صوفی: ام ہانی
’’ یہ سب تو میں نہیں جانتی اماں ۔ دوسال پہلے اظہر کی کمپنی کو ایک بڑی کمپنی نے خرید لیا تھا ۔ اس کے بعد سے کمپنی کے حالات بدل گئے ۔ نئے مالک نے جلد ہی حالات پہ قابو بھی پا لیا ، کمپنی سنبھل گئی اور ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا ۔ اظہر کئی سال سے کمپنی میں نوکری کر رہے تھے اسی لیے ان کی تنخواہ میں اچھا اضافہ ہوا تھا ۔کمپنی کے مالک بہت ہی اچھے انسان ہیں، جیسے کوئی فرشتہ ہوں ۔ ابھی اسی سال انہوں نے اظہر کے ساتھ مجھے بھی یہاں عمرے پہ بھیجا ہے ۔اپنے ملازمین کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ کسی بہت نیک ماں کی اولاد ہیں ۔ ہماری زندگی کے حالات یکدم ایسے بدل گئے ہیں اماں کہ یقین نہیں آتا ۔ میں نے بنائی کا ‘کام بھی کم کر دیا ہے ۔ کرتی ہوں لیکن پہلے کی طرح نہیں ۔اللہ نے ایسا سکھ دیا ہے کہ یقین نہیں آتا کہ اتنے سالوں بعدمیری زندگی میں بھی ایسا سکھ آ سکتا ہے ۔ اللہ کیسے رستے آسان کر دیتا ہے نا ۔ ‘‘
اماں مسکراتی رہیں ۔ وہ چاہتی تھیں کہ و ہ بولتی جائے ۔ اس کا یوں کھل کر بولنا انہیں اچھا لگ رہا تھا ۔
’’ ایک بات تو بتائیں اماں آپ کو کیسے پتا تھا کہ میرے دن یوں بدل جائیں گے ؟‘‘
وہ اکثر اماں کو یاد کیا کرتی تھی لیکن اسے پھر اماں کبھی دکھائی نہیں دی ۔ وہ کئی بار اسی وقت اسی سڑک پہ جا کر بیٹھی تھی لیکن اماں سے اس کی ملاقات پھر کبھی نہیں ہو سکی ۔اور اس وقت اللہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہاں اسے اما ں مل جائیں گی ۔
’’ کیوں کہ اللہ دنوں کو لوگوں کے درمیان بدلتا رہتا ہے ۔ تو نے بہت برے دن دیکھے ہیں ۔ اب اچھے دیکھ رہی ہے ۔ مزید بھی اچھے دیکھے گی ۔ زندگی یکساں نہیں رہتی بس انسان کو اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہئے ۔‘‘ خوشی کے آنسو لے کر اس نے اماں کی بات پہ انشاء اللہ کہہ دیا۔
’’ اب یقین آگیااپنی آنکھوں سے دیکھ کرکہ معجزے ایسے بھی ہوتے ہیں ؟‘‘ صفیہ نے سر جھٹ سے ہاں میں ہلایا ۔
’’ سچ اماں یہ معجزہ ہی تو ہے ۔‘‘
’’ تو اب یہ بھی یقین کر لے کہ تو صوفی ہے ۔ ‘‘ صفیہ ان کی بات پہ ہنس دی ۔ اس بات پہ وہ یقین نہیں کر سکتی تھی یہ طے تھا ۔
’’ چھوڑیں اماں ۔ میں کہاں اور صوفی کہاں ؟‘‘ اس نے سر جھٹک کر سامنے دیکھا ۔مطاف میں اب ایک بہت بڑا ملائشین گروہ داخل ہو رہا تھا ۔ وہ سب اونچی آواز سے لبیک اللھم لبیک پڑھ رہے تھے ۔ وہ انہیں دیکھنے لگ گئی جن کی تمام عورتوں کے لباس سبز رنگ کے تھے اور مردوں کے ہلکے نیلے رنگ کے ۔ عورتیں وسط میں چل رہی تھیں اور مرد اردگرد محافظوں کی صورت میں چلتے تھے ۔ محو سی وہ اس گروہ کو دیکھ رہی تھی جب اظہر برابر آ کر بیٹھے ۔
’’ ابھی تک کعبہ کو ہی دیکھ رہی ہو ۔ میں طواف بھی مکمل کر آیا ۔‘‘
اس نے چونک کر اظہر کو دیکھا ۔ اور پھر ایک چھناکا ہوا ۔ جیسے کچھ گم ہو گیا ہو ۔
’’اماں … ‘‘ اسے یاد آیا ۔ اس کے برابر تو اماں بیٹھی تھیں ۔اب کہاں گئیں ؟
’’ کون اماں ؟‘‘ اظہرپہلے حیران ہوئے ۔
’’ میری اماں کو گزرے بیس برس ہو گئے اور تمہاری اماں یہاں کہاں آ گئیں ؟‘‘ وہ یونہی ہلکے پھلکے انداز میں کہہ رہے تھے ۔
’’ وہ اماں یہاں بیٹھی تھیں ۔ کہاں گئیں ؟‘‘ اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ تیزی سے اردگرد نظریں دوڑانے لگی ۔
وہاں دور دور تک کوئی لاٹھی والی عورت نہیں تھی ۔ یکدم اماں کہاں چلی گئیں‘ یہیں تو تھیں ۔ پھر اسے وہ دن یاد آیا جب اماں اسے پہلی بار ملی تھیں ۔ تب بھی آن کی آن میں اماں ایک طویل سڑک پہ گم ہو گئی تھیں اور آج اس بھرے مجمعے میں کہیں کھو گئی تھیں ۔ وہ ہمیشہ کیسے نظروں سے اوجھل ہو جایا کرتی تھیں ؟
’’ وہ یہاں ایک اماں تھیں ۔ سفید عبائے والی ، اسی سال کے لگ بھگ،ہاتھ میں تسبیح اور لاٹھی تھی ۔بہت پرنور سا چہرہ تھا ، مسکراتا ہوا۔ کیا آپ نے ان کو دیکھا؟‘‘ اظہر نے اچنبھے سے شانے اچکائے ۔
’’ میں نے تو ایسی کسی اماں کو نہیں دیکھا ۔ ‘‘ صفیہ نے پھر سے آگے پیچھے ہو کر نظریں دوڑائیں ۔لیکن اس کی نظروں بامراد نہیں لوٹیں ۔
’’ چلو چلتے ہیں ۔ آج سر نے رات کے کھانے پہ مدعو کیا ہے ۔ ابھی ہوٹل جا کر تیار بھی ہونا ہے ‘ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔ باس کو انتظار کروانا اچھی بات نہیں ہے ۔‘‘
ان کی کمپنی کے باس بھی ان دنوں عمرے پہ آئے ہوئے تھے ۔ ان کا یہاں مکہ میں اپنا اپارٹمنٹ تھا ۔ وہیں وہ ٹہرے ہوئے تھے ۔ ان کی فیملی بھی ہمراہ تھی ۔ صفیہ اسی طرح الجھی سی اظہر کے ساتھ چلتی گئی لیکن نظریں ابھی تک اماں کی تلاش میں سرگرداں تھیں ۔ اماں کو نہ ملنا تھا نہ ملیں ۔
اسی طرح الجھی سی وہ رات کے کھانے پہ بھی کھانا کھاتی رہی ۔ کھانے پہ بس باس اور ان کی بیگم تھیں ۔ بچے اپنی فیملیز کے ساتھ حرم گئے ہوئے تھے ۔
باس کی بیگم کی سادہ لوحی سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنی بڑی کمپنی کے مالک کی بیگم ہیں اور یہی حال باس کا بھی تھا ۔ ہر ادا سے منکسر المزاجی عیاں ہوتی تھی ۔ اتنے حسب نسب والے انسان کم ہی عاجز ہوتے ہیں ۔ لیکن آج ان میاں بیوی سے ملنے کے بعد اس کا نظریہ بدل گیا تھا ۔
’’ آپ پہلی بار عمرہ کرنے آئی ہیں؟‘‘ اس نے مسز حشمت کی کسی بات کے جواب میں سوال کیا تو وہ مسکرا دیں ۔
وہ عمر میں کوئی لگ بھگ پچاس برس کی گریس فل سی خاتون تھیں ۔ بچے جوان تھے ۔ دو کی شادیاں بھی کر چکی تھیں ۔ پوتے پوتیوں والی تھیں لیکن بہت ہی چاق و چوبندشخصیت کی مالک تھیں ۔ سارا کھانا انہوں نے خود بنایا تھا ۔ یہاں تو چلو ملازمین نہیں تھے شاید اسی لیے بنا لیا ہو گا لیکن حشمت سر بتا رہے تھے کہ وہ پاکستان میں بھی کھانا خود بناتی تھیں ۔
’’ کئی سالوں سے مسلسل آ رہے ہیں ۔ یاد نہیں کتنے سال ہو گئے۔‘‘ایسا کہتے ان کے لہجے میں کوئی فخر یا غرور نہیں تھا ۔ بس سادہ سا بے ریا لہجہ ۔صفیہ نے سر ہلا کر ماشاء اللہ کہا ۔ اسے ان کی شخصیت اچھی لگی تھی۔
