طلسم : قسط نمبر 2

ہاں، ارمان ہی وہ پہلا انسان تھا جس نے اس کو یہ احساس بھی دلایا کہ اگر وہ مختلف ہے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ اس کو حق تھا کہ وہ سب سے الگ رہے اور لگے اور محسوس کرے ۔ یہ سب اس کا حق تھا اور کوئی اس سے یہ حق نہیں چھین سکتا تھا۔
ارمان پہلا شخص تھا اور بشائر دوسری انسان تھی جس نے اس کو یہ سمجھایا تھا۔ مگر بشائر کا طریقہ بڑا ہی انوکھا تھا۔
٭…٭…٭
بھلا محبت بھی کسی سے روٹھی رہ سکتی ہے ؟ جس چیز کا، جس جذبے کا نام ہی محبت ہو تو وہ بھلا کیسے کسی سے روٹھ سکتی تھی ؟ راجہ غازی جس کی بھی اولاد ہوتا، یہ تو طے تھا کہ وہ محبت کے جذبے سے بے خبر نہیں تھا ۔ پھر محبت نے اس کو بھی چننے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ ایسی محبت جس کے لیے وہ ساری زندگی ترستا رہا مگر مل کر نہ دی۔
بھلا محبت کو کسی کو اتنا بھی تڑپانا چاہیے؟
اس نے پہلی بار اسے ایک مال میں دیکھا تھا جہاں وہ کچھ شاپنگ کرنے آیا تھا ۔ بقول حرا کے، اسے خود اب ہر جگہ جانا چاہیے تھا تاکہ اس کا اعتماد بڑھے ۔ نجانے ہر کسی کو ایسا کیوں لگتا تھا کہ وہ اکیلا اس لیے رہتا تھا کہ اس کے اندر خود اعتمادی کی کمی تھی ۔ حقیقت یہ تھی کہ اسے فضول کے میل ملاوٹ سے سخت چڑ تھی ۔ جس میں دو لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہ ہو، مگر پھر بھی وہ ایسے ملے کہ جیسے اگلا انسان اس دنیا کا سب سے اہم ترین شخص ہے ۔ اس کا دل اس قسم کی منافقت سے بیزار تھا اور کوئی بات نہیں تھی۔
اسے ابھی کراچی آئے ہوئے اتنے دن نہیں ہوئے تھے ۔ حرا نے اس کا ایڈمشن کروا دیا تھا مگر ابھی پچھلے بیج کے امتحان چل رہے تھے تو اس کا یونیورسٹی جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ اس وقت بھی وہ کچھ ضرورت کا سامان لینے مال آیا تھا ۔ ایسا سامان جس کی اسے کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کا وارڈروب کپڑوں سے بھرا پڑا ہوا تھا ‘ مگر حرا کو لگتا تھا کہ اس کو کچھ زیادہ سٹائیلش کپڑوں کی ضرورت تھی۔ سٹائیلش کا تو پتا نہیں، بس اس نے کپڑے لے لیے تھے ۔ اور اس وقت وہ اوپن کیفے میں کافی آرڈر کر بیٹھا تھا جب اس کو وہ دکھی تھی۔
وہ کچھ لڑکیوں اور لڑکوں کے گروپ میں کھڑی تھی۔ سب نے کسی برانڈ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور ہر آنے جانے والے کسٹمر کو وہ لوگ پمفلٹ بانٹ رہے تھے ۔ شاید کسی کمپنی کی کیمپیئین تھی۔ وہ اتنی دور سے یہ تو نہیں جان پایا تھا کہ کیا ہو رہا تھا ،مگر جس چیز نے اسے اس لڑکی کی طرف کھینچا تھا تو وہ اس لڑکی کی مسکراہٹ تھی۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اسی طرف کھینچا چلا جاتا ہے جہاں سے اس کے دل کو خوشنما لگنے والا منظر دکھائی دے۔ اس وقت غازی کو بھی اس لڑکی کی مسکراہٹ سے زیادہ کچھ اچھا نہیں لگا تھا۔ ایسی مسکراہٹ، اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی ۔ ایسی شفاف اور دل سے اٹھتی ہوئی مسکراہٹ ۔ اور صرف مسکراہٹ ہی نہیں تھی جو اس لڑکی میں خاص تھی، وہ پوری کی پوری ایسی تھی کہ کسی کو بھی اپنا گرویدہ بنا لے۔ جس چیز نے غازی کے دل کو اپنی طرف مائل کیا تھا وہ اس کے چہرے کی معصومیت تھی۔
