سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 3

’’تمہارے لئے رومانس کیا ہے؟‘‘
اس دن تو بات آئی گئی ہو گئی ۔ پھر اسائنمنٹس کی بھرمار میں وقت ہی نہ ملا کہ وہ لوگ اکیلے ہوتے ۔ غازی بشائر سے زیادہ تربات اکیلے کرتا تھا ۔ جھجک تھی یا دل کا چور، وہ نہیں جانتا تھا۔ بس اتنا جانتا تھا کہ بشائر کے سنگ اس کا جو روپ سامنے آتا تھا، وہ کسی اور کو دکھانا نہیں چاہتا تھا ۔ اس دن وہ لوگ کمیونیکشن کی پریزنٹیشن بنانے باہر باغ میں بیٹھے ہوئے تھے تو غازی نے بات چھیڑی ۔ اس کی بات پر بشائر نے لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھاکر اس کو ایسے دیکھا جیسے اس کے سر پر سینگ نکل آئے ہو۔
’’آج یہ خیال کیسے آیا؟‘‘اب کی بار وہ پوری طرح اس کی طرف مڑ گئی۔
اس نے اس کی کتابوں کے ڈھیر میں پڑی رومیو جولیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ یہ…‘‘ اس نے کتاب ہاتھ میں پکڑ کر گھمائی۔
’’ یہ تو ایک ریسرچ کے لیے لائبریری سے ایشو کروائی تھی ۔ ‘‘ وہ ایک پل کے لیے رکی اور پھر مزید وضاحت کی۔
’’ دراصل میں ایک بلاگ لکھ رہی ہوں، اس کی ریسرچ کے لیے چاہیے تھی ۔ کچھ کوٹس ریفر کرنے تھے ۔ ‘‘اس کی بات پر غازی نے سر ہلا دیا۔
تھوڑی دیر تک ان کے درمیان صرف پریزنٹیشن کے علاوہ کوئی بات نہ ہوئی تھی ۔ اور جب غازی کو لگا کہ اب بات آئی گئی ہوگئی تھی تو بشائر نے اس کو جواب دیا۔
’’ ولیم وورڈز وورتھ کی نظمیں ، فیض احمد فیض کی شاعری ، کتابوں کی خوشبو ، آسمان کے چمکتے ہوئے ستارے اور بس زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بہت بڑی سمجھ کر جینا ۔ یہی رومانس ہے میرے لئے تو…‘‘
اور جب یہی سوال بشائر نے غازی سے پوچھا تو وہ خاموش ہو گیا۔ غازی نے نہ وورڈز وورتھ کو پڑھا تھا اور نہ ہی فیض کو سنا تھا ۔ اس کا اور ادب کا تعلق بس نصاب کی کتابوں تک ہی تھا۔ اس نے انگلش ادب کی ایک ہی کتاب پڑھی تھی اور وہ تھی شیکسپیئر کی میک بیتھ ۔ بعد میں جب اس کو علم ہوا کہ اس پلے پر بھی بددعا ہے تو وہ نجانے کیوں ہنس دیا ۔ بھلا اس سے بڑھ کر بددعاؤں کو کون جان سکتا تھا؟
’’اگر رومانس ساری اچھی اور خوبصورت چیزوں کا نام ہے تو میرے لیے رومانس کسی بددعا کا دور ہوجانا ہے ۔ ‘‘اس نے گھاس پر نظریں جمائے سامنے بیٹھی لڑکی کو جواب دیا۔
’’بددعائیں دعاؤں سے دور ہوتی ہے راجہ غازی صاحب!‘‘
’’اور وہ کیسے مانگی جاتی ہیں ؟‘‘اس کا سوال برجستہ تھا۔
اس کی بات پر بشائر نے منہ کھول کر اس کو دیکھا۔ بھلا کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جن کو دعائیں نہ مانگنی آتی ہو ؟غازی اپنے لب بھینچ کر سکرین کی طرف ایسے دیکھنے لگ گیا جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو ۔ بھلا جن لوگوں کی زندگی میں بددعاؤں نے گھیرا ڈالا ہوا ہو، وہاں دعاؤں کا کیا کام ؟
وہ جو کچھ پوچھنے والی تھی ۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر رک گئی اور دوبارہ کام میں لگ گئی۔ کسی ان کہے سمجھوتے کی بنا پر ان دونوں نے اس بات کو جانے دیا ۔ جیسے بہت سی باتیں ان کے درمیان ایسے گزر گئی تھی ، جیسے وہ کبھی ہوئی ہی نہ تھی۔
٭…٭…٭
جب ہیرو آنے والے غنڈوں کو سبزیوں کی طرح کاٹ رہا تھا توبشائر ایسے پر جوش ہو رہی تھی جیسے وہ لوگ اس کا پسندیدہ رقص پیش کر رہے ہو ۔ فلم کے ہر سین میں وہ ہیرو کی ہمت بندھا رہی تھی اور ولن کو صلواتیں سنا رہی تھی ۔ غازی کو بذات خود اتنی زیادہ فلمیں پسند نہیں تھی ۔ سو وہ کونے والے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ‘جہاں کوئی اس کو بشائر کو دیکھتے ہوئے دیکھ نہ پائے ۔ پوری فلم کے دوران غازی صرف اور صرف بشائر کو دیکھتا رہا ، ایسے جیسے اس کے چہرے پر بھی کوئی فلم ہی چل رہی ہو۔
جب فلم کا نقطہ عروج پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ ایسی لگ رہی تھی جیسے ابھی رو دے گی۔
’’اوہ! نہیں، نہیں… اٹھو تم ایسے ہارنہیں مان سکتے…‘‘ وہ ہیرو کے ولن کے آگے گرنے کے بعد دیکھ کر چلائی تھی۔
غازی کے چہرے پر اس کو دیکھ کر پھر سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’شٹ اپ بشائر، ہیرو تمہاری آواز نہیں سن سکتا ۔ ‘‘
روشان اس کو اس طرح بار بار چلانے سے تنگ آ کر بولا اور اس نے اپنی آنسوئوں سے بھری آنکھیں اٹھا کرروشان کو پہلے گھورا اور پھر اپنی گود میں رکھی گدی زمین پر بیٹھے ہوئے روشان کو دے ماری۔ باقی دونوں لڑکیاں اتنی ایکشن سے بھرپور فلم دیکھنے سے انکاری تھی ، اس لیے اس نواب کی بچی نے پورے تھری سیٹر پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ اتنے میں ولن اپنی جگہ سے اٹھ گیا اور اس نے بارش میں لت پت ہیرو کی طرف قدم بڑھا دیے، جو کہ اس وقت اپنے پیارے کی موت پر غمگین تھا۔
’’یہ اچھا ہے، شور بھی تم کرو اور مار بھی ہم کو ۔ ‘‘وہ اپنا کندھا مسلتے ہوئے بولا ۔ جس پر بشائر نے ایک بار پھر سے اس کو کشن دے مارا۔
ہیرو بھی بدلہ لینے کے عزم سے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو گیا تھا۔ وہ جوش سے ایسے ہیرو کو دیکھنے لگی، جیسے ہیرو کو نہیں اس کو نئی زندگی مل گئی ہو۔ فلم کے ہیرو کے ساتھ وہ خود بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی اور ہاتھوں کے اشارے سے ہیرو کا ہاتھ بٹانے لگ گئی تھی۔ فلم کے آخر میں وہ خالی صوفہ پر ڈرامائی انداز میں گر کر بولی۔
’’اوہ! کتنے عرصے بعد اتنی اچھی فلم دیکھی ہے ۔ دل خوش کر دیا تم نے ارمان۔‘‘
اس کی بات پر وہ سب آنکھیں گھما کر رہ گئے ‘ جیسے یہ اس کا روز کا کام ہو، مگر غازی کے لیے تو بشائر کا ہر روپ ہی نیا تھا۔ مووی کے بعد ارمان کو وہ زبردستی اپنا ریاضی کی اسائنمنٹ کرنے کو کہہ رہی تھی ۔ اس وقت وہ اور ارمان اس وقت بیٹھے اپنے اپنے میجر سبجیکٹ کو ڈسکس کر رہے تھے ۔ ارمان کا مارکیٹنگ کا ارادہ تھا، جبکہ غازی نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔
جب وہ ارمان کے سر پر اپنی فائل لے کر کھڑی ہوئی تو ارمان اس سے بچ کر دوسرے کمرے میں بہانہ بنا کرچلا گیا تھا ۔ وہ ارمان کی چھوڑی ہوئی کرسی پر غازی کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ اس نے نوٹ کیا کہ اس نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے غازی سے ذرا دور کی، جبکہ ارمان کی کرسی اس کے ساتھ ہی جڑی ہوئی تھی۔ غازی زیر لب مسکرا دیا ۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس دن کے بعد آنے والے دنوں میں ان دونوں کے درمیان میں بہت کچھ بدلنے والا تھا۔
اس وقت وہ ارمان سے مایوس ہو کر خود ہی اپنا اسائنمنٹ بنانے بیٹھ گئی تھی ۔ اس چیز سے بے خبر کہ غازی کا اپنا کام وہی رہ گیا تھا ۔ لڑکیاں ایسے ہی بے خبر ہو کر اپنے گریڈ کی فکروں میں لگ جاتی ہیں‘ یہ دیکھے بغیر کہ وہ کسی کا کیریئر خراب کر رہی ہیں ۔ خیر، غازی کا کونسا کیریئر خراب ہونے والا تھا۔
اس کی نظریں بار بار پھسل پھسل کر اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں، بالکل بشائر کے باب کٹ بالوں کی طرح ۔ وہ شاید آج پونی بینڈ بھول گئی تھی اس لیے اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔
’’ تم بال کیوں نہیں بڑھاتی ؟ ‘‘ جیسے ہی یہ سوال اس کے منہ سے نکلا، بشائر کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی چونک گیا۔
اس کی بات پر اس نے اپنے بالوں کو چھوا اور بولی۔
’’ میرے بال مجھے واریئر ظاہر کرتے ہیں ۔ یہ سیمبل ہے میری لڑائی کا۔ ‘‘
’’کس چیز سے؟‘‘اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ ان روایتوں کے خلاف جو لڑکیوں کو ایک ہی سانچے میں دیکھنا چاہتی ہیں ۔ ‘‘وہ فخر سے مسکرائی۔
اس کی مسکراہٹ جیسے کسی وبا کی طرح غازی کے چہرے پر بھی دوڑ گئی۔
’’کیوں تمہیں میرے بال پسند نہیں ہے ؟ ‘‘ بشائر کی آنکھوں میں غازی نے اپنے لئے چیلنج محسوس کیا۔
جیسے وہ اس کو بھی ان روایتی مردوں کی فہرست میں کھڑا کرنا چاہتی تھی۔ غازی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کس قسم کا مرد تھا ۔ اس کو صرف اتنا معلوم تھا کہ جب یہ لڑکی اس کے سامنے ہوتی تھی تو وہ اپنے آپ کو ایک مکمل انسان محسوس کرتا تھا ۔ اس نے ایک نظر اس کے شہد رنگ بالوں کی طرف دیکھا جو دیکھنے میں کسی ریشم کی طرح تھے ۔ اس کا دل کیا کہ وہ اس کے بالوں کو چھو کر دیکھے کہ وہ چھونے میں بھی اتنے ہی ملائم تھے جتنے دکھنے میں لگتے تھے۔ اس کا بے اختیار ہاتھ اٹھا اور اس نے ایک لٹ اس کے چہرے سے ہٹا کر اس کے کان کے پیچھے اڑس دی۔
’’ نہیں، مجھے تمہارے بال بہت پسند ہے ۔ ‘‘اس نے آہستہ سے کہا ۔ اتنی آہستہ کہ اس کی آواز سرگوشی سے بلند نہ تھی۔
بشائر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی اور غازی نے بھی اپنے ہاتھ کو ایسے دیکھا جیسے اس کے ہاتھ کا اپنا دماغ ہو جس کے کہنے پر اس نے یہ حرکت کی تھی۔
’’میں ارمان کو دیکھوں، کہاں ہے؟‘‘وہ تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
اور غازی بھی ایسے چور ہو گیا ۔ جیسے یہ لمحہ ان دونوں کے درمیان آیا ہی نہ ہو ۔ اس رات جب غازی اپنے بستر پر لیٹا تو اس کو اس چیز کا ادراک ہوا کہ بشائر نے اس کی حرکت پر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا، اور اگر اس کی آنکھیں دھوکہ نہیں دے رہی تھی تو اس کی اس حرکت کے بعد بشائر کا چہرہ اے سی کی ٹھنڈک میں بھی گلابی ہو رہا تھا۔
٭…٭…٭
کچھ تو تھا جو ان دونوں کے درمیان اس دن بدل گیا تھا ۔ دینے کو ان کے پاس کوئی نام نہیں تھا مگر کچھ تو تھا، جس کو وہ جان کر بھی نہیں جان پا رہے تھے ۔ جس سے وہ دونوں ہی نظریں چرارہے تھے ۔ اس واقعے کے بعد ان کا بی بی اے کا آخری سمسٹر اسی آنکھ مچولی میں گزر گیا تھا۔
وہ اگست کے پسینے سے بھرے اور جشن آزادی کے جوش سے بھرے ہوئے دن تھے ۔ وہ لوگ اس کے درمیان یونیورسٹی اپنے ایم بی اے کے داخلے کے لیے لوٹے تھے ۔ حیرت انگیز طور پر غازی نے اپنی چھٹیوں کے دن جیسے گن گن کر گزارے تھے ۔
وہ اپنی چھٹیوں کے دنوں میں باقائیدگی سے آفس جاتا رہا تھا ۔ اب پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اس کو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ اب کوئی اس کو کچھ بھی بولے ۔ ارمان ایک بار اس سے ملنے بھی آیا تھا اور یہ پہلی بار تھا کہ اس کے کسی دوست نے اس کا گھر دیکھا ہو ۔ یہ الگ بات تھی کہ اس سے پہلے اس کا کوئی سچا دوست بھی تو نہ تھا۔
چھٹیاں گزار کر وہ دونوں ساتھ ہی کراچی لوٹے تھے۔ واپس آنے کے بعد اس نے جو ارمان سے پہلا سوال پوچھا تھا، اس نے ارمان کو چونکا دیا تھا۔
’’بشائر آ گئی ہے ؟ ‘‘ اس کی بات پر ارمان نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اس کے آنے کا فی الحال مجھے معلوم نہیں۔ شاید ایک دو دن میں آ جائے ۔ ویسے وہ لیٹ کبھی نہیں ہوتی۔’’
اس کو ایک پل کے لیے تشویش ہوئی کہ آیا کہ وہ آگے پڑھائی جاری رکھے گی یا نہیں ‘اسی یونیورسٹی سے رکھے گی یا کوئی اور منتخب کرے گی ۔ گوکہ وہ اسکالر شپ سٹوڈنٹ نہیں تھا ، مگر اس کو معلوم تھا کہ ہر بار اسکالر شپ لینا آسان کام نہیں تھا۔ اگر ارمان کہہ رہا تھا کہ بشائر آئے گی، تو مطلب آئے گی۔
’’تم بشائر کو کب سے جانتے ہو؟‘‘اس کو معلوم تھا کہ بشائر اور وہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔
مگر ایسی قربت کا کوئی اور مطلب بھی ہو سکتا تھا ۔ حالاں کہ اس نے ان دونوں کے درمیان ایسی ویسی بات تو نہیں دیکھی تھی مگر پھر بھی ۔ اس کو اس پل ایک دم ہی ارمان سے حسد محسوس ہو ا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر وہ ارمان سے بشائر کو دور لے کر چلا جاتا ہے تو کیا ارمان پھر بھی اس کا دوست رہے گا ۔ اس خیال کے ساتھ ہی جیسے اس کا شر انگڑائی لے کر کتنے عرصے بعد بیدار ہوا تھا۔
’’ یہ سامنے بیٹھا ہوا انسان اس لڑکی کے اتنا قریب ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان تعلقات نہ ہو ۔ ‘‘کوئی اس کے اندر سے بولا۔
’’بشائر اور میں بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ ہے ۔ ‘‘ ارمان نے اسی لاپرواہی سے جواب دیا جو شروع سے ہی اس کی ذات کا حصہ تھی۔
وہ دونوں اس وقت نوٹس بورڈ کے سامنے اپنا ٹائم ٹیبل وغیرہ چیک کر رہے تھے ۔وہ اس وقت ٹائم ٹیبل کی تصویر اپنے موبائل فون میں لے رہا تھا۔
’’تو تم دونوں ؟ میرا مطلب ہے کہ…‘‘ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنا سوال ادھورا چھوڑ گیا، جیسے اسی بہانے کوئی بھرم قائم رکھنا چاہتا ہو۔
اس کی بات پر ارمان ایک دم اس کی طرف دیکھ کر ہنس دیا۔
’’یو ٹو بروس؟‘‘
’’ کیا مطلب ؟ ‘‘وہ اس کی بات سمجھا نہیں۔
اس وقت وہ لوگ یونیورسٹی کی لابی میں تھے ۔ آس پاس لوگوں کا رش بڑھ رہا تھا ۔ بہت سے لوگ اپنا نام ایڈمشن لسٹ میں چیک کر رہے تھے ۔ ابھی تک گروپ کا کوئی ممبر نہیں آیا تھا۔ ارمان نے بتایا تھا کہ وہ لوگ ان لوگوں کے آنے سے پہلے ہی انرولمنٹ کروا چکے تھے ۔ انہیں ہی دیر ہو گئی تھی۔ ارمان کافی دیر تک اس کی بات پر ہنستا رہا ۔ غازی صبر سے اس کا منہ دیکھ رہا تھا کہ وہ صحیح سے ہنس لے تو اس کی بات کا جواب دیں ۔ اور ارمان نے صحیح سے ہنس کر اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور اس کی طرف پوری طرح مڑ گیا۔
’’ نہیں، ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اکثر لوگ ہمیں دیکھ کر ایسا کہتے ہیں، مگر ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