’’دراصل میری ساس کو بہت شوق تھا اللہ کے گھر کی زیارت کا ۔ وہ ہر سال یہاں آتی تھیں اور ہمیں بھی لاتی تھیں ۔ دو سال پہلے ان کا انتقال ہوا تو اس کے بعد میں اور حشمت ہی بچوں کو لے کر آتے ہیں ۔ان کی خواہش تھی کہ ہم ہر سال عمرہ کریں اور ایسے لوگوں کو بھی کروائیں جو اس کی اسطاعت نہیں رکھتے کیوں کہ اللہ کے گھر کے لیے ہر مسلمان کا دل مچلتا ہے ۔ امی کہتی تھیں کہ انسان کی استطاعت ہو تو خوب اللہ کے گھر کی زیارت کرے ۔ فقر دور ہوتا ہے اور دل اللہ سے جڑا رہتا ہے ۔‘‘ اظہر نے بتایا تھا کہ کمپنی کے نئے مالک کی پالیسی ہے کہ وہ ہر سال اپنی کمپنی کے تین ملازموں کو بیگم سمیت عمر ے پہ بھیجتے ہیں ۔ اس سال ان کی باری تھی ۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تھا ۔ مردوں کی محفل میں تو کمپنی کی باتیں ہی کی جا رہی تھیں اسی لیے مسز حشمت نے صفیہ کو ساتھ لیا اور ہال کے ہی ایک کونے میں چلی گئیں جو شاید گھر کا سٹنگ ایریا تھا ۔
’’ امی بہت اللہ والی تھیں ۔ زندگی بہت مشکل گزاری تھی انہوں نے ‘ ساری زندگی بہت محنت کی تھی ۔ بہت فقر دیکھا ۔ بہت بیماری کاٹی لیکن کبھی کسی تکلیف پہ اف نہیں نکلی ، کسی کے خلاف کوئی بات نہیں نکلی … حالاں کہ اپنے رشتوں تک نے انہیں اکیلا چھوڑ دیا ۔اپنے شوہر کی وفات کے بعد بچوں کو اکیلے پالا اور شوہر کی آبائی جائیداد کے لیے اکیلے ان کے خاندان سے بھی لڑیں ‘ کوٹ کچہریاں بھگتائیں ۔ حشمت بتاتے ہیں کہ بہت ہی صابر اور سادہ مزاج تھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بہت ہی مضبوط عورت تھیں ۔ بہادر اور نڈر ۔تبھی تو تنہا اپنے بچوں کو پالا اور ان کے باپ کی جائیداد میں انہیں ان کا حق بھی دلوایا ۔ تھیں تو وہ میری ساس اور بہوئیں ساسوں کی کم ہی تعریف کیا کرتی ہیں لیکن شاید ہی میں نے ان سے بہتر خاتون اپنی زندگی میں دیکھی ہوں ۔ ‘‘ مسز حشمت نے سامنے رکھے فریم کو دیکھتے ہوئے ساری بات کی اور اختتام پہ فریم کو صفیہ کی طرف کر کے سیدھا کیا ۔ صفیہ کی نظر اس فریم پہ پڑی تو وہ ٹھٹک گئی ۔
’’ اماں ۔‘‘ اس کے لبوں سے نکلا اور نظریں پھیل گئیں ۔
’’کیا آپ جانتی ہیں امی کو ؟‘‘ صفیہ نے ہونقوں کی طرح مسز حشمت کو دیکھا ۔
’’ میں دو سال قبل ان سے ایک سڑک پہ ملی تھی ۔ ‘‘
’’ دو سال پہلے ہی امی فوت ہوئی ہیں ۔ یقینا آپ ان سے آخری دنوں میں ملی ہوں گی ۔ وہ اپنے آخری وقت میں اکثر گھر سے نکل جایا کرتی تھیں ۔گھر میں کم ہی رہتی تھیں ۔ امی سے جو ملتا تھا کبھی انہیں نہیں بھولتاتھا ۔ ان کی شخصیت ہی ایسی تھی کہ عجیب سا سحر تھا ان میں ۔‘‘
’’لیکن میں تو آج دن میں بھی ۔‘‘ کچھ کہتے کہتے صفیہ کی زبان رک گئی ۔ اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
’’ دو سال ۔‘‘ اسے یاد آیا کہ ابھی مسز حشمت نے بتایا تھا کہ اماں دو سال پہلے وفات پا چکی تھیں ۔
بے یقینی سے اس نے مسز حشمت کے ہاتھ سے فریم تھام لیا ۔ وہ اماں ہی تھیں ۔ سادہ سفید لباس میں ملبوس، مسکراتی ہوئیں ۔ اس نے بے یقینی سے سر کو نفی میں ہلایا ۔ سب کچھ خواب جیسا تھا ۔ شاید اس نے کچھ دیر پہلے مطاف میں بیٹھ کر خواب ہی دیکھا تھا ۔
’’ حشمت بہت محبت کرتے ہیں امی سے ۔ ان کی وفات کے بعد سے اکثر انہیں خواب میں دیکھتے ہیں ۔ جب پریشان ہوں تو امی خواب میں آ کر بہت بار ان کی رہنمائی کرتی ہیں ۔ یہ کمپنی بھی انہوں نے امی کے مشورے سے خریدی تھی حالاں کہ میں اس حق میں نہیں تھی کہ وہ کوئی چھوٹی اور ڈوبتی ہوئی کمپنی خریدیں ۔ میرے نزدیک یہ سراسر خسارے کا سودا تھا لیکن امی نے خواب میں آ کر کہا کہ اس کمپنی کے لوگوں کو ان کے سہارے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے بنا سوچے سمجھے یہ کمپنی خریدی اور دو سال کے اس محدود وقت میں نہ صرف کمپنی سے انہیں فائدہ ہوا بلکہ کمپنی کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے ۔ ڈوبتا ہوا جہاز جیسے پھر سے سطح پہ پوری شان سے تیرنے لگا ہے ۔ ‘‘
صفیہ سانس روکے سب سن رہی تھی ۔یہ سب کیا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ دو سال پہلے اسے اماں ملی تھیں ۔ دو سال پہلے ہی اظہر کی کمپنی بکی تھی اور یہ نئے مالک اماں کے بیٹے تھے جنہوں نے کمپنی خریدی تھی۔
’’ اماں نے اپنی زندگی میں کئی لوگوں کی مدد کی ہے اور اب بھی حشمت کے خواب میںآ کر ان کی مدد کرتی ہیں ۔ وہ اپنے خواب مجھے اس ڈر سے بیان نہیں کرتے کہ اماں کہیں خواب میں آنا چھوڑ ہی نہ دیں ۔ اسی لیے میں بھی زور نہیں دیتی کہ وہ مجھے بتائیں ‘لیکن اماں کو خواب میں دیکھ کر وہ ہمیشہ بہت مطمئن ہو جاتے ہیں ۔‘‘
اس کی کیفیت ناقابل بیان تھی اور حالت عجیب ہو رہی تھی ۔ ہاتھوں میں لرزش تھی اور ہونٹ کپکپا رہے تھے ۔
’’ آپ ٹھیک ہیں مسز اظہر ؟‘‘مسز حشمت یکدم گھبراگئیں ۔ صفیہ نے سر ہلایا ۔ جو اس پہ عیاں ہو رہا تھا وہ ناقابل فہم ہونے کے ساتھ ناقابل یقین بھی تھا ۔
’’ شاید آپ کو یہ باتیں بورنگ لگ رہی ہیں ۔ آپ کو کیا بھلا ہماری امی کی باتوں سے ۔‘‘ انہوں نے چائے کے ساتھ بنایا کیک اس کی طرف بڑھایا ۔
’’ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔ ‘‘ صفیہ خواہ مخواہ نادم ہوئی ۔ وہ کیا بتاتی کہ وہ کس حقیقت کا سامنا کر رہی تھی جو خواب تھا اور حقیقت بھی ۔
’’ اماں توصوفی تھیں ۔‘‘ صفیہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
’’ یقینا وہ صوفی تھیں ۔ وہ کہتی تھیں کہ بندہ ہر قسم کے حالات کو برداشت کر کے بنا شکوہ شکایت کے جی رہا ہو تو وہ صوفی بن جاتا ہے ۔اماں ایسی ہی تھیں۔‘‘
’’ تُو صوفی ہے ۔‘‘صفیہ کے کانوں سے اماں کا جملہ ٹکرایا۔
’’ معجزے تیرے جیسوں کے ساتھ ہی تو ہوتے ہیں ۔‘‘اور اس کی آنکھ سے بے ساختہ ایک آنسو ٹپکا ۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کیا تھا ۔ معجزہ یا انہونی ۔روحانی ارتقا کی کوئی منزل تھی یا کوئی خواب ۔ جو بھی تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہوا تھا اور کیوں ہوا تھا ۔ اسے لگا اماں مسکرا کر اس سے سوال کر رہی ہیں۔
’’ اب بھی یہی کہے گی کہ معجزوں پہ یقین نہیں ہے ؟‘‘
اس کے پاس ڈھیر سوال تھے لیکن کسی سوال کا کوئی جواب نہ تھا ۔ شاید ہی اب اسے اماں دوبارہ کبھی ملنا تھیں جو اسے کسی سوال کا جواب دے پاتیں ۔
زندگی میں بعض سوالوں کے کوئی جواب نہیں ہوا کرتے ۔
ختم شد