طلسم : قسط نمبر 3

غازی کو پتہ نہیں چلا کب بشائر کے ہاتھ نے مٹھی کی صورت اختیار کی اور اس کے چہرے پر گھونسے کی صورت پڑا ۔ ایک پل کے لئے وہ اپنی جگہ سے ڈگمگا گیا۔
’’سیل کرنے کے علاوہ میں گھٹیا لوگوں کو بھی دھوتی ہوں ۔ ‘‘بشائر کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
غازی نے ایک ہاتھ وہاں رکھا جہاں اس ذرا سی لڑکی نے اس کو مارا تھا اور دوسری طرف سامنے اس کو مسکراتے ہوئے دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں تو ایک پل کے لیے جیسے خون اتر آیا ۔ وہ فوراً اس کی طرف بڑھا اور اس کا منہ اپنے دوسرے ہاتھ میں دبوچ کر اس کو دیوار کی طرف ایسے لے آیا جس سے بشائر کی پیٹھ دیوار کی طرف ہو گئی اور اس کے بچنے کے سارے راستے مسدود ہوگئے۔
’’تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو؟ ایک جھوٹی مکار…‘‘غازی اپنی بات کے بیچ میں ایک دم ہی چنگھاڑا تھا ۔ بشائر نے اسے ٹانگ میں گھٹنا دے مارا تھا، یہ شاید سیلف ڈیفنس کی ٹریک تھی۔
’’تم مجھے کیا سمجھتے ہو، کمزور ہوں میں؟‘‘ وہ غازی کو ڈگمگاتا دیکھ کر شیرنی کی طرح غرائی۔
غازی ایک پل میں سنبھل کر اس کی طرف بڑھا مگر بشائر بھی کم نہ تھی، اب کی بار گھونسا دوسرے گال پر مارا تھا ، تاکہ چہرہ متوازن رہے ۔ غازی کے ہونٹوں سے خون نکل رہا تھا۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے خون پونچھا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا ۔ اب کی بار غازی نے اس کا گلا پکڑ لیا ۔ بشائر جتنی بھی پھنے خان بنتی‘ تھی تووہ ایک لڑکی ہی ناں!
غازی نے اب کی بار دوبارہ اسے دیوار سے لگا دیا۔
اس کے ہاتھ کا زور اس کی سانس کی نالی کے گرد تنگ ہورہا تھا۔ بشائر اب تیزی سے ہاتھ پاؤں مار کر مزاحمت کررہی تھی۔ ممکن تھا کہ وہ اس کا گلا گھونٹ کر اس کو مار ہی دیتا ۔ اس نے بشائر کی پھٹی ہوئی آنکھوں کو دیکھا اور اس کی مسکراہٹ اس نظروں کے سامنے دوڑ گئی ۔اس ایک پل میں اس کو احساس ہوا کہ وہ کیا کررہا تھا۔ وہ فوراً بشائر سے دور ہوا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگ گیا۔ اس کو اپنے آپ سے اس قدر وحشیانہ پن کو امید نہیں تھی۔
بشائر اپنے گلے پر ہاتھ رکھے اب سنبھل چکی تھی اور اس کی طرف ایسے دیکھ رہی تھی، جیسے اس کا خون پی جائے گی۔
’’ہاں میں ہوں جھوٹی، مکار ۔ ‘‘اس نے اس کے کندھے پر ایک زور کا ہاتھ مارا۔
’’مگر تمہیں کس نے مجھے جج کرنے کا حق دیا؟‘‘اب کی بار دوسرے کندھے پر مارا گیا۔
’’ہاں میں نے بولا ہے تم سے جھوٹ ! ‘‘اب کی بار دوبارہ مکا مارا۔
غازی تیار نہ تھا لڑکھڑا کر بیڈ پر گر گیا ۔ اس کے ہاتھ پاؤں اس خیال سے ہی کانپ گئے تھے کہ وہ اگر بشائر کو مار دیتا تو وہ خود کیسے زندہ رہ پاتا ۔اپنی جنوں کی کیفیت میں وہ اتنا تو جان گیا تھا کہ یہ لڑکی اگر اس کو دھوکا بھی دے گی تب بھی وہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بشائر نے دوبارہ مکا مارا مگر اس بار غازی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ وہ اس کا گناہ گار تھا، بدلہ لینا اس کا حق تھا۔
’’تم کیا ہو … سزا اور جزا کے علمبردار ؟ ‘‘ ایک اور گھونسا۔
اس نے دیکھا کہ اب کی بار بشائر کی آواز میں آنسوئوں کی آمیزش بھی شامل تھی ۔ ممکن تھا کہ بشائر اس کو مار ہی دیتی اور اس کے باپ کی نسل اس کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ۔ وہ روئے بھی جا رہی تھی اور اس کو مارے بھی جا رہی تھی مگر اب کی بار اس کے مارنے کی شدت کم اور رونے کی زیادہ ہو گئی تھی ۔ وہ اسی حالت میں تھے، جب ان کے دوستوں نے ان کو انعم کے کمرے میں پایا تھا ۔ انہوں نے بشائر کو تیزی سے اس سے الگ کیا تھا ۔ حسن اور ارمان نے اس کو اٹھایا تھا اور انعم چلا کر اس سے پوچھ رہی تھی کہ اس نے اس کی دوست کے ساتھ ایسا کیا کیا تھا کہ اس نے اس کو اتنا برا مارا ہے ؟
غازی نے ایک نظر انعم کے ساتھ روتی ہوئی بشائر کو دیکھا اور اس کا دل ایک بار پھر سے دکھ اور شرمندگی سے بھر گیا۔
’’آخر کیا کیا ہے تم نے اس کے ساتھ ؟ ‘‘انعم کی چلاتی ہوئی آواز اب اس کو سر درد دے رہی تھی۔
اس نے ایک نظر غصے سے بھری انعم اور پریشانی لیے ہانہ کو دیکھا۔ اس کے ایک طرف ارمان اور دوسری طرف حسن کھڑے تھے ۔ ارمان ہی تھا، جس نے اس کو سہارا دینے کے لیے اس کا بازو پکڑا ہوا تھا جبکہ حسن کی نگاہیں اس کا جائزہ لے رہی تھی ۔ بشائر کے بکھرے ہوئے بال، غازی کا اپنا لہو لہان چہرہ، بشائر کا اس طرح روئے جانا اور غازی کو مارنا کسی اور ہی طرف اشارہ دے رہا تھا ۔ انعم بھی اب اپنی دوست کو چپ کروانے کی غرض سے چپ ہو گئی تھی ۔
کمرے میں اس وقت بالکل خاموشی تھی مگر ہر کسی کی نگاہیں اس پر الزام لگاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ کوئی اس سے کچھ پوچھتا، وہ ارمان کا ہاتھ چھڑا کر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے قدموں کی آواز اپنے پیچھے سنی تھی، مگر اس سے پہلے ہی وہ گاڑی نکال کر زن سے وہاں سے نکل گیا تھا۔
٭…٭…٭
یہ اس کی زندگی کی سب سے لمبی ڈرائیو تھی۔ سارے راستے ایسی دھند چھائی ہوئی تھی، باہر بھی اور اندر بھی کہ اس کو لگا کہ وہ اس دھند میں غائب ہو جائے گا اور کبھی بھی نکل نہ پائے گا۔ سچ تو یہی تھا کہ وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ دھند کی دیوار اس کو نگل لیں ۔ اور وہ کبھی بھی عام دنیا میں نہ جا سکے ۔اگر وہ ایسی ہی شیطان کی اولاد تھا تو پھر ایسا تھا تو ایسا ہی سہی۔ اس کو وہی ہونا چاہیے تھا جہاں سے اس کا تعلق تھا۔ ان فرشتہ صفت انسانوں میں وہ کر ہی کیا رہا تھا ۔ اگر وہ شر ہی تھا تو اس کو شر ہی رہنا چاہیے تھا۔