’’ویسے تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ ‘‘ارمان کے ہونٹوں پر شرارتی سی مسکراہٹ تھی۔
’’ایسے ہی…‘‘ اس نے ٹالنا چاہا مگر مقابل بھی ارمان تھا۔
’’تم اچھی طرح جانتے ہو غازی، میں اتنا بھی پاگل اور لا پرواہ نہیں جتنا سب مجھے سمجھتے ہیں۔ ‘‘
اس کی بات پر غازی نے اثبات میں سر ہلادیا ۔ وہ جانتا تھا کہ اگر ارمان کسی چیز میں اپنا دل اور دماغ لگا دے تو اس سے بڑھ کر کامیاب انسان کوئی اور نہ ہوگا۔
’’ میں نے دیکھا ہے کہ تم اس کو کیسے دیکھتے ہو ؟ ‘‘ اس کی بات پر غازی چونکا۔
’’ کیسے ؟ ‘‘ اس نے پوچھا ۔ یہ پہلی بار تھا کہ کوئی اس کو جاننے کا دعویٰ کر رہا تھا۔
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ شخص جس کو وہ اپنا بہترین دوست سمجھتا تھا اس کو کتنا سمجھتا تھا ؟ وہ لوگ اب راہداری سے ہوتے ہوئے، پارکنگ کی طرف جا رہے تھے۔
’’جیسے اس لڑکی کے علاوہ اس دنیا میں کوئی اور لڑکی نہ ہو ۔ جیسے وہ تمہارے لیے اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی ہو ۔ ‘‘وہ ایک پل کے لیے رکا ۔ غازی اس کی بجائے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھ رہا تھا ‘ مگر اس کی سماعتیں پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھی۔
’’جیسے تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھتے ہو ۔ ‘‘اس بار کی مثال پر وہ واضح چونکا۔
’’سچ میں؟‘‘وہ اپنے آپ کو پوچھنے سے روک نہیں پایا تھا۔
’’یقین کرو میرے دوست، میں وہ چیز کبھی اپنے منہ سے نہیں نکالتا جس کا مجھے سو فیصد یقین نہ ہو ۔ ‘‘وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مار کر بولا تو غازی سر ہلا کر رہ گیا ۔
پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ غازی نے اپنے آپ کو بے یقین پایا تھا اور کسی اور کی بات پر یقین کیا تھا ۔ ارمان اس وقت اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے آگے بڑھ رہا تھا، مگر غازی کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا ۔ ارمان اس کو رکا ہوا دیکھ کر اپنی جگہ پر رکا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔
’’ کیا ہوا ؟ ‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔
’’ میں بس ابھی آیا ۔ ‘‘اس نے وہی کھڑے کھڑے ارمان کو اشارہ کیا اور تیزی سے واپس مڑا۔
وہ سٹوڈنٹس کی بھیڑ میں راستہ بناتے ہوئے تیزی سے نوٹس بورڈ کی طرف بڑھا ۔ اس کا ہاتھ اسکالر شپ سٹوڈنٹ کی لسٹ پر تھا ۔ بشائر کا واپس آنا یا نہ آنا … اس کے سکالرشپ ملنے پر تھا ۔
’’عزہ حسین، رحمان فرید…‘‘ وہ دیکھتا رہا مگر وہاں کہیں بھی بشائر کا نام نہیں تھا۔
اس نے ارمان سے نہیں پوچھا تھا کہ اس کو اسکالر شپ ملی یا نہیں، مگر اتنا معلوم تھا کہ اگر اس کو اسکالر شپ نہیں ملی تو وہ نہیں آئے گی۔ اس کی نظروں نے نوٹس بورڈ کا ایک بار پھر سے طواف کیا کہ شاید وہاں کوئی اور لسٹ ہو‘ مگر وہاں صرف ٹائم ٹیبل اور دوسرے نوٹس تھے ۔ اس کی بے بسی پر کوئی بڑے زور سے اس کے اندر ہنسا تھا، جیسے اس کو اس کی کمزوری کا احساس دلانا چاہتا ہو ۔ زندگی میں پہلی بار غازی کو اپنا دل اس ہنسی کے ساتھ ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے