طلسم : قسط نمبر 1

اس نے اپنی بائیس سالہ زندگی میں کبھی بھی یہ سوال نہیں سنا تھا۔
اُس سے اس کی رائے پوچھنے والا کوئی نہیں تھا ۔ زندگی دوسروں کے سہارے چل رہی تھی ۔ اس طرح کے سوال جواب تو ماں باپ کرتے ہیں ۔ اس کو تو نہ وہ ملے اور نہ ہی ان کا پیار ۔ بہن اس کی صرف فرض نبھا رہی تھی کہ مرنے کے بعد اپنے مرحوم باپ کو اپنا منہ دکھا سکے کہ اس پر ڈالی گئی ذمے داری اس نے پوری کر لی ہے ۔ دوسری طرف دوست احباب کوئی نہیں تھا کہ وہ پوچھے کہ کیا چاہتی ہو تم عزہ؟
پہلی بار کیا گیا سوال بھلے یونیورسٹی کے پلے بوائے کے منہ سے ہی سن کر اس کا دماغ ایک پل کے لئے بوکھلا گیا ۔ کاش کہ وہ غازی کا نام لے سکتی ‘ کاش کہ یہ سامنے بیٹھا ہوا انسان اس کو وہ دلا سکتا۔ مگر آزمانے میں کوئی حرج تو نہ تھا۔
’’ بول تو ایسے رہے ہو جیسے جو کچھ مانگوں گی وہ دے دوگے، ‘‘ اس نے پہلا پتا پھینکا۔
’’ مانگ کر تو دیکھو۔‘‘ اگلا انسان آسان شکار تھا، اس نے طے کیا۔
عزہ نے ایک گہری سانس بھری اور بولی
’’ تمہارے گروپ سے دوستی‘ صرف دوستی ۔ ‘‘ اس نے لفظ دوستی پر زور دیا۔
روشان اس کی بات پر تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو گیا ۔ عزہ کو ایک پل کے لیے ڈر لگا کہ بازی الٹ ہی نہ جائے ۔ وہ منع کر دے اور پھر بعد میں اپنے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اس کا مذاق اڑاتا پھرے۔
’’ وہ دیکھو عزہ! اپنی اوقات دیکھے بغیر ہمارے گروپ کا حصّہ بننے کی خواہش کر رہی تھی۔‘‘
اس کو پچھتاوا ہوا کہ اس نے ایسی شرط کیوں رکھی؟ سیدھا اس کو چلتا کر دیتی ۔ اس نے روشان کا چہرہ دیکھا، وہ تو جیسے کسی نفع و نقصان کے حساب کتاب میں گم تھا ۔ عزہ سانس روکے اپنا ویلنٹائن ڈے پر اپریل فول بننے کا انتظار کر رہی تھی ۔ مگر جب روشان نے اس کی طرف رخ کیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ضرور تھی مگر اس کی آنکھیں سنجیدہ تھی۔
’’ ٹھیک ہے ۔ میری برتھ ڈے پارٹی میں آؤ ۔ میں سب سے تمہاری دوستی کرواتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ تو اٹھ کر چلاگیا مگر عزہ کو لگا کہ جیسے وہ اس کو قارون کا خزانہ دے گیا تھا۔
٭…٭…٭
جب سورج اپنے بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل کر واپس جا رہا تھا تو عزہ کو خیال آیا کہ اگر اس کو روشان کی برتھ ڈے پارٹی پر جانا ہے تو اس کو اچھے کپڑوں کی ضرورت بھی پڑے گی ۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ روشان نے کتنے لوگوں کو بلایا تھا ؟ دوسری طرف اس کو خدشہ تھا کہ وہ پارٹی ایک جال بھی ہو سکتی تھی ۔ ہو سکتا تھا کہ اس نے صرف عزہ کو نیچا دکھانے کے لئے اس کو پارٹی پر بلایا ہو ۔ بھلا ویلنٹائن ڈے پر کس کا برتھ ڈے آتا ہے ؟ کیا پتا اس نے یہ بات اپنے سے بنائی ہو اور اپنے گروپ کو بھی شامل کر لیا ہو ‘ تاکہ وہ عزہ کو سنانے کو اس کے پچھلی طرف والی میز پر بیٹھ جائے ۔ مگر اب جو بھی تھا عزہ نے چال چل دی تھی۔
اگر جیت چاہتی تھی تو ہار سے نہیں ڈرنا تھا۔ کسی بھی ہار سے نہیں…
غازی کی یونیورسٹی کے دو سالوں میں اس نے غازی کی زندگی کے صرف چند منٹس ہی لیے تھے ۔ اب وہ پوری زندگی لینا چاہتی تھی تو کیا حرج تھا ؟ اللہ پاک نے اتنی بڑی دنیا بنائی تھی اور اس پوری دنیا میں عزہ کے لیے کوئی بھی نہیں تھا ۔ تو اب عزہ ایک انسان کو … صرف اور صرف ایک انسان کو چاہتی تھی تو کیا حرج تھا کہ وہ اس کو مل جائے ۔ سب سے پہلے اس نے غازی کو اپنے وجود کا احساس دلانا تھا ۔ اس خیال کے ساتھ ہی ایک دم عزہ کو اپنا وجود سطحی سا لگنے لگ گیا۔
ان لڑکیوں کی طرح جو سج سنور کر اپنے من پسند مرد کی نظروں میں آنا چاہتی ہیں ۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی خواہش فطری تھی مگر عزہ کو عام ہونے سے نفرت تھی ۔ وہ ہمیشہ سے اپنے آپ کو خاص گردانتی تھی اور وہ کبھی بھی عام لڑکیوں کی سطح پر نہیں جھکی تھی۔ مگر فی الحال تو اس نے روشان کی سالگرہ پر کچھ تو پہن کر جانا ہی تھا۔
عام اور خاص اپنی جگہ، دنیا داری بھی تو نبھانی تھی ناں!
اس کو امید تھی کہ روشنی کی الماری میں کچھ نہ کچھ ہوگا ۔ اس کا اور روشنی کا ایک ہی ناپ تھا ۔ وہ اس کے آنے سے پہلے پہلے ہی گھر سے نکل جائے گی تو روشنی کو پتا بھی نہیں چلے گا ۔ بعد میں وہ اس کو اپنے کپڑے پہنے دیکھ بھی لے گی تو کیا فرق پڑتا ہے ؟ اس کو تو ویسے بھی روشنی کے غصے کی عادت تھی ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جوڑا روشنی یہ سوچ کر عزہ کے منہ پر پھینک دے کہ کہیں عزہ نے اپنے جادوئی جراثیم ان کپڑوں پر نہ لگا دیے ہو ۔ پھر اب دوبارہ روشنی ان کپڑوں کو پہننا پسند نہیں کریں گی۔
یہ سوچ کر ہی عزہ کے چہرے پر بڑی کمینی سی ہنسی پھوٹ پڑی ۔ بلکہ اس کو تو چاہیے کہ وہ روشنی کا پسندیدہ جوڑا پہنے تاکہ اس کا اچھا خاصا دل جلے ۔ روشنی کی سالگرہ پر کاشان نے روشنی کو بڑا ہی پیارا لیموں رنگ کا جوڑا تحفے میں دیا تھا جو روشنی نے عزہ کی حاسدی نظروں سے چھپا لیا تھا مگر پھر بھی اس نے دیکھ ہی لیا تھا ۔ ابھی روشنی کے ڈیوٹی ٹائم میں وقت تھا تو وہ اس کے آنے سے پہلے پہلے ہی نکل جائے گی ۔ اس کا نہیں خیال تھا کہ روشان نے اس کے جلدی پہنچنے پر برا ماننا تھا ۔ اور اگر یہ جال تھا بھی تو اچھا تھا کہ اس کو دس لوگوں کے درمیان تماشا بننے سے پہلے پہلے پتا چل جائے ۔ اس کا پلان فول پروف تھا۔
’’ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ روشنی کی الماری میں کاشان کا دیا ہوا جوڑا ڈھونڈ رہی تھی تو روشنی کی مانوس مگر نا خوشگوار آواز اس کے کانوں میں پڑی تو اس کو اندازہ ہوا کہ اس کا پلان اتنا بھی فول پروف نہیں تھا ۔ ایک پل کے لئے عزہ کھسیا گئی۔
’’ وہ میں…‘‘
دوسرے ہی پل وہ سیدھی ہو کر اپنی بڑی بہن کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھی۔
’’ وہ میں کیا؟‘‘ ایک ابرو اٹھا کر پوچھا گیا سوال اسے ایک آنکھ نہیں بھایا تھا، جس طرح روشنی اس کو نہ بھاتی تھی۔
’’ تمہاری الماری میں سے سوٹ دیکھ رہی تھی۔‘‘ اس نے سچ بتانے میں ہی عافیت جانی۔
روشنی کو دیکھ کر اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کو ذرا سا بھی عزہ کی بات پر یقین نہ آیا ہو ۔ ایک پل کے لیے عزہ کا دماغ بھک سے اڑ گیا ۔ روشنی سمجھ رہی تھی کہ وہ یہاں چوری کی غرض سے آئی تھی ۔ عزہ غصہ دکھا کر چور کی داڑھی میں تنکے والا حساب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’ وہ کیوں بھلا؟‘‘ روشنی نے اگلا سوال داغا۔
’’ میرے کلاس فیلو نے مجھے برتھ ڈے پر انوائٹ کیا ہے اور میرے پاس پہننے کے لئے اچھے کپڑے نہیں ہے تو میں نے سوچا۔‘‘ وہ منمنائی۔
اس کو اپنا آپ ایک چھوٹے سے بچے کی طرح لگا جو ٹافی چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو ۔ اس کو روشنی پر بے انتہا غصہ آیا ۔ کیونکہ وہ واحد انسان تھی جو پر اعتماد سی عزہ کو اس طرح محسوس کرواتی تھی ۔ روشنی کو کوئی حق نہیں تھا اپنے سوالوں سے عزہ کو ایسا محسوس کروانے کا کہ جیسے وہ کٹہرے میں کھڑی تھی ۔ اس کو کوئی حق نہیں تھا کہ اس کے پاس اتنے جوڑے تھے مگر عزہ کے ہاتھ میں گھٹیا ترین چیزیں آتی تھی ۔ اور جب سے عزہ روشنی کے قد جتنی ہوئی تھی روشنی نے اس کے لیے کچھ بھی لینا چھوڑ دیا تھا ۔ اب عزہ روشنی کی اترن پہن کر ہی زندہ تھی ۔یہ بھی اچھا تھا روشنی کپڑے بہت سنبھال کر استعمال کرتی تھی اور لیتی بھی اچھی کوالٹی کے ورنہ عزہ کبھی بھی یونیورسٹی میں سر اٹھا کر لیکچر اٹینڈ نہیں کر پاتی۔
’’ اچھا…‘‘ روشنی نے ’’ اچھا‘‘ ایسے بولا جیسے اپنے ہونٹ ہلا کر بھی اس نے عزہ کی ذات پر احسان کیا ہو۔
روشنی اس کی طرف بڑھی اور وہ جو اس کی طرف سے چیخنے چلانے کی امید کر رہی تھی حیران ہی رہ گئی جب روشنی نے اپنی الماری سے ایک جوڑا نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔ یہ بیشک روشنی کا بہترین جوڑا نہ تھا مگر اس کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ایک آدھ بار ہی بمشکل پہنا گیا ہو۔
’’ اس نوازش کی وجہ؟‘‘ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔
’’ میں نے سوچا کہ میرے جانے کے بعد میرے پرانے کپڑے ویسے بھی تو تمہیں مل ہی جانے ہیں تو ابھی سے شروعات کر دوں ۔ اس طرح میرا بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا۔‘‘
روشنی کی بات نے اس کے دماغ میں جھماکہ کیا ۔ ہاں اگلے مہینے اس کی شادی ہو رہی تھی۔
’’ بلکہ میں جلدی اسی لیے آئی تھی کہ تمہیں کچھ ڈھنگ کے کپڑے دلا دوں ۔ لوگ کیا کہیں گے کہ دلہن کی اکلوتی بہن کے پاس ڈھنگ کے کپڑے بھی نہیں ہے ۔ مگر تم تو بزی ہو پارٹی میں جانے کے لئے۔‘‘ روشنی کے ہونٹوں پر بڑی ہی طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
عزہ کو اس کا مطلب بخوبی سمجھ آ رہا تھا ۔ وہ تیزی سے اپنے کمرے میں گئی اور روشان کی برتھ ڈے انویٹیشن کارڈ لا کر روشنی کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’ یہ دیکھ لو‘ میں جھوٹ نہیں بول رہی۔‘‘ اس نے جھوٹ کا لفظ ایسے منہ سے نکالا جیسے اس کے منہ میں زہر بھرا ہوا ہو۔
زہر تو اس کے دل میں بھر رہا تھا۔ آہستہ، آہستہ…رستا ہوا ، جو کسی کو نہیں دکھ رہا تھا مگر اس کا وجود کھوکھلاکرتا جا رہا تھا ۔ روشنی نے لا پرواہی سے کارڈ کھولا مگر روشان کا نام دیکھتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے جیسے پھٹ گئی۔
’’ تمہیں روشان نے انوائٹ کیا ہے۔‘‘ عزہ جانتی تھی کہ یہ سوال نہیں تھا مگر پھر بھی پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
’’ تم روشان کو جانتی ہو؟‘‘
’’ میں بشائر کے سارے گروپ کو جانتی ہوں ۔ وہ سب بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ میرے اور کاشان کی طرح۔‘‘
عزہ کو مایوسی ہوئی کہ اس نے بچپن کا لفظ استعمال کیا ۔ جہاں تک وہ جانتی تھی غازی ان لوگوں کے بچپن کا دوست نہیں تھا۔
’’ جہاں تک میں جانتی ہوں تم ان لوگوں کی دوست نہیں ہو ۔ تمہیں کیوں انوائٹ کیا اس نے؟‘‘ روشنی کی حیرت مدھم پڑی تو اس کی جگہ تجسس نے لے لی۔
’’ فور یور کنڈ انفارمیشن، وہ میرے کلاس فیلوز ہیں ۔ اب اگر اجازت ہو تو میں تیار ہونے جاؤں ؟ مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
اس کو روشنی کے سوالوں سے گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔ دل کا چور چہرے پر دکھنے لگ گیا تھا ۔ ابھی تو اس نے کھیل کا پہلا ہی سبق سیکھا تھا ابھی سے وہ اپنا بھید نہیں کھولنا چاہتی تھی ۔ مگر روشنی کی آواز نے اس کے قدم پکڑ لئے۔
’’ سلسلہ کچھ اور ہے‘ ہیں ناں؟‘‘ روشنی کی آواز اسے الزام لگاتی ہوئی محسوس ہوئی۔
وہ تیزی سے پلٹی۔
’’ کیا مطلب؟‘‘
روشنی نے سر جھٹکا۔
’’ چلو اچھا ہے، تمہارا کوئی انتظام ہو جائے گا ۔ میں نے چلے جانا ہے تو تم نے کیا کرنا ہے میرے بغیر؟ اچھا ہے تم نے اپنا خود ہی انتظام کر لیا۔ روشان کافی امیر ہے اور دیکھنے میں بھی اچھا ہے۔ اچھا ہاتھ مارا ہے۔‘‘
اس کی یہ مجال ! عزہ کا دل کیا کہ روشنی کا گلہ دبا دیں۔
’’ ہوں!‘‘ عزہ نے طنزیہ ہنکارہ بھرا۔
’’ جیسے تم نے کاشان بھائی کو اپنی مٹھی میں کر کے بڑا ہاتھ مارا ہے۔ ویسے میں نے تم سے تو ہلکا ہی ہاتھ مارا ہے۔‘‘
روشنی کی پھٹی ہوئی آنکھیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ عزہ سے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں کر رہی تھی۔
’’ چلو کاشان کے پاس عقل تو ہیں نا ؟ مجھے حیرت ہے کہ روشان نے تم میں کیا دیکھا ہوگا کہ اس کی عقل پر پٹی بندھ گئی یا پھر اپنی ماں کی طرح تم نے اس کو کچھ گھول کر پلایا ہے ۔ ‘‘ روشنی کی بات پر عزہ کپڑے چھوڑ کر اس کی طرف پلٹی۔
’’ میری ماں کا نام نہ لینا۔‘‘ عزہ کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔
روشنی طنزیہ مسکرائی، وہ جانتی تھی کہ اس نے عزہ کی دکھتی رگ پر پاؤں رکھ دیا تھا۔
’’ مجھے تمہاری جادوگرنی ماں کا نام اپنی زبان سے لینے کا شوق بھی نہیں ہے۔‘‘
روشنی کی زبان میں اتنی نفرت تھی، اتنا زہر تھا کہ اگر عزہ کی ماں زندہ ہوتی تو کب کی اس زہر میں ہی لپٹ کر مر جاتی۔
’’ میری ماں جادوگرنی نہیں تھی۔‘‘ وہ چلائی۔
’’ چلانے سے حقیقت نہیں بدل سکتی عزہ، تمہاری ماں جادوگرنی تھی ۔ جس نے نجانے میرے باپ کو کیا گھول کر پلایا کہ وہ بھول ہی گئے کہ ان کی پہلے سے ہی ایک فیملی ہے ۔ ان کی جب ایک بیٹی پہلے ہی تھی تو دوسری کی طلب کیوں ہوئی؟‘‘ وہ جیسے سانس لینے کو رکی۔
عزہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ روشنی کے لیے اس موضوع پر بات کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا عزہ کے لیے تھا ۔ ماں باپ کا گند سمیٹنے کے لئے اولاد ہی رہ جاتی ہے۔
’’ کئی بار مجھے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے ٹیپیکل مردوں کی طرح انہوں نے بیٹے کے لالچ میں شادی کی ہو ۔ مگر جب پتا چلا ہو کہ تمہاری ماں جادوگرنی ہونے کے باوجود انہیں بیٹا نہیں دے سکتی تو ان کو چھوڑ دیا ہو۔‘‘ روشنی بولتے بولتے روہانسی ہو رہی تھی۔
عزہ کو یقین تھا کہ جیسے ہی وہ کمرہ چھوڑے گی ویسے ہی روشنی اپنے اوپر بندھا ہوا بندھ توڑ دے گی ۔
جب وہ نئی نئی آئی تھی تب تو روشنی کا بہت ہی برا حال تھا ۔ اب دس بارہ سال گزرنے کے بعد تو پھر بھی وہ پہلے سے بہتر تھی ۔ خاص طور پر جب سے کاشان اور اس کی شادی کی تاریخ طے ہوئی تھی ۔ وہ پہلے سے بہت بہتر لگنے لگ گئی تھی ۔ اس ایک خیال کے ساتھ ہی عزہ کو یاد آیا کہ اس کوروشان کی برتھ ڈے پارٹی کے لیے تیار ہونا تھا ۔ روشنی خوش نصیب تھی کہ اس کے پاس کاشان تھا۔ اس کے دل نے اس پل شدّت سے دعا کی کہ خدا اس کے لیے غازی کو بھی کاشان کی طرح ثابت کردے۔ جو اس کا سارا درد بھلا دے۔ اور بدلے میں وہ اس کے سارے غم سمیٹ لے۔
وہ جانتی تھی کہ غازی زخمی ہے۔ جب خود کو چوٹ لگی ہو تو دوسروں کے زخم صاف دکھنے لگ جاتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کا خاندان ایک بددعا کی طرح تھا ۔ اس کی ماں سچ میں جادوگرنی تھی۔ وہ چاہے بھی تو اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتی تھی ۔ اور غازی اس کی طرف نگاہ بھی نہ کرتا تھا اور کر بھی لے تو کیا فرق پر جانا تھا ؟ کم از کم روشنی کے ساتھ تو ایک شریف ماں کا نام جڑا تھا نا…
وہ جانتی تھی کہ کوئی بھی شریف خاندان اس کی حقیقت جان کر اس کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا سوچے گا بھی نہیں، غازی کا خاندان تو دور کی بات ہے ۔ اس کو زندگی کی اس ناانصافی پر بے انتہا غصہ آیا۔ غصہ اور بے بسی اتنی کہ اس کی آنکھوں میں ٹھہرے ہوئے آنسو کبھی بھی چھلک جاتے ، مگر لعنت ہے اس پر کہ اگر وہ ایک پل کے لیے بھی اپنی بڑی بہن کے سامنے کمزور پڑ جائے تو ‘ اور اس وقت وہ کچھ نہیں چاہتی تھی ۔ بس وہ جلد سے جلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی ۔ عام طور پر ان دونوں کی جنگ کافی دیر تک چلتی تھی ، مگر عزہ کو محسوس ہوا کہ وہ دونوں ہی جیسے کسی گہرے کنویں کے کنارے پر کھڑی تھیں کہ ذرا سا مزید قدم آگے بڑھنے سے شاید دونوں میں سے کوئی ایک اس میں گر ہی نہ جائے۔
تو بہتر تھا کہ بات کو یہی چھوڑ دیا جائے ۔ بات کو چھوڑ دینا ہی بہتر تھا۔
٭…٭…٭