سلسلہ وار ناول

طلسم : قسط نمبر 1

باب اول : میں بنت سحر
مصنفہ : صبا زین

اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ اندھیرا چھاتے ہی ہر چیز اتنی ہیبت ناک، اتنی ڈراؤنی کیوں ہو جاتی تھی ۔ دن میں جو چیزیں آنکھوں کو بھلی لگتی تھی، رات کو انہی چیزوں سے انسان کو وحشت کیوں ہونے لگ جاتی تھی؟ یا تو اندھیرا ہر چیز کا روپ بدل دیتا تھا یا پھر اس کو اپنے اصل روپ میں لے آتا تھا۔ اور اسی اندھیرے کو وہ اپنے سر پر اوڑھے اس وقت شہر کی گلیوں سے گزر رہی تھی۔ وہ تنگ گلیوں سے تیزی سے چلتی ہوئی بار بار اپنے پسینے سے بھرے ہاتھ اپنی گھسی ہوئی جینز سے صاف کر رہی تھی۔
اصولًا تو اب تک سردی کی آمد کی کوئی خبر آ جانی چاہیے تھی، مگر کراچی میں سردی آنکھ مچولی کھیل کر ہی آتی تھی ۔

ہوا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ ماحول میں حبس ایسے رچا ہوا تھا جیسا اس کے دل میں جا بسا تھا ۔ اس دل کے علاج کے لئے ہی تو وہ اس وقت اپنے گھر سے نکلی تھی ۔ ویسے بھی کون سا اس کے گھر میں کوئی اس کا منتظر تھا ۔ چلتے چلتے وہ ایک جگہ جا کر رک گئی ۔ اس کے آگے سیڑھیاں تھیں۔ جس کی دوسری طرف اس کی منزل تھی۔ بہت بچپن میں وہ ان سیڑھیوں سے گزرا کرتی تھی اور آگے کا قبرستان ہمیشہ اس کو دن کی روشنی میں بھی اپنی خاموشی سے ڈرا دیتا تھا ۔ اس کو نہیں معلوم تھا کہ رات کے وقت اس کی ہیبت کیسی ہوگی؟ اس نے ایک بار پھر سے اپنے دل کو مضبوط کیا اور چادر سنبھالے سیڑھیاں چڑھنے لگ گئی تھی ۔ اس نے اوپر چڑھتے ہوئے کوئی دعا نہیں پڑھی تھی کیوں کہ وہ ساری دعاؤں کو بے اثر جان کر ہی یہاں آئی تھی۔
تو اب کسی دعا کا کیا حاصل تھا؟
سیڑھیاں ختم ہوئی تو سامنے قبرستان اس کو ایک بار پھر سے ڈرانے کو اپنی ہیبت ناکی سمیت موجود تھا ۔ مگر اس بار عزہ چھوٹی بچی نہیں تھی جو مرے ہوئے لوگوں کے وجود سے ڈر جائے۔
وہ زندہ تھی اور زندگی کا تقاضا یہی تھا کہ آگے بڑھا جائے، اور اس کی زندگی فی الحال اس قبرستان سے آگے بستی تھی۔
وہاں سے گزرتے ہوئے ایک بار پھر سے خدشات اس کے پاؤں سے لپٹے تھے ۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی مردہ ابھی اپنی قبر سے ہاتھ نکال کر اس کا پاؤں پکڑ لے گا ۔ یہ بھی شکر تھا کہ قبریں زیادہ قریب قریب نہیں بنی ہوئی تھی، ورنہ اس کو وہاں سے گزرنے میں خاصی دشواری ہوتی۔
دور کہیں سے الو کے بولنے کی آواز ماحول کو ایک بار پھر سے بڑا خوفناک تاثر دے رہی تھی ۔ عزہ نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسا ۔ وہ بھلا دن میں بھی تو آ سکتی تھی ناں ! ایسا تو نہیں تھا کہ دن میں اس کے ماموں اس کو دیکھ کر اپنے گھر کے دروازے بند کر دیتے۔ مگر وہ اب مزید ایک لمحے کی بھی تاخیر برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔ کجا کہ ایک رات کی …اس نے اپنی دعاؤں پر بھروسہ کر کے پہلے ہی بہت وقت ایسے ہی گنوا دیا تھا۔
