طلسم : قسط نمبر 3

باب دوم: میں ابن شر (دوسرا حصہ)
مصنفہ : صبا زین
کبھی کبھار زندگی ہمارے ساتھ سر پرائز سرپرائز کھیلتی ہے، ہم جو سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو ہمارے خوابوں خیالوں میں بھی نہیں ہوتا، وہ ہو جاتا ہے، اور اس کو ہم اتفاق کا نام دے دیتے ہیں ۔ ایسا ہی اتفاق غازی کے ساتھ بھی ہوا تھا ۔وہ جو سوچ رہا تھا کہ اب اس کا مزید بشائر سے سامنا نہیں ہوگا تو اس کا خیال آنے والے چند دنوں میں ہی خام ثابت ہوا تھا ۔ اس پچھلے مہینے میں وہ ارمان سے کافی گھل مل گیا تھا۔
اگر کہا جائے کہ ارمان اس کی زندگی میں آنے والا پہلا دوست تھا تو غلط نہ ہوگا ۔ وہ ایک طرح سے جانتا تھا کہ حرا نے ہی ارمان کو اس سے دوستی کرنے کو کہا تھا ۔ یہ ارمان ہی تھا جس نے اس کو اس کے گروپ کا حصّہ بننے پر راضی کیا تھا ۔ حالاں کہ غازی کا ذاتی خیال تھا کہ اس کو ارمان کی دوستی ہی کافی تھی۔
’’دیکھو تمہیں کوئی ‘ کچھ بھی کرنے کو فورس نہیں کرے گا ۔ چاہے تو ہماری فضول باتوں اور سرگرمیوں میں حصہ لینا، چاہے تو اپنے کام سے کام رکھنا، مگر میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑنے والا۔‘‘ ارمان کا لہجہ قطعی تھا۔
اور غازی راضی ہو گیا۔
یہ بات اس سے پہلے کی تھی ‘جب وہ اس کے گروپ سے ملا تو ابھی کلاس ہونے میں وقت تھا ۔ وہ تقریباً سب ہی اپنی گاڑیوں میں آنے والے طالب علم تھے ۔ارمان اور وہ ایک ساتھ ہی وہاں پہنچے تھے اور وہ سب کینٹین میں جمع ہوئے ہوئے تھے۔
’’ میں چاہتا تو تمہیں ان سب سے یونیورسٹی سے باہر بھی انٹروڈیوس کروا دیتا، مگر وہ تھوڑا آوکوارڈ ہو جاتا ۔ چونکہ ہم سب نے ایک ساتھ ہی کلاسز لینی ہے تو اب انٹروڈکشن ضروری ہے۔‘‘
وہ سب سے تعارف کے بعد وہی ارمان اور روشان کے بیچ میں بیٹھ گیا تھا۔
’’ یار بشائر کہاں ہے؟‘‘
ارمان کے پوچھنے پر چونک کر اس نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ یہ نام اتنا عام نہیں تھا کہ ہر کسی کا ہوتا، مگر پھر بھی اس نے اپنے آپ کو غلط فہمی کا شکار ہونے سے روک دیا۔
زندگی اتفاقات سے بھری پڑی ہے ۔ وہ اس بار کسی حسین اتفاق کا شکار ہونا چاہتا تھا ۔ اس سے پہلے کہ غازی کچھ پوچھتا یا پھر انعم جواب دیتی ۔ ایک آواز نے غازی کو اپنے پیچھے دیکھنے پر مجبور کر دیا۔
’’ سوری ، میں لیٹ ہو گئی ۔ ہوسٹل میں سامان بھی سیٹ کرنے میں ٹائم لگ گیا تھا اور…‘‘
جیسے ہی ان سیاہ آنکھوں نے اس کو دیکھا تو ان کی مالکن نے اپنے تیزی سے بڑھتے قدم روک لیے ۔ وہ جو اس کی طرف سے سرد مہری کی توقع کر رہا تھا تو حیران ہی رہ گیا جب وہ لڑکی اس کو دیکھ کر مسکرا دی ۔ زندگی میں پہلی بار غازی کو معلوم ہوا کہ حیرانگی خوشگوار بھی ہوتی ہے۔