اس نے غصے میں زور سے سٹیرنگ وہیل پر ہاتھ رکھا ۔ کچھ ثانئے بعد تیزی سے چوکیدار نے دروازہ کھول دیا اور وہ گاڑی اندر لے آیا ۔ دل تو اس کا کیا تھا کہ وہ اس وقت اپنی گاڑی کہیں دے مارے ۔ شاید اسی طرح اس کے اندر کا شیطان سکون پا لے ۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ اتنی دھند میں ڈرائیو کرنے کے باوجود وہ بغیر کسی حادثے کے گھر پہنچ گیا تھا۔ گھر میں اس وقت ہمیشہ کی طرح خاموشی تھی، جو اس حویلی کا خاصہ تھی۔ مکان مکینوں سے بنتے تھے اور اس گھر میں تو گنے چنے ہی مکین رہتے تھے، اتنے کہ اس گھر کے سناٹے کو کھلکھلاہٹیں ختم نہ کر پاتی تھیں۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو ہمیشہ کی طرح اس کے پیچھے اس کا سایہ تھا ۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا‘ پھر وہ اس کے آگے آیا اور جب غازی مسلسل اس کو نظر انداز کرتا گیا اور چپ چاپ اپنا بیگ اور باقی چیزیں اپنی جگہ پر رکھتا رہا تو اس کا سایہ برداشت نہ کر پایا ۔ اب کی بار وہ اس سے الگ ہو ا۔ اس کے سامنے آ کر کھڑا ہوا اور اپنے دونوں بازو غازی کے سے ہی انداز میں سینے پر باندھ لئے۔
’’ کیسی لگی شکست ؟ ‘‘اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
غازی چپ چاپ، بیڈ پر بیٹھ کر شوز اتارنے لگا۔
’’ اب کیا ارادہ ہے؟ ابھی تک اس دھوکے باز لڑکی سے محبت کرنے کا ؟ ‘‘ اس نے لفظ محبت کو ایسے ادا کیا کہ غازی کو اس لفظ سے بیزاری محسوس ہونے لگ گئی۔
اس نے شوز اتار کر بیڈ کے نیچے کیے اور اپنے بائیں ہاتھ کو گھڑی سے بھی آزاد کیا۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے کہ جو کچھ تم نے آج کیا ہے، وہ واپس آئے گی تمہارے پاس؟ کیا پتہ آ بھی جائے ۔ تھوڑا دولت کا رعب جھاڑنا ۔ ‘‘ اب کی بار وہ غازی کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا تھا۔
غازی ماوارائی ہونا چاہتا تھا مگر اس کے سائے کو نظر انداز ہونا پسند نہیں تھا۔ غازی نے اپنی پینٹ کی جیب سے اپنا والٹ نکالا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا۔
’’ یاد ہے آخری بار جس بابا کے تمہیں پاس اماں بی لے کر گئی تھی، اس نے بھی یہی کہا تھا ۔ ویسے بیچارہ بڑا اچھا تھا، جب تم نے اس کی ٹانگیں توڑی تھی، بڑا ہی مزہ آیا تھا مجھے۔‘‘
جب غازی کپڑے بدل کر باتھروم سے باہر آیا، وہ تب بھی وہی تھا۔
’’اور جب تم نے اپنے کلاس فیلو کا جبڑا توڑا تھا ۔ اور اپنے دور پار کے رشتے دار کی ٹانگ میں کانٹا چبھو دیا تھا ۔ ‘‘وہ آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ہی چل کر اس کے بیڈ تک آیا ۔ وہ بولتے ہوئے ایک ایک کارنامہ اپنی انگلیوں پر گن رہا تھا۔
غازی کو یہ سب یاد کروانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہر ایک واقعہ اس کے دماغ میں نئے دن کی طرح تازہ تھا۔
’’مگر گلا دبانا؟ یہ کچھ نیا ہے ۔ ‘‘جب غازی اپنے بیڈ پر آکر بیٹھا تو وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔
’’ یہ رسم تو تم صرف میرے ساتھ ادا کرتے ہو ۔ ڈونٹ ٹیل می، تم ہماری قربت میں بشائر کو بھی شامل کرنا چاہتے ہو ؟ ‘‘ اب کی بار پاؤں دکھتی رگ پر رکھا گیا تھا۔
’’ یہ صرف تمہارا تصور ہے اس کی نہیں سننا ۔ ‘‘اس نے زور کی مٹھی بھینچی کہ اس کا غصہ اس کے باہر تک نہ آئے۔
’’ ویسے قتل تم نے آج تک نہیں کیااور جب تم اس کو گلا گھونٹ رہے تھے تو اس کی آنکھیں باہر کو جیسے ابل رہی تھی…‘‘ اس نے چٹخارہ بھرا اور غازی نے زور کی آنکھیں بھینچی اور گہری سانس لی۔
’’ سوچو اگر وہ اس وقت مر جاتی تو…‘‘غازی تیزی سے آگے بڑھا اور اب اس کا گلا اس کے ہاتھوں میں تھا۔
اس کے ہم ذات کے چہرے پر بڑی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ دوسرے ہی پل وہ فاتحانہ مسکراہٹ کسی کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں بدل گئی اور غازی فوراً پیچھے ہوا۔ اب بشائر کا چہرہ اس کے سامنے تھا اور وہ زور زور سے وہی استہزائیہ سی ہنسی ہنس رہی تھی ۔ غازی کو اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہو ا۔ اس نے تیزی سے ہاتھ مار کر پانی تلاش کیا۔ اس کے سائیڈ ٹیبل پر اس کی آنکھوں کے سامنے پانی پڑا ہوا تھا، مگر وہ اٹھا نہیں سکتا تھا۔
ناجانے کتنے لمحے ایسے سرک گئے۔ جب غازی کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے بیڈ پر پسینے سے بھیگا ہوا تھا اور اس کا کمبل اس کے اپنے اوپر سے جنگ میں بیڈ کے نیچے گرا ہوا تھا۔ کچھ لمحے لگے تھے اس کو یہ سمجھنے میں کہ وہ صرف خواب تھا۔ اسے سوئے ہوئے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے اور ابھی سورج بس نکلا ہی تھا۔ رات کو وہ روشن دان بند کرنا بھول گیا تھا، صبح کی نوخیز روشنی ان سے نکل کر کمرے میں ملگجی سی روشنی کر رہی تھی۔ یونیورسٹی جانے کی وجہ سے اس کے دماغ کے الارم نے اسے اس وقت اٹھادیا تھا۔ وہ اپنے گھٹنے لپیٹ کر بیڈ کے پچھلے حصے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس طرح کے خواب اس کے لیے انوکھے نہیں تھے۔ یہ اس کی ضمیر کی عدالت تھی جو اس کے لا شعور میں آئے دن سجتی تھی۔
مگر پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کے خوابوں میں اس کے علاوہ بھی کوئی تھا۔ ایک مایوسی کی دھند تھی، جس نے اس کا کراچی سے عمر کوٹ تک پیچھا کیا تھا۔ جب جب وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتا، تو بار بار بشائر کا چہرہ اس کی نظروں کے سامنے دوڑ جاتا۔ اس کو بار بار یہ خیال آتا کہ اگر وہ اس کو مار دیتا تو اس کا کیا ہوتا۔ اس وقت اس کے دل میں نہ اس لڑکے کا خیال تھا جو بشائر کے ساتھ تھا اور نہ ہی بشائر کے جھوٹ کا، اور نہ ہی اس کے دھوکے کا۔ اس کو صرف یہ خیال تھا کہ یہ اس کے ہاتھ تھے جس نے اس لڑکی کو ایک پل کے لئے ہی سہی مارنا چاہا تھا، یہ اس کی زبان تھی جس نے اس کے لئے زہر اگلا تھا۔ یہ وہ خود تھا جس نے اپنے شیطان کو اپنے قابو سے نکلنے دیا تھا۔