چلتے چلتے اس کو پتا نہیں چلا کہ کب وہ قبرستان کے دوسرے کنارے پر آ کھڑی ہوئی ۔ قبرستان کے دوسری طرف بھی سیڑھیاں بنی تھی جوکہ نشیب کی طرف جاتی تھی ، یہ سیڑھیاں اس کو واپس اس بستی میں لے کر جانے والی تھی جہاں یا تو دیوانے جاتے تھے یا پھر بھٹکے ہوئے مسافر ۔ کچھ لوگ اپنی تمناؤں کو پورا کرنے بھی وہاں کا رخ کرتے تھے۔
ایسا علاقہ جس میں عام لوگ جانے سے ڈرتے تھے مگر وہ کبھی بھی عام نہیں تھی ۔ اس کی ماں عام نہیں تھی اور خود اس کے اندر بہنے والا خون بھی عام نہیں تھا ۔ چوبیس سال پہلے اس کا باپ اسی علاقے سے گزر کر اس کی ماں تک پہنچا تھا۔ اگر اس کے اندر اس کی ماں کا خون بہتا تھا تو وہ بستی اس کو ضرور ہی خوش آمدید کہے گی ۔ اس نے ایک نظر اس بستی کو دیکھا ۔ رات کے دس بجے وہاں جیسے ابھی صبح ہو رہی تھی ۔ الو یا چمگادڑوں کی طرح وہ لوگ بھی اپنے دانے کی تلاش میں نکل رہے تھے ۔ وہ وہاں دانہ چننے نہیں آئی تھی ۔ وہ وہاں اس ہنر کی تلاش میں آئی تھی جو اس کی رگوں میں خون کی طرح بہتا تھا۔
آخر کو وہ بستی جادو کی بستی تھی اور عزہ خود ایک جادو گرنی تھی۔
٭…٭…٭
عزہ حسین کو وہ سب کچھ چائیے تھا جو بشائر چودھری کے پاس تھا ۔
بشائر چودھری، جو یونیورسٹی کی ہارٹ تھروب تھی، جو ایک ٹاپر سٹوڈنٹ تھی۔ جس کے پاس سچے دوست تھے اور ایک سچی پیار کرنے والی فیملی… بشائر چودھری، جو کسی بھی مہنگی گاڑی کی سواری افورڈ کر سکتی تھی مگر پھر بھی یونیورسٹی کی بس میں یونیورسٹی آنے میں سکون پاتی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے برابر صرف دیکھتی ہی نہیں، بلکہ سمجھتی بھی تھی۔ وہ بشائر چودھری جس کے پاس عزہ کے رشک اور حسد سمیت وہ سب کچھ تھا جو کسی بھی نوجوان لڑکی کا خواب ہو سکتا تھا۔
مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ کوئی بشائر چودھری سے حسد کر کیسے سکتا تھا؟
بے شک اس کے پاس سب کچھ تھا ۔ وہ خدا کے ان پیارے بندوں میں سے تھی جن کی صرف قسمت پر ہی نہی ، دلوں پر بھی خدا کا خاص کرم ہوتا ہے۔جو ایک گاؤں کے چودھری کی اکلوتی بیٹی ہونے کے باوجود یونیورسٹی کے چوکیدار کو روز مسکرا کر سلام کرتی تھی‘ کسی فقیر کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیتی۔
وہ کلاس کی پروٹیکٹر تھی اور کوئی بھی سٹوڈنٹ ایسا نہیں تھا جو اس کے پاس پڑھائی میں مدد مانگنے آیا ہو اور اس نے اس کو سب کچھ سمجھائے بغیر جانے دیا ہو۔ وہ اپنے بوب کٹ بالوں کو بچوں کی طرح لہرا لہرا کر کسی سے بھی بات کرتی تو بے اختیار ہی اگلے انسان کا اس کے گال کھینچنے کو دل کرنے لگ جاتا تھا ۔ اس میں ایسی معصومیت تھی کہ وہ کسی کو بھی چھوٹے سے گولو مولو سے بچے کی طرح پیاری لگنے لگ جا ئے۔ وہ ایسی تھی کہ کسی کو بھی اس سے محبت ہو جائے۔ ایسے پیارے انسان سے بھلا کیسے کوئی نفرت کر سکتا تھا؟ سوائے ان کے جن کا دل بے حد سیاہ ہو۔
کیا عزہ کا دل سیاہ تھا ؟ دل کے کسی کونے میں چھپا ہوا اس کا شعور اس سے روز سوال کرتا۔
وہ جب کبھی بشائر کو کینٹین میں سموسے کھاتے ہوئے دیکھتی یا پھر ڈائس پر کھڑے ہو کر پریزینٹیشن دیتے ہوئے، یا پھر یونیورسٹی کے کسی فقیر کو کھانا دیتے ہوئے، یا پھر اپنے دوستوں کے ساتھ گپیں مارتے ہوئے۔ وہ سارا کچھ کرتے ہوئے ‘ اس کو دیکھتے ہوئے اس کا شعور اس سے بار بار پوچھتا کہ اتنی پیاری لڑکی نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم اس سے اس کا سب کچھ چھین لینا چاہتی ہو؟
بھلا اس کی پیاری سی مسکراہٹ تمہیں کیا کہتی ہے؟
بھلا تمہارا اس مسکراہٹ کو چھیننے کا کیوں دل کرتا ہے؟
اس کا شعور جتنا بھی اس کو کچوکے لگاتا مگر وہ اس دل کا کیا کرتی جو کہ ضدی بچے کی طرح مچلتا ہی جاتا تھا؟ جو صرف جلتا ہی رہتا تھا اور اس آگ میں عزہ کو بھی بخوبی جلائے جاتا تھا ۔ ایسی آگ جو اگر لگ جائے تو آسانی سے بجھائی نہیں جاتی اور نہ ہی ٹھنڈی پڑتی ہے ۔ ایسی آگ جو اپنے لگانے والے کو ایسے لپیٹ میں لے لیتی ہے کہ جب تک وہ اپنے آپ سمیت ‘ اپنا سب کچھ جلا کر راکھ نہ کر دیں، وہ سکون نہیں پاتا۔
ایسی ہی آگ عزہ حسین کے دل میں جلتی تھی ۔ وہ بشائر کو دیکھتی تو اسے سوچے بغیر رہا نہیں جاتا کہ کیا یہ قدرت کی نا انصافی نہیں کہ ایک ایسی لڑکی جس کا قد بمشکل پانچ فٹ تھا۔ ایک ایسی لڑکی جو اتنی خوبصورت بھی نہیں تھی ، ایک ایسی لڑکی جو صرف اس لیے ذہین اور پر اعتماد تھی کیوں کہ وہ شہر کے بڑے بڑے اداروں سے پڑھی تھی ۔ ایک ایسی لڑکی جس کے پاس اس کے جیسے امیر دوست تھے ۔ایک ایسی لڑکی جس کے پاس کچھ خاص نہیں تھا مگر پھر بھی اس کے پاس سب کچھ خاص تھا…
وہ سب کچھ جو کچھ عزہ اپنی زندگی میں چاہتی تھی۔
بشائر قدرت کی عزہ کے ساتھ نا انصافی کی جیتی جاگتی تصویر تھی، تو وہ کیوں نہ اس سے جلتی؟
بشائر کے پاس ایسے ماں باپ تھے جن کو اپنی بیٹی کا خیال ہر پل تھا ۔ اس کی ہر دوسری بات میں اپنی اماں اور ابا کا ذکر ہوتا تھا کہ کیسے وہ اس کی پل پل خبر رکھتے تھے۔