’’ تو آپ وہ غازی ہیں ‘ جس کا ارمان ذکر کر رہا تھا۔‘‘
’’ ہاں غازی، یہ بشائر ہے میری بیسٹ فرینڈ اور کزن بھی ۔ ‘‘ارمان نے کھڑے ہو کر بشائر کو اپنی طرف بلایا۔
وہ بیگ سنبھالتے ہوئے آگے بڑھی۔
’’ دور کی کزن ۔ ‘‘بشائر نے لقمہ دیا۔
اس کی بات پر ارمان نے الجھ کر اس کو دیکھا۔
‘’’ ‘دراصل ہم دونوں پہلے مل چکے ہیں ۔ انہوں نے اقرار فاؤنڈیشن کے لئے بچاس ہزار کی ڈونیشن دی ہے ۔ ‘‘بشائر نے ارمان کی طرف مڑ کر وضاحت دی ۔
اس کو بشائر کا ایسے اس کے پیسوں کا ذکر کرنا پسند نہیں آیا تھا۔
’’ اوہ رئیلی! یہ تو بہت زبردست کام کیا ہے تم نے یار ! ‘‘ ارمان نے اس کے کندھے پر دوستانہ ہاتھ مارا۔
غازی کی نظریں بشائر پر ہی ٹکی تھیں لیکن جیسے ہی اس کو اپنی وہ نظریں یاد آئی جو اس پر آخری بار پڑی تھی تو اس نے شرم سے اس پر سے نظریں ہٹا لیں۔
’’یار تم لوگوں کا تو پتا نہیں، میں کلاس لینے جا رہا ہوں ۔ ‘‘یہ حسن تھا جو ان لوگوں کے ایک طرف سے نکلنے لگا تھا ۔ وہ جو کچھ اور کہنے والا تھا رک گیا اور وہ سب کلاس لینے کے لیے آگے بڑھنے لگے تھے۔
’’ ارمان کلاس کے بعد مجھ سے فوراً ملنا ‘ کام ہے تم سے ۔ ‘‘بشائر نے ارمان سے یہ کہہ کر وہاں سے ڈیپارٹمنٹ کی طرف رخ کر لیا۔
بشائر کو دیکھتے ہوئے وہ اپنی شرمندگی میں اتنا بھی غور نہیں کر پایا تھا کہ بشائر خود بھی اس سے نظریں کیوں چرا رہی تھی؟ اس کی نظروں میں ایسا کون سا چور تھا، جو اس کو اتنی عجلت میں وہاں سے نکال کر لے گیا ۔ جبکہ ان سب نے ایک ہی کلاس لینے جانا تھا۔
٭…٭…٭
یہ سچ تھا کہ اپنے شیطانوں سے نگاہیں چرانا آسان نہیں تھا ،مگر کچھ لوگوں کا زندگی میں آنا اتنا مبارک ہوتا ہے کہ آپ کے شیطان خود بہ خود کہیں بہت پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ارمان اس کی زندگی میں دوستی کا پیغام لے کر آیا تھا تو بشائر کا آنا کسی اور ہی جذبے کی نوید تھا ۔ ایک بار پھر سے یونیورسٹی کی پڑھائی میں مصروف ہو کر وہ اپنے شر سے نگاہیں چرانے میں کامیاب ہو گیا تھا ۔ خاص طور پر اب پہلے کے مقابلے میں اس کے ساتھ اس کے دوست تھے۔
اور دوست بھی وہ جو اس کے بغیر کچھ کہے اس کو سمجھتے تھے ، اور اس بات پر وہ ارمان کا شکر گزر تھا۔
ارمان کا گروپ سچ میں اس کے حق میں بہترین ثابت ہوا تھا ۔ وہ سب اس کے بالکل ہی مختلف ہونے کی وجہ سے نہ اس کے ساتھ سرد مہری سے پیش آتے تھے اور نہ ہی وہ غازی کو زبردستی کسی سرگرمی میں حصّہ لینے کو کہتے ۔ وہ غازی کی پرسنل سپیس کا خیال کرتے اور ساتھ ہی ساتھ اس کو اجنبیت کا بھی احساس نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پھر وہاں بشائر بھی تو تھی۔ آنے والے دنوں میں اس کو معلوم ہوا کہ بشائر ‘ ارمان کی دور پرے کی رشتے دار تھی اور اس کے ماں باپ کسی گاؤں میں رہتے تھے ۔وہ یہاں اسکالر شپ پر اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے تھی۔