بشائر کا روتا ہوا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آتا تو اس کا دل ملامت سے بھر جاتا ۔ اس کا ایک پل کے لیے دل کیا کہ ارمان کو کال کر کے اس کے بارے میں پوچھے ۔ اس خیال کے ساتھ ہی جیسے کوئی اس کے اندر زور سے ہنسا تھا۔ اس نے زور سے اپنا سر جھٹکا ۔ وہ اپنے کمرے سے منسلک باتھ روم گیا اور زور زور سے ٹھنڈے پانی کے چھینٹے اپنے منہ پر مارے۔ وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو سن کر دینا چاہتا تھا۔ وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا، کچھ محسوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کچھ دیر بعد باہر آیا تو پہلے سے بہتر محسوس کررہا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ وہ صحیح طریقے سے سوچ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
سو اس نے دراز سے کھنگال کر سکون آور گولیاں نکالی جو اس کو کچھ مہینے پہلے ڈاکٹر نے دی تھی مگر اس نے لینے کی زحمت نہیں کی تھی ۔ گولیاں لینے کے بعد اس کے دماغ میں آخری تصویر ان پھٹی ہوئی سیاہ آنکھوں کی تھی، جن کی مالکن مسکراتی تھی تو وہ روشنی سے بھر جاتی تھی۔
٭…٭…٭
وقت کی کتاب کے پنے پلٹے تو چپکے سے کچھ دن ایسے ہی اپنے آپ سے، اور دوسروں سے آنکھیں چراتے ہوئے سرک گئے۔ ارمان اس کو سینکڑوں کالز کر چکا تھا۔ حرا بھی فون کر کے کتنی بار پوچھ چکی تھی کہ وہ اپنا سامان اور فضیلہ بیگم کو لیے بغیر اچانک کیوں چلا گیا۔ جب وہ تھوڑا پر سکون ہوا تو حرا کو بھی کوئی بہانہ بنا دیا اور ارمان کی بھی بات سن لی ۔ ارمان کی بات سن کر اس کو غصہ تو بہت آیا، خود پر بھی اور اپنے دوستوں پر بھی۔
اس کا اور ارمان کا پہلی بار اچھا خاصہ جھگڑا ہوا، جس کے آخر میں ارمان نے اس سے معافی بھی مانگی اور بشائر کو اس طرح کی باتیں کرنے کے جرم میں گالیاں بھی دیں ۔ جب دوسری بار اس نے ارمان سے بات کی تو اس نے اس کو معاف بھی کر دیا اور اس کی مزید گالیاں بھی سن لی ۔ جو بھی تھا، ارمان جیسا دوست روز روز نہیں ملتا اور اس جیسے انسان کو ایسا دوست جیسے کسی غریب کے لیے کروڑوں کی لاٹری نکلنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ارمان اور اس کی دوستی ایک بار پھر سے استوار ہو گئی ۔
وہ اور بشائر کہاں کھڑے تھے اس کو نہیں معلوم تھا۔ ہر بار اس کی زبان کی نوک پر بشائر کے متعلق سوال ہوتا تھا اور ہر بار وہ اپنی زبان کو کچھ بھی کہنے سے روک لیتا ۔ ارمان نے بھی اس کو بشائر کی حقیقت بیان کرنے کے بعد ایک لفظ نہیں بولا تھا کہ وہ کہاں ہے، کیسی ہے؟ دوسری طرف اس کو اپنے دل کی حالت سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔
ایک رات جب وہ اپنے کمرے کی بالکنی میں چاند کا نظارہ کر رہا تھا تو اس پر یہ راز کھلا کہ آخر ایسا کیا تھا جو اس کو بشائر کا چہرہ ایک لمحے کو بھی بھولنے نہیں دیتا تھا ۔ وہ اس پہیلی کو سلجھا ہی رہا تھا کہ فضیلہ بیگم اس کو ڈھونڈتے ہوئے اس کے کمرے میں آ گئی ۔ وہ آج ہی واپس آئی تھیں۔
حرا نے نجانے انہیں کیا کہا تھا کہ انہوں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا، بس چپ چاپ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ فضیلہ بیگم کو بھی معلوم تھا کہ کوئی بھی پورے چاند کی رات وہ کبھی بھی اپنی بالکنی کے علاوہ کہیں نہیں گزارتا تھا ۔ لہٰذا وہ اسے گھر میں ادھر ادھر دیکھنے کے بجائے سیدھا یہی آ گئی تھیں۔ اورپنگھوڑے کے ساتھ رکھے ہوئے موڑھے پر بیٹھ گئی۔
’’یہ محبت کیا ہوتی ہے، امّاں بی؟‘‘
اس نے ان کو دیکھ کر پہلا سوال ہی یہی پوچھا تھا۔
’’ آج یہ سوال آپ کے ذہن میں کیسے آیا ؟ ‘‘اسکی امّاں نے پیار سے اس کے بھورے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
وہ اپنی بالکنی میں پڑے پنگھوڑے کو ہلکا ہلکا جھلا رہا تھا ۔ آسمان پر روشن چاند کی طرح، وہ پنگھوڑہ بھی اس کے بچپن کا ساتھی تھا۔ فضیلہ بیگم کے سوال در سوال پر بھی اس نے ان کی طرف نگاہ نہ اٹھائی ۔ وہ جانتا تھا کہ یہ بد تمیزی تھی کہ جب ایک انسان کی بات کا جواب اس کی طرف دیکھے بغیر دیا جائے ۔ مگر ایک تو وہ ان سب باتوں سے پڑے تھا ۔ دوسرا وہ اپنی امّاں بی کو جانتا تھا کہ وہ اس کی نس نس سے واقف تھیں۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی اس طرح کی بات کا برا مان جائے ۔
’’ایسے ہی، چاند کو محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آپ جانتی ہیں کہ مجھے چاند سے کیسا عشق ہے تو ایسے ہی تجسس اٹھا ذہن میں کہ پتہ تو چلے کہ بھلا جس چیز سے مجھے عشق ہے وہ جس چیز کی علامت ہے تو وہ چیز آخر ہے کیا؟‘‘
وہ ابھی اپنے دل کے چور کو ان پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کم از کم جب تک اس کو یہ محبت نامی معمہ سمجھ نہ آ جائے۔
اس کی بات پر انہوں نے ایک میٹھی سی آہ بھری۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ چاند محبت کی علامت ہوتا ہے ، مگر جب دل میں محبت بس جائے تو ہر چیز ہی محبت کی علامت ہو جاتی ہے ۔ کیا ٹھنڈا چاند اور کیا تپتا ہوا صحرا ۔ ‘‘ان کے چہرے پر یہ کہتے ہوئے بڑی دھیمی سی مسکراہٹ تھی ۔ ایسے جیسے وہ کسی پیارے سے راز سے واقف ہوں۔
اب کی بار اس نے امّاں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ ہی لیا ۔ بھلا ایسا کیا تھا محبت میں جو کسی کو اس کے ہوتے ہوئے تپتا ہوا صحرا بھی پیارا لگنے لگ جائے۔
’’ تو کیا چیز ہے یہ محبت بھلا امّاں بی؟’’
اس نے ان کی نیلی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا ۔ وہ آنکھیں جن کے قریب جھریوں نے گھیراؤ کیا ہوا تھا مگر جن میں دنیا جہاں کا تجربہ چھپا بیٹھا تھا۔
’’یہ تو دل سے دل ملنے کو کہتے ہے ۔ ‘‘ان کا جواب برجستہ تھا، بغیر کسی شک کے۔
ان کی بات پر ایک خواب ناک سی مسکراہٹ نے غازی کے چہرے کا احاطہ کر لیا ۔ اس نے ہلکا سا اپنے پنگھوڑے کو ہلایا اور اپنا رخ دوبارہ سے اپنے عشق کی طرف کر دیا ۔ کیا اس کا دل بھی بشائر کے دل سے جا ملا تھا ؟ اس نے پہلے یہ سوال اپنے آپ سے پوچھا تھا، پھر اپنی اماں بی سے۔
’’ اور پتا کیسے چلتا ہے کہ آپ کا دل کسی سے مل گیا ہے ؟ ‘‘ اب کی بار اس نے پوچھا تو وہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر کہیں بھی نہیں تھی ۔ بس ذرا سی الجھن اور بہت سارا تجسس تھا۔مگر امّاں بی سے بہتر بھلا غازی کو کون جان سکتا تھا۔
’’ جب آپ کو کوئی اچھا لگنے لگ جائے…‘‘ انہوں نے کہنا شروع کیا مگر اپنے آپ کو وہی روک دیا۔
ان کے رکنے پر غازی نے ایک بار پھر سے ان کی طرف دیکھا۔
’’ اور جب وہ اچھا لگنے والا انسان آپ کو اتنا پیارا ہو جائے کہ آپ کو لگے کہ اس کی خوشی آپ کی خوشی سے بڑھ کر ہے تو وہ محبت ہوتی ہے۔‘‘
ان کی بات پر غازی ایک پل کے لیے سوچ میں پڑ گیا تھا۔
اس نے کوئی آئیڈیل زندگی نہیں گزاری تھی، مگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اس کی زندگی کوئی عذاب بھی نہ تھی، اگر اس کے اندر اور باہر کی آوازوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو ، مگر اس نے جو کچھ بھی کیا، وہی کیا جو اس کو ٹھیک لگا ۔ اپنی غرض کے لئے کیا۔ کیا ایسا ہو سکتا تھا کہ وہ اپنی خوشی پر بشائر کی خوشی کو ترجیح دیں۔ اس بار جو جواب آیا، اس نے اس کو بھی حیران کر دیا ۔ زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کے اندر سے کوئی آواز آئی تھی اور وہ اس کو کسی غلط کام پر اکسانے کے لیے نہیں تھی۔
’’ آپ کو لگتا ہے کہ مجھے محبت ہو سکتی ہے؟ میرا دل کسی سے جڑ سکتا ہے؟‘‘
ان کی بات پر ایسا لگا کہ اماں بی رو دیں گی ۔ اور اس کو معلوم تھا کہ وہ اس کو محبت کرنے کے قابل نہیں سمجھتی تھی لیکن اب اگر اس کے دل نے پہلی بار گواہی دی تھی کہ اس کا دل کسی سے جڑ گیا ہے تو وہ سب کو غلط ثابت کر دے گا ۔ وہ دوسروں کو محبت کر کے اور سچے دل سے اس کو نبھا کر دکھائے گا۔ اس نے اپنے بچپن کے ساتھ کے سامنے ایک ایسا عہد کیا جو وہ مرنے تک نبھانے والا تھا۔ اور جب عہد ہو تو ایسے ہی ہونے چاہیے۔
اب کی بار راجہ غازی نے اپنی اماں بی کی جانب دیکھا تو انہیں اپنے چہرے پر کچھ ڈھونڈتا ہوا پایا۔ وہ ان کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور ان کا جھڑیوں بھرا ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں کے درمیان لے کر بولا۔
’’مجھے لگتا ہے امّاں بی کہ میرا بھی کسی سے دل مل گیا ہے۔‘‘
اور اس بات کے بعد جو غازی نے کہا، وہ اماں بی کو کسی ریاضت کے صلے کی طرح لگا تھا۔
’’ اور اسی لیے میں اپنے شر سے لڑنا چاہتا ہوں، کیا آپ میرا ساتھ دیں گی؟‘‘
جاری ہے