دوسری طرف عزہ کے ماں باپ اس دنیا میں نہیں تھے ۔ ہوتے بھی تو انہوں نے کون سا تیر مار لینا تھا ۔ اس کے باپ کو عزہ کے وجود سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اس کی ماں اس کے باپ کے عشق میں پاگل ہو کر اپنی جوانی پاگل خانے میں گزار آئی تھی ۔ صرف ایک بڑی بہن تھی جو بشائر کے بڑے بھائی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھی۔ اسے یاد تھا جب ایک بار بشائر کا بھائی اس کو اپنے یونیفارم میں یونیورسٹی کے گیٹ پر لینے آیا تھا ۔ اس دن کے بعد تو یونیورسٹی کی کئی لڑکیوں نے بشائر سے سر پیر کی بازی لگا کر دوستی کرنے کی کوشش کرنا شروع کردیں ۔ مگر وہ ہمیشہ ایک مسکراہٹ سے سب کو ٹال دیتی۔ پاکستانی لڑکیاں بڑی غیرت مند ہوتی ہے ورنہ ان میں سے کئی تو بشائر کو اس کی بھابھی بننے کی آفر کر ہی چکی ہوتی۔
وہ یہ کرتے ہوئے یہ بھی نہ دیکھتی کہ وہ بندا کوئی پینتس سال کا ہے جس پر وہ سب مر مٹی ہے۔ مگر ان کو کیا‘ وہ ایک پڑھا لکھا ، بہترین خاندان سے فوجی بندہ تھا اور غیر شادی شدہ تھا۔ اس سے بڑھ کر ان کو کیا چاہیے تھا ؟ خیر وہ سنگل توہر گز نہیں تھا کیوں کہ اس کو قسمت کی ستم ظریفی کہیے یا کچھ بھی کہ وہ عزہ کی بہن کے ساتھ ہی منسوب تھا۔
خیر اگر بشائر یونیورسٹی کی کسی لڑکی کو اپنی بھابھی بنانے کا سوچ بھی لیتی تو اس سے عزہ کو تو بڑی ہی خوشی ہوتی ۔ کیونکہ اسے دیکھنے میں بڑی دلچسپی تھی کہ اگر ایسا ہوتا تو بھلا کاشان کسے چنتا ؟ اپنی پیاری بہن کو یا پھراپنی بچپن کی محبت کو۔ ایسی محبت جس کے لیے اس نے اپنی ماں کے اتنے اصرار کے باوجود ابھی تک شادی نہیں کی تھی کیونکہ یہ روشنی کی ضد تھی کہ وہ پہلے اپنی اسپیشلائیزیشن پوری کر کے اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی تب ہی وہ اس سے شادی کریں گی تاکہ کل کو کوئی اسے سوشل کلایمبر نہ کہے ۔ اس کی اپنی پہچان ہو ۔ وہ صرف کاشان چودھری کی بیوی بن کر نہ رہ جائے۔
کچھ لوگوں کے لئے روشنی کا یہ جذبہ بڑا ہی قابل عزت تھا مگر عزہ کو تو وہ نری بیوقوفی اور ڈھکوسلے کے علاوہ کچھ نہیں لگتا تھا ۔ سو اگر ایسا ہوتا تو عزہ کو تو بڑا ہی مزہ آتا ۔ اور اس سارے دورانیے میں اگر روشنی کا دل ٹوٹ بھی جاتا اور وہ اپنے آنسو چھپانے کو اپنے کمرے میں روزانہ بند ہو جاتی تب جا کر عزہ کے دل پر ٹھنڈی پھوار پڑتی ۔ کیوں کہ عزہ کو اگر بشائر سے بھی زیادہ کسی سے نفرت تھی تو وہ اس کی بہن روشنی حسین تھی ۔ فرق صرف یہ تھا کہ روشنی کی کوئی چیز پانے کا اسے کوئی شوق نہیں تھا۔
باپ تو ان دونوں کا پہلے ہی منوں مٹی تلے سو گیا تھا کہ وہ اس کے پیار میں شراکت مانگتی اور جائیداد تھی نہیں کہ اس میں اس کو حصّہ ملتا ۔ رو دھو کر کاشان رہ گیا تھا تو اسے اپنے سے تقریباً تیرا سال بڑے مرد سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اور ہاں… بشائرکے پاس سچے دوست تھے۔
حلانکہ اس کا گروپ یونیورسٹی میں کریزی سیون کے نام سے مشہور تھا مگر اس کے باوجود وہ یونیورسٹی کا ایسا گروپ تھا جس میں ہر کوئی شامل ہو کر اس کو کریزی ایٹ ، نائن، یا ہنڈرڈ تک بنانے کا خواہش مند تھا ۔ بشائر کے علاوہ اس میں دو ہی لڑکیاں تھی اور چار لڑکے تھے۔
