طلسم : قسط نمبر 4
کچھ دیر کے لیے غازی کا ہاتھ چھوڑ کر کہانی کو تھوڑے عرصے آگے لے آتے ہیں ۔ کتنی آگے ؟
داستان گو یہ نہیں بتانا چاہتا ؟ غازی کا ہاتھ چھوڑ کر کس کا پکڑنا ہے؟ وہی، جس کا ہاتھ غازی پکڑنا چاہتا تھا۔
کچھ لوگوں سے تکلیفیں روٹھی رہتی ہیں ۔ تکلیفوں کو یا تو یہ لوگ بہت برے لگتے ہیں، یا پھر بہت پیارے کہ وہ اپنی قربت سے ان کو مشکل میں نہیں ڈالتی ۔ بشائر بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھی ۔ بشائر کی زندگی ہمیشہ سے ہی مکمل تھی ۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی کسی بھی چیز کی کمی نہیں دیکھی تھی، جو چاہا تھا حاصل کیا تھا۔ پچھلے کچھ مہینوں سے تو اس کو لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی زندگی حسین تر ہو گئی تھی ۔ اگر پہلے سے ہی کوئی مکمل چیز اور مکمل ہو سکتی تھی تو وہ بشائر کی زندگی تھی ۔ جیسے کوئی پہلے آسمان سے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ہو۔
وہ اپنی یونیورسٹی کی پڑھائی سے فارغ ہو چکی تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ یونیورسٹی میں ٹاپ کرنے والے طالب علموں میں سے ایک تھی، بلکہ اس کا تھیسیس وقت سے پہلے مکمل ہو چکا تھا جس کو بے حد سراہا گیا تھا ۔ چند ہفتے پہلے ہی اس کی منگنی ہو چکی تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی کمپنی کی مارکیٹنگ کمپین کامیابی کی ساتھ تمام ہوئی تھی۔
لہٰذا، اس کی زندگی میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ۔ ہر چیز اس کی مٹھی میں تھی، اور بشائر چودھری کو چیزیں ایسے ہی اچھی لگتی تھی۔
وہ پریوں کی کہانی کی ایسی شہزادی تھی جس کو اپنی کہانی میں کسی قسم کا خلل پسند نہیں تھا ۔ وہ مکمل تھی، اس کی کہانی مکمل تھی، اس کو اور کیا چاہیے تھا ؟ اس دن جب وہ اپنے کام کی کامیابی کی خوشخبری سنانے اپنے ابّا کے کمرے کی طرف جا رہی تھی، تو اس کو اندازہ ہوا کہ چیزیں اتنی بھی مکمل نہیں تھی ۔ گو کہ اس کی یونیورسٹی ختم ہونے کی وجہ سے وہ اب زیادہ تر گاؤں میں ہی رہتی تھی، مگر کمپنی کے کام کے سلسلے میں اسے اکثر ہی شہر جانا پڑتا تھا ۔ اس کے دونوں بھائی الگ الگ شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے تھے، کاشان فوج میں تھا اور شایان چین سے میڈیکل پڑھ کر اب لاہور ہوتا تھا ۔ صرف بشائر ہی تھی جس نے بزنس کا راستہ چنا تھا اور اس کو پوری لگن کے ساتھ نبھا بھی رہی تھی۔
اور اب اس نے باقاعدہ اپنے فیملی بزنس کو گلے لگا لیا تھا تو اس کے ابّا کی طرح اس کے پاؤں شہر اور گاؤں کے درمیاں تھے۔ ابھی اس کی شادی میں کافی وقت تھا اور وہ یہ سارا عرصہ گھر میں رہ کر ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اس کا شادی کے بعد بھی کام کرنے کا ارادہ تھا، مگر یہ ایسے معاملات تھے جو اس نے ابھی اپنے ہونے والے شوہر کے ساتھ طے کرنے تھے، وقت سے پہلے ان کے بارے میں سوچ کر وہ کوئی دبائو نہیں لینا چاہتی تھی۔
وہ جو اس دن ساتویں آسمان کے بادلوں پر پاؤں رکھ کر اپنے ابا کے کمرے کی طرف جا رہی تھی تو اس کی دادی کی آواز نے اس کے بادلوں سے سارا پانی نچوڑ کر اس کے اوپر برسا دیا تھا ۔ وہ دوپہر کا وقت تھا، اس وقت عموماً سب اپنے اپنے کمروں میں آرام کر رہے ہوتے تھے ۔ اس کو یاد نہیں پڑتا تھا کہ اس کی دادی نے اپنے قیلولہ میں کوئی وقفہ کیا ہو، سوائے ان دنوں کے جب اس کی زندگی ایک عذاب سے گزر رہی تھی ۔ اس دوران تو خیر کسی کو بھی چین نہیں تھا اور وہ ان تکلف دہ دنوں کوایک پل کے لئے بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اس نے اس انداز سے اپنا سر جھٹکا،جیسے وہ ان یادوں کو بھی دماغ سے جھٹک کر کہیں کھو دینا چاہتی تھی ۔ اسے امید تھی کہ اس وقت اس کی دادی کا اس کے ابّا کے کمرے میں ہونا کوئی تشویش ناک بات نہ ہو ۔ اس کی دادی کی گرج دار آواز دروازے سے ہوتی ہوئی اس کے کانوں تک پہنچی تھی۔
’’مجھے ابھی بھی لگتا ہے کہ ہمیں ایک بار بشائر کا پھر سے علاج کروانا چاہیے ۔ کچھ دنوں میں اس کی شادی ہوجائے گی، اگر شادی والے دن کچھ ہو گیا تو؟‘‘
اس کی دادی کی آواز تشویش میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’آپ کو کتنی بار تو بولا ہے اماں، اب بشائر بالکل ٹھیک ہے، اس قصے کو سالوں گزرنے چکے ہیں۔ آپ ابھی تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں۔‘‘
یہ اس کی ماں کی جھنجھلائی ہوئی آواز تھی۔
’’دیکھ چودھری شجاعت! میں اس کی دشمن نہیں ہوں تجھے پتہ نہیں کیا ، آخری بار کیا ہوا تھا ۔ ‘‘اس کو اندازہ تھا کہ اب اس کی دادی کا رخ اس کے ابا کی طرف تھا۔
’’ عمارہ ٹھیک کہہ رہی ہے اماں! اس بات کو سات سال گزر چکے ہیں ۔ ان سات سالوں میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا جو ہمیں پریشانی میں ڈال دے۔‘‘
یہ مطمئن سی آواز اس کے ابا کی تھی ۔ یہ جملہ سن کر وہ مسکرا اٹھی۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کے والد بہت سمجھدار تھے اور جو وہ کہہ رہے تھے وہ بالکل ٹھیک تھا۔
’’تجھے یاد نہیں، اس کی منگنی والے دن کیا ہوا تھا؟ اور اگر اس کی شادی والے دن ایسا کچھ ہوگیا تو؟ ایسے جنونی مرد کبھی عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتے ۔ ‘‘اس کی دادی ابھی بھی پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔
’’ اماں وہ صرف اور صرف ایک اتفاق تھا ۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ ہم نے دوبارہ پتہ کروایا ہے۔ ‘‘اب اس کی ماں کی آواز بے زاری لیے ہوئے تھی۔
بشائر کا دل کیا کہ اندر کی جانب چلی جائے مگر وہ چاہتی تھی کہ پہلے ساری بات سن لیں ۔ ٹھیک ہے، اس کے گھر والے اس سے کچھ چھپاتے نہیں تھے مگر وہ جانتی تھی کہ سات سال پہلے جو ہوا تھا وہ ایسا قصہ تھا جس کا وہ اس کے سامنے ذکر کرکے اس کے گھر والے اس کو تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے۔
بشائر ان پچھلے کچھ سالوں میں اس بات کا یقین کر چکی تھی کہ وہ ایک مضبوط لڑکی تھی۔ اس کو اس دنیا کی کوئی بھی چیز توڑ نہیں سکتی تھی ۔ دادی ابھی بھی کچھ اور بھی کہہ رہی تھی مگر اس سے پہلے ہی بشائر کی بس ہوگئی تھی، وہ اب مزید نہیں سن سکتی تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ یہ ایک لاحاصل بحث تھی ۔ دادی اپنی جگہ ٹھیک تھی اور دوسری طرف اس کے ماں باپ بھی اپنی جگہ صحیح تھے۔
’’ اب میں اتنی بھی کانچ کی نہیں بنی کہ ذراسی تکلیف سے ٹوٹ جاؤں گی ۔ ‘‘اس نے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے یہ جملہ کہا تھا ۔
وہاں کے نفوس کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ اس وقت اس کے جلدی آنے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
’’ بشائر آپ اپنے کمرے میں جاؤ۔ ‘‘اس کے بابا نے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر بشائر نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔
’’ابا، مجھے کہنے دیں ۔ سات سال پہلے کا قصہ مٹی میں دب گیا ہے ، اس کو مٹی میں ہی دبا رہنے دیں۔‘‘ اب کی بار اس کا اشارہ دادی کی طرف تھا۔
’’اگر کچھ ایسا ویسا ہوا وہ بھی تو…‘‘اب کی بار تھوڑی دیر رکی اور اپنے اس چہرے پر مسکراہٹ سجا لی، جو اس کی ذات کا خاصہ تھا۔
کچھ چوٹیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بّھی نہیں بھرتی، بس ہم ان کے ساتھ رہنے کا سلیقہ سیکھ جاتے ہیں۔ بشائر کی زندگی میں بھی ایک ایسا انسان آیا تھا، جو اس کو نہ بھرنے والے زخم دے گیا تھا ۔ اس نے زندگی کی طرف آنے میں وقت لگایا تھا۔ مگر وہ اس چوٹ کو نظر انداز کر کے جیے جا رہی تھی۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب جس زخم پر کھرنڈ آ رہی تھی، اس کو دوبارہ کھرچا جائے ‘ لہٰذا وہ دوبارہ بولی ۔
’’اگر سچ میں کچھ ایسا ہوا تو آپ سب کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میں اتنی مضبوط ہوں کہ اپنی راہ میں آنے والی ہر مشکل کا پہلے سے بہتر مقابلہ کر سکوں ۔ ‘‘وہ پورے اعتماد کے ساتھ جھوٹ بول رہی تھی۔
’’مشکلیں زندگی کا حصہ ہیں، جب تک آپ سب میرے ساتھ ہیں، مجھے کس چیز کا غم ہیں ۔ ‘‘
اس کے گھر والوں اس سے محبت کرتے تھے مگر وہ چاہتی تھی کہ اس کے گھر والے اس پر اعتبار بھی رکھیں ۔ وہ اعتبار، جو اس کی طرف سے ان کو بے فکر کر دیں۔
’’مگر بیٹا … ‘‘
دادی پھر سے کچھ بولنے لگی مگر اب کی بار وہ اپنی دادی کے پاس بیٹھی اور ان کو اپنے مخصوص انداز میں پیچھے سے ایسے گلے لگا لیا کہ وہ اپنا چہرہ ان کے کندھے پر رکھ کر جھول گئی۔ دادی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے انداز پر ہنس دی۔
’’ دادی پلیز مجھ پر اعتبار رکھیں۔‘‘
اس نے آنکھیں بند کر کے گہرا سانس لیا اور پھر آنکھیں کھول کر اپنی دادی کو دیکھ کر مسکرا دی ۔ ایسی پیاری سی مسکراہٹ جو اس کی دادی کو ایک مسکان میں بتا دے کہ ان کو ان کی اپنی پوتی پر اعتبار رکھنا چاہیے اور اس پر فخر ہونا چاہیے ۔ اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں تھی، یہ وہ جانتی تھی ۔ اس کی دادی نرم پڑ گئی تھی اور پھر اس کے ہاتھ پر انہوں نے اپنا ہاتھ رکھ دیا ، جیسے وہ اس کو یقین دلا رہی ہوں کہ وہ اس کے ساتھ تھیں۔ اس کی دادی کی مسکراہٹ دیکھ کر ابا اور اماں بھی کھل کر مسکرا دیے ۔ کچھ لمحے ایسے ہی خاموشی سے نکل گئے۔
’’چلو پھر سب کچھ کلیئر ہو گیا ہے تو ابا … ‘‘وہ اپنی جگہ سے اٹھی، اب کی بار رخ ابا کی طرف تھا ۔
’’ہماری کمپین بہت زبردست گئی ہے، میں آپ کو بعد میں بریف دوں گی، فی الحال بہت تھک گئی ہوں ۔ اب آپ سب مجھے وی آئی پی سا پروٹوکول دیں، نہ کہ خوامخواہ کی فکروں میں گھولتے رہیں۔‘‘
وہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑی ہو گئی۔
اس کی بات پر ابا مسکرا اٹھے ۔
’’میں تو جانتا ہی تھا کہ میری بیٹی کامیاب ہی واپس آئے گی۔‘‘
ابا کی بات پر اس کے چہرے پر اب کی بار سچی اور جاندار مسکراہٹ لوٹ آئی تھی ۔ مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ دنیا کی سب سے ناپائیدار شے مسکراہٹ ہے ، مگر بشائر کو اپنی مسکراہٹ ہمیشہ پائیدار، ہمیشہ مکمل لگتی تھی۔ ہر مشکل کا حل تھی، اس کی مسکراہٹ…
وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ کچھ دنوں کی بات تھی، جب وہ اس کی مسکراہٹ کہیں دور ہو جائے گی، جب وہ مشکلوں کو حل کرنا بھول جائے گی ۔ بشائر نے ہمیشہ ہی زندگی کو مثبت ڈگر پر چلانے کی کوشش کی تھی ۔ یہاں تک کہ ان گزرے چھ سے سات سالوں سے پہلے بھی وہ مثبت ہی رہی تھی ۔ اور اب جبکہ اس کو لگتا تھا کہ وہ ایک تبدیل اور بہتر انسان تھی تو وہ مزید کسی منفی خیال کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دینا چاہتی تھی ۔ اپنے گھر والوں کی باتیں سن کر اس کو کچھ پل تکلیف تو ہوئی تھی، مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ سب اس کی فکر میں ہی ایسا بول رہے تھے ۔ ایک پل کے لیے اس کے دل میں خیال آیا کہ شاید اس کی دادی ٹھیک کہہ رہی ہو، ہو سکتا تھا کہ اس کا برا خواب حقیقت کی تصویر بن کر اس کے سامنے آ جائے ۔
مگر اس نے فورا ہی اس خیال کو اپنے ذھن سے جھٹک دیا، اس نے زندگی میں اتنی محنت ہار ماننے کے لیے نہیں کی تھی۔
وہ زمانے چلیں گئے تھے جب وہ اپنے آپ کو ایک پریوں کی کہانی کی شہزادی مانتی تھی ۔ دوسرا انسان بھلے اس کو دیکھ کر کوئی بھی رائے قائم کرے مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک لڑاکا تھی۔
ایسی لڑاکا جو کسی بھی صورت حال کے لیے تیار تھی ۔ اگر وہ شخص اس کی زندگی میں دوبارہ آتا ہے تو وہ اس کو دوبارہ اپنی زندگی سے دھکّے مار کر باہر کر دے گی ۔
اس نے دل ہی دل ہزار بار کیا ہوا عزم ایک اور بار مضبوط کیا۔
اس کو نہیں معلوم تھا کہ آنے والے چند لمحے اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کہ اس کے ارادے کتنے مضبوط تھے اور اس کے عہد کتنے کھڑے۔
’’ میں اب اپنے کمرے میں جا رہی ہوں، کھانا میں نے کھا لیا ہے اماں، بس میں اب سونا چاہتی ہوں ۔ ‘‘اس نے اپنے ہاتھوں کو کھنچاؤ دے کر ایک ڈرامائی سی انگڑائی لی جو اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ مزید اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’ دادی، اب اس موضوع پر مزید کوئی بات نہیں ہوگی پلیز ۔‘‘اس نے اپنی دادی کا ہاتھ پکڑ کر ایک بات پھر سے التجا کی، جس پر اس کی دادی نے نرمی سے سر ہلا دیا۔
’’ابّا، میں آپ کو کام کی تفصیلات شام میں اٹھ کر دیتی ہوں۔‘‘
’’ جاؤ بیٹا آرام کرو، اماں اب آپ بھی اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں ۔ ‘‘انہوں نے بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنی اماں کو بھی اجازت دی۔
آگے سے دادی نے کیا کہا، کیا نہیں، بشائر نے نہیں سنا ۔ وہ اس وقت صرف اپنے کمرے میں جا کر فریش ہونا چاہتی تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے کے قصے نے اس کی جیت کی خوشی تو غارت کر دی تھی ۔ اب وہ امید کرتی تھی کہ تھوڑی دیر آرام سے شاید اس کی طبیعت بہل جائے ۔ وہ طبیعت جو ایک انسان کے ذکر سے ہی بگڑنے لگتی تھی، پھر سنبھلتے سنبھلتے وقت لگ جاتا تھا ۔ اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا جو بھری دوپہر میں بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ۔ اس نے اپنے کمرے کے لیے گرم رنگوں کا انتخاب کیا تھا، اور بھاری پردے کھڑکیوں پر پڑے تھے جو کمرے کے اندھیروں میں اضافہ کر رہے تھے ۔ اس نے ملگجی سی روشنی میں نائٹ بلب اون کیا ۔ وہ اس وقت کمرے کو روشن کر کے اپنی نیند نہیں بھگانا چاہتی تھی ۔ لہٰذا ہینڈ بیگ اور اپنا دوپٹہ رکھ کر وہ باتھ روم میں چلی گئی ، کچھ منٹس بعد جب وہ اپنا منہ تولیے سے صاف کرتی ہوئی کمرے سے باہر آئی تو ٹھٹک کر رک گئی۔
اس کے کمرے میں کچھ الگ تھا ۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی تب ہی کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کو ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا ۔ کچھ تو تھا، اس کے کمرے میں جو الگ تھا ۔ اس نے باتھ روم کے دروازے پر کھڑے کھڑے پورے کمرے کا جائزہ لیا ۔ کچھ بھی ایسا نہ تھا جو معمول کے خلاف ہو ۔ اس کی کوئی چیز ادھر سے ادھر نہیں تھی ۔ اس کا بیگ اور دوپٹہ بھی وہی تھا جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھی، مگراس کی چھٹی حس اس کو کہہ رہی تھی کہ اس کے کمرے میں کوئی تھا، بلکہ ہے۔
وہ تولیہ اسٹینڈ پر لٹکا کر اپنے کمرے میں آگے بڑھی ۔ کچھ تو تھا جو صحیح نہیں تھا ۔ اس کو دادی کی باتیں کان میں گونجی مگر اس نے یہ خیال آنے سے پہلے ہی جھٹک دیا ۔ وہ اپنے دروازے تک آ کر واپس مڑ گئی ۔ جو بھی تھا، اس کا وہم تھا ۔ وہ یہ خیال آنے پر اپنا سر جھٹک کر آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ ٹھٹک کر روک گئی ۔ اس کے کمرے کا دروازہ نہ صرف بند تھا بلکہ لاک بھی تھا ۔ وہ اپنے کمرے کا دروازہ بند نہیں کرتی تھی، سوتے ہوئے بھی نہیں، سوائے چند ایک لمحات کے، جب اس کو تنہائی چاہیے ہوتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے کمرے کا دروازہ آٹو لاک نہیں تھا، اس کو لاک کرنا پڑتا تھا ۔ وہ اپنے شک کا یقین کرنے کے لیے دروازے کے قریب گئی اور لاک چیک کیا ۔ دروازہ سچ میں اندر سے لاک تھا اور بشائر نے اس کو لاک نہیں کیا تھا ۔ اگر بشائر نے اس کو لاک نہیں کیا تو…
اس کے ذہن میں یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا کیوں کہ جب وہ پلٹی تو اس کو اپنے کانوں میں جیسے کسی کی سانسوں کی آواز محسوس ہوئی۔ وہ ٹھٹک کر وہی رک گئی ۔ اب اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس کے کمرے میں کوئی تھا۔ اور اس کو یہ جاننے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ کون تھا؟
اس سے پہلے کہ وہ دروازے کی طرف بڑھتی یا کسی کو آواز دیتی، اس کے کان میں ہوتی سرگوشی نے جیسے اس کو وہی منجمند کر دیا۔
’’Its been a long time۔ پہچانا مجھے؟‘‘
وہ سرگوشی کرنے والے وجود کو دیکھ نہیں پا رہی تھی مگر وہ اس آواز، اس احساس کو اپنی سانسوں سے زیادہ بہتر پہچانتی تھی۔
’’شہ…‘‘ اس کے ہونٹ ایک پل کے لیے کپکپائے، مگر اس نے اس شخص کا نام لے ہی لیا جو اس کی زندگی میں برے خواب کی طرح دوبارہ لوٹ آیا تھا۔
’’ شہریار… ‘‘
٭ …٭…٭