طلسم : قسط نمبر 1

وہ گروپ کے باقی سب دوستوں کی طرح ان کے بچپن کا دوست نہیں تھا بلکہ عزہ کے بی بی اے کے آخری سیمسٹر میں ٹرانسفر ہو کر آیا تھا ۔ افواہ یہ تھی کہ اس کی جڑیں ہندوستان کے خاندان کے راجپوت گھرانے سے جا کر ملتی تھی ۔ مطلب کے شاہی خون ‘ ایسا شہزادہ جس میں کچھ بھی چارمنگ نہ ہو ۔ وہ بہت کم ہنستا تھا ۔ یہاں تک گروپ میں زور و شور سے بحث ہو رہی ہوتی مگر وہ بیٹھ کر لیپ ٹاپ پر اپنا اسائنمنٹ پر کام کرتا رہتا ۔ باقی لوگوں کے بر خلاف وہ کم سے کم ہی بات کرتا تھا ۔ وہ کلاس میں سوال کا جواب پتہ ہونے کے باوجود کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھاتا کیونکہ اس طرح وہ توجہ کا مرکز بن جائے گا ۔ اگر کچھ لڑکیوں نے اس کے شہزادے والی حقیقت جان کر اس کی طرف پہل قدمی کرنے کی کوشش بھی کی تو اس کی بے رخی دیکھ کر دوبارہ کبھی اس کی طرف بڑھنے کی ہمت نہ کر پائی تھی ۔ یہ نہیں تھا کہ وہ کسی سے بدتمیزی سے پیش آتا تھا ۔ بس غازی کو دیکھ کر ایسے لگتا تھا کہ شاید یونیورسٹی میں ٹیچرز اور اس کے گروپ کے دوستوں کے علاوہ کوئی وجود ہی نہیں رکھتا تھا ۔ وہ بے رخی نہ دکھاتا تھا ۔ وہ ایسے ظاہر کرتا تھا کہ اگلے انسان کو اپنے وجود پر ہی شک ہونے لگ جائے ۔ ایسا انسان جو کسی کا وجود ہی رد کر دیں، بھلا ایسے انسان سے کون دوستی کرنا چاہے گا، کون پیار میں پڑے گا ؟ وہ بھی نہیں جو اس کی وجاہت اور شخصیت کے رعب سے مرعوب ہو جائے ۔ شاید کوئی عقل کا اندھا۔
لہٰذاعزہ صرف دل کی سیاہ ہی نہیں بلکہ عقل کی اندھی بھی تھی ۔ کیونکہ غازی ایسا انسان تھا جس کو وہ بشائرسمیت سب سے چھین کر دل کے کسی کونے میں چھپا لینا چاہتی تھی ۔ اگر شطرنج کی بساط پر بشائر چودھری وہ ملکہ تھی جس کو عزہ شکست دینا چاہتی تھی تو راجہ غازی وہ بادشاہ تھا جس کووہ ہر حال میں جیتنا چاہتی تھی ۔
باقی سب مہرے تھے۔ اس کی چال کے منتظر مہرے…
٭…٭…٭
چند ماہ پہلے…
ویلنٹائن ڈے کے قریب آتے ہی ہر شہر عشق کا شہر بن جاتا، اور اس کی یونیورسٹیاں جیسے گل و گلزار کا پتہ دیتی تھی ۔ ایسے میں پاکستان کی یہ بزنس یونیورسٹی کیسے پیچھے رہ جاتی ۔ یہ وقت، وہ نادانیوں کا وقت ہوتا ہے، جس میں ہر انسان جو عاشق نہیں بھی ہوتا عاشق بننا چاہتا ہے۔ اور آس پاس کسی بھی انسان میں ذرا سی دلچسپی کو وہ محبت سمجھ بیٹھتا ہے ۔ کچھ اس دلچسپی کو آگے تک لے کر جاتے اور کچھ پہلے قدم پر ہی لڑکھڑا کر ہار مان لیتے ہیں ۔ اور کچھ ناکام عاشق صرف کامیاب عاشقوں کو دیکھ کر آہ ہی بھر کے رہ جاتے ہیں۔
ایسے میں عزہ کے لیے سکون سے بیٹھ کر نوٹس بنانا دو بھر ہو گیا تھا ۔ ہر طرف کچھ شرماتے لجاتے اور کچھ بولڈ سے کپلز کو دیکھ کر وہ پوری طرح سے اکتا چکی تھی ۔ زیادہ تر پریڈز یا تو خالی تھے یا پھر سٹوڈنٹ نے آنے کی زحمت ہی نہیں کی تھی ۔ کیوں کہ ان میں سے زیادہ تر ان آفیشل ڈیٹس پر تھے ۔ اور ان ‘ ان آفیشل ڈیٹس کی لیے یونیور سٹی کی کینٹین سے زیادہ بہتر اور محفوظ جگہ کون سی ہوسکتی تھی ۔
کینٹین میں وہ بیٹھ کر پچھتائی، اس سے تو بہتر تھا کہ لائبریری میں نوٹس بنا لیتی ۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس آدھے گھنٹے کے بریک میں وہ آدھے میل کا راستہ طے کر کے نوٹس بنانے لائبریری جاتی اور واپس آکر کینٹین کا چکر لگاکر راستے میں کھانے کے لیے کچھ لیتی تو اپنی کلاس کے لیے اسے دیر ہو جاتی ۔ اس سے تو بہتر یہی تھا کہ وہ اپنا قیام کینٹین میں ہی کر لے ۔ اور خوش قسمتی سے اسے کینٹین میں جگہ بھی مل گئی تھی، وہ بھی اس ہجوم سے دور ۔ کینٹین میں اس وقت توقع کے بر خلاف اتنا رش نہیں تھا ۔ شاید زیادہ تر عاشق اس وقت یا تو کلاس لے رہے تھے یا پھر باغ میں گل و گلزار کر رہے تھے ۔ نہ عزہ کو معلوم تھا اور نہ ہی اسے جاننے میں دلچسپی تھی۔
اپنے لئے وہ دو سموسے اور پانی لے کر کونے میں رکھی ایک میز پر بیٹھ گئی جس پر پہلے ہی دو لڑکیاں سموسے کھانے میں مصروف تھی ۔ اس نے شکرادا کیا کہ وہ دونوں اس وقت گپپیں نہیں لگا رہی تھیں ۔ اوراسے سکون سے اپنا کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔
مگر اس کے سکون میں دو منٹ بعد ہی ہلچل ہو گئی ۔ جب ایک مانوس سی ہیل کی ٹک ٹک اس کے کانوں میں پڑی ۔ یہ ہیل بھی بڑی عجیب سی شے ہے عورت کے آنے سے پہلے ہی اس کا پیغام دے دیتی ہے اور لوگ پائل کو قصوروار ٹھہراتے ہیں ۔
اس نے اپنا نوٹس میں جھکا ہوا سر اور جھکا لیا ۔ اس کا اس وقت بشائر سے خوش اخلاقی سے پیش آنے کا اور انعم کی نخوت بھری مسکراہٹ دیکھنے کا کوئی موڈ نہیں تھا۔ سب سے اہم چیز وہ اس وقت اپنے دل کی دھڑکن کو مزید بڑھانا نہیں چاہتی تھی بلکہ پوری توجہ سے اپنا کام کرنا چاہتی تھی ۔ کیونکہ سر اٹھائے بغیر وہ جانتی تھی کہ وہ لوگ اس کے ساتھ والے ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے۔ وہ ان کے قدموں سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ وہ صرف پانچ لوگ تھے ۔ ان میں سے دو کا اسے یقین تھا کہ ہیل کی آواز انعم کے ہونے کا پتہ دے چکی تھی اور اس کی دل کی گواہی غازی کے موجود ہونے کا ۔ انعم کی طرح غازی کو کوئی خاص جوتے پہننے کی ضرورت نہیں تھی عزہ کو اس کی موجودگی کسی الہام کی صورت ہو جاتی تھی ۔
جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے تھے اس کو اندازہ ہوتا جا رہا تھا کہ محبت جنوں کیسے بنتی ہے اور آخر کیا وجہ تھی کہ اس کی ماں اس کے باپ کی محبت میں دیوانی ہو گئی تھی؟
’’ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ سارے اسٹوڈنٹ ویلنٹائن ڈے پر اتنے پاگل کیوں ہو جاتے ہیں ؟ ‘‘ انعم کی جھنجھلائی ہوئی آواز نے اس کی سوچوں کے تصادم کو توڑ دیا۔
اس کی آواز قریب سے ہی آرہی تھی ۔ غالباً بشائر کا گروپ اس کے پیچھے والی ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا ۔ اگر اس کے دل کی گواہی کو سچا مانا جائے تو۔
’’ ویسے تمہیں کتنے پریزنٹس ملے؟‘‘ یہ چھیڑتی ہوئی سی آواز بشائر کی تھی۔
عزہ نے پوری کوشش کی کہ وہ کسی طرح اکاؤنٹنگ کی پروبلم کا بیلنس لے آئے، مگر اس کو نہیں لگتا تھا کہ اب کی بار اس کا بیلنس آئے گا ۔ بشائر کا گروپ ایسے ہی اسے ڈس بیلنس کر دیتا تھا ۔ کبھی کبھار اسے اپنا آپ انگریزی فلموں کے ہیروئن کا پیچھا کرتے ہوئے نفسیاتی سے کردار کی طرح لگتا ۔ مگر کیا کرتی نظروں کی، سماعتوں کی، آہٹوں کی مجبوری تھی کیونکہ اس کی ساری حسیں دل کی مجبوری کی ساتھ بندھی ہوئی تھی۔
’’ یار مجھے نہیں پتہ کہ اگر میں ماڈرن کپڑے پہنتی ہوں یا لڑکوں کو دیکھ کر خوام خواہ گھبراتی نہیں ہوں یا میرے گروپ میں چار لڑکے ہیں تو لوگ مجھے ایزی کیوں سمجھ لیتے ہیں۔‘‘ انعم کی آواز ابھی بھی جھنجھلائی ہوئی تھی ۔
کینٹین میں رش آہستہ آہستہ کم ہوتا جا رہا تھا ۔ کچھ پڑھنے والے سٹوڈنٹس اپنی کلاسز لینے جا رہے تھے ۔ اس نے پوری کوشش کی کہ اس کا وجود بجائے انعم کی شکایتوں کے صرف ایک ہی آواز سنے ۔ غور سے سننے پر اس کو لگا کہ اس نے کتاب کے صفحے پلٹنے کی آواز سنی تھی ۔ غازی، بشائر کے مخالف سمت بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی اور بھی تھا ‘ شاید ارمان کیونکہ ارمان ہی وہ واحد انسان تھا جس سے زیادہ تر غازی بات کرنا پسند کرتا تھا۔
’’ ایسی بات نہیں ہے یار تم اتنی پیاری، اتنی سٹائلش ہو اس لئے ہر کوئی تمہاری چاہت کرتا ہے ۔ ‘‘ بشائر کی آواز میں وہ یہاں سے بھی مسکراہٹ محسوس سکتی تھی ۔ اس کو خوامخواہ کی چڑ ہوئی، بھلا کوئی اتنا کیسے مسکرا سکتا تھا۔
’’ اچھا ایسی بات ہے تو ہانہ کے پیچھے کوئی کیوں نہیں آتا، بولو؟‘‘
’’ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ حسن نے ان کا حشر کر دینا ہے اور ویسے بھی جو لڑکی یونیورسٹی چار گارڈز کے ساتھ آتی ہو، وہ ویسے ہی آدھے لڑکوں کو تو بھگا ہی دیتی ہے۔‘‘ بشائر کی آواز پھر سے اس کے کانوں میں گونجی۔
’’ بس ٹھیک ہے میں بھی اب گارڈز کے ساتھ ہی آؤں گی۔‘‘ انعم کے فیصلے کے ساتھ ہی ساتھ والے ٹیبل پر خاموشی چھا گئی اور عزہ نے شکر ادا کیاکہ وہ چپ ہوئی تھی۔
مگر زیادہ دیر نہیں۔
’’ یہ روشان کہاں ہے ؟ ‘‘ یہ بور سی آواز ارمان کی تھی۔
’’ آئی ڈونٹ نو… ‘‘
’’ آئی تھنک کسی نئی جی ایف (گرل فرینڈ) کے پاس۔‘‘
’’ یار اس کی برتھ ڈے کے کارڈز میرے پاس پڑے ہیں، تم سب کو دینے کے لیے ۔‘‘ یہ انعم کی آواز تھی۔
’’ ہاں یار اس کی برتھ ڈے ویلنٹائن ڈے پر آتی ہے ناں! اب سمجھ آتا ہے کہ وہ اتنی محبت کیسے لٹاتا رہتا ہے ۔ ‘‘
اب کی بار بشائر کا شرارتی سا مذاق ایک پل کے لئے عزہ کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ بکھیر گیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید سنتی اس کے ساتھ والی سیٹ گھسٹنے کی آواز نے اس کا تسلسل توڑ دیا ۔ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکیاں جا چکی تھیں اور نیا آنے والا انسان اس کے لیے غیر متوقع تھا۔
’’ آہم…‘‘ وہ ہلکا سا کھنکارہ۔
’’ جی؟‘‘ اس کی نظریں سوالیہ بھی تھی اور خفگی لیے ہوئے بھی تھیں۔
اس نے پوری کوشش کی کہ اس کی ایک’’ جی‘‘ میں یہ واضح ہو جائے کہ اس کو اس شخص کا ایسے دھڑلے سے اس کے سامنے بیٹھنا پسند نہیں آیا تھا ۔ بیشک کینٹین سارے سٹوڈنٹس کے لیے تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کوئی بھی اخلاقیات کی پرواہ کیے بغیر کہیں بھی بیٹھ جائے۔
’’ یہ آپ کے لیے کارڈ…‘‘ روشان کی بات پر اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
عزہ بچی نہیں تھی ، وہ جانتی تھی کہ روشان نے کتنا عرصہ ہو گیا ہے کسی لڑکی میں دلچسپی کیوں نہیں دکھائی تھی ۔ وہ کئی بار اس کی اپنی طرف اٹھتی ہوئی چور نگاہیں پکڑ چکی تھیں ۔ وہ اس کی آنکھوں کے اشارے سمجھتی تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ان اشاروں کا جواب بھی دینے لگ جائے۔
’’ ویلنٹائن ڈے کارڈ؟‘‘ اس کی آواز میں اتنی آگ ضرور تھی کہ روشان ایک پل کے لیے ڈر کر پیچھے ہو جائے۔
’’ نہیں میرا برتھ ڈے کارڈ۔‘‘ روشان ذرا سا پیچھے کھسک کر، ذرا جھجھک کر بولا۔
’’ اس عمر میں برتھ ڈے کون مناتا ہے؟‘‘ اب کی بار ذرا تپش ہلکی ہو گئی تھی۔
اس کی بات پر روشان کھسیانی سی ہنسی ہنسنے لگ گیا ۔
’’میں مناتا ہوں ۔ ‘‘ وہ اپنے ایک ہاتھ سے اپنی گردن مسلتے ہوئے جھجک کر بولا۔
اس کو ایسے مسکراتے ہوئے اس کے دو نوکیلے دانت اس کو جیسے ویمپائر ظاہر کرتے تھے۔ ایک کیوٹ سا ویمپائر…
اس کو دیکھ کر عزہ کو اندازہ ہوا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ان گوروں کے رومانس میں لڑکیاں اتنی آسانی سے ویمپائر لڑکوں پر نہ صرف فدا ہو جاتی تھیں بلکہ انہیں خوشی خوشی اپنا خون بھی پلانے پر تیار ہو جاتی ہیں ۔ مگر عزہ کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ کم از کم روشان سے تو نہیں۔
’’ اچھا پھر میں کیا کروں ؟ ‘‘ اب عزہ کو اس سے بے زاری ہونے لگ گئی تھی۔
کوئی بھی لمحہ ہوتا جب بشائر کا گروپ اپنے بچھڑے ہوئے ساتھی کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں پہنچ جاتا اور وہ سب روشان کو اس سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیتے ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی کچھ اور سمجھے۔
’’ برتھ ڈے کا کارڈ کیوں دیا جاتا ہے ؟ ‘‘ اب کی بار روشان پر اعتماد تھا ۔ شاید عزہ کی نرمی کو وہ کچھ اور سمجھ رہا تھا۔
’’ میں جانتی ہوں کہ برتھ ڈے کا کارڈ کیوں دیا جاتا ہے ۔ ‘‘ وہ ایک پل کے لیے چڑ کر بولی، مگر پھر آس پاس دیکھا کہ کوئی ان کی طرف متوجہ تو نہیں تھا ۔ صد شکر کہ کوئی نہیں تھا۔
’’ دیکھو روشان ! مجھے تمہارے کھیلوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ جا کر ان لڑکیوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلو، جن کو اس طرح کے کھیل کھیلنے میں مزہ آتا ہو ۔ ‘‘ وہ تحمل سے مدعے پر آئی۔
اس طرح کے کھیل اس نے اپنے آس پاس بہت دیکھیں تھے مگر اس کا کردار ہمیشہ ایک تماش بین سا رہا تھا ۔ اس نے کبھی بھی اس کھیل کا کھلاڑی بننے کا نہیں سوچا تھا ۔ شاید غازی کے ساتھ مگر حقیقت یہ تھی کہ اس کے دل کا عالم یہ تھا کہ کم از کم وہ غازی کے ساتھ بھی ایسا کوئی کھیل نہیں کھیلنا چاہتی تھی۔
مگر مصیبت یہ تھی کہ وہ غازی کو جیتنا چاہتی تھی۔
کیا جیتنے کے لئے کھیل میں شریک ہونا ضروری نہیں تھا؟
مگر وہ کیسے اس کھیل کو شروع کرے گی جب غازی کو اس چیز میں بھی دلچسپی نہیں تھی کہ عزہ نام کی اس کی کوئی کلاس فیلو وجود بھی رکھتی تھی یا نہیں ۔ اس کا ایک بار دل کیا تھا کہ وہ بشائر کو بول کر ان کے گروپ میں شامل ہو جائے ۔ وہ اس جیسی لڑکیوں کو خوب جانتی تھی جن کو دل و جان سے اچھا بننے کا شوق تھا اور ہر جگہ چیڑیٹی ورک کرتی رہتی تھی ۔ عزہ کبھی بھی بشائرکے چیڑیٹی ورک کا حصّہ نہیں بننا چاہتی تھی۔
’’ بیچاری عزہ! اس کا کوئی دوست نہیں ہے تو میں نے سوچا کہ اس کو اپنے دوست صدقے میں دے دوں ۔ ‘‘ اس نے بشائر کو خیالوں میں ایسا کہتے ہوئے ہزار بار سوچا تھا۔
بشائر سے مدد لینے سے اچھا تو وہ روشان کی گرل فرینڈ بن جائے ۔ اور اس کے دماغ میں اس خیال کے ساتھ ہی جھماکہ ہوا ۔ اس نے سامنے بیٹھے ہوئے لڑکے کو دیکھا جو اب زمین پر نا دیدہ مٹی اپنے جوتے کی نوک سے کھرچ رہا تھا ۔ اس کو عزہ کا جواب سن کر یہاں سے چلے جانا چاہیے تھا ۔مگر شاید عزہ کو یہ کھیل شروع کر ہی لینا چاہیے تھا.
’’ کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’ تمہیں۔‘‘ اس نے اپنے جوتے پر سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
جہاں تک وہ اپنے اس کلاس فیلو کو جانتی تھی ۔ وہ ہمیشہ ہی بڑا پراعتماد اور شوخی باز بن کر لڑکیوں کے پیچھے جاتا تھا ۔ ایک پل کے لئے عزہ کو اپنے آپ پر فخر ہوا کہ وہ اتنی انوکھی تھی کہ روشان کو اس کے لیے اپنا طریقہ کار بدلنا پڑے۔
’’ زندگی میں جو کچھ ہم چاہتے ہیں وہ سب کچھ نہیں ملتا، یہ اپنے بگڑے ہوئے دماغ میں ڈال لو۔‘‘ اس کے اندر سے کوئی بول رہا تھا کہ اس کو یہ کھیل شروع نہیں کرنا چاہیے۔
وہ پچھلے ٹیبل پر بشائر کے گروپ کی مسلسل آوازیں سن رہی تھی مگر اب وہ مکھی کی بھنبھناہٹ سے زیادہ کچھ نہ تھی ۔ جب آپ کے اندر اتنی ہلچل ہو رہی ہو تو باہر کی آوازیں کم ہی سنائی دیتی ہیں۔
’’ میرا دماغ بگڑا ہوا ہوتا تو میں یہاں تمہارے پاس آتا؟‘‘ سوال دار سوال۔
’’ تمہارا دماغ بگڑا ہے ۔ اسی لیے تو اپنا ریکارڈ دیکھتے ہوئے بھی میرے پاس آ گئے۔‘‘ جواب بھی برجستہ تھا۔
’’ تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ اب کی بار سوال غیر متوقع تھا ۔ عزہ بوکھلا گئی۔