طلسم : قسط نمبر 3

اس کی توقع کے برخلاف بشائر واپس آگئی تھی ۔ وہ واپس آئی تو اس کے باب کاٹ بال اب ہلکے ہلکے کندھوں کو چھو رہے تھے، جیسے اس نے ان دنوں کٹنگ نہیں کروائی تھی۔
یا پھر… یا پھر وہ بال بڑھا رہی ہو ۔ جیسے ہی وہ لوگ کلاس میں اکیلے ہوئے اس نے سب سے پہلے اس سے یہی سوال پوچھا ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ سب کے سامنے بشائر کو پکارنے میں، اس سے بات کرنے میں کیا جھجک مانع تھی ۔ یہ ایسا تھا جیسے وہ بشائر کی زندگی کے کچھ لمحے چاہتا تھا مگر وہ ان لمحوں میں وہ کسی کو بھی شریک نہیں بنانا چاہتا تھا۔ ارمان کو بھی نہیں۔ حالاں کہ اس کو شک تھا کہ ان سب کو اس کی حرکتوں کا علم ضرور ہوگا ۔ اب یا تو وہ اس کی پرائیویسی کا احترام کر رہے تھے یا ان کو بشائر پر پورا بھروسہ تھا کہ اگر غازی میں کوئی خرابی اس لڑکی نے دیکھی ہوتی تو پہلے ہی قدم پر وہ اس کو روک لیتی ۔ جتنا وہ بشائر کو جانتا تھا، وہ اس کے بچکانہ پن کے باجود، وہ ایک سمجھدار لڑکی تھی۔
’’ایسے ہی، یونہی سوچا کہ…‘‘اس نے جھجکتے ہوئے ، جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور اس کے ادھورے جملے نے غازی کو بتایا کہ وہ ایسے یونہی تو بال نہیں بڑھا رہی تھی۔
ہو سکتا تھا کہ وجہ کوئی اور ہی تھی ۔ اور غازی کو یہ سوچ کر اچھا نہیں لگا کہ وجہ کوئی اور بھی ہو سکتی تھی ۔ اگر غازی نے اس وقت غور کیا ہوتا تو اس کو اندازہ ہوتا کہ بشائر کیسے اس سے نظریں چرانے لگ گئی تھی۔ کیسے اس کی آنکھوں میں دیکھے بغیر بات کرتی تھی ۔ کیسے غازی کی کچھ باتیں اس کے چہرے پر گلابی رنگ پھیلا دیتی تھی۔ آنے والے کتنے دن ایسے ہی اس کے یہ سب غور کیے بغیر ہی گزر گئے۔ اور جب اس نے غور کرنا شروع کیا تو اس کو پہلے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ ایسا کیوں کرتی تھی اور جب اس کو سمجھ آیا تو بہت دیر ہو گئی تھی۔
٭…٭…٭
ان پچھلے کچھ مہینوں میں غازی کی جیسے زندگی ہی بدل گئی تھی ۔ خاص طور پر بشائر کا آنا اس کی زندگی میں مبارک ثابت ہوا تھا ۔ اس کا اپنا آپ پہلے سے مثبت طور پر بدلا ہوا لگ رہا تھا اور اس کے اندر کی آوازیں بھی اب کافی حد تک کم ہوگئی تھی ۔ یہاں تک کہ حرا بھی اس کے اندر تبدیلی محسوس کر رہی تھی ۔ اگر زندگی ایسے ہی چلتی تو ممکن تھا کہ اس کی زندگی میں ایک بھرپورزندگی گزارنے کی امید بندھ جاتی۔ وہ تمہیدوں میں پڑنے والا انسان نہیں تھا‘ اس لیے اس نے سوچا کہ کیوں نہ ہو بشائر کو جلد ہی اپنی زندگی میں شامل کر لیا جائے ۔ اس کو پوری امید تھی کہ بشائر کے اس کی زندگی میں آنے کے بعد اس کے اندر کی آوازیں کم ہوگئی تھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ جلد ہی ان کو پوری طرح شکست دے سکے ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ وہ بشائر کس طرح اس کی زندگی میں آنے پر راضی کرے۔
وہ اکتوبر کا اخیر تھا ۔ اس کو ارمان سے پتہ چلا تھا کہ بشائر کی برتھ ڈے اسی مہینے کے آخر میں آتی ہے۔ روشان کی طرح بشائر بھی گروپ کی بے بی تھی، جو صرف لادڈ اٹھواتی تھی اور حکم چلاتی تھی ۔ اسی کی طرح وہ اپنی برتھ ڈے بھی مناتی تھی ۔ یہ بھی اس کو ارمان نے ہی بتایا تھا۔
’’ارے میں کہاں برتھ ڈے مناتی ہوں ۔ مجھ غریب کے پاس اتنے پیسے ہوتے ہے کیا؟ یہ تو بس بہانہ ہے گفٹس بٹورنے کا۔ ‘‘ جب ارمان نے اس کو بتایا تو وہ اس کو گھورتے ہوئے مصنوعی بیچارگی سے بولی تھی۔
وہ لوگ اس دوران اپنے مڈ سے فارغ ہو چکے تھے اور یونیورسٹی کا ارادہ اس بار ان لوگوں کو جلدی سردیوں کی چھٹیاں دینے کا تھا ۔ وہ موسم بدلنے کے دن تھے اور بشائر کا اپنی سالگرہ یونیورسٹی میں ہی منانے کا ارادہ تھا ۔ کیک وہ خود لے آئے گی اور سب اپنے اپنے پیسوں سے سموسے اور کولڈ ڈرنک کھا سکتے ہیں۔
کم خرچ بالا نشیں…
یونیورسٹی کی چھٹی میں جب وہ گاڑی نکال کر گھر جا رہا تھا تو اس کو بشائر کسی گاڑی میں بیٹھتی ہوئی دکھی تھی ۔ وہ گاڑی اسکی گاڑی سے کوئی تھوڑے ہی فاصلے پر تھی ۔ وہ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکتے تھے مگر وہ ان کو بالکل صحیح سے دیکھ سکتا تھا ۔ بشائر فرنٹ سیٹ پر پوری طرح پاؤں پھیلا کر بیٹھی ہوئی تھی ۔ اور ڈرائیونگ سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ڈاکٹر کا لیب کوٹ پہنا ہوا تھا ۔ وہ جو گاڑی چلا رہا تھا وہ غازی کی گاڑی سے زیادہ مہنگی تھی ۔ اس کے دل نے جھٹلانا چاہا کہ شاید یہ اس کا وہم ہو ، مگر اس نے آج تک کسی چیز کو وہم سمجھ کر جھٹکا تھا جو آج جھٹکے گا؟
اس نے اپنے اندر شک کی آواز کو دبا تو لیا تھا لیکن وہ پوری طرح غائب نہیں ہوئی تھی۔ اب کی بار پھر سے وہ آوازیں جیسے ابھر ابھر کر آ رہی تھی ۔ جب بات محبت اور دل کی ہو تو پھر ایسی ساری آوازیں خیر خواہ ہی لگتی ہیں۔ سو، وہ بھی ان آوازوں کی تاکید پر بشائر کے پیچھے ہو لیا ۔ اس کو اس لڑکے کے ساتھ بشائر کی بے تکلفی ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی ۔ اس کے باپ نے اس کو عورت کے معاملے میں کوئی خاص سبق نہیں دیا تھا۔اس کی زندگی میں جو عورتیں تھی وہ بہن اور ماں کے رتبے پر فائز تھیں۔
جب کبھی اس کے پرانے اسکول کے لڑکے آپس میں بیٹھتے اور جس انداز سے وہ عورت کا ذکر کرتے تھے، اس سے غازی کو اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ عورت ان کرداروں کے علاوہ دھوکے باز بھی مشہور ہے ۔ گو کہ بشائر کے معاملے میں اس کو اپنا آپ خوش نصیب لگتا تھا مگر یہ سامنے کا منظر دیکھنے کے بعد نہیں ۔ گاڑی ایک مال کے سامنے روک کر وہ لوگ اندر شاپنگ کرنے چلے گئے تھے ۔ وہ بھی ان کے پیچھے ہو لیا ۔ اس نے اتنے قدم کا فاصلہ رکھا تھا کہ اگر بشائر پیچھے مڑ کر دیکھے تو وہ اس کو دکھائی نہ دے ۔
وہ آج اس کو دکھنا نہیں چاہتا تھا۔ بشائر ایسے فراخ دلی سے چیزیں خرید رہی تھی، جیسے وہ کوئی سیلز گرل نہ ہو بلکہ کسی ریاست کی شہزادی ہو۔
’’ میں نے کہا تھا ناں کہ کسی پر اعتبار نہیں کرنا، اب وہ چھٹانک بھر کی لڑکی تمہیں سال بھر سے الو بنا رہی ہے اور تم مزے سے بنے جا رہے ہو ۔ یہی ہوتا ہے جب انسان بغیر سوچے سمجھے اپنے دل کے دروازے کسی پر کھولتا ہے ۔ ‘‘بہت عرصے بعد اس کے اندر کی آوازیں ایسے شیر بن کر اس کے سامنے آئی تھی۔
مگر پھر بھی اس کے دل میں جیسے امید سی تھی کہ شاید جو وہ سمجھ رہا تھا ایسا نہ ہو ۔ یہ سب اس کی نظر کا دھوکا ہو۔ یا پھر کوئی بہت بڑی غلط فہمی ہو ۔ جب وہ لڑکا اپنے کریڈٹ کارڈ سے اس کا بل ادا کرنے لگا تو اچھائی کی ساری امید غازی کے دل سے سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ۔ اس کا دل کیا کہ ابھی بشائر کے پیچھے جا کر اس کی اصلیت اس پرظاہر کر دے۔
’’ابھی نہیں، گھات لگاؤ اور بدلہ لو۔‘‘ اس کی آوازوں نے اس کو پھر سے روک دیا۔
اس بات پر بڑے عرصے بعد اس کے چہرے پر وہ شیطانی سی مسکراہٹ آئی تھی جو سالوں سے ان گلیوں کا راستہ بھول گئی تھی۔
٭…٭…٭
وقت کی کتاب سے کئی دنوں کے پنے خاموشی سے سرک گئے ۔ وہ اور بشائر کبھی بھی دوسروں کے سامنے جگری یار نہیں تھے ۔ ان دنوں غازی نے پوری کوشش کی کہ وہ اور بشائر اکیلے نہ ہو ۔ وہ جب اس سے مخاطب ہوتی تو وہ نظر بچا کر نکل جاتا ۔ وہ اس کو آرام سے تسلی سے اس کے دھوکے کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ وہ اس وقت حملہ کرنا چاہتا تھا جب بشائر کو امید نہ ہو۔ اتنے دن وہ صرف گھات لگائے بیٹھا تھا ۔ کچھ دن بعد ہی اس کو بدلہ لینے کا موقع بہت آسانی سے مل گیا تھا ۔
وہ ان لوگوں کا سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے آخری مووی ویک تھا ۔ ان کے امتحانات چھٹیوں کے بعد ہونے تھے ۔ انعم نے سب کو اپنے گھر بلایا تھا ۔ باقی سب تو یہی رہتے تھے۔ اس نے اور بشائر نے اپنے اپنے آبائی گھر چلے جانا تھا ۔ بشائر تو شاید آتی جاتی رہتی مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے یہ یونیورسٹی کیا بلکہ اس شہر سے بھی آگے پڑھائی جاری نہیں رکھنی تھی ۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ یا تو پڑھائی چھوڑ کر اپنا بزنس سنبھالے گا یا پھر اسلام آباد چلا جائے گا، یا پھر ملک سے بھی باہر…کہیں بھی مگر اس شہر میں نہیں۔
اس نے سوچا ‘ جانے سے پہلے وہ اس لڑکی کو مزہ چکھا کر رہے گا ۔ جس دن وہ لوگ انعم کے گھر تھے ۔ اس کے اگلے دن اس نے عمر کوٹ کے لیے نکل جانا تھا ۔ چلا تو وہ فوراََ جاتا مگر وہ بس بشائر کو صحیح سے الوداع کہنا چاہتا تھا ۔ وہ لوگ انعم کے گھر پر جمع تھے ۔ انعم کے ماں باپ زیادہ تر گھر سے باہر ہی پائے جاتے تھے ۔ وہ اکلوتی تھی، اس لیے وہ اکثر ہی اپنے دوستوں کو اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لیے بلا لیتی تھی ۔ اس وقت بھی وہ لوگ وہاں جمع ہوئے تھے ۔ وہ اور ارمان جلدی آ گئے تھے اور بشائر انعم کے ساتھ پہلے سے ہی موجود تھی۔
’’بہت خوب۔ ‘‘سب کچھ ویسا ہی تھا، جیسے اس نے سوچا تھا۔
بشائر اس کو ہائی کا اشارہ کرنے کے بعد انعم کے ساتھ مل کر ریفریشمنٹ وغیرہ دیکھنے میں لگ گئی تھی ۔ وہ لوگ دوستوں کے درمیان ایسے ہی رہتے تھے ۔ سب کو معلوم تھا کہ ان دونوں کے درمیان کچھ تھا مگر نہ انہوں نے تردید کی تھی اور نہ ہی تصدیق ۔ یہ وہ کھٹے میٹھے دن ہوتے ہیں جب انسان کو اپنے جذبات سمجھنے میں بھی وقت لگتا ہے ۔ غازی بشائر کے لیے اپنے جذبات سمجھ گیا تھا، مگر آخری بار کے واقعے کے بعد وہ انہیں مزید سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔
’’یار زبیدہ باجی نے گلاس نہیں رکھیں ۔ ‘‘انعم ہمیشہ کی طرح چھوٹی سی بات پر جھنجھلائی ہوئی تھی۔
’’ اب ان کو آواز دینے مت لگ جانا، ان کے چھوٹے بچے کا ساتھ ہیں، بھول جاتی ہوں گی ۔ میں لے آتی ہوں۔ ‘‘بشائر نے انعم کو ہاتھ اٹھا کر اپنی کام والی کو انٹر کام کرنے سے روک دیا۔
’’ اپنے جیسوں سے ہمدردی ہو رہی ہے ۔ ‘‘ اس نے طنز سے سوچا۔
’’یار میرے کمرے سے موویز کی سی ڈیز بھی لے آنا ۔ ‘‘انعم نے پیچھے سے آواز لگائی۔
جب وہ باہر گئی تو غازی چپ چاپ اس کے پیچھے چلا گیا۔ وہ اس وقت کچن کے کیبنٹ سے ٹرے میں گلاس ایک ایک کر کے رکھ رہی تھی ۔ اس کو دیکھ کر مسکرا کر دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی ۔ غازی کو ایک پل کے لئے حیرت ہوئی، بھلا اتنا معصوم چہرہ اتنا بڑا دھوکہ کیسے دے سکتا تھا ؟ یا پھر انسان معصوم چہروں سے ہی دھوکہ کھاتا ہے۔
’’ایک کام کرو تم یہ گلاس اندر لے جاؤ، میں انعم کے کمرے سے سی ڈیز لے آتی ہوں ۔ ‘‘اس نے گلاس سے بھری ٹرے کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں،مجھے تم سے بات کرنی ہے ۔ ‘‘اس کی بات پر بشائر نے دھیرے سے سر ہلا دیا۔
’’چلو پھر سی ڈیز لے کر ساتھ چلتے ہیں ۔ ‘‘اس کی بات پر وہ کچھ کہے بغیر اس کے پیچھے چل دیا۔
اس نے غور کیا کہ بشائر نے اپنے پیچھے دروازہ بند نہیں کیا تھا ۔ وہ سی ڈی پلیئر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سی ڈیز الٹ پلٹ کر چیک کرنے لگ گئی تھی ۔ وہ اس کے پاس بیٹھنے کے بجائے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا ۔ بشائر نے اس وقت موسم کی مناسبت سے ہلکے گلابی رنگ کا گرم کوٹ، سرمئی رنگ کے سوٹ کے ساتھ پہنا ہوا تھا اور ساتھ میں اسی رنگ کا مفلر لیا ہوا تھا۔
’’اچھی لگ رہی ہو ۔ ‘‘اس نے غازی کو چونک کر دیکھا۔
وہ تعریف کرنے والا انسان نہیں تھا۔
’’شکریہ…‘‘اس نے شرماتے ہوئے جواب دیا ۔
غازی نے غور کیا کہ اس کو شرماتے ہوئے اس کے کوٹ کے گلابی رنگ کی چھاپ اس کے گالوں پر بھی پڑ رہی تھی۔
’’ تمہارے کپڑے بھی کافی اچھے ہیں ۔ ‘‘ اب کی بار بشائر جھجک کر ایسے مسکرائی جیسے اس کو غازی کی تعریف کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’شکریہ آپ کا جناب! آج زیادہ تعریفیں نہیں ہو رہی ؟ ‘‘ اب کی بار وہ سی ڈیز سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف متوجہ تھی ۔ غازی بذات خود بھی یہی چاہتا تھا۔
’’نہیں، ایسے ہی کچھ دن پہلے ہی میں نے ایک بات نوٹ کی تھی ۔ ‘‘غازی نے یہ کہتے ہوئے اپنا وزن ایک ٹانگ پر کیا اور دوسرے پاؤں کو موڑ کودیوار پر ٹکا دیا۔