وہ ایسی چھوٹی موٹی جابز اپنا خرچہ چلانے کے لیے کرتی تھی ۔ جب تک اس کی پڑھائی مکمل ہو کر اس کو کوئی باقائدہ جاب نہیں مل جاتی ۔ اکثر نا چاہتے ہوئے بھی اس کی نظریں بشائر پر پھسل پھسل جاتی تھی ۔
ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں جس کا اگلے انسان کو خود بھی شعوری طور پر ادراک نہ ہو، وہ غیر ارادی طور پر بشائر کی نوٹس کرنے لگ گیا تھا ۔ گروپ میں سب کو معلوم تھا کہ بشائر کولڈ ڈرنک نہیں پیتی تھی ، مگر جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا تو وہ اکثر انعم یا ہانہ کی کولڈ ڈرنک میں سے ایک گھونٹ لے کر اس کو اپنی جگہ پر دوبارہ رکھ دیتی تھی ۔ وہ کینٹین میں بیٹھ کر ہمیشہ ہی سموسوں کا آرڈر دیتی تھی اور اس کی آخری کی پاپڑی ہمیشہ چھوڑ دیتی تھی ۔ اس کو اکاؤنٹنگ سے عشق تھا، مگر اس کو ریاضی اتنی ہی بری لگتی تھی۔ اور وہ اکثر ارمان سے اپنے ریاضی کے اسائنمنٹز کرواتی تھی ۔ اس کا ارادہ ایم بی اے میں مارکیٹنگ لینے تھا ۔ وہ کبھی بھی اسائنمنٹ بناتے ہوئے بال نہیں کھولتی تھی ۔ اس کے بازو پر ہمیشہ پونی بینڈ بندہی ہوتی تھی جس کو وہ گرمی لگنے پر اپنے بالوں میں باندھ لیتی تھی ۔ وہ جب اپنا پسندیدہ ہوم ورک کرتی تھی تو ایسا لگتا تھا کہ کوئی گتھی سلجھا رہی ہو ۔ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ ظاہر کر رہے ہوتے تھے کہ آیا کہ اس کو اپنے سوال کا جواب مل رہا تھا یا نہیں ۔ وہ پین کی بجائے ہمیشہ پینسل سے نوٹس بناتی تھی ،تاکہ جب کبھی ضرورت پڑے تو غلطی کو صحیح کر سکے۔
وہ اتنی مکمل نہیں تھی جتنا سب اس کو سمجھتے تھے ۔ جب اس کو غصہ آتا تھا تو اس کے چہرے کے تاثرات بالکل سپاٹ ہو جاتے تھے ۔ وہ اس وقت اپنی مٹھی زور کی بھینچتی اور دو تین گہرے سانس لے کر اپنے غصے پر قابو پاتی تھی تاکہ وہ اپنا غصہ کسی اور پر نہ نکالے ۔ دوسرا اس کو غصہ آتا بھی بہت تھا، مگر جب وہ غصہ نکالنے پر آتی تو سارے لحاظ بالائے طاق رکھ دیتی اور بغیر کسی جھجک کے اگلے انسان کو اس کا اصلی چہرہ دکھا دیتی تھی۔ خود اس کا چہرا جیسے کوئی کھلی کتاب تھا۔