غازی بچہ نہیں تھا ۔ وہ لڑکیوں کی طرف لڑکوں کی قدرتی کشش کو جانتا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اس کو کوئی چہرہ بھایا ہو، مگر ان سب چہروں میں اور اس چہرے میں فرق تھا۔ اس نے اس خوامخواہ کی جھجھک اور شرم کو بھی دیکھ لیا تھا اور وہ فالس موڈیسٹی کو بھی دیکھ چکا تھا۔ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ جیسے ہی اس کے سامنے کھڑی لڑکی نے بھی وہی تیور دکھائے ، اس کا دل اس سے بھی بیزار ہو جائے گا ۔ مگر فی الحال تو وہ اس کے چہرے کی معصومیت کو جذب کرنا چاہتا تھا ۔ بھلا ایسی معصومیت آپ کو روز روز کب دیکھنے کو ملتی تھی ۔ شاید یہ معصومیت اس کی روح کا بھی خاصا تھی یا شاید وہ بیوقوف تھی ۔ اسی لیے تو غازی کے اس کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے پر بھی اس نے اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس نہیں کیا تھا۔
وہ نجانے کب تک اس کو دیکھے جاتا کہ اس کے ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی نے اس باب کٹ بالوں والی اور معصوم سی مسکراہٹ والی لڑکی کا دھیان غازی کی طرف کروا دیا۔ یہ دیکھ کر بھی غازی نے اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹائی ۔ وہ اس کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا۔ لڑکی نے پہلے اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھا جیسے وہ اسے نظروں سے تول رہی ہو اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ بولی ۔ ایک پل کے لیے اسے سمجھ نہیں آیا کہ اس نے کیا بولا تھا، مگر دوسرے ہی پل وہ جھٹک کر سنبھلا تھا۔
’’ اسٹاپ سٹیرنگ یو بلڈی اسٹاکر…‘‘
وہ تو اپنی بات بول کر چلی گئی تھی مگر غازی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ چھوڑ گئی تھی۔
پھر دوسرے پل ان کا گروپ آگے جانے لگا، تو اسے لگا کہ وہ اس کو کہیں کھو ہی نہ دے ۔ اپنی پوری زندگی میں غازی نے اتنی تیزی سے کبھی کام نہ لیا تھا ۔ پہلی بات کہ اسے کبھی کسی کی اتنی پروا ہی نہ تھی کہ وہ اپنی چال میں تیزی لائے، سوائے امّاں بی کے یا کبھی کبھار حرا کے ۔ اس وقت اس کو نہیں معلوم تھا کہ کب اس نے اپنا والٹ نکال کر کافی کے پیسے ٹیبل پر پٹخے اور کب وہ کافی شاپ سے آگے نکلتے ہوئے گروپ کے پیچھے گیا تھا ۔ اسے صرف اتنا معلوم تھا کہ یہ دنیا بہت بڑی ہے اور اس کی بھیڑ میں وہ اس معصوم سی مسکراہٹ والی لڑکی کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔
اور کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بھیڑ میں کھونے دینا بھی نہیں چاہیے۔
