طلسم : قسط نمبر 4

چوہدری شجاعت ایسے رہنما تھے، جو سیاست سے زیادہ محبت پر یقین رکھتے تھے۔ بشائر نے ان کی یہی عادت ان سے چرائی تھی ۔ دیکھنے میں وہ بالکل اپنی ماں سی تھی ۔ کوئی بھی ایسا انسان جو عمارہ کو جانتا تھا، اس کو دور سے دیکھ کر ہی پہچان سکتا تھا ۔ مگر محبت کے معاملے میں اس کا دل اپنے باپ پر گیا تھا ، جنہوں نے اپنی مٹی سے اپنی اولاد جیسی محبت کی تھی ۔ وہ محبت پر یقین نہ رکھنے کا دعویٰ کرنے والی لڑکی درحقیقت محبت سے ہی گندھی ہوئی تھی۔ اس کے لیے محبت ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان کی فطری کشش سے بڑھ کر اس کے ابا کا اس کے لاڈ اٹھانا، اس کی اماں کی جھڑکیاں، اس کے بھائیوں کا پیار اور اس کی دادی کی آغوش تھی ۔یہ بھی نہیں تھا کہ بشائر بڑی منتوں مرادوں کا پھل تھی۔ وہ اپنے خاندان کی سب سے چھوٹی بچی تھی ۔ اس کے اور کاشان کے درمیان بارہ سال کا فرق تھا۔ وہ اس وقت اس خاندان کا حصہ بنی تھی جب کسی کو امید نہ تھی ۔ ایک خوشگوار سے تحفے کی طرح، جو بن مانگے ہی عمارہ اور چوہدری شجاعت کی جھولی میں آ گرا تھا ۔ وہ دنیا کے ان چند خوش نصیب لوگوں میں سے تھی، جس کو ڈھیر ساری محبتوں کے ساتھ ساتھ دنیاوی آسائشات بھی بھرپور ملی تھی ۔ وہ اپنے خاندان کی لاڈلی بچی ان معصوم لوگوں میں سے تھی، جس کو نہیں معلوم تھا کہ غم نام کی چڑیا کا کیا نام ہے اور یہ دکھتی کیسی ہے؟
پھر آپ یہ سوچ رہے ہوگے کہ بھلا ایسی لڑکی اتنی با شعور کیسے ہو گئی؟
زخم کھا کر ہی انسان کو شعور آتا ہے ۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور شعور کی قیمت، وہ درد اور تکلیفیں ہوتی ہیں جو انسان کو مشکل وقت سے گزرتے ہوئے برداشت کرنی پڑتی ہے۔
مگر ایک بار جب انسان اس مرحلے سے غازی ہو کر نکلے تو پھر فہم و شعور کا تحفہ اس کے لیے منتظر ہوتا ہے۔ اور پھر زخم تو سب کو ہی لگتے ہیں‘کسی کو زیادہ، تو کسی کو کم اور جب یہ لگتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ کون کتنا لاڈلا ہے تو کون کتنا پیارا… یہ بس لگتے ہیں۔ اور بڑی زور کے لگتے ہیں، بغیر کسی رحم و ترس کے…
اور پیارے لوگوں کو تو یہ کچھ زیادہ ہی لگتے ہیں۔ بہت بری طرح لگتے ہیں۔ کس بل نکال دیتے ہیں۔ اگلے بندے کی جمع خرچ کی پوری لسٹ بنا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں۔ بشائر جیسے لوگ چوٹ کھائے بغیر عقل کی منزلیں طے نہیں کرتے ۔ ایسے ضدی لوگ جب چوٹ کھانے پر بضد ہو جائے تو زندگی اور کیا کریں؟
بشائر جیسے لوگ جو اصحاب کہف کی طرح کسی غار میں سوئے ہوئے ہوتے ہیں، تو ان کو اب کے سکون کی قیمت، زخم کھا کر ہی پتہ چلتی ہے۔
بشائر کو بھی جب یہ زخم لگا تھا تو کچھ اس طرح ہی لگا تھا۔
وقت نے جب اس کو اپنا روپ دکھایا تو بشائر کو بھی اپنی اوقات پتہ چل گئی تھی ۔ اس کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کے پاس سوائے اپنے باپ کے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ جو کچھ اس کو نوازا گیا تھا، وہ خدا کی دین تھا ۔ پھر کس چیز کا غرور، کس چیز کا نخرہ؟جب وقت کے آئینے میں اس نے اپنا اصلی چہرہ دیکھا تو اس کو بدلنے کا عہد اس نے اپنے آپ سے کیا ۔
تقدیریں بدل بھی جاتی ہے، خاک ہونے میں وقت نہیں لگتا ۔ یہ بات بشائر جان گئی تھی ۔ اسی لیے اس نے اپنی محنت سے خود کو لوہا بنایا تھا‘ تاکہ اس کو پھر کوئی توڑ نہ سکے ۔ ایسا لوہا جو وقت کی آگ میں تپ کر سونے سے کندن ہوا تھا۔
بشائر کو نہیں معلوم تھا کہ غازی کا آنا اس کی زندگی میں نئے امتحان گاہ کے دروازے کھولنے کا سبب بنے گا ۔
اب وہ تپ کر سونا بنتی ہے یا راکھ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
٭ …٭…٭
آخر کیا چیز ہے یہ محبت؟
با اختیار کو بے اختیار کرتی ہوئی
مغرور کو گھٹنوں پر جھکاتی ہوئی
کافر کو نمازی بناتی ہوئی
مومن کو سجدے کرواتی ہوئی
عاشق کو جدائی سے ڈراتی ہوئی
محبوب کی ہر شرط منواتی ہوئی
اور حد سے گزر جانے کی راہیں دکھاتی ہوئی
اس محبت نے ایک بار بشائر کو گمراہ کیا تھا، وہ دوبارہ راستہ بھٹکنا نہیں چاہتی تھی‘ پھر بھی بھٹک رہی تھی ۔ اُس اپریل کی مووی ویک اینڈ پر اس کا دل پتہ نہیں کیسے پلٹا کہ اس نے محبت کو ایک اور موقع دینے کا سوچ لیا ۔ اس کو معلوم تھا کہ داؤ پر بہت کچھ تھا ۔ ہوتے ہیں نا کچھ داؤ جس کی جیت کے لیے ہم اپنا سب کچھ وار دینا چاہتے ہیں ۔ محبت بھی ایسا ہی داؤ ہے۔
بشائر ابھی پہلے قدم کی مسافر تھی ۔ پہلا قدم جو ہوش پوری طرح گنوا دیتا ہے۔ ملن کی سلگتی ہوئی میٹھی سی کسک ایسی ہوتی ہے، ایسا مدہوش کرتی ہے کہ انسان کا کھانا پینا، جینا صرف ایک محبوب کی راہ میں ممکن لگتا ہے۔ بشائر اس معاملے میں خوش نصیب تھی کہ اس نے یہ پہلا قدم پہلے بھی اٹھایا ہوا تھا، سو اس بار نشہ پہلے سے کم تھا۔ اس نے محبت کو موقع ضرور دیا تھا مگر حواس باختہ نہیں ہوئی تھی۔ غازی کا ساتھ اس کو میٹھی سی خوشی ضرور دیتا تھا، مگر اس کی کمی تڑپاتی نہ تھی۔
محبت کا پودا ننھی سی کونپل ضرور تھا، مگر اس کو آگہی کے عذاب نے مزید نشوو نما سے روک رکھا تھا۔بشائر جتنے بھی عہد کرتی کہ وہ اس پودے کو نہیں سینچے گی مگر سچ تو یہ تھا کہ وہ با اختیار ہو کر بھی بے اختیار ہو رہی تھی ۔ اس کے اور غازی کے قصے کے بعد جب اس نے اس ننھی کونپل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا طے کیا تو اس کو ادراک ہوا کہ وہ پودا تو اپنی جڑیں اس کی دل کی زمین پر دور تک پھیلا چکا ہے۔ اب تو صرف وقت کا مرہم ہی ان جڑوں کی نشونما روک سکتا تھا ۔
بات یہ تھی کہ بہت پہلے ہی بشائر نے سوچ لیا تھا کہ وہ ارینج میرج کرے گی ۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کے گھر والے اس کے لیے کبھی بھی غلط نہیں سوچیں گے ۔ اس کی زندگی کا باغی دور ختم ہو چکا تھا، اب جب وہ اپنی زندگی میں اپنے آپ سے امن قائم کر چکی تھی تو اس کی قیمت اس نے اپنی زندگی میں محبت نامی باب کو بند کر کے ادا کی تھی ۔ اس کو معلوم تھا کہ اس نے اپنے دل کو سنگ کرنا تھا تاکہ کوئی اور زخم اس کا مقدر نہ ہو ۔ وہ جتنی بھی مضبوط ہو جاتی، وہ اس معاملے میں دوبارہ چوٹ کھانے کے لیے تیار نہ تھی۔
اسی لیے جب اس نے غازی کو اس دن یونیورسٹی میں دیکھا تو اس پر یہ ظاہر کیا کہ وہ وہی سیلز گرل ہے، جس کو اس نے اسکول ٹور کروانے کا کہا تھا ۔ وہ اس کو غریب لڑکی سمجھ کر اپنی اصلیت دکھائے گا تو وہ سب کو اس کی اصلیت دکھا کر گروپ سے نکلوا دے گی‘ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اس کا سٹیٹس غازی کے لیے معنی نہیں رکھتا تھا، وہ رکھتی تھی۔ جب کچھ بھی اس کے خلاف نہ گیا تو اس نے کوشش ترک کردی ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں وہ اس کو حقیقت پھر بھی نہ بتا سکی۔
نہیں، بلکہ وہ جانتی تھی کہ ایسا کیوں تھا ۔ کیونکہ غازی کا وجود اس کو ڈراتا تھا۔ غازی ایک پہیلی تھا اور اس کو پہیلیاں پسند تھی ۔ غازی اس چیز کا ثبوت تھا کہ بشائر اپنے اوپر سے اختیار کھو سکتی تھی ۔اور بشائر کو ایک چیز جو نا پسند تھی، وہ تھا بے اختیار ہونا ۔ اور غازی اس چیز کا بھی ثبوت تھا کہ بشائر دوبارہ محبت کرسکتی تھی۔ بشائر کو اگر کسی چیز سے ڈر لگتا تھا تو وہ محبت کرنے سے تھا۔
٭ …٭…٭
اس دن آسمان پر ہر طرف بادلوں کا راج تھا ۔ایسے بادل جو بشائر اور غازی کے درمیان آ تو ٹھہرے تھے مگر برستے نہیں تھے ۔ یہ دسمبر کے درمیانی دن تھے اور سردی نے غلطی سے کراچی کا راستہ بھی دیکھ لیا تھا اور خوب دیکھا تھا ۔ سردی تھی کہ ذرا ذرا سی جگہ بنا کر ہڈیوں میں گھسنے کے لیے تیار تھی۔
نو جوانوں پر یہ سردی ذرا کم کم ہی اثر کرتی تھی ۔ اور ارمان بھی انہی نوجوانوں میں سے تھا ۔مسلسل ابر کی وجہ سے سورج کم ہی اپنی شکل دکھاتا تھا اور ابھی تو وہ کہیں ڈھل کر دنیا کے کسی اور ہی کونے میں جا سویا تھا اور عصر کے وقت ہی کراچی کے لوگوں کو مغرب کا سامنا تھا ۔ جب ارمان ناکام ہو کر واپس آیا تو اس وقت سورج پوری طرح ڈوب گیا تھا اور ٹھنڈ جس نے سورج سے تھوڑا بہت ڈر کر اپنا قہر کم کیا ہوا تھا، اب بے ڈر ہو کر اپنے شکار پر نکلی ہوئی تھی۔
اپنے گھر کے پورچ میں اپنی ہیوی بائیک کھڑی کر کے اس نے اپنی چمڑے کی جیکٹ کی جیبوں میں اپنے ہاتھوں کوقید کیا اور سردی سے ایک بار پھر سے ’’سو‘‘کر کے گہرا سانس اندر کیا ۔ اتنی سردی میں بائیک چلانے کی وجہ سے اس کے ہاتھ سرد اور ناک لال ہو گئی تھی ۔ اس کو حیرت تھی کہ غازی نے اس شہر کا نہ ہوتے ہوئے بھی اس کو ڈچ کیسے کر دیا ؟ وہ جتنی تیزی سے جا سکتا تھا، وہ گیا تھا مگر پھر بھی غازی اس سے بازی لے گیا تھا۔
جب وہ بشائر کے کمرے میں داخل ہوا تو جس مصیبت کے لیے وہ اتنی سردی میں خوار ہوا تھا وہ خود اپنی خالہ کی گود میں سر رکھ کر سو رہی تھی ۔ اس کو دیکھ کر ارمان کا غصہ اور چڑچڑا پن ایک پل میں ہی رفو چکر ہو گیا ۔ بہت سے لوگوں کے لیے ارمان ایک لا پرواہ، سست اور بیوقوف انسان تھا ۔ اس کا اپنا باپ بھی یہی سمجھتا تھا۔مگر جو لوگ اس کو قریب سے جانتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ارمان ایک بہت ہی پیار کرنے والا انسان اور سچا دوست تھا۔
اتنا سچا کہ اگر کوئی اس کو اپنے دوست کو بچانے کے لیے اپنی جان دینے کو کہہ دیں تو وہ خوشی خوشی یہ بھی کرنے کو راضی ہو جائے ۔اور بشائر سے تو اسکا تعلق الگ ہی تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟ تم ہی بتا دو ۔ ‘‘ یہ اس کی والدہ ماجدہ تھی جو بشائر کے بالوں میں انگلیاں چلانے کے ساتھ ساتھ اس کو ایسے گھور رہی تھیں جیسے یہ سب کچھ اس کا کیا دھرا تھا۔
’’خالہ کی جان نے کچھ نہیں بتایا آپ کو؟‘‘ نا چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔
اور خالہ کی جان نے فوراً آنکھیں کھول کر اس کو اپنی خالہ کے انداز میں گھورا، جس کے پیچھے مطلب تھا کہ ’’اگر تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو تمہارا بھرتہ بنا دوں گی‘‘ اور ارمان کو یقین تھا کہ وہ ایسا کر بھی دے گی۔
’’ غنڈی کہیں کی ۔ ‘‘وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
’’ اب بتاؤ گے بھی یا منہ ہی میں بولتے رہو گے ۔ ‘‘اماں نے ایک اور بار پھر اس کو یاد دہانی کروائی۔
وہ جو ابھی دل ہی دل میں کوئی ترکیب سوچ ہی رہا تھا، بشائر کو بولتا دیکھ کر چپ ہو گیا۔
’’ آپ کو بولا تو ہے خالہ کہ میں گر گئی تھی ۔ ‘‘وہ ان کی گود سے اٹھ گئی تھی اور اپنے بالوں کو لپیٹ کر چھوٹی سی پونی بنا رہی تھی۔
’’ جی، اور جیسے میں یقین کر لوں گی کہ ایک باکسر گرنے سے روئی تھی ۔ ‘‘ثمرہ کو جیسے ذرا برابر بھی اپنی بھتیجی پر یقین نہیں تھا۔
’’ تو آپ کو کیا لگتا ہیں کہ میرے اوپر کوئی جن آگیا ہے ۔ ‘‘وہ جو اپنی دانست میں بولے جا رہی تھی ایک دم زبان دانتوں میں دبا لی۔ ارمان نے اس کو افسوس سے دیکھا۔
وہ جانتا تھا کہ بشائر نے ان جانے میں غلط بات کہہ دی تھی۔ ثمرہ بیگم نے ڈرامائی انداز میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور آگے ہو کر بظاہر بشائر کے کان میں اتنی اونچی سرگوشی کی جو ارمان کو بھی سنائی دی جا سکے ’’ڈونٹ ٹیل می بشائر، وہ واپس آ گیا ہے ‘‘ ان کے عمل سے زیادہ ان کی آواز میں فکر تھی۔
’’ماما… ‘‘ارمان کا انداز تنبیہی تھا، مگر بشائر ایک پل کے لیے سن ہو کر دوبارہ اپنی جون میں آ گئی تھی۔
’’ خالہ آپ فکر نہ کریں ۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ میں سنبھال لوں گی…‘‘ وہ رکی اس نے ارمان کو دیکھا اور پھر اپنا جملہ تبدیل کیا ۔
’’بلکہ ہم سنبھال لیں گے۔ ‘‘
’’تم ہی بتادو ارمان۔‘‘ثمرہ بیگم کی توپوں کا رخ ایک بار پھر اپنے بیٹے کی طرف تھا۔
اس نے ہار ماننے کے انداز میں ہاتھ اٹھا دیے۔
’’مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ میں خود پریشان ہوں۔‘‘اس کی بات آدھے سچ پر مبنی تھی۔
’’ٹھیک ہے ‘ پھر اس سے پوچھو اور مجھے بھی بتاؤ، ورنہ میں آپا کو کال کر کے بتا دوں گی۔‘‘وہ اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولی۔
ان کے انداز میں صرف دھمکی ہی نہیں تھی بلکہ فیصلہ کی پختگی بھی تھی۔
ارمان صرف ایک گہری سانس بھر کر رہ گیا ۔ جب وہ باہر چلی گئی تو ارمان ایک کرسی گھسیٹ کر بیڈ کے پاس لے آیا ۔ بشائر اس وقت بیڈ پر ہی اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنے ناخنوں کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ اس کی پونی سے کچھ چھوٹے بال نکل نکل کر اس کے ماتھے پر آ رہے تھے ۔ اس کو بیک وقت اس پر غصہ اور ترس دونوں آیا۔
’’ بتانا پسند کروگی کہ کیا قصہ ہے ؟ ‘‘اس نے سینے پر ہاتھ باندھ کر اس کو دیکھا۔
بشائر پھر بھی اپنے ناخنوں کو دیکھتی رہی اورایسے ہو گئی جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو یا پھر وہ کسی گہرے خیال میں گم ہو۔
’’ تمہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ یہ ناٹک مجھ پر نہیں چلتے بشائر ۔ ‘‘اب اس نے اپنی زبان استعمال کی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ جب بشائر ڈھیٹ ہونے پر آتی تھی تو اس سے کوئی کچھ نہیں اگلوا سکتا تھا۔
’’ کیا یہ بولنا کافی نہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سب سوچ رہے ہو ؟ ‘‘وہ اب کی بار چڑ کر بولی۔
’’ نہیں، اتنا تو مجھے بھی غازی پر اعتبار ہے کہ وہ ایسا ویسا کچھ نہیں کرے گا ۔ ‘‘
بھلے وہ ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے مگر شرم کا پردہ پھر بھی مانع تھا اور شرم کا پردہ تو ہمیشہ ہی قائم رہنا چاہیے۔
’’ تو پھر ؟ ‘‘اس نے کرسی تھوڑی اور آگے کھسکائی۔
اس کی بات پر بشائر نے اس کو تھوڑا غصے، تھوڑی خجالت سے دیکھا ۔ اس کو ایک پل لگا تھا سمجھنے میں۔
’’میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا بشائر کہ اس کے ساتھ یہ گیم نہیں کھیلو ۔ ‘‘
’’ اچھا ایسا کیا کر دیا میں نے ؟ کون سا اس کی عزت پر حملہ کر دیا تھا یا اس کا خون پی لیا تھا ؟ ‘‘وہ مزید ڈھیٹ بن کر چلائی۔
’’ دیکھو، غازی دوسرے لڑکوں سے ڈفرنٹ ہے ۔ یہ تمہیں میں نے پہلے ہی کہا تھا ۔‘‘ اس کا لہجہ مضبوط، مگر آواز دھیمی تھی۔
کتنے ہی لمحے تھے جو اس کے اور غازی کے درمیان گزرے تھے ‘ جس میں اس لڑکے نے اس کو اپنا ہم راز بنایا تھا اور اس کو بتایا تھا ۔ اپنے اکیلے پن کے متعلق، ان آوازوں کے متعلق اور اس کے باپ کی غلطیوں کے متعلق ۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے دل میں بڑھتی ہوئی محبت کی طلب کے بارے میں ۔ اس کو معلوم تھا کہ غازی بشائر کے متعلق کیا محسوس کرتا تھا ۔ کبھی غازی نے صاف الفاظ میں کہا نہیں تھا ۔ وہ خود بھی اپنے جذبات کو لے کر ابھی تک تذبذب کا شکار تھا اور ارمان اس کی پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے اس کو کرید نہیں رہا تھا۔