اس چیز کا اندازہ غازی کو ان کے مووی ویک پر ہوا تھا ۔ مہینے میں ایک بار ارمان کا گروپ، چاہے امتحان چل رہے ہو یا نہیں ، ساتھ مل کر فلم دیکھتا ۔ وہاں وہ سب کسی بھی دوست کے گھر اکٹھا ہوتے اور کھا پی کر گندا کر کے ، ہاتھ جھاڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاتے ۔ زیادہ تر انعم کا گھر ہی ان کا جائے پناہ ہوتی تھی کیونکہ اس کے والدین زیادہ تر گھر سے باہر ہوتے تھے اور وہ اکلوتی تھی۔
اس دن وہ لوگ حسن اور ہانہ کے گھر جمع ہوئے تھے ۔ امتحانات میں تو ابھی وقت تھا مگر مڈ چل رہے تھے ۔ لہٰذا ان لوگوں کا ارادہ پہلے مووی دیکھتے ہوئے اپنی دوستی کی روایت کا احترام کرنے کا ، پھر پڑھنے کا تھا۔ غازی کی تیاری ہی تھی، سو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور باقی سب تو اس رسم دوستی کے عادی ہی تھے ۔ فلم کے لیے جب ووٹ دیے گئے تو وہ فلم جو باقی دونوں لڑکیوں کو پسند تھی، جو کہ ایک رومانٹک کامیڈی تھی کے ووٹ زیادہ تھے، جو کہ دراصل بشائر کو ناپسند تھی۔ اتنا توغازی بشائر کے متعلق جان گیا تھا کہ وہ کبھی بھی رومانٹک فلموں کے حق میں ووٹ نہیں دیتی تھی ۔ اور جس دن وہ لوگ رومانٹک فلم دیکھنے کا پلان بناتے جو کہ کم کم ہی ہوتا تھا‘ بشائر ہینڈ فری لگا کر گانے سنتے ہوئے ایسے ہو جاتی، جیسے وہ وہاں تھی ہی نہیں۔
’’آئی ہیٹ لوو سٹوریز… ‘‘ایک بار وہ غازی کو بتلانے کو بولی اور غازی نے دیکھا کہ اس کی سیاہ آنکھیں ان کی دوسری ملاقات کی طرح مزید سیاہ ہو گئی تھی۔
’’میں نے تو سنا تھا کہ لڑکیوں کو رومانس بہت پسند ہوتا ہے ۔ ‘‘یہ نہیں تھا کہ غازی کو لڑکیوں کے بارے میں بہت معلومات تھی، مگر ہر ہارمون رکھنے والے لڑکے کو لڑکیوں کے متعلق اتنی تو خبر ہوتی ہی تھی۔
’’صحیح سنا ہے، مجھے رومانس پسند ہے، رومانس سے جڑے خوامخواہ کے مشغلے نہیں ۔‘‘
’’مگر رومانس الگ چیز ہے، یہ…‘‘ وہ ایک لمحے کے لیے رکی جیسے کوئی مناسب لفظ ڈھونڈ رہی تھی۔
’’یہ لوو سٹوریز الگ چیز۔‘‘
’’اچھا وہ کیسے ؟ ‘‘غازی نے یہ فلسفہ پہلی بار سنا تھا۔
’’رومانس دراصل ایک ایرا (دور) ہے ۔ تم نے کلاسک اور رومانٹک ایرا کا نام سنا ہے ؟ ‘‘ بشائر نے اس سے پوچھا۔
غازی نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’ انگلش لٹریچر کے جو مختلف ادوار تھے، ان میں سے ایک رومانٹک دور تھا، جس نے صدیوں سے مشکل انداز سے لکھے گئے ادب سے بغاوت کی تھی ۔ ‘‘وہ جو اپنی جون میں بولے جا رہی تھی، اس کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی ، اس کو لگا کہ شاید اس کی باتیں غازی کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’تم سمجھ رہے ہو نا ؟ ‘‘ اس کی بات پر غازی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
غازی کو کبھی بھی کتابوں سے عشق نہیں تھا، اس کے لئے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا۔ وہ ایسے شاگرد کی طرح ہمہ تن گوش تھا‘جس کا پیمانہ بالکل خالی ہو۔ اس دن اس نے جانا کہ بشائر بڑی بہترین استاد بن سکتی تھی، اگر وہ چاہے تو۔ بشائر مسکرائی اور ہاتھ ہلا ہلا کر اس کو پھر سے سمجھانے لگی۔
’’ میری نظر میں رومانٹک دور ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھا، کلاسک دور کے خلاف ۔ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ لکھنے کے لئے انٹلیکچوئل ہونے سے بڑھ کر آرٹسٹ ہونا بہتر ہے۔
چیزوں کو ہم انسان سمپل طریقے سے بھی بتا سکتے ہیں ۔ رومانٹک دور قدرت کی صنائی کو ابھارتا ہے ۔ ہر انسان رومانٹک ہوتا ہے، اپنے اپنے انداز سے … کچھ لوگوں کو پھولوں کی خوشبو مدہوش کرتی ہے تو کسی کو چاند سے عشق ہوتا ہے۔‘‘
اس کی بات پر غازی کو ایسا لگا کہ وہ اس کو ہی بول رہی ہے۔
’’جب رومانس کے اتنے روپ ہے تو ہم لوگ اسے صرف ایک مرد اور عورت کی نیچرل اٹریکشن تک کیوں محدود کریں؟‘‘
’’ تو یعنی رومانس محبت سے بڑھ کر ہے؟‘‘غازی نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
آخر کو ہر دوسرا قصہ محبت پر تھا، ہر کہانی، پریم کہانی تھی ۔ بشائر اس کو ایک دم کیسے رد کر سکتی تھی؟
’’وہ بس رومانس کا ایک سطحی سا پہلو ہے ۔ ‘‘وہ ناک چڑھا کر بولی ۔
اس کے ایسے ناک چڑھانے پر غازی کا ایک پل کے لیے اس کا ناک کھینچنے کا دل کیا ۔ اس کے شیطانوں نے کبھی اس کو اس قسم کا تو مشورہ نہیں دیا تھا ۔ اس خیال کے ساتھ ہی غازی کو اپنی گردن تپتی ہوئی محسوس ہوئی۔
’’تو تم نے رومانس پڑھا ہے ؟ ‘‘وہ اپنی خفت مٹانے کو بولا ۔ ایک ہاتھ گردن سے پیچھے گیا جہاں سے اس کو تپش محسوس ہوئی تھی۔
’’کسی زمانے میں میں نے بھی بڑا اس سو کالڈ رومانس کو پڑھا تھا ۔ ‘‘ اس بات کے ساتھ ہی کسی یاد کا سایہ اس کے چہرے پر لہرایا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘وہی بات بے بات۔
بشائر نے گہری سانس لی اور نظریں دور کسی خلا میں ٹکا دی ۔
’’بس پھر دل اکتا گیا۔‘‘
غازی کو لگا تھا کہ کہانی اس سے زیادہ تھی، جتنی وہ بتارہی تھی‘ مگر اس نے کریدنا مناسب نہیں سمجھا ۔ چند لمحے ایسے ہی ان کے درمیان خاموشی سے کھسک گئے ۔ پیچھے سے ہلکے ہلکے میوزک کی آواز آ رہی تھی ۔ کوئی رونے دھونے والا گانا تھا، شاید ہیرو ہیروئن بچھڑ گئے تھے ۔ اس نے بشائر کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ وہ اب اس خاموشی سے اکتا کر اپنی جیکٹ سے اس نے ہینڈ فری نکالی اور سر صوفے کی پشت سے ٹکا لیا۔
وہ جو کچھ اور بھی پوچھنے والا تھا، اس کے چہرے پر وقت کی تھکاوٹ دیکھ کر چپ کر گیا۔
٭…٭…٭