اس پل غازی کے دل اور دماغ نے اسے کہا کہ یہ لڑکی انہی لوگوں میں سے تھی ۔ جب وہ گروپ کسی اور شاپ کے آگے جا کر کھڑا ہو گیا تب وہ ان سے دور ہو کر پھر سے ایک پلر سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور اس لڑکی کو ایک بار پھر سے کسٹمرز کو پمفلٹ بانٹتے اور لوگوں کو پروڈکٹس وغیرہ کے بارے میں بتاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ غالباً سیلز گرل تھی مگر کچھ اور بھی تھا اس لڑکی میں جو اسے ایک معمولی سی سیلز گرل ظاہر نہ کرتا۔
ایک عجیب سا شاہانہ پن، ایک الگ سی بے نیازی۔ وہ ہاتھوں سے اشارے کرتے ہوئے ایسے باتیں کر رہی تھی جیسے اس کو اپنی ایک ایک بات پر یقین ہو ۔ وہ جو سمجھ رہا تھا کہ اس کو اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس نہیں ہو رہا تھا تو وہ غلط تھا۔ ابھی غازی کو اس پلر سے ٹیک لگائے ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس معصوم سی دکھنے والی لڑکی نے اپنے کسٹمر سے فارغ ہو کر اس کو گھور کر دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے اس کو اپنی طرف بلایا۔ وہ جو اس چیز کی توقع نہیں کر رہا تھا، سیدھا ہو کر کھڑا ہو گیا۔
اس لڑکی کی اس حرکت پر کوئی زور سے اس کے اندر ہنسا تھا، مگر اس نے اس ہنسی کی طرف توجہ نہیں کی۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ اس لڑکی نے اس کو اپنی طرف کیوں بلایا تھا ؟ شاید اس کا مقصد اس کو بے عزت کرنا تھا یا پھر وہ ان آسان لڑکیوں میں سے تھی جو اس کو اپنا نمبر دینا چاہتی تھی۔ جو بھی تھا اس کو اس کا ردعمل دیکھنے میں پوری دلچسپی تھی۔ جب وہ اس کے قریب آیا تو وہ اس کو دیکھ کر مسکرائی۔
وہ بڑی عجیب سی مسکراہٹ تھی ۔ غازی کو مسکراہٹوں کو نام دینا نہیں آتا تھا۔ اس نے ایسی مسکراہٹ ڈراؤنی فلموں کے خونی قاتل نما ولن کے منہ پر اس وقت دیکھی تھی جب وہ کوئی قتل کرنے جا رہا ہو۔ اگر وہ پانچ فٹ کی لڑکی اس کو قتل کرنا چاہتی تھی تو غازی خوشی سے اس کو کوشش کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔
’’ میں نے سوچا کہ اتنے غور غور سے مجھے دیکھ کر جو آپ اپنی آنکھوں کی بیٹری ضائع کر رہیں ہو تو بہتر یہ نہیں کہ آپ کو کسی کارخیر میں شامل کیا جائے۔‘‘
یہ پہلی بات تھی جو اس نے کہی تھی اور غازی کو پہلی بار پتہ چلا کہ کسی کی آواز اتنی پیاری بھی ہو سکتی تھی۔ اس نے ایک پمفلٹ لے کر اس کی طرف بڑھایا۔ وہ کسی فوڈ پروڈکٹس کی کمپنی کا پمفلٹ تھا جو اپنی حالیہ منافع میں سے تیس فیصد کسی چیرٹی اسکول کا دینے کا دعویٰ کر رہی تھی۔ وہ پورا پمفلٹ پڑھنے سے پہلے ہی قصّہ جان گیا تھا۔
’’ بل شٹ (بکواس)۔‘‘ اس کا ایک لفظ ہی مقابل کی آنکھیں حیرت کے مارے کھولنے کے لئے کافی تھا۔
ایک پل کے لئے اس نے آنکھیں پھاڑ کر غازی کو دیکھا۔
’’ سوری؟‘‘
اس کو افسوس ہوا کہ وہ لڑکی اتنا بھی نہیں سمجھتی تھی۔
’’ اس طرح کی سکیم کے بارے میں، میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ بڑا ہی آسان اور سینٹی مینٹل طریقہ ہوتا ہے، عوام کو اپنی پروڈکٹ سیل کرنے کا ۔ ان کی ہمدردی لے کر آپ آرام سے اپنی سیل بڑھا سکتے ہیں ۔ ‘‘ اس نے سچائی سے اس کے سامنے دلیل رکھی۔
وہ صرف بزنس کا سٹوڈنٹ نہیں تھا ۔ اس نے اپنے باپ کی کمپنی کے لئے انر ورک کی تھی ۔ اس کو معلوم تھا کہ یہ کس قسم کی مارکیٹنگ ہے اور اگر یہ سامنے کھڑی لڑکی سمجھتی تھی کہ وہ صرف اس کے معصوم چہرے پر فدا ہو کر اس قسم کی سکیم کو سچ سمجھ لے گا تو وہ غلط تھی۔
’’ اتنے خوبصورت چہرے اسی لیے تو سیلز پرسن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں تاکہ سیل ہر حال میں ہو ۔ ‘‘ اس کے اندر کی آواز نے ایک بار پھر سے طنزیہ ہنکارہ بھرا۔
وہ ان آوازوں کو سننے کا عادی ہو گیا تھا، سو ذرا بھی متوجہ نہ ہوا۔
’’ آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک مارکیٹنگ کا بہترین طریقہ ہے ۔ ‘‘ اس کے اقرار کرنے پر وہ چونکا۔
’’ مگر یہ پوری حقیقت نہیں ہے ۔ اکثر لوگ اس بات پر کمپنی کو جج کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ چیرٹی کے نام پر عام لوگوں کو لوٹ رہی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ بہت سی کمپنیز ایسا کرتی ہیں، مگر یہ صرف سکّے کا ایک پہلو ہے ۔ ‘‘ اس نے بڑے تحمل سے اس کو جواب دیا۔
وہ لڑکی اتنے اعتماد سے ہر کسی کو کیسے شیشے میں اتار رہی تھی، اب اس کو سمجھ آ رہی تھی۔ وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر کے آئی تھی۔
’’ اور دوسرا پہلو؟‘‘
’’ ایک منٹ…‘‘ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اپنے کندھے سے لٹکے ہوئے رسی نما بیگ سے ٹیبلٹ باہر نکالا۔
اس نے ایک منٹ ٹیبلٹ پر انگلیاں چلائی اور سکرین کا رخ اس کی طرف کیا۔
’’ یہ دیکھیں، ہماری کمپنی نہ صرف پاکستان میں بلکہ ایشیا کی بہت سی کنٹریز میں ٹاپ کی فوڈ پروڈکٹ کمپنی ہے ۔ اور رواں سال اس کے شئیرز کی پرائز بھی چیک کر لیں ۔ ‘‘ اس نے ایک اور آپشن پر کلک کیا ۔ غازی نے نا چاہتے ہوئے بھی اس کی انگلیوں کی جنبش سے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔
اس کے ہاتھ بہت چھوٹے چھوٹے سے تھے ‘ جیسے کسی بچے کے ہو۔
’’ اور یہ دیکھیں، ہماری کمپنی کی ویب سائٹ کے کسی بھی پارٹ میں اس چیرٹی اسکول کا ذکر نہیں ہے ۔ آپ بھلے پروڈکٹس پرچیز کریں یا نہ کریں ، آپ ڈائریکٹلی ڈونیٹ کر سکتے ہیں ۔ ہم نے اس سٹرڈے کو ہر ڈونر کے لیے ایک ایونٹ ارینج کیا ہے، جس میں وہ لوگ اسکول وزٹ کر سکتے ہیں اور وہاں کے بچوں سے مل سکتے ہیں ۔ آپ لوگ چاہیں تو یہ کام لونگ ٹرم بھی کر سکتے ہیں اور جب چاہے اسکول وزٹ کر سکتے ہیں ۔ مگر بچوں سے مستقل ملنا اور ان کو بتانا منع ہے کہ آپ ان کو سپورٹ کر رہے ہیں ۔ اگر ایسا کرنے کا ارادہ ہے تو ہمیں آپ کی ڈونیشن کی ضرورت نہیں ہے ۔ ‘‘ اس نے تحمل سے ٹیبلٹ اس کے ہاتھ سے لے کر بات ختم کی۔
اگر کہا جائے کہ غازی بالکل بھی متاثر نہ ہوا تھا تو غلط ہوگا ۔ غازی اس کی چرب زبانی اور اگلے انسان کو قائل کرنے کے ہنر سے پوری طرح متاثر ہوا تھا ۔ اب اس کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ عام سی لڑکی اس سیلز گروپ کی کیسے رہنمائی کر رہی تھی۔ غازی اپنے آبائی شہر ہوتا تو وہ ضرور اس لڑکی کو جاب پر رکھتا ۔ اگر وہ لڑکی غازی جیسے بندے کو قائل کر سکتی تھی تو کسی کو بھی کر سکتی تھی۔
’’ اچھا اگر میں اسکول کے لئے ڈونیٹ کروں تو سٹرڈے کے ایونٹ پر انوائیٹڈ ہوں ۔ تو میں یہ کیسے مان لوں کہ وہ بچے اور جگہ سب کچھ پری پلاننڈ نہیں ہے ؟ ‘‘ اس نے نکتہ اٹھایا۔
’’ اگر آپ مجھے گھورنے کی بجائے پمفلٹ غور سے پڑھتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ یہ اسکول پہلے سے ہی اقرار فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی ہے اور کافی سالوں سے قائم ہے ۔ ‘‘ اس نے دوبارہ سے ٹیبلٹ آن کیا اور کچھ پیجز کھول کر اس کو دکھائے۔
’’ یہ اقرار فاؤنڈیشن کا فیس بک پیج ہے ۔ یہ دیکھیں، یہ 2010کی پوسٹس ہیں اس میں ۔ ‘‘ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ یہ لڑکی فیکٹ اینڈ فگر پر یقین رکھنے والی تھی۔
پیسہ غازی کا مسئلہ نہیں تھا ۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ دیکھا جائے کہ اس لڑکی کی بات میں کتنا دم تھا۔
’’ ٹھیک ہے، آپ لوگ چیک ایکسیپٹ کرتے ہیں؟‘‘
غازی کے جواب میں اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
غازی نے ایک پل کے لیے سوچا کہ کتنے پیسے اس کے اکاؤنٹ سے کم ہوں گے کہ اس کے باپ کا اس کو غصے سے بھرا ہوا فون نہیں آئے گا ۔ یہ بات نہیں تھی کہ اس کو راجہ اشعر کے غصے سے ڈر لگتا تھا ۔ مگر بات حرا پر آ جانی تھی اور وہ اپنی بہن کو فی الحال کسی مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک پل کے لیے سوچا اور اس کو چیک کاٹ کر دے دیا ۔ اس لڑکی نے ایک نظر چیک کو دیکھا پھر مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔
’’ چیک باؤنس تو نہیں ہوگا ناں ؟ ‘‘ اس کے چہرے پر شرارتی سی مسکان تھی۔
’’ میں سٹرڈے کو اسکول وزٹ کرنے آؤں گا اور اگر میرا چیک باؤنس ہو گیا تو مجھے آپ کمپنی کے گارڈز سے کہہ کر باہر پھینکوا دیجئے گا ۔ ‘‘
اس کی بات پر اس نے پھر سے سر ہلا دیا ۔
’’ اچھا مشورہ ہے، اس پر عمل بھی ہو جائے گا ۔ ‘‘ اس کی آواز میں اتنی یقین دہانی تھی کہ غازی کو یقین تھا کہ اگر سچ میں اس کا چیک باؤنس ہو گیا تو وہ لڑکی اس کو ایونٹ پر باہر پھینکوا دے گی۔
’’ ریما!‘‘ اس نے دوسری طرف کھڑی لڑکی کو آواز دی ۔
’’ یار ان کو دیکھ لو۔‘‘
’’ ٹھیک ہے بشائر، تم ذرا ویسٹ پارٹ دیکھ لو ۔ ‘‘ نئی آنے والی لڑکی نے بشائر کو اس طرف اشارہ کیا، جس طرف سے وہ آئی تھی۔
وہ لڑکی بشائر سر ہلا کر ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر اس طرف چل دی۔
’’ کہا تھا ناں کہ سیلز گرل ہے، کام ختم ہوا تو چلی گئی۔‘‘ اس کے اندر کی آواز نے پھر طعنہ مارا۔
’’ آپ کو کیا چاہیے ؟ ہمارے یہاں…‘‘ ریما کچھ اور بھی کہہ رہی تھی مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔
’’ بشائر۔‘‘ اس نے زیر لب اس لڑکی کا نام دوہرایا۔
اس کے اندر کی آوازیں جو بھی کہیں، اس کو یہ لڑکی سچ میں ایک خوش خبری کی طرح لگی ۔ اس نے ریما کی طرف دیکھ کر سر جھٹکا اور وہاں سے چل دیا ۔ اس کو مزید اب کچھ نہیں چاہیے تھا ۔ اس کو جو چاہیے تھا وہ مل چکا تھا۔
٭…٭…٭