وہ ساتوں کے ساتوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے کہ کسی باہر والے کو دیکھ کر حیرت ہوتی کہ وہ آخر ایک ساتھ کر کیا رہے تھے ؟ وہ لوگ اتنے عرصے سے دوست کیسے تھے ؟ سب سے پہلے اس میں بشائر کی سو کالڈ بیسٹ فرینڈ انعم آتی تھی ۔ انعم شاید کسی سپر ماڈل کی بیٹی تھی کیوں کہ وہ ظاہر بھی ایسے ہی کرتی تھی۔
اس کی نوک پلک ہر وقت سنوری ہوئی ہوتی تھی ۔ چاہے وہ لوگ آڈیٹوریم میں پریزنٹیشن دے رہے ہو یا کینٹین میں سموسے کھا رہے ہو (ویسے انعم کوئی چیز کینٹین سے لے کر نہیں کھاتی تھی سوائے ڈائٹ کوک کے ) یا پھر وہ لوگ کلاس میں لیکچر لے رہے ہو ۔ مجال ہے جو انعم کا ایک بال بھی ادھر سے ادھر ہوا ہو یا اس کا مسکارا پھیلا ہو یا پھر اس کا دوپٹہ کبھی ہوا سے اڑا ہو (اگر اس نے لیا ہوا ہو تو)۔ وہ ایسے چلتی تھی جیسے کیٹ واک کر رہی ہو۔گندی ڈیسک پر بیٹھنے سے پہلے اسے ٹشو سے صاف کرتی اور پھر سینیٹائیزر استعمال کرتی ۔ اس کی ہیل کی ٹک ٹک اس کے آنے سے پہلے ہی اس کا پتہ دے دیتی ۔ مجموعی طور پر انعم دیکھنے میں ایسی ماڈرن لڑکی لگتی تھی جو پاکستانی اور انڈین سوپ میں معصوم ہیروئن کے ناک کے نیچے سے اس کا ہیرو چرا کر لے جاتی ہے۔
دوسرے نمبر پر ہانہ تھی ۔وہ اپنے آپ میں رہنے والی لڑکی تھی جو نظریں جھکا کر چلنے پر یقین رکھتی تھی اور اپنے گروپ کے علاوہ کسی سے تعلق کم سے کم ہی رکھتی تھی ۔ وہ پریزنٹیشن دینے جاتی تو ایسا لگتا کہ بیہوش ہو جائے گی ۔ اس کے باوجود وہ سب سے بہترین نمبر لے کر آتی تھی ۔ اگر بشائر پیاری تھی اور انعم سٹائیلش تو ہانہ خوبصورت تھی ۔ شاید اسی وجہ سے اس کا بھائی حسن ہمیشہ اس کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا جو کہ گروپ کا ان آفیشل ممبر بھی تھا ۔ ان آفیشل اس لیے کہ وہ ان سے ایک سال سینئر تھا اور اب پڑھائی سے فارغ ہو کر یونیورسٹی چھوڑ چکا تھا ۔ سو کلاسز میں تو اس کا بس نہیں چلتا تھا مگر کلاس سے باہر جب بھی جہاں بھی ان کا گروپ ہوتا تو وہ گروپ کا حصّہ ہوتا اور کبھی کبھار اپنی گرل فرینڈ کو بھی ساتھ لیے رکھتا جو اس کی کلاس فیلو تھی ۔ وہ لڑکا جو اپنی بہن کی طرف دیکھنے والے کو ایسے گھور کر دیکھتا کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اگلے انسان کی آنکھیں نکالنے کی دھمکی دے دیتا۔ اور تو اور اپنی بہن کی آنکھیں اٹھنے نہیں دیتا تھا، اس کو اپنی گرل فرینڈ کا ہاتھ پکڑ کر پوری یونیورسٹی کا چکر لگاتے ہوئے ذرا بھی حیا نہیں آتی تھی ۔ مگر دل پر کس کا بس ہے۔
چاہے حسن یونیورسٹی کے لڑکوں کی آنکھیں نکالے یا پھر ہانہ کی نظریں جھکائے، مگر ہر آنکھیں رکھنا والا انسان یہ دیکھ سکتا تھا کہ کیسے ہانہ کی نظریں بار بار اپنے گروپ کے ایک لڑکے پر پھسل پھسل جاتی تھی۔
اور وہ تھا ارمان … ہر آنکھیں رکھنے والا انسان ہانہ کی ارمان کے لئے چاہت دیکھ سکتا تھا سوائے ارمان کے ۔ ارمان بھورے بالوں اور صاف رنگت والا بڑا پیارا ہی انسان تھا ۔ اس کا بشائر سے سب سے زیادہ گٹھ جوڑ تھا ۔وہ اس سے آتے جاتے مذاق کرتا اور اس کے لیے یونیورسٹی کے لڑکوں سے ایسے ہی پیش آتا جیسے حسن ہانہ کے لیے آتا تھا ۔ مگر ہانہ تو حسن کی بہن تھی مگر وہ دونوں تو کزنز تھے سو اکثر لوگوں کو لگتا کہ ان دونوں کا افیئر چل رہا تھا مگر وہ چھپا رہے تھے۔ حلانکہ ان کے درمیان کی نوک جھونک ویسی ہوتی جیسے بہن بھائیوں کے درمیان ہوتی تھی۔ مگر لوگوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے ۔

ارمان کی سب سے بڑی خوبی (خرابی) یہ تھی کی وہ موصوف وقتاً فوقتاً لیکچر کے دوران سوئے ہوئے پائے جاتے اور پریزنٹیشن کے درمیان آدھے پوائنٹس بھول جاتے، اس کے باوجود اتنے نمبر لے آتے کہ ڈراپ آؤٹ ہونے سے بچ جائے۔
عزہ کو یقین تھا کہ ارمان کے بابا اس کو پاس کرواتے ہیں ۔ آخر کو وہ یونیورسٹی کے ٹرسٹی جو ہیں ۔ اپنے اسکا لر شپ کے انٹرویو کے دوران اس نے بالکل ارمان سے ملتا جلتا انسان دیکھا تھا جس کو وہ پہلے اس کا بڑا بھائی سمجھی تھی، مگر بعد میں پتا چلا کہ وہ اس کے والد صاحب تھے جب وہ اس کے دوستوں کواپنے گھر آنے کی دعوت رہے تھے۔
پھر آتا ہے روشان ۔ اگر انعم لڑکا ہوتی تو ایسی ہوتی جیسا روشان تھا ۔ مگر اس کی شخصیت میں بڑا پیارا سا اضطراب اور بکھراؤ تھا جو اس کی شخصیت کو پر کشش بناتا تھا ۔ وہ یونیورسٹی کا ہارٹ تھروب تھا ۔ جو ہر مہینے گرل فرینڈ بدلتا تھا ۔ ہر لڑکی جانتی تھی کہ وہ کتنا بڑا فلرٹ ہے مگر وہ پھر بھی ان کو یقین دلانے میں کامیاب ہوجاتا کہ وہ اس کی آخری محبت ہے اور بیچارہ روشان سدھر چکا ہے ۔ اور اس تبدیلی کی وجہ اس کی حالیہ گرل فرینڈ تھی جس سے اس کے پیار کی مدت زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ تھی ۔ بھلا جو لڑکے ماں کی جھڑکیوں سے نہیں سنبھلتے وہ بھلا محبوبہ کی پیار بھری باتوں سے سدھر سکتے ہیں ؟ سب ڈراموں کے ڈھکوسلے ہیں۔
پھر آخرمیں وہ تھا، راجہ غازی ۔ سب سے الگ، سب سے انوکھا ۔ نہ ہی وہ ارمان کی طرح لاپروا تھا، نہ ہی روشان کی طرح شوخی باز ۔ وہ ایسا انسان تھا جس کے لیے الفاظ کم کم ہی بنے تھے اور جو بنے تھے وہ بتلانے والے کو سب کچھ بھلا دیتے تھے ۔ اس کو دیکھ کر عزہ کو نہ جانے کیوں سکون کا احساس ہوتا تھا ۔ اسے ایسا لگتا کہ اس کی اندھیری دنیا میں جیسے کوئی ستارہ ٹمٹمایا ہو۔

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے