے کچھ نہ پوچھا تھا ۔ویسے بھی اس کو اس کے سوال کا جواب مل گیا تھا۔
٭ …٭…٭
وہ نئے سال کی لمبی لمبی راتوں والے چھوٹے چھوٹے سے دن تھے ، جب وہ لوگ دھند سے اور نیند کے جھونکوں سے جھومتے ہوئے چھٹیوں کے بعد یونیورسٹی آئے تھے ۔ ارمان نے اس کو بول دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو، غازی اگر واپس آنا چاہے گا تو وہ اس کو اکیلا نہیں چھوڑے گا ۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ گروپ کا حصہ رہے گا ۔ اب بشائر کو اچھا لگتا یا برا، مگر یہ گروپ کا اپنا بنایا ہوا اصول تھا کہ اگر دو لوگوں میں جھگڑا ہوگا تو ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی کو اپنی سائیڈ لینے کا نہیں کہے گا ، اور اپنا مسئلہ خود ہی حل کرے گا ۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ دو لوگوں کا گروپ میں جھگڑا ہوا ہو۔ بات صرف اب کی بار اس لیے الگ تھی کہ جھگڑے کی نوعیت سب کچھ اور ہی سمجھ رہے تھے۔
خیر اتنا تو اس نے انعم کو بتا دیا تھا کہ وہ لوگ جو سمجھ رہے تھے، ایسا کچھ نہیں تھا ۔ ان دونوں کا جھگڑا بھلے کچھ بھی ہو، مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ غازی کوئی جھوٹا الزام برداشت کرے ۔پھر کچھ بھی تھا، بشائر ہر مرحلے کے لیے تیار تھی ۔ اس کو معلوم تھا کہ زندگی کسی کے لیے بھی سیدھی لکیر نہیں تھی، تو وہ کیوں ایک ٹیڑھا راستہ دیکھ کر اپنا راستہ کھوٹا کرتی ؟ اس کو معلوم تھا کہ ستاروں کے آگے جہاں اور بھی بہت سے بسے ہوئے تھے ۔ وہ جہاں منتظر تھے کہ کوئی آئے اور ان کو کھوج نکالے، تو ایک انسان کی زہریلی باتوں پر وہ کیوں ان جہانوں سے منہ موڑتی ؟ بس پھر بشائر نے اپنی باکسینگ کے لیے نئے دستانے لیے اور اپنے بال خود ہی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اتنے ہی کر لیے، جتنے پہلے تھے۔ اس نے محبت کو اور اپنے باغی دل کو ایک موقع دے کر دیکھ لیا تھا، اب دوبارہ اس کا اس گزر گاہ سے گزرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اسی لیے جب وہ یونیورسٹی دوبارہ آئی اور غازی کو ارمان کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا تو وہ ایسے ہو گئی جیسے ارمان اکیلا ہی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ بشائر بزدل نہ تھی کہ بھاگ جاتی ‘ مگر وہ ایسی بہادر بھی نہ تھی کہ دل کے مجرم کو معاف کر دیتی۔
تو آخر اس نے وہی کیا جو اس کو کرنا چاہیے تھا ۔ اس نے غازی کو ماورائی کردیا ۔ اس نے دیکھا تھا کہ غازی کیسے دوسروں کے سامنے ایسے ظاہر کرتا تھا جیسے وہ سب وجود نہیں رکھتے تھے ۔ اب وہ غازی کو دکھانا چاہتی تھی کہ نظر انداز ہونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے ؟جب جب غازی اس کے سامنے ہوتا، تو وہ ماورائی ہو جاتا تھا۔
جب یہ لفظ اس کے ذہن میں آتا تو اس کو قدرت کے مذاق پر ہنسی آ جاتی کہ کیا اس کی زندگی میں اسی طرح کے لوگ ہی لکھے ہوئے تھے جو اس کے لیے ماورائی ہو جائیں ۔ جو اس کو دکھائی دے کر بھی دکھائی نہ دیں۔ اور ایک وقت آئے جب وہ ان کو دیکھ کر بھی دیکھنا نہ چاہے۔
یہی وجہ تھی کہ اس نے غازی کو جھوٹ بولا تھا۔
٭ …٭…٭
مگر غازی ماورائی نہیں ہونا چاہتا تھا، وہ یہ جانتی تھی ۔
وہ یہ بھی جانتی تھی کہ غازی کبھی بھی اس کو سب کے سامنے مخاطب نہیں کرے گا۔ خاص طور پر اب جو کچھ ہو چکا تھا، اس کے بعد تو نہیں ۔ سو اس کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ وہ اس کو کبھی بھیاکیلی نہ ملے ۔ ایک بار غازی اس سے بچ رہا تھا، اب کی بار اس آنکھ مچولی کے کھیل میں چھپنے کی باری اس کی تھی ۔ مگر کب تک چھپتی، ایک جگہ پڑھتے ہوئے، ایک ہی دوست ہوتے ہوئے، کب تک وہ کامیاب ہو سکتی تھی ؟ مہینے سے زیادہ ہو گیا تھا اس آنکھ مچولی کے کھیل کو کہ ایک دن غازی نے اس کو جا لیا۔
وہ اس دن اکیلی لائبریری جا رہی تھی۔ اس کو امید نہیں تھی کہ غازی ابھی تک گھات لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ غازی ایک اچھا شکاری تھا ۔ اس نے مان لیا تھا، مگر حقیقت یہ بھی تھی کہ وہ بھی کوئی آسان شکار نہ تھی۔ غازی کی دس آوازیں دینے کے باوجود اس نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اپنی سیدھ میں چلتی رہی ۔تنگ آ کر اس نے اس کے سامنے آکر اس کا راستہ روک لیا۔
’’ بشائر میری بات سنو ۔ ‘‘
’’ میرے پاس آپ کو سیل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے غازی صاحب ! ‘‘ اس نے اپنا رجسٹر اپنے دونوں ہاتھوں میں آگے کر کے، اس کو گھور کر دیکھا۔
وہ جو منہ کھول کر کچھ کہنے والا تھا، ایک دم چپ ہو گیا ۔ بشائر کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی ، لیکن اس کا چہرہ دیکھ کر یہ مسکراہٹ ایک سیکنڈ سے بھی زیادہ نہ ٹکی تھی ۔ اس کی حالت ایسے بچے کی سی تھی، جو کسی میلے میں کھو گیا ہو اور اب رو رو کر تھک ہار کر بیٹھا ہوا ہو۔
’’ کہو کیا کہنا ہے؟ میں سن رہی ہوں ۔ ‘‘وہ نرم نہیں پڑنا چاہتی تھی ، پھر بھی پڑ گئی تھی۔
اس کی بات پر غازی نے اس کی طرف دیکھا اور کچھ کہنے کے لیے ایک پل کو لب کھولے مگر پھر بند کر لیے ۔ بشائر نے ایک گہری سانس خارج کی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ جو کچھ بھی ہوا، اس میں قصور وار دونوں تھے ۔ یہ صرف بشائر کی ہٹ دھرمی تھی جو صرف غازی کو سزا دے رہی تھی۔
’’ میں تمہیں لائبریری تک چھوڑ آؤں ؟ ‘‘کتنے ہی پل دونوں کے درمیان خاموشی سے گزر گئے تھے۔
جہاں وہ لوگ تھے، وہاں سورج کی روشنی سیدھا اس کی آنکھوں میں چبھ رہی تھی، اس نے آنکھیں سکوڑ کر اس کو دیکھا اور اپنا رجسٹر اپنے سر اور آنکھوں کے درمیان پی کیپ کی طرح کر لیا ۔ غیر ارادی طور پر غازی ایسے آگے ہوا کہ بشائر سائے میں آگئی۔
’’ کیا مجھے پروٹیکشن کی ضرورت ہے ؟ ‘‘ناچاہتے ہوئے بھی وہ اس کی اور اپنی لڑائی یاد کر کے مسکرا دی۔
کتنے ٹیپیکل ہوتے ہیں لڑکے، اس سے مار کھا کر بھی وہ یہ نہیں جان پایا کہ بشائر باکسنگ چیمپئن تھی ، اس کو سیلف ڈیفنس کے سارے حربے آتے تھے۔ اس کی بات پر اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ نہیں، مگر مجھے ضرورت ہے؟‘‘
’’ پروٹیکشن کی؟ ‘‘وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’نہیں، تمہارے ساتھ کی؟‘‘ غازی کا لہجہ عام سا تھا، اس لیے وہ چاہ کر بھی اس کے لفظوں کی گہرائی نہ جان سکی۔
اس کی بات پر بشائر نے کچھ نہ کہا، بس چپ چاپ آگے بڑھ گئی اور غازی بھی اس کے قدم سے قدم ملا کے ساتھ چل دیا ۔ اس دن کے بعد سے یہ ان کا تقریباً روز کا معمول تھا کہ جب بھی بشائر اکیلی ہوتی، وہ اس کے ساتھ چل دیتا، یا پھر چپ چاپ پاس آ کر بیٹھ جاتا تھا۔ پہلے وہ ماورائی تھا ۔ اب وہ گونگا بہرا بھی ہو گیا۔
کوئی بات نہیں، کوئی شکوہ نہیں… بس ایک خاموش ساتھ۔
٭ …٭…٭
وہ بہار کے شروعاتی دن تھے ۔ موسم اپنی شرارتوں میں مصروف تھا۔ کبھی دل کرتا تو سردی کا ہاتھ تھام کر اس کو روک لیتا تو کبھی سورج کے قہر سے دوستی کر لیتا ۔ ہمارے ہیرو ہیروئن کے درمیان بھی کتنے ہی دن ایسے ہی اس خاموش آنکھ مچولی میں گزر گئے کہ یہ خاموشی بشائر نے خود ہی توڑدی۔
’’ میں نے تم سے جھوٹ اس لیے بولا تھا کہ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ تم مجھے کم حیثیت لڑکی سمجھ کر اپنی اصلیت تو نہ دکھا دوگے۔‘‘
وہ لوگ اس وقت باہر لان میں بیٹھ کر نوٹس بنا رہے تھے، باقی کا گروپ اس وقت کنٹین میں تھا ۔ کچھ دیر تو وہ خاموش ہی رہا، پھر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’ یہ اصلیت کیا ہوتی ہے بشائر ؟ ‘‘اس نے بھی یہ ظاہر کرنا چھوڑ دیا تھا کہ وہ اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔
بشائر نے پہلے الجھ کر اس کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر بولی۔
’’ انسان کا اصل چہرہ جو وہ کسی کو دکھانا نہیں چاہتا۔‘‘
’’ ضروری تو نہیں کہ ہر انسان کا اصل چھپا ہوا ہی ہو۔ کچھ لوگوں کا اصل وہی ہوتا ہے جو سامنے ہو ۔‘‘
’’ تو وہ اس دن کیا تھا؟‘‘بشائر پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’تم نے بلاؤں کی کہانیاں پڑھی ہے؟‘‘
بھلا بشائر سے زیادہ بلاؤں کی کہانیاں کس نے پڑھی ہوگی؟ اس نے اپنا بچپن ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے گزارا تھا اور لڑکپن ان کہانیوں کو بھگتتے ہوئے ۔اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’ ان کہانیوں میں زیادہ تر قبیلے ہوتے تھے جو ان بلاؤں سے لڑنے کے لیے نیزے اور برچھیوں سے ان پر وار کرتے ۔ کبھی کبھار اس بقا کی جنگ میں ان بلاؤں کو اپنا خون بھی پلا دیتے ۔ اور اکثر اپنے کنبے کو بچانے کے لیے قربانی بھی پیش کر دیتے تھے ۔ ‘‘اس بات پر بشائر نے واضح جھرجھری لی۔
غازی نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’ ایسی ہی بلائیں ہم سب کے اندر ہیں ۔ تمہارے، میرے اور ہمارے آس پاس کے سب لوگوں کے اندر ۔ کسی کے اندر چھوٹی تو کسی کے اندر بڑی ۔ یہ بلائیں ہمیں اکساتی ہے، اور بربادیوں کا پیغام لانے کی نوید سناتی ہیں ۔ ‘‘
بشائر چپ چاپ اس کی باتیں سن رہی تھی ۔ دور کہیں آسمانوں پر ایک بادل ان لوگوں کے سروں سے گزررہا تھا کہ ان بلائوں کی کہانی کا کچھ حصہ وہ بھی سننے کے لیے ان کے سروں پر ہی رک گیا۔
’’ مگر تمہیں پتہ ہے، میری بلا اور تمہاری بلا میں کیا فرق ہے ؟ مجھے بلاؤں کو لڑنے کے لیے نہیں تیار کیا گیا ۔ میں وہ قربانی ہوں، جو راجہ اشعر نے اپنی بقا کے لیے اپنے اندر کی بلا کے سامنے پیش کی تھی۔‘‘
غازی کی بات ختم ہوئی تو ان دونوں کے درمیان کچھ دیر گہری خاموشی آ کر بیٹھ گئی۔
سفید بادل نے ان دونوں کو جھک کر دیکھا اور جب ان دونوں نے اس گہری خاموشی کو ان کے درمیان جگہ دے دی تووہ بھی اکتا کر آگے کی اور چل دیا۔
’’ اچھا جواز ہے۔‘‘ابھی بادل کو گزرے کچھ ہی پل گزرے تھے کہ اس خاموشی کو بشائر نے ہی توڑا۔
’’ جواز نہیں ہے ۔ میں نے جو کچھ اس دن کیا، ا س کا کوئی جواز نہیں ہے میرے پاس ‘ سوائے اس کے کہ وہ میری ایسی غلطی ہے جس کی ندامت کبھی ختم نہ ہوگی۔‘‘
غازی کی صرف آواز میں ہی نہیں بلکہ اس کی آنکھوں میں بھی ندامت تھی۔ ان آنکھوں کی کہانی سے نظریں چرا کر اس نے لان کی گھاس پر نظریں ٹکا دی۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page