’’اچھا، وہ کیا ؟ ‘‘ اس کی آواز سے لگ رہا تھا کہ وہ غازی کا سپاٹ لہجہ محسوس کر رہی تھی، مگر کچھ نہ سمجھتے ہوئے زبردستی مسکرا رہی تھی ۔ جیسے وہ غازی کو شک کا فائدہ دینا چاہتی تھی۔
مگر غازی اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’کہ تمہارے کپڑے کافی ایکس پینسیو ہوتے ہیں ۔ کہاں سے لیتی ہوں تم؟‘‘
’’ یہ کیسا سوال ہے بھلا؟ تم نے کسی کے لیے خریدنے ہے کیا ؟ ‘‘وہ جزبز ہو کر دوبارہ سی ڈیزمیں پناہ ڈھونڈنے لگ گئی۔
’’شاید خرید بھی سکتا ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہارے لیے لوں ۔ تمہیں اچھا لگے گا میرا گفٹ ۔ ‘‘اب اس کی بات پر وہ واضح طور پر چونکی تھی۔
وہ اپنی جگہ سے سی ڈیز وہی رکھ کر کھڑی ہوئی اور اپنے بازوں اپنے سینے پر ایسے باندھے جیسے اس کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چیلنج کر رہی ہوں۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
غازی بھی سیدھا ہوا۔
’’میرے کہنے کا مطلب صاف ہے کہ جتنے مہنگے کپڑے تم پہنتی ہو، ایک سیلز گرل کی نوکری سے کافی کمائی ہو جاتی ہوگی تمہاری تو۔‘‘
اب کی بار ایک نظر اس نے اپنے کپڑوں کو دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں غازی واضح طور پر بوکھلاہٹ دیکھ سکتا تھا۔
’’تمہارے دوست بھی کافی امیر ہے۔ اور یہ فون جو تمہارے ہاتھ میں ہے، یہ بھی کافی مہنگا ہے۔‘‘
’’یہ تو ارمان…‘‘وہ اپنے فون کو دیکھ کر بوکھلائی۔
’’ ہاں مجھے پتا ہے کہ تم ارمان کی رشتے دار ہو ۔ ویسے یہ کچھ عجیب نہیں کہ تمہارے جیسی غریب لڑکی نے امیر رشتے دار اور دوستوں کو بہت قریب رکھا ہوا ہے ۔ ارمان نے اپنا پرانا فون تمہیں دے دیا ۔ کپڑے تم یقیناً انعم کی اترن پہن لیتی ہوگی ۔ ‘‘ اس کا لہجہ آگ کی طرح کا تپتا ہوا تھا۔
’’تم میری انسلٹ کر رہے ہو غازی ۔ ‘‘وہ اس کے چہرے کے قریب ہو کر غرائی۔
’’ اچھا، تمہاری عزت بھی ہے؟‘‘وہ استہزائیہ ہنس دیا۔
بشائر کے چہرے سے ایسا لگ رہا تھا، جیسے وہ غازی کا خون پی جائے گی۔
’’ہاؤ ڈیئر یو؟‘‘وہ اب کی بار زور سے غرائی۔
’’ ڈیئر؟ ہمت تو تمہاری ہے بشائر کہ کیسے تم نے امیر لوگوں کو اپنی انگلی کے گرد لپیٹا ہوا ہے ۔ امیر رشتے دار، امیر دوست…‘‘وہ ایک پل کے لے رکا۔
’’اور امیر بوائے فرینڈ ۔ ‘‘اس نے بات کے آخر میں بڑی سرد سی مسکراہٹ بشائر کی طرف اچھالی۔
اب کی بار بار بشائر بھی ہنس دی ۔ ایسی ہنسی جیسے وہ غازی کا مذاق اڑا رہی ہوں۔
’’تم خواب دیکھو راجہ غازی ! ‘‘اپنی ہنسی کے آخر میں وہ بولی۔
غازی کے سر پر لگی تلوؤں پر بجھی۔
’’خواب تو تمہارے بہت بڑے ہیں بشائر، مجھے پتہ ہے کہ اسکالر شپ سٹوڈنٹس کی لسٹ میں تمہارا نام نہیں تھا ۔ تمہاری سیلز گرل کی نوکری سے تو تم اچھا خاصا کما لیتی ہوگی، جو اتنا کچھ افورڈ کر لیتی ہو ۔ ‘‘ اب کی بار وہ اس کے چہرے کے قریب ہوا۔
’’آخر سیل کیا کرتی ہو تم؟‘‘
بشائر کے چہرے پر اس کی ساری باتوں کے دوران ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا ۔ مگر اب کی بار جیسے ایک رنگ ٹھہر گیا تھا اور وہ تھا لہو کا رنگ…