سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 2

غازی کی بشائر سے اگلی ملاقات ہفتے کی صبح کو اسی اسکول میں ہوئی تھی، جہاں وہ ایک ڈونر کی حیثیت سے گیا تھا۔
بشائر سے ملاقات کے بعد اس نے اقرار فاؤنڈیشن اور اس کی فوڈ پروڈکٹس کمپنی کے متعلق بھی ساری ریسرچ کر لی تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ اس کو خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ بذات خود کتنے عرصے سے اسی فوڈ پروڈکٹس کو استعمال کر رہا تھا ۔ اس نے کبھی گروسری شاپنگ نہیں کی تھی اور نہ ہی فوڈ پروڈکٹس اس کا کبھی بھی بزنس آئیڈیا رہا تھا ۔ وہ لوگ بنیادی طور پر تعمیرات اور ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے ۔ اس نے کبھی بھی فوڈ پروڈکٹس کے بارے میں ریسرچ نہیں کی تھی ۔ جب کی تو اس نے بشائر کے سارے دلائل کو صحیح مانا ۔ وہ جب بھی اپنے باپ کی کمپنیز کو سنبھالے گا تو وہ بشائر کی طرح اپنے ملازمین کی تربیت کرے گا ‘اس نے فیصلہ کیا۔
پھر وہ اپنی طبیعت کے خلاف ہفتے والے دن اسکول کے ایونٹ پر بھی پہنچ گیا۔ ایسے اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ہوتے تھے ۔ اسکول کی بلڈنگ کے سانچے وغیرہ سے پتا چل رہا تھا کہ وہ جگہ کافی عرصے سے اسکول ہی رہی تھی نہ کہ کوئی اوربلڈنگ …
اسکول کافی بڑا تھا ،پینٹ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا ۔ ایک طرف کنسٹرکشن کا کام ہو رہا تھا ۔ اسکول کے میدان میں کرسیاں لگا کر بیٹھنے کا انتظام کیا ہوا تھا ۔ بچوں نے جگہ جگہ کھانے پینے اور ہاتھ سے بنی ہوئی اشیا کے سٹالز لگے ہوئے تھے ۔
بشائر اس کو اسٹیج پر بچوں کو کوئی ہدایت دیتے ہوئی دکھائی دے دی تھی ۔ وہ ہاتھوں کے اشارے سے تیز تیز کچھ بول رہی تھی اور بچے سمجھ کر اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔ غازی اتنی دور سے سن نہیں سکتا تھا مگر شاید کسی چھوٹے بچے کو وہ مسکرا کر سکرپٹ سمجھا رہی تھی ۔ مسکراتے ہوئے اس کے دائیں گال کا گڑھا گہرا ہو گیا تھا، ناچاہتے ہوئے بھی ایک پل کے لیے غازی کی نظریں اس گڑھے پر ایک پل سے زیادہ ٹکی اور پھر دوبارہ اس کے وجود پر ٹک گئی۔
اس وقت وہ بھورے رنگ کی کھدر کی کرتی، کالی جینز کے ساتھ پہنے ہوئے تھی ۔ جس پر اس نے بھورے رنگ کی ہی شال لی ہوئی تھی۔ باب کاٹ بال اس وقت کھلے ہوئے تھے اور ہوا کی شرارت سے بار بار اس کے چہرے سے چھیڑ خانی کر رہے تھے، جس کو وہ بار بار کانوں کے پیچھے کر رہی تھی ۔ اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کر کے اس نے پہلے ادھر ادھر دیکھا، جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو ۔ جب اس سے نظریں ملی تو ایک پل کے لیے ایسا لگا کہ اس کی تلاش ختم ہو گئی۔
کچھ لوگوں کو پا کر انسان کی تلاش سچ میں ختم ہو جاتی ہے۔
جب بشائر نے اس کو اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا تو اس کو پہلے مصنوعی غصے سے آنکھیں دکھائی کہ شاید وہ اس کو گھورنا بند کر دے ۔جب اس نے تکنا بند نہیں کیا تو اس کو وہ وہی ٹھہرنے کا اشارہ کر کے اسٹیج سے اتر آئی۔
’’ اسلام و علیکم۔ ‘‘ بشائر کے اس کے سامنے کھڑے ہونے کے بعد اسی نے سلام میں پہل کی۔
’’ وعلیکم السلام! آپ کا چیک باؤنس نہیں ہوا ۔ ‘‘
اس کو یہ سننے کی توقع تو نہیں تھی مگر ایسی لڑکی جو اس کو سٹالکر سمجھتی تھی وہ اس سے اور کیا سن سکتا تھا ۔ صرف کام کی بات ۔ خیر، وہ خود بھی کام کی بات کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ مگر ہوتے ہیں نا کچھ لوگ جن سے آپ بے تکی باتیں بھی کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لڑکی اس کو انہی لوگوں میں سے دکھائی دیتی تھی۔
’’ اگر ہو جاتا تو آپ گارڈز سے کہہ کر مجھے باہر پھنکوا دیتیں؟‘‘
’’ ایز اے سٹاکر، آپ کایہی انجام ہونا چاہیے ، مگر چونکہ آپ لکی ہیں کہ آپ کا چیک باؤنس نہیں ہوا تو میں صرف اپنی کمپنی اور اقرار فاؤنڈیشن کی طرف سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے کتنے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے حصّہ ڈالا ہے ۔ ‘‘ وہ شکر گزاری سے مسکرائی تو وہ ہلکا سا ہنس دیا۔
’’ انسان بھی کیسا عجیب ہوتا ہے ۔ اپنے مطلب کے لیے سب کچھ کر لیتا ہے ۔ آپ مجھے پسند نہیں کرتی مگر پھر بھی میری ڈونیشن پر شکر گزار ہے۔‘‘
اس کی بات پر وہ بھی مسکرا دی ۔ کوئی اور لڑکی ہوتی تو برا مان جاتی ، مگر اس نے نہیں مانا ۔ سچائی کا کبھی برا نہیں ماننا چاہیے ۔ یہ غازی کا عقیدہ تھا۔
’’ میری آپکے بارے میں رائے پرسنل ہے ، میرا آپ کا شکر گزار ہونا میری صرف پروفیشنل ڈیوٹی ہی نہیں ہے بلکہ میں انسانیت کے ناتے بھی آپ کی شکر گزار ہوں ۔ آپ نے جس نیت سے بھی یہ کام کیا ہو وہ آپ کا اور اللہ کا معاملہ ہے ۔آپ کا یہ عمل بہت سے بچوں کا بھلا کر دے گا ۔ میں نیتوں پر شک کرنے کی بجائے عمل کو دیکھ رہی ہوں ۔ ‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے پر اعتمادی سے بولی تھی۔
غازی اس کے بارے میں ٹھیک تھا۔ وہ بات ایسے کرتی تھی جیسے اس کو اپنے کہے ایک ایک لفظ پر یقین ہو۔
’’ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ ڈونیشن ایونٹ ایک اسکول فیئر ہے ۔ ‘‘ غازی نے بات بدلی۔
اس کی بات پر بشائر نے اس کو ایسے آنکھیں دکھائی جیسے اس نے کچھ ایسا کہہ دیا ہو جو اس کو نہیں کہنا چاہیے تھا۔
’’ آپ کیا ایکسپیکٹ کر رہے تھے کہ ایک لمبی چوڑی اسپیچ ہوگی ، جس میں ہم اسکول کے بچوں کو ماڈلنگ کروائیں گے، ان کو بیچارے ظاہر کرواتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کیسے ان غریب مسکین بچوں کو آپ کی خیرات کی ضرورت ہے ؟ ‘‘ بشائر کے ایک ایک لفظ میں طنز کا نشتر چھپا ہوا تھا۔
اس طرح کے لہجے غازی کے لئے اجنبی نہیں تھے مگر سوائے دو لوگوں کے کسی نے اتنی جرات نہیں کی تھی کہ اس کے منہ پر اس طرح کا لہجہ اس کے لیے استعمال کر سکے۔
’’ کچھ ایسا ہی۔‘‘ اس کا لہجہ اب کی بار مبہم تھا، جیسے وہ اس کو اپنے اندر کا راز کھوجنے کی دعوت دے رہا ہو۔
مگر سامنے بھی بشائر تھی۔
’’ دین سوری ٹو ڈس اپائینٹ یو۔‘‘ وہ ٹیڑھی گردن کر کے طنزیہ مسکرائی تھی۔
جب غازی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا تو فوراً سیدھا ہو کر کھڑی ہوئی۔
’’ آپ کا شکریہ راجہ غازی صاحب کہ آپ نے ہماری اتنی مدد کی ۔ میں امید کرتی ہوں کہ آپ جگہ جگہ جا کر اپنے عظیم کام کی ایڈورٹائزنگ نہیں کریں گے اور ان چھوٹے بچوں کی ایفرٹس کو اپپری شیٹ کریں گے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ اب کی بار پیشہ ورانہ مگر سنجیدہ تھا۔
بشائر کی بات پر اس نے دانت رگڑے ۔ وہ لڑکی اس کو اتنا گرا ہوا سمجھتی تھی۔
’’ مس بشائر، میں آپ کو اتنا سطحی لگتا ہوں کہ یہ ذرا سی ڈونیشن کی ایڈورٹائزمنٹ کروں گا ۔ ‘‘ وہ اپنے لہجے کی تپش چھپا کر بشائر کے ہی لہجے میں بولا۔
بشائر نے لا پرواہی سے کندھے اچکائے۔
‘‘ میں آپ کو پرسنلی نہیں جانتی، راجہ غازی صاحب! میں کیا کہہ سکتی ہوں ۔‘‘
’’ تو پھر جان لو ۔ ‘‘ جیسے ہی یہ جملہ اس کے منہ سے نکلا تو وہ دونوں ہی ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گئے۔
بشائر شاید اتنے سیدھے جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی اور غازی نے دل ہی دل میں خود کو گالیاں دی ۔ اس کو لگا تھا کہ سیلف کنٹرول کی اس نے جو اتنے سال پریکٹس کی تھی وہ اس لڑکی کی وجہ سے ضائع جانے والی تھی۔
’’ وہ کیسے؟‘‘ بشائر کے بھینچے ہوئے لب اس بات کی گواہی تھے کہ اس کو غازی کی بات اچھی نہیں لگی تھی۔
اور غازی کو کیا فرق پڑتا تھا کہ کسی کو اس کی کوئی بات اچھی لگے یا نہیں مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ سامنے کھڑی لڑکی کو وہ اچھا لگنا چاہتا تھا ۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ کیوں، مگر وہ بس جانتا تھا۔
’’ مجھے اسکول وزٹ کروا کر؟‘‘ اس نے جھجھک کر پوچھا۔
اس کی بات پر اس نے دیکھا کہ اگر کسی کی سیاہ آنکھیں مزید سیاہ ہو سکتی تھی تو وہ بشائر کی آنکھیں تھیں ۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے بشائر کو کوئی بری یاد، یاد دلا دی ہو۔ ایسی یاد، جس کو وہ خواب میں بھی یاد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’ سوری میں آپ کی ٹورسٹ نہیں ہوں ۔ ہیو اے نائس ڈے غازی صاحب!‘‘
وہ یہ کہہ کر وہاں سے مڑ گئی اور غازی کی نظریں اس کا دور تک پیچھا کرتی رہی۔
اس بار غازی کی نظریں اس کی پیٹھ پر نہ تھی ، اس کی نظروں نے اس کے پورے وجود کا طواف کیا اور اس کے اندر جیسے شور بڑھتا گیا۔ اس کی نظریں اس کی دھوپ سے سرخ ہوتی گردن سے پھر کمر اور پھر نیچے تک گئی مگر اس نے خود کو درمیان میں ہی روک دیا۔ وہ لڑکا جو دوسری لڑکی کو چھیڑنے پر اگلے انسان کو اتنی بری طرح پیٹ دے، کیا ذرا سی اپنی نظریں بھی نہیں سنبھال سکتا تھا ؟وہ اپنی نظریں روکنا چاہتا تھا، مگر اندر کی آوازیں شور کر رہی تھی ۔ اس کو اکسا رہی تھی کہ کس طرح اس کو اس معمولی سی سیلز گرل کو اس کی اوقات دکھا دینی چاہیے۔
اس لڑکی کا اسکول سے باہر انتظار کرنا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی گاڑی میں زبردستی بٹھانا اس کے لیے کوئی مشکل تو نہیں تھا۔ ناجانے کتنے لمحے ایسے ہی کھسک گئے، مگر غازی نے اپنے جوتوں پر سے نظریں نہ ہٹائی تھی۔ اس ڈر سے کہ کہیں وہ پھر سے اس معصوم سی دکھنے والی لڑکی کی طرف کوئی میلی نظرہی نہ اٹھا لے۔
اس کے آس پاس کچھ لوگ اس کو دھکا دے کر آگے نکلے تو اس کو احساس ہوا کہ وہ بیچ راہ میں کھڑا ہوا تھا ۔ اس کی نظریں بلا ارادہ ایک بار پھر سے وہاں گئی جہاں بشائر تھی تو وہ اس کی حد نگاہ میں کہیں نہیں تھی۔ وہ شکر گزار تھا کہ اس نے دنیا کی بھیڑ میں اس لڑکی کو کھو دیا تھا۔ وہ ایسی تھی کہ اس کو وہ اپنے آپ سے بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔
’’ ابھی وہ اتنی دور نہیں گئی، تھوڑا سا آگے جا کر دیکھو ۔ ‘‘ کسی نے اندر سے پھر سے اس کو اکسایا۔
اس نے آنکھیں بند کر کے گہری سانس لی اور غصے سے اپنی بھینچی ہوئی مٹھی کھول دی۔
اس بار بغیر پیچھے دیکھے، وہ تیزی سے واپس پلٹا۔
اپنے شر سے نظریں چرانا کوئی آسان کام نہ تھا۔
٭…٭…٭
جنوری کی راتیں دل کو پکڑنے والی ہوتی ہیں۔ ایسے جیسے باہر کے سناٹوں نے کہیں اندر بھی ڈیرہ ڈالا ہوا ہو ۔ ایسی ہی رات عمر کوٹ کی اس سفید حویلی پر بھی آئی ہوئی تھی۔ چاند تاروں کی مدھم روشنی میں وہ عالی شان محل اس وقت اندھیرے میں ڈوبا کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ اس کو گھر پہنچتے پہنچتے آدھی رات ہو گئی تھی۔
وہ جب گھر میں داخل ہوا تو وہاں اس کے باپ کی بجائے اندھیرے کا راج تھا۔
اس کا کمرہ حویلی کے مغرب میں واقع تھا۔ اس طرف فضیلہ بیگم کا کمرہ تھا اور کسی زمانے میں اس طرف مہمانوں کے لیے کمرے مخصوص تھے، مگر اب صرف دو ہی کمرے استعمال میں تھے۔ اس کے گھر والوں نے اس کو لوگوں کے ڈر سے اکیلا کر دیا تھا ، جس کا اس کو کوئی افسوس نہیں تھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جا رہا تھا تو اس کو ایک عجیب سے احساس نے گھیر لیا۔
ایسے جیسے اس کے پیچھے کوئی تھا۔ اس نے فطری طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو سوائے اندھیرے کے کسی کو اپنا ہمنوا نہ پایا ۔ اس نے وہم سمجھ کر اپنا سر نہیں جھٹکا، کیونکہ جب اس کو کچھ محسوس ہوتا تھا تو در حقیقت ویسا ہی ہوتا تھا۔ اس کی زندگی کی لغت میں وہم نام کا کوئی لفظ نہیں تھا۔
جب اس کو لگ رہا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی تھا، تو مطلب تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا، وہ جلد اس کے سامنے آ جائے گا ۔ اور ایسا ہی ہوا، جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے اس کو دبوچنے کی کوشش کی ہو۔ سالوں کے اکیلے پن نے اس کو اتنا تو الرٹ کردیا تھا کہ اس نے اگلے انسان کے وار سے پہلے ہی ایک طرف کھسک کر حملہ آور کا اپنی طرف بڑھا ہاتھ پکڑا اور اس کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ پر دونوں ہاتھ باندھ کر اپنی گرفت میں لے لیے لیکن حملہ آور میں جیسے کوئی ماورائی قوت تھی ۔ وہ اس کی گرفت میں دیکھتے ہی دیکھتے جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا اور دوبارہ اس کے پیچھے آ کر اس کو اس بار گردن سے دبوچ لیا۔
ممکن تھا کہ وہ اس کے قابو آجاتا، مگر وہ فوراً سیدھا ہوا اور آنے والے کے منہ پر ایک گھونسا رسید کردیا ۔ آنے والا پھر سے ہوا میں تحلیل ہو کر پھر اس کے سامنے آیا اور اس کو اپنے وزن سے پیٹھ پر گرا دیا اور خود اس کے اوپر بیٹھ کر اس کا گلا دبوچ لیا۔ وہ اندھیرے میں آنے والے کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکتا تھا مگر پھر بھی اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کے لئے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے ۔ اس سے اور تو کچھ نہیں ہوا مگر وہ دونوں لڑک کر کمرے کے دروازے کی طرف آ گئے ۔باہر راہداری سے چھن کر روشنی کمرے میں آ رہی تھی اور اس کے حملہ آور پر پڑ رہی تھی ۔ اپنے حملہ آور کا چہرہ دیکھ کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔
وہ اس کا اپنا چہرہ تھالیکن تھوڑا الگ…
وہی بھورے بال، وہی گندمی رنگت، وہی عنبر رنگ میں رنگی آنکھیں… ان آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جو غازی کی آنکھوں میں کھو گیا تھا ۔ وہ تھی وحشت، نفرت اور غصہ …گوکہ یہ چیزیں ابھی بھی اس کے ساتھ تھی، مگر ساتھ آہستہ آہستہ چھوٹ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جب تک یہ وجود اس کے ساتھ تھا، ان ساری منفی چیزوں نے اس کا ہمسفر بنا رہنا تھا ۔ باہر کی روشنی چھن کر اس کے ہم ذات کے چاروں طرف گھیرا ڈالے ہوئے تھی۔ باہر دور سے کہیں کتوں کے چلانے کی آوازیں ایسی آرہی تھی جیسے وہ کسی کے مرنے پر ماتم کررہے ہو۔ وہ پھر سے حملہ آور کی گرفت میں کسمسایا مگر حملہ آور نے اس پر اپنی گرفت مضبوط رکھی ۔ غازی کا اب کی بار دم گھٹ رہا تھا۔
اس نے حملہ آور کی آنکھوں میں دیکھا تو اس کے ایک دم محسوسات بدل گئے ۔ اب وہ خود تھا، جس کی آنکھوں میں وحشت تھی، جس کو اپنی کمزوری پر غصہ تھا ۔ وہ اپنے کمزور وجود کو گلا دبا کر کہیں مار دینا چاہتا تھا ۔ آج کے واقعے کے بعد تو خاص طور پر، جب اس نے ذرا سی اپنے نفس کی بات نہ مانی۔
جب اس نے ایسے شرم سے نظر جھکا لی، جیسے سامنے والا وجود تو صرف عزت کے قابل تھا۔
اس کو بیک وقت غصہ بھی تھا اور شرمندگی بھی۔ وہ بیک وقت وحشت بھی محسوس کررہا تھا اور اس کا گلا دبنے کی وجہ سے دم بھی گھٹ رہا تھا۔ وہ بیک وقت قاتل بھی تھا اور مقتول بھی ۔ اس نے زور کی اپنی آنکھیں بھینچی ، جس میں اس وقت وحشت بھی تھی اور تکلیف بھی۔ اس کی بند آنکھوں کے پردے میں کسی کی مسکراہٹ آئی اور وہ ایک دم سکون میں آ گیا۔ اب کی بار وہ وہ کمزور وجود تھا جس کی گردن اس کے اپنے ہی شعور کے ہاتھوں میں تھی۔ اس نے اپنے آپ کو دیکھا، جس کی آنکھوں میں وحشت تھی، غصہ تھا، اور نفرت تھی۔
وہ ہلکے سے مسکرادیا۔ اس کمزور مسکراہٹ میں سکون تھا اور فتح تھی۔
وہ عمر کوٹ واپس گیا ہی نہیں تھا ، وہ اس وقت کراچی میں ہی تھا، وہ کراچی… جس کے لوگوں کا شور اور قہقہے اس کے اندر کے شور کو دبانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اس نے سکون سے آنکھیں بند کیں اور جب اس نے دوبارہ آنکھیں کھولی تو اس نے اپنے آپ کو حرا کے گھر میں اپنے کمرے میں موجود پایا۔ گھڑی اس وقت ساڑھے چھ بجا رہی تھی ۔
آج اس کی یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔
اس نے بیڈ پر بیٹھ کر اپنے ماتھے پر آیا ہوا پسینہ پونچھا اور بستر سے نکل گیا۔ یہ وہ معمول کا خواب تھا، جو اس کی ہمیشہ اپنے شر کے ساتھ لڑائی کرنے کے بعد آتا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے