سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 2

دوسری طرف غازی نے جب سے ہوش سنبھالا تھا ۔ دوسروں کو اپنے آپ سے دور ہوتے ہوئے ہی دیکھا تھا ۔ مائیں اس کو دیکھتے ہی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں ایسے چھپا لیتی، جیسے غازی کسی بلے کا نام ہے جو ان کے ننھے چوزوں کو کھا ہی جائے گا ۔ پہلے تو وہ باتوں کے مطلب نہیں سمجھتا تھا ۔ پھر اس کو آہستہ آہستہ اپنے آس پاس کی سرگوشیاں سمجھ آنے لگ گئی تھی۔
’’ شیطان کی اولاد…‘‘
’’ اس پر سایہ ہے۔‘‘
’’ اس کے پاس مت جانا ۔ پتہ نہیں کونسی مخلوق ہے جس کو راجہ صاحب نے اپنی اولاد بنایا ہوا ہے۔‘‘
’’ پتہ نہیں ان کی اولاد ہے بھی یا نہیں۔‘‘
اور یہ ساری باتیں سن کر اس کے دل میں بے انتہا غصہ جنم لینے لگ جاتا ۔ اس کا دل کرتا کہ ان سب کا گلا دبا دے یا پھر اس حویلی کو آگ لگا دے، پھر خود باہر بیٹھ کر اس کے جلنے کا نظارہ کرے ۔ جو عمر نادانی کی ہوتی ہے وہ غازی کے لئے شیطانی کی بن گئی ۔ وہ گھنٹوں اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتا رہتا اور شیطان ڈھونڈتا رہتا ۔ پھر وہ اس کو مل بھی گیا۔ اس کا عکس آئینے کے سامنے آتے ہی بگڑ جاتا اور آئینے میں اس سے جو وجود باتیں کرتا، وہ غازی خود تو نہیں تھا۔ وہ اس کو اکساتا، اس کا اکیلا پن یاد دلاتا اور اس کو بتاتا کہ کیسے یہ دنیا جو اس کو شیطان کہتی ہے، خود شیطان کی کوکھ سے ہی نکلی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ آوازیں غازی کے وجود کا ہی حصّہ بننے لگ گئی تھیں ۔ اب وہ صرف ان کو سنتا نہیں تھا بلکہ وہ اب اس کے شعور کا ہی حصّہ تھی ۔ جب کبھی وہ چاہتا کہ اس کی بڑی بہن اس کے ساتھ لاڈ کریں یا اس کو بڑی امی ویسا ہی پیار دیں جیسا وہ حویلی کے دوسرے بچوں کو دیتی تھیں تووہ آوازیں اس کو یاد دلاتی کہ کیسے یہ لوگ اس کے دشمن تھے ۔ کیسے سب اس سے جلتے تھے کہ وہ اس حویلی کا اکلوتا وارث تھا ۔ اسی وجہ سے سب اس کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے ۔ یہ آوازیں اس کو اکسا کر غازی کو سب سے جدا تو کر لیتی، مگر اس کے اندر کی تڑپ کو کم نہیں کر پاتی تھی۔ وہ تڑپ جو چاہتی تھی کہ غازی کو بھی کوئی پیار کرے، اس کے بھی دوست ہو ، اس کو بھی کوئی اپنے ساتھ لگائے ۔ہر انسان کی طرح اس کی بھی ایک حد تھی۔
غازی آٹھ سال کا تھا، جب حرا کی شادی ہوئی تھی ۔ غازی کو اس کی آیا تیار کر کے خود تیزی سے باہر نکل گئی تھی ۔ اس دن جب اس نے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا تو ایک بار پھر اپنے نقش بگڑتے ہوئے محسوس کیے ۔ اب کی بار آئینہ اس سے بولا کہ اس کو کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ ان سارے لوگوں کی خوشیاں برباد ہو جائے ۔ جیسے کہ حرا کے جہیز کے کپڑوں والے کمرے میں آگ لگا دی جائے ، مگر اس بار اس نے اس آواز کی ایک نہ سنی۔
اس کو یاد تھا جب حرا اپنی مہندی والے دن اپنے ماں اور باپ کے گلے لگی تھی۔ ان تینوں کے چہرے پر کیسی سکون آور مسکان تھی ۔ اس مسکان نے اس کے دل میں عجیب سا جذبہ جگا دیا تھا ۔ وہ اس جذبے کو سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔ ایسے جیسے وہ اس تصویر کا حصّہ بننا چاہتا تھا ۔ ایسے جیسے ایسی مسکان وہ اپنے لیے بھی چاہتا ہو ۔ اس تصویر اور اپنے عکس میں فرق دیکھ کر وہ یہ جان گیا تھا کہ بعض چیزیں آپ کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے ؟ وہ ہاتھ بڑھا کر اس کو اپنی پہنچ میں کر لینا چاہتا تھا۔
محبت شفاف دل مانگتی تھی اور اس دن اس نے پہلی بار اپنے شر سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس کے عکس نے اس کوبھڑکایا تو اس نے اس عکس کو ہی توڑ دینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے کمرے میں اس کی خصلت کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسی چیز نہیں رکھی گئی تھی جو اس کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکے۔ اس نے جب جھنجھلا کر کمرے میں کچھ نہ پایا تو اس نے آئینے میں اپنے اکساتے ہوئے عکس کو مکے مارنا شروع کر دیے۔ وہ اپنے بہتے ہوئے خون کی پروا کیے بغیر غصے میں آئینے پر ہاتھ مارتا گیا ۔ جب فضیلہ بیگم اس کو شادی میں لے جانے کے لیے لینے آئی تو اس کو اسی حالت میں انہوں نے پایا تھا۔ ان کے قدم ایک پل کے لئے ٹھٹکے اور دل میں خوف نے انگڑائی لی ۔ انہوں نے اس کو ٹوٹے ہوئے کانچ کی کرچیوں میں خود بھی ٹوٹا ہوا پایا۔ ان کو ایک پل کے لیے لگا کہ غازی کے معصوم چہرے کے بجائے کوئی اور ہی چیز ان کی طرف ہاتھ بڑھائے گی اور آئینے کے کانچ کو ان کی آنکھوں میں گاڑ دے گی۔
جب غازی نے اپنی آنکھیں ان کی طرف اٹھائی تو وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھ گئی ۔ ان آنکھوں میں کیسے گلے ، کیسی حسرتیں تھیں ۔ اس رات فضیلہ بیگم نے پہلی بار غازی کے زخموں پر مرہم رکھی اور اس آٹھ سالہ بچے کو ایک بچے کے روپ میں ہی تسلیم کیا‘ راجہ اشعر کے وارث کے طور پر نہیں ۔ نہ ہی کسی شیطان کی اولاد کے روپ میں۔ بس ایک کھوئے ہوئے بچے کے طور پر جس کو انہوں نے ایک ڈر کے ناتے کہیں کھو دیا تھا۔ ان کا پہلا قدم اس بچے کی صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا تھا۔
کچھ غلطیوں کا پوری زندگی مداوا کرنا پڑتا ہے ۔ وہ اس وقت ان سارے مداووں کے لئے تیار تھیں۔
٭…٭…٭
اپنے شیطانوں کا سامنا کرنا مشکل تھا تو ان سے لڑنا مشکل ترین ۔ یہ سبق غازی نے نو عمری میں ہی سیکھ لیا تھا ۔ دوسری طرف فضیلہ بیگم تو حویلی کے ہر گہرے راز کو، ہر شیطان کو جانتی تھیں۔ وہی تو تھی جنہوں نے راجہ اشعر کو ضرار کا راستہ دکھایا تھا۔ انہوں نے جس کو شیطان کی اولاد کہہ کر اکیلا چھوڑ دیا تھا تو اب اپنے پوتے کے روپ میں اپنا بھی لیا ۔
مشرق کے سلاطین کی سلطان ساز ان کی مائیں ہوتی ہیں ۔ اس سے پہلے وہ راجہ اشعر کی تھی، اب انہیں نئی نسل کو تیار کرنا تھا۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر وہ اس حویلی اور راجہ اشعر کی نسل کی بقا چاہتی ہیں ، تو انہیں سب سے پہلے غازی کی ثنات عقل (ہوش و حواس) کی بقا چاہیے تھی۔ انہیں یقین تھا کہ اگر غازی کو کچھ عرصہ مزید ایسے چھوڑ دیا جائے تو وہ پاگل ہو جائے گا۔ پہلے انہیں یہ معلوم کرنا تھا کہ آخر ایسی کیا چیز تھی غازی میں کہ غازی اپنا آپا کھو دیتا تھا ۔ کیا اس پر سایہ تھا یا کوئی اور چیز تھی جو اس کو ایسا کرنے پر مجبور کردیتی تھی۔
غازی اس کو کہتا تھا کہ جو چیز اس کو اکساتی تھی وہ اس کو اس آئینے میں دکھتی تھی ، جبکہ فضیلہ بیگم کو آئینے میں غازی کے عکس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں تھا ۔ انہوں نے سب سے چھپ کر بڑے پیر فقیر بھی بدلے، مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا تھا ۔ پیر فقیر کے بعد ڈاکٹرز کی باری تھی، مگر وہاں بھی ناکامی ہاتھ آئی ۔ کوئی کیا کہتا تھا،تو کوئی کیا؟
آٹھ سال کی عمر میں غازی کو انہوں نے اپنی پناہ میں لیا تھا اور انہیں تقریباً پندرہ سال لگے تھے اس بات کا جواب حاصل کرنے میں کہ آخر غازی کے ساتھ مسئلہ کیا تھا؟ ان سالوں میں اتنا ہوا تھا کہ غازی کا غصہ ، اس کا شیطان ختم تو نہیں ہوا تھا مگر کم ضرور ہو گیا تھا ۔
یہ ان دنوں کی بات تھی، جب غازی اپنے کلاس فیلو کو بہت بری طرح مارنے کے جرم میں یونیورسٹی سے نکالا گیا تھا ۔ اس کی انہی حرکتوں کی وجہ سے راجہ اشعر نے اسے باہر پڑھنے نہیں بھیجا تھا ۔ غازی بولتا رہا کہ غلطی اس لڑکے کی تھی، اس نے کلاس کی لڑکی کے ساتھ بد تمیزی کی تھی ۔ یہاں تک کہ اس کی کلاس فیلو نے بھی غازی کے حق میں گواہی دی تھی ۔ دوسرا لڑکا زخمی تھا اور یونیورسٹی کا ایڈمنسٹریشن اسٹاف غازی کو مزید رکھنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا ۔ یہ بھی بہت تھا کہ بات پولیس تک نہیں پہنچی تھی۔
حقیقت تو یہ تھی کہ راجہ اشعر اگر تھوڑی سی سورس لگواتے تو وہ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکتا تھا مگر انہوں نے اس کی کوئی مدد کرنے سے انکار کر دیا ‘تاکہ ان کے لڑکے کو احساس ہو کہ ایسے دوسروں کو مارا نہیں جایا جاتا ۔ انہیں لگتا تھا کہ غازی نے یہ سب صرف ہیرو کمپلیکس میں کیا تھا ۔
یونیورسٹی سے فارغ ہو کر اس نے باپ کا کاروبار جوائن کر لیا ۔ دونوں باپ بیٹے ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ رشتہ تو ان دونوں کے درمیان پہلے بھی کوئی اچھا نہیں تھا، مگر اب تو جیسے اس ٹوٹے ہوئے رشتے میں ہی دڑار آ گئی تھی۔
’’ کراچی آ جائے غازی، میں اس کا ایڈمشن اپنی یونیورسٹی میں کرواتی ہوں ۔ ‘‘ یہ حرا تھی جس نے باپ اور بھائی کے بیچ کے تناؤ کو محسوس کرنے کے بعد مشورہ دیا تھا۔
شادی کے بعد اور تو کچھ ہوا یا نہیں، وہ بھائی کا پوچھنے لگ گئی تھی ۔اور جب سے گود میں اولاد آئی تھی، تب تو اس کو غازی کا احساس زیادہ ہی ہونے لگ گیا تھا ۔ ماں کو بھی تاکید کرتی کہ اس کا خیال کیا کریں، جس کو وہ سنی ان سنی کر دیتی ۔ اب بچوں کی چھٹیوں میں حویلی آئی تو بول اٹھی۔ راجہ اشعر مان کر نہیں دے رہے تھے۔ کم از کم اس وقت تک تو نہیں جب تک محمود جیلانی تصویر میں شامل نہیں ہوئے تھے۔
محمود جیلانی حرا کے نہ صرف سسر تھے بلکہ راجہ اشعر کے رشتے کے چچا بھی لگتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب انہوں نے حرا کے لیے دست دراز کیا تو انہوں نے اتنا دور اور ماحول کا اتنا فرق ہونے کے باوجود انکار نہیں کیا تھا۔ وہی تھے جنہوں نے غازی نام کی پہیلی فضیلہ بیگم کے لیے سلجھائی تھی ۔ انہوں نے جو کچھ فضیلہ بیگم کو بتایا تھا ان سے ان کو یہ تو اندازہ ہو گیا تھا انہوں نے ضرار کے پاس جا کر کتنی بڑی غلطی کی تھی ۔ مداوہ تو وہ پچھلے کئی سالوں سے کر ہی رہی تھیں۔ اب یہ ہوا کہ انہوں نے راجہ اشعر کے سامنے ان کے بیٹے کے لیے کھڑے ہونا شروع کر دیا۔ انہوں نے ان کو وہ دکھانا شروع کر دیا جو وہ پہلے دیکھنا نہیں چاہ رہے تھے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ غازی کراچی آ گیا۔
ایک ایسا شہر جو آنے والے سالوں میں اس کی پوری زندگی بدلنے والا تھا ۔ اس کی روکھی پھیکی فضاؤں کے باوجود وہ شہر غازی کے لئے شہر یارم ثابت ہونے والا تھا۔
٭…٭…٭
زندگی کی رتیں کبھی کبھار ایسے بدلتی ہے کہ انسان کو احساس ہی نہیں ہو پاتا ۔ غازی کے لیے شہر بدلنا کچھ انوکھا نہ تھا ۔ اس نے زیادہ تر پڑھائی دوسرے شہروں میں ہی کی تھی ۔
راجہ اشعر کو نجانے اس سے کیا خدشہ تھا کہ وہ اسے اتنی دور بھیجنا نہیں چاہتے تھے ۔بھلا حیدر آباد اور کراچی میں کتنا فرق تھا ؟ ابھی تک اس نے جتنی بھی زندگی دیکھی تھی، یہاں کے لوگ ان سے مختلف تھے۔ اتنے چہرے، اتنی بھیڑ…
اس کو ہر کوئی مصروف، بھاگتا ہوا ہی لگتا ۔ وہ اپنے آپ میں رہنے والا انسان ایسے لوگوں میں آ کر بالکل اجنبی سا رہ گیا تھا ۔ حرا اس کو ہزار بار باہر جانے کا کہتی، مگر وہ اکثر ہی گھر تک ہی محدود رہتا ۔ یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہتا اور وہ یونیورسٹی جا کر بھی کوئی دوست نہ بنا پاتا کہ اس کو ارمان مل گیا ۔ ارمان کا آنا اس کی زندگی میں ایسا ہی تھا ۔ جیسے بہت عرصے سے کوئی انسان برف کے گھر میں رہ رہا ہو کہ اچانک کوئی آ کر بہار کی نوید دے جائے ۔یہ ارمان ہی تھا جس نے اس کو احساس دلایا تھا کہ اس نے اپنے گرد برف کی تہہ خود ہی جمائی ہوئی تھی ۔ وہ اس وقت حرا کے گھر کی پچھلی سیڑھیوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
وہ آنے والے پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس کے آنے سے اس کو کوئی فرق پڑتا تھا ۔ سو وہ سامنے ایک دوسرے سے آنکھ مچولی کھیلتے ہنسوں کو دیکھے گیا۔
’’ یہ میری بھی فیورٹ جگہ ہے ۔ ‘‘ اس کے پاس بیٹھے ہوئے وجود نے کہا۔
اس نے اب کی بار بھی آنے والے کی طرف نہیں دیکھا۔
’’ جب کبھی میری انسپریشن ختم ہو جاتی ہے تو میں اکثر یہاں آ کر اپنے میوزک کے نوٹس تیار کرتا ہوں ۔ ‘‘ آنے والے نے ابھی بھی ہار نہیں مانی تھی۔
غازی کی نظر ابھی بھی چھوٹے سے تالاب میں تیرتے ہنسوں پر ہی تھی ۔ یہ حصہ حرا کی مرحومہ ساس نے اپنی زندگی میں بنوایا تھا ۔ وہاں درختوں کے جھنڈ میں چھوٹا سا تالاب تھا، جس میں مختلف پانی کے پرندے رہتے تھے ۔ ان میں سب سے نمایاں دو ہنس تھے، جو اکثر ہی ایک دوسرے سے یا تو اٹھکھلیاں کرتے یا پھر ایک دوسرے سے لاڈ کرتے ہوئے پائے جاتے ۔ محبت کا یہ اظہار غازی کی سوچ سمجھ سے بالاتر تھا۔ وہ اکثر فارغ اوقات میں ان دو ہنسوں کو بے مقصد ہی تکے جاتا۔
’’ جب کبھی میں نے اپنا گھر بنوایا تو اس طرح کا حصہ اس میں ضرور بنواؤں گا ۔ اور وہاں میں بھی ہنس رکھوں گا ۔ شاید موربھی اور شاید بہت ساری چڑیائیں ۔‘ ‘ اس کی بات پر غازی نہ چاہتے ہوئے بھی درخت پر چہچہاہتی ہوئی چڑیوں کو دیکھنے لگا۔
’’ تم نے کبھی کوئی ایسی جگہ بنوانی ہو تو کون سا جانور پالو گے ؟ ‘‘ آنے والا بڑا ہی مستقل مزاج تھا۔
’’ ہرن۔ ‘‘ وہ یوں ہی بولا ۔ نظریں ابھی بھی چو چو کرتی چڑیوں پر ہی تھی۔
’’ ہوں؟ بڑا ہی عجیب ذوق ہے تمہارا ۔ چلو خوب جمے گی جب مل بیٹھے گے دیوانے دو۔‘‘ آنے والا ہنسا تھا۔
اب کی بار نا چاہتے ہوئے بھی غازی مسکرا اٹھا اور اس دیوانے کی طرف دیکھ ہی لیا ۔ وہ لڑکا بھورے بالوں اور شرارتی مسکان والا انسان تھا ۔ اس کے بالوں کا رنگ غازی جیسا ہی تھا مگر غازی کے مقابلے میں اس کے بال بھی شرارتی تھے ۔ جو ادھر سے ادھر بکھرے ہوئے تھے۔
’’ میرا نام ارمان ہے‘ تیمور بھائی کا سیکنڈ کزن ۔ ‘‘ اس نے اپنا ہاتھ غازی کی طرف بڑھایا جسے اس نے ذرا سا جھجھک کر تھام لیا۔
’’ غازی۔‘‘ اس نے صرف نام پر اکتفا کیا۔
’’ بھئی، آپ کے بارے میں تو بڑا سنا ہوا ہے ۔ ‘‘ اس بات پر غازی کا دل زور سے دھڑکا ۔ وہ ساری باتیں جو دوسروں کے منہ سے بچپن سے سنتا آیا تھا، ذہن میں ایک بار پھر سے ان باتوں کی بازگشت ہونے لگ گئی تھی۔
’’ کیا سنا ہے؟‘‘
اس نے تیزی سے اپنا ہاتھ ارمان کے ہاتھوں سے جدا کرنا چاہا، مگر وہاں گرفت مضبوط تھی۔
’’ یہی کہ تم وہی لائق فائق بندے ہو، جس نے اپنے ڈیڈ کو صرف چھ مہینے میں دو پروجیکٹ ون کروائے۔‘‘ اس نے لفظ چھ پر زور دیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی غازی کے ہونٹوں پر تلخ سی مسکراہٹ آ گئی۔
‘‘ اور کسی نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے باوجود اس کے ڈیڈ اس سے خوش نہیں ہے ۔ ‘‘ اس کے الفاظ میں گلہ بھی تھا اور تلخی بھی تھی۔
’’ اوہ کم آن! تم نے کون سے ڈیڈ دیکھیں ہیں جو اپنے بیٹوں سے خوش ہوتے ہیں؟‘‘
اس کی بات پر غازی سوچ میں پڑ گیا ۔ اس کو لگتا تھا کہ صرف اس کے اور راجہ اشعر کے درمیان ہی ایسا کشیدہ تعلق تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چیز باپ بیٹوں کے درمیان عام سی بات ہو۔
’’ تمہارے والد بھی تم سے ناخوش ہیں؟‘‘
‘‘ وہ خوش کب تھے؟ ان کو شروع سے لگتا ہے کہ میں میوزک کے ساتھ اپنی زندگی برباد کر رہا ہوں ۔ حالاںکہ میں انہی کی وجہ سے بزنس پڑھ رہا ہوں اور ان کو کتنی قربانیاں چاہیے مجھ سے ؟ ‘‘ ارمان نے احتجاج کیا تو اس نے خوشگوار سی حیرانگی کے ساتھ اس کو دیکھا۔
ارمان وہ پہلا انسان تھا جس نے اس کو احساس دلایا تھا کہ اگر وہ اپنی زندگی اپنے حساب سے جینا چاہتا تھا تو اس دوران اگر کچھ لوگ اس سے مایوس ہو جاتے ہیں، تو کوئی بات نہیں ۔ بس وقت آنے پر اس کو اپنا آپ ان لوگوں پر ثابت کرنا ہوگا۔ انسان کی لگن اس کے ساتھ ہو تو اپنا آپ ثابت کرنا کوئی ناممکن کام نہیں، ہاں مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں ۔ اور جہاں کچھ ناممکن نہ ہو، وہاں اس مشکل کے لیے آسانیاں بھی پیدا ہو ہی جاتی ہیں۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے