افسانے

تاروں بھری عیدیں : ماریہ کامران

90 کی دہائی تھی۔
چاند مبارک، چاند مبارک کی صدائیں گلی میں بلند ہوئیں، مسجدوں سے سائرن کے بعد اعلان کیا گیا۔
’’ حضرات عید کا چاند نظر آگیا ہے کل بروز پیر یکم شوال کو عید الفطر منائی جائے گی ۔ شکریہ…‘‘
کمرے میں ٹی وی کے آگے بیٹھے چاروں بچے خوشی سے جھوم اٹھے ۔ اسی اثناء میں ٹی وی پر بھی عید کا چاند نظر آنے کے اطلاع دی گئی تھی ۔ چاروں بچوں نے ماں کے ساتھ چھت کی جانب دوڑ لگائی تھی ۔ باریک ٹوٹی ہوئی چوڑی جیساعید کاچاند دیکھ کر دعا مانگی تھی اور خوشی سے بھاگتے دوڑتے نیچے اتر آئے تھے ۔
اب ماں کے پاس کرنے کو بہت کام تھے ۔ ماں نے باورچی خانے کا رخ کیا تھا اور بچے چاند رات کی نشریات دیکھنے ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے ۔ ننھی سی ام حبیبہ کی نگاہ بار بار سلائی مشین کی جانب اٹھ رہی تھی ۔ اس کا عید کا ادھ سلا جوڑا سلائی مشین کی سوئی کے نیچے دبا ہوا تھا ۔ پاس ہی چھوٹا سا دوپٹہ رکھا تھا،جو ابھی بالکل کورا تھا ۔ کچھ فاصلے پر پیٹی پر اس کی دونوں بہنوں کے جوڑے اہتمام سے سلے رکھے ہوئے تھے ۔ گلابی رنگ کے جوڑوں پر کرن لگی تھی اور دوپٹے پر کرن کے ساتھ ستارے بھی لگے ہوئے تھے ۔ اس کا جوڑا ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ اچانک ہی عید کا چاند نظر آگیا ۔
ام حبیبہ نے بے چینی سے کمرے کے باہر نگاہ دوڑائی تھی ۔ماں تو ابھی تک مصروف تھی ۔ کچھ دیر بعد وہ پریشان سی شکل لیے باورچی خانے کی چوکھٹ میں کھڑی تھی۔
’’ ماں میرا عید کا جوڑا؟‘‘
’’ہاں میری بیٹی ! میں بس ابھی آکر مکمل کرتی ہوں ، تم فکر مت کرو، تمہارا جوڑا صبح تمہیں تیار ملے گا۔‘‘ ماں نے محبت سے پچکارا تھا ۔
وہ سر ہلا کر دہلیز سے ہٹ گئی تھی مگر اندر ننھا سا دل فکر مند تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کی بڑی بہن ماں کے پاس کھڑی تھی ۔
’’ ماں مہندی نہیں لگائیں گی ؟ ‘‘
’’لگاؤں گی میری بیٹی ‘ یہ دیکھو مہندی گھول کر رکھ دی ہے میں نے ۔ بس کھانا کھا لو پھر لگا دیتی ہوں ۔ ‘‘ ماں نے بہت محبت سے جواب دیا تھا ۔
وہ من ہی من مسکرائی تھی اپنی ننھی پریوں کی ننھی ننھی فکروں پر ۔ سب کی ہتھیلیوں پر گول گول ٹکیاں بنا کر ماں نے اس کے ارد گرد تنکے سے ننھے ننھے نقطے لگائے تھے ۔ تینوں بیٹیوں کی ہتھیلیاں سج گئی تھیں ۔
’’ ماں رنگ تو اچھا آئے گا نا؟‘‘ یہ منجھلی والی تھی۔
’’ ہاں میری جان! بہت گہرا آئے گا۔‘‘ ماں کی بات سن کر تینوں بیٹیوں کے چہرے خوشی سے جگمگا اٹھے تھے ۔ رات گہری ہوتی گئی نیند سے بوجھل آنکھیں لیے ام حبیبہ اپنی ادھ سوکھی مہندی کے خراب نہ ہونے کی فکر میں جاگ رہی تھی ۔ گاہے بگاہے نگاہ سلائی مشین پر بھی چلی جاتی جہاں ادھ سلا جوڑا رکھا تھا ۔ مہندی کے رنگ اور تاروں بھرے دوپٹے کا سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادیوں میں گم ہو چکی تھی ۔ صبح اٹھی تو جوڑا بھی مکمل تھا اور مہندی بھی خوب رچی تھی ۔ کورا ڈوپٹا اب ستاروں سے سج چکا تھا ۔ اس نے محبت سے اپنی ماں کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھا تھا ۔ جوڑا پہن کر وہ اترائی اترائی پھر رہی تھی۔
’’ بابا یہ دیکھیں میرا تاروں بھرا دوپٹہ…‘‘ اس نے ننھا سا دوپٹہ شانوں پر ٹکاتے ہوئے باپ کو دیکھا تھا ۔ کئی ستارے تو اس کی اپنی آنکھوں میں جگمگا رہے تھے۔
’’ ہاں بھئی میری بیٹی تو پری لگ رہی ہے ۔‘‘ باپ نے پیار سے کہا تھا۔ماں کی آنکھوں میں بھی محبت رقصاں تھی۔
ٌٌ٭…٭
آنکھوں کے آگے چھائی دھند کی دبیز تہہ کو اس نے ہتھیلیوں سے رگڑا تھا ۔ وہ اپنے کمرے میں بیڈ کے کنارے بیٹھی تھی ۔ ماں کی یاد پر آنکھیں بھر آئی تھیں ۔ ماں کو بچھڑے کئی سال بیت گئے تھے مگر چاند کی رات ان کی یاد شدت سے آتی تھی ۔ اس نے اپنی کوری ہتھیلیوں کو دیکھا تھا ۔ اس نے ایک آرٹ پالر میں بکنگ کروائی ہوئی تھی ابھی کچھ دیر میں وہاں سے لڑکی نے آ کر اس کی ہتھیلیاں سجا دینی تھیں مگر وہ ماں کی بنائی گول ٹکیاں ۔ اف… دل پھر تڑپا تھا۔
الماری میں اس کا قیمتی عید کا جوڑا لٹکا ہوا تھا مگر وہ گلابی رنگ کا تاروں بھرا دوپٹہ تو انمول تھا ۔ کچن میں اس کی ہیلپر مختلف پکوان بنانے میں مصروف تھی ۔ عید کی تیاریاں تو ہو رہی تھیں مگر وہ رونق اور محبت جو ماں کے گھر کی چاند رات میں نظر آتی تھی ‘ وہ ندارت تھی ۔ گزرے وقت کی افرا تفری میں چھپی ڈھیروں خوشیاں اب ہاتھ نہیں آتی تھیں ۔ یوں جیسے کہیں کھوگئیں ہوں ۔
اس کے شوہر اس وقت کسی عشائیے میں مدعو تھے ۔ اس نے مڑ کر اپنے دونوں بچوں کو دیکھا تھا جو بیڈ پر بیٹھے اپنے اپنے موبائل میں کوئی گیم کھیل رہے تھے ۔ ام حبیبہ کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں ۔ اس کے بچپن کی عیدوں اور چاند راتوں کے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کے کھلونے بھی کہیں کھو گئے تھے ۔ ان کے ہاتھوں میں موجود اس طلسماتی کھلونے نے ان کے بچپن کی ساری حقیقی رنگینیاں نگل لی تھیں ۔ اس نے تاسف سے سوچا تھا یہ آج کل کے بچے کیا جانیں۔وہ کیسی پرنور شبراتیں تھیں ، وہ کیسی رنگین چاند راتیں تھیں اور وہ عیدیں … وہ عیدیں کتنی میٹھی تھیں ۔ اپنے تاروں بھرے دوپٹے کے ساتھ اسے شدت سے وہ تاروں بھری عیدیں یاد آئی تھیں ۔ آنسوؤں نے پلکوں کی باڑ توڑ دی ۔ اس کی آنکھیں دھندلا گئیں اور پھر ایسی دھندلائیں کہ یہ دھند کبھی چھٹی ہی نہیں۔
ہر طرف آہیں ، سسکیاں۔دل سوز چیخیں، نوحے، ساتھ ساتھ صبر و شکر کے ترانے ۔ اللہ سے ثابت قدم رہنے کی دعائیں ۔ دل کی مضبوطی کی طلب اور ٹوٹے بکھرے خاندان ۔
آج چاند رات تھی ۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھی تھی مگر یہ گھر … یہ گھر کہاں ہے اب ۔ گھر تو ڈھے گیا تھا ۔ وہ اپنے ہی گھر کے ملبے پر بیٹھی مٹی سے اٹے بال اور چہرہ لیے اپنے بچوں کو دیوانہ وار پکار رہی تھی ۔ وہ تنہا بیٹھی تھی ۔ اسرائیلی اسٹرائیک میں اس کا پورا خاندان تباہ ہو گیا تھا ۔ بھائی اور بہنیں تو پہلے ہی شہید ہو گئے تھے ‘ اب اس کے شوہر اور بچے بھی چلے گئے تھے ۔ صرف وہی رہ گئی تھی ۔
یہ اذیت اسے برداشت کرنی تھی ۔ اس نے وہ رنگین چاند راتیں اور میٹھی عیدیں دیکھی ہوئی تھیں ۔ اسے یہ خونی اور ہولناک چاند رات بھی دیکھنی تھی اور صبح جب سورج طلوع ہوگا تو اسے عید کا وہ دن بھی دیکھنا تھا ‘ جس کے تمام خوبصورت رنگوں پر سیاہی پھیر دی گئی تھی ۔ مٹی کا ڈھیر بنا اپنا گھر اور مٹی سے اٹی اپنی خالی ہتھیلیاں دیکھتے وہ تڑپ تڑپ کے چلا رہی تھی۔
ماں میری تاروں بھری عیدیں کھو گئیں…
ماں میرا بھائی، میری بہنیں، میرا شوہر…
ماں میرے بچے کھو گئے…
یا اللہ مدد…
اللھم اصلح احوال المسلمین فی فلسطین
اللھم اصلح احوال المسلمین فی فلسطین
(آمین)

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page