ناولٹ

صوفی: ام ہانی

’’ صفیہ تم کب آئیں ؟بچیاں ٹھیک ہیں ؟‘‘ اس نے نرمی سے مسکراتے بھائی سے دعا سلام کی ۔
’’ آئی ہو تو کچھ چیزیں تمہاری بھابھی نے رکھی ہوئی ہیں ‘ وہ لے جانا ۔ ہمیشہ چیزیں نکال نکال کر رکھتی ہے کہ صفیہ کی بچیوں کے کام آئیں گی۔‘‘
وہ جانتی تھی کہ بھابھی نے اپنے بچوں کے وہ کھلونے نکال کر رکھے ہوں گے جو اب بچے استعمال نہیں کرتے ۔ لیکن وہ اتنا نہیں کہہ سکتی تھی کہ اس کی بچیاں بھی اب کھلونوں سے کھیلنے کی عمر سے نکل چکی ہیں ۔ انہیں ایسے کھلونوں کی ضرورت نہیں رہی ۔
امی جی تھوڑی دیر میں اس کے لیے فیرنی نکال لائی تھیں ۔ اپنی ماں کے گھر بھی کھانے میں جھجکتی تھی ۔ جب تک امی نے نہیں ڈال کر دیا اس نے ہاتھ نہیں بڑھایا ۔
’’ ہاں میں نے بھی کچھ کپڑے نکالے تھے بچیوں کے لیے ۔ کچھ جوتے اور جیولری تھی‘ وہ بھی لے جانا۔‘‘
مدیحہ کو شروع سے ہی بہت کپڑے بنانے کا شوق تھا ۔ پچھلے کپڑے وہ یونہی چٹ پٹ فارغ کر دیا کرتی حالاں کہ بالکل نئے ہوتے تھے ۔ ہمیشہ اپنے کپڑے نکال کر اسے دے دیتی کہ وہ استعمال کر لے ۔ وہ بھی رکھ لیتی کہ نئے نکور ہی تو ہوتے تھے ۔ ذرا سی تبدیلی سے اسے بالکل فٹ ہوتے تھے ۔ جن کپڑوں کو مدیحہ فارغ کر دیتی وہ انہیں باہر پہننے کے لیے رکھ لیتی ۔ گھر میں تو وہ بالکل ردی جوڑے استعمال کرتی تھی ۔ پہلے مدیحہ کے سبھی کپڑے وہ خود پہن لیا کرتی تھی لیکن اب جسم بھاری ہونے کی وجہ سے زیادہ تر بچیوں کو مرمت کر دیتی ۔ اس کی بچیاں ہمیشہ مدیحہ یا رضیہ باجی کی بیٹیوں کے کپڑے ہی پہنتی آئی تھیں ۔ کم از کم اس طر ف سے اسے فکر نہیں تھی کہ بچیوں کے کپڑے جوتے کہاں سے پورے کرے گی ۔
امی جی اس کو خاندان بھر کی خوشیوں غموں کے قصے سنانے لگیں ۔ کس کا بیٹا ہوا، کس کی بات پکی ہوئی ، کون بیمار ہے اور کون بستر مرگ پہ …
لیکن ہر دوسری بات کے اختتام پہ ایک جملہ ضرور کہہ جاتیں جو اسے غیر آرام دہ کر دیتا ۔
’’ تم نے تو کسی کے ہاں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ۔ نہ کبھی کسی سے ملیں نہ فون کیا ۔ سب اتنا پوچھتے ہیں تمہارا کہ کبھی صفیہ بھی شکل دکھا جائے ۔ لیکن شادی غمی میں بھی تمہارا آنا جانا نہ ہونے کے برابر ہے ۔‘‘
وہ اس جملے پہ کڑھ کر رہ جاتی ۔ آنے جانے کے لیے بھی رقم چاہئے ہوتی ہے لیکن وہ بھرے بٹوؤں اور پیٹوں والے لوگ نہیں سمجھ سکتے ۔
دروازے پہ دستک ہوئی تو امی جی دیکھنے باہر گئیں ۔ اس نے سر گھما کر گھر کا جائزہ لیا تو لاؤنج میں انگنت نئی اشیاء کا اضافہ دکھائی دیا ۔ اس نے بڑھتے بوجھ کے ساتھ نظریں پھیر لیں ۔ اس کے اپنے گھر میں چیزوں کا اضافہ تبھی ہوتا تھا جب دوسروں کے گھر میں اس کی ضرورت نہیں رہتی تھی ۔ جیسے امی جی کے گھر ، باجی کے یا حسین کے گھر ۔ خو د سے وہ گھر کے لیے کچھ نہیں خریدتی تھی ۔ مانگے کی چیزیں ہی گھر کا حسن بڑھا دیتی تھیں ۔
’’ مانگنے والے صبح سے جو دروازے بجانا شروع کرتے ہیں تو جان ہی نہیں چھوڑتے ۔ مہینہ شروع ہوتے ہی لمبی لائن لگ جاتی ہے مانگنے والوں کی ۔ ‘‘
امی نے بٹوے سے لال لال نوٹ نکالے تاکہ مانگنے والی کو دے سکیں ۔ اسی بٹوے سے کبھی اس کے لیے لال نیلے کوئی نوٹ نہیں نکلے تھے ۔ وہ جو ان کی بیٹی تھی اور پائی پائی کر کے جوڑتی تھی ، وہ مانگتی نہیں تھی ، ہاتھ نہیں پھیلاتی تھی ، کبھی اپنی ضرورت نہیں بتاتی تھی اسی لیے سب سمجھتے تھے کہ وہ محتاج نہیں ہے ۔اس کی نظریں جھک گئیں ‘ دل بھر آیا…
کاش کہ ہم جان سکیں کہ بہترین صدقہ تو اپنوں پہ خرچ کرنا ہوتاہے ، خاص طور سے ان اپنوں پہ جو اپنی ضروریات ڈھنگ سے پوری نہ کر سکیں ۔
’’ چلتی ہوں امی جی ، دیر ہو رہی ہے ۔ بچیاں پریشان ہو رہی ہوں گی ۔‘‘ زیادہ دیر وہاں بیٹھتی تو دل کا بوجھ اتنا بھی بڑھ سکتا تھا کہ دل پھٹ جاتا اور اسے اپنی اولاد کے لیے جینا تھا ۔
’’ کھانا تو کھا کر جانا ‘ قیمہ مٹر بنایا ہے اور ساتھ مرغ پلاؤ ۔ تمہیں پسند ہے نا ۔ ‘‘ امی نے پکارا۔
وہ پھیکا سا مسکرا دی۔اپنی پسند نا پسند کا اس نے سوچنا چھوڑ دیا تھا۔اب تو وہ بچیوں کی پسند نا پسند کا سوچتی تھی اور اس کی صابر بچیاں خاموشی سے دالیں اور آلو کھا لیا کرتی تھیں۔کسی خاص تہوار پہ جیسے عید،بچیوں کی سالگرہ پہ وہ مرغ مسلم کی عیاشی کیا کرتی تھی۔
’’ کھانا کھانے بیٹھ گئی تو دوپہر ہو جائے گی ۔ پھر واپس جانا بڑا مشکل ہو جائے گا اس گرمی میں ‘ بچیاں بھی پریشان ہوں گی ۔ اسی لیے چلتی ہوں ۔‘‘
عجب حالات زندگی تھے ۔ میکے آتی تو یہاں کے ماحول میںاس کا دم گھٹتا کہ وہ کس طرح جی رہی ہے اور اس کے اپنے کس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ گھر میں بند رہتی تو شکوؤں کا ایک طوفان رخ کر لیتا کہ وہ کہیں آتی جاتی نہیں ہے ۔
’’ سامان تو لیتی جاؤ۔اتنا کچھ رکھا ہے تمہارے لیے ۔ ‘‘
اسے اپنا آپ اس وقت ایک نوکرانی کا سا لگ رہا تھا جو جب کام ختم کرکے گھروں سے جاتی ہیں تو مالک فالتو سامان انہیں تھما دیتے ہیں کہ ان کے کام آجائے گا ۔ گھر کی بچی کچھی، زائد‘ از ضرورت چیزیں جو نوکروں کو دی جاتی ہیں ، اس کے میکے میں اسے دے دی جاتی تھیں۔
’’ امی جی اتنے بڑے بھاری تھیلے اٹھا کر پیدل کیسے اتنی دور جاؤں گی ۔ اظہر سے کہہ دوں گی‘ وہ آفس سے واپسی پہ لے جائیں گے ۔ان کے پاس تو موٹر سائیکل ہے نا ۔ اسی پہ رکھ لیں گے سب ۔‘‘
’’ رکشہ کر لینا نا ۔ پیدل کیوں جاؤگی ؟ گرمی دیکھو باہر ، پیدل جانے کا حا ل ہے کیا ؟‘‘
اس نے ماں کی صور ت دیکھی کہ کیا وہ نہیں جانتی وہ پیدل کیوں جائے گی ۔کیا وہ اس کے حال سے سچ میں واقف نہیں تھیں یا یونہی کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنا چاہتی تھیں ۔ اس مہنگائی کے دور میں اب رکشے والا بھی پانچ سو سے کم کی بات نہیں کرتا تھا ۔ لیکن امی جی یہ بات کیسے جانتیں جو رکشے پہ بیٹھتی ہی نہیں تھیں ۔
وہ اللہ حافظ کہہ کر نکل آئی تھی ۔
٭…٭
’’ حالات کی ماری لگتی ہے ۔ ‘‘ اماں نے ہنکارا بھرا تو وہ ہوش میں آئی ۔
اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو جگمگا رہے تھے ۔ وہ پھیکا سا مسکرا دی اور آنسوؤں کو پرے دھکیل دیا۔
’’ اپنوں کی ماری بھی اور حالات کی ماری بھی ۔ زندگی نے ہر طرف سے مارا بہت ہے ۔ بس مجھے ڈھنگ سے اف کرنا نہیں آیا ۔‘‘ اس نے دل میں ہی سوچا تھا ۔
ایسی باتیں کہنا اس نے کبھی سیکھا ہی نہیں تھا ۔لیکن انسان محسوس تو سب کرتا ہے ، یہ اور بات کہ اظہار نہیں کرتااور وہ بھی تھی تو آخر ایک انسان ہی ۔
’’ تیرے گھر والے تجھے نہیں پوچھتے کیا ؟‘‘
اس نے اماں کو زخمی نظروں سے دیکھا اور پھر سر جھکا لیا ۔اس کے جھکے چہرے پہ ایک دکھ چسپاں تھا ۔ لب ضبط سے کپکپا رہے تھے لیکن وہ بس خاموشی سے ہاتھوں کو آپس میں مسلتی رہی ۔ اماں نے اپنا جھریوں بھرا ہاتھ اس کے سر پہ پھیرا ۔
’’ کچھ نہیں کہے گی کسی کے بارے میں ‘ہے نا ؟دل بھرا ہوا ہے لیکن پھر بھی خالی نہیں کرے گی ۔ بڑے ظرف والی ہے جو سب اندر ہی رکھنا چاہتی ہے ۔ کسی کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہنا چاہتی۔‘‘ وہ اماں کی اس بات پہ بھی ہنوز سر جھکائے خاموش ہی رہی ۔
’’ لوگ تو پوچھے بنا ہی دوسروں کی مٹی پلید کرنا جو شروع کرتے ہیں تو خاموش ہی نہیں ہوتے ۔ وہ وہ کہہ جاتے ہیں جو شاید حقیقت میں ہوا ہی نہیں ہوتا ۔ اور تو پوچھنے پہ بھی لب نہیں کھول رہی ۔ اتنا ضبط کرنا کہاں سے سیکھاہے ؟‘‘ وہ اپنے تھیلے کے بل دور کرنے لگی اور سامنے آتی جاتی ٹریفک کو خالی نظروں سے دیکھنے لگی اور اماں اسے دیکھنے لگیں ۔
’’ تو صوفی ہے ۔‘‘
اس نے سر اٹھا کر اماں کو دیکھا ۔
’’ میرا نام صفیہ ہے اماں ۔‘‘
اماں مسکرا دیں ۔
’’ تیرا نام نہیں، تیراوصف بتا رہی ہوں ۔ جو بندے سے بندے کا شکوہ نہ کرے وہ صوفی ہی ہوا پھر ۔ ‘‘
’’ کہاں میں، کہاں صوفی … ؟ میں تو عام سی عورت ہوں جو دن میں بس پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہے اور بس ۔‘‘ اماں نے سر پہ ہاتھ کی گرفت بڑھا دی ۔
’’ تو عام نہیں ہے کیونکہ جو وصف تیرے پاس ہے وہ ہرکسی کے پاس نہیں ہوتا اور اللہ کو یہ وصف کتنا محبوب ہے وہ دنیا میں رہ کر نہیں پتا چلتا۔‘‘
اماں اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ رب تجھے بھاگ لگائے گا اور دنیا دیکھے گی ۔تب میں تجھ سے پوچھوں گی کہ اب بتاتو صوفی ہے کہ نہیں ۔‘‘ اس نے سر اٹھا کر اماں کو دیکھا ۔
’’ معجزے ہم جیسوں کے ساتھ ہو سکتے ہیں کیا ؟‘‘
’’ معجزے ہم جیسوں کے ساتھ ہی ہوا کرتے ہیں جو یقین کر کے جیتے ہیں اور چپ رہ کر سہتے ہیں ۔ بس وقت لگتا ہے ۔ تیرا وقت بھی آئے گا ‘ جسے تو دیکھے گی تو تبھی یقین کرے گی ۔‘‘
’’ میرے شوہر کی کمپنی بہت خسار ے میں جا رہی ہے ۔ سننے میں آ رہا ہے کہ مالک کمپنی بند کررہے ہیں ۔ اٹھارہ سالوں سے اسی کمپنی میں ہیں ۔ دعا کریں اماں کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور سب ٹھیک ہو جائے ۔ کمپنی کبھی بند نہ ہو ۔‘‘ یہ وہ پریشانی تھی جو اسے اندر سے کھارہی تھی لیکن وہ کسی سے کہتی نہیں تھی ۔
’’ تیرے شوہر کی کمپنی کا جو مالک ہے نا ، اس کا بھی ایک مالک ہے جو سب کاجانتا ہے ۔ وہ نکالے گا رستے ‘ تجھے یقین نہیں ہے کہ وہ رستے نکال سکتا ہے ؟‘‘ صفیہ نے سر ہلایا ۔
’’ یقین تو ہے اللہ پہ لیکن اسباب جو بظاہر دکھائی دے رہے ہیں وہ کبھی کبھار ہولا دیتے ہیں۔‘‘
’’ اسباب بھی اللہ بناتا ہے ‘ وہ بنا ہی دے گا ۔ یقین کیا ہے تو شک مت کر ‘ یقین ہی رکھ ۔ ‘‘ اماں نے اس کا ہاتھ تھپکا ۔ نجانے کیا تھا اس لمس میں کہ صفیہ کو سکون سا آگیا ۔
’’ اب شک کو بھٹکنے بھی نہیں دوں گی ۔‘‘ وہ ہولے سے مسکرا دی ۔ اماں نے بھی نرمی سے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
’’ چل اب چلیں ۔ گرمی بڑھ رہی ہے ۔ پھر گھر کا سفر کاٹنا مشکل ہو گا ۔ ‘‘ اماں لاٹھی ٹیکتی آگے بڑھنے لگی۔
اس نے بھی جوتی پھر سے پاؤ ں میں اڑسی اور تھیلا اٹھا کر کھڑی ہوئی ، چادر ٹھیک سے اوڑھی اور مڑ کر اماں کو دیکھا ۔ لاٹھی ٹیک کر جاتی اماں اب کہیں نہیں تھی ۔ اس نے حیران پریشان ہو کر لمبی سڑ ک کو دیکھا جو طویل تھی مگر خالی تھی ۔
’’ اماں ۔‘‘ ادھر ادھر درختوں کے جھنڈ کی طرف اس نے جھانکا اور پکارامگر اماں کہیں نہیں تھی ۔ وہاں فٹ پاتھ دور تک خالی تھا ۔ سڑک پہ بس ٹریفک رواں دواں تھی ۔
’’ کہاں گئی اماں ؟ادھر ہی تو تھی ۔اتنی جلدی کہاں جا سکتی ہے ؟‘‘ وہ ہونقوں کی طرح تھیلا تھامے کھڑی تھی ۔ سڑک پہ ٹریفک آ جا رہی تھی لیکن اماں کہیں نہیں تھی ۔
’’ شاید کسی گاڑی میں بیٹھ کر نکل گئی ہو۔‘‘ اسی سوچ کے ساتھ اس نے سر جھٹکا اور پیدل ہی وہ بھی گھر کی طر ف نکل دی ۔
اس دن کے بعد اسے اماں کبھی نہیں ملی ۔
٭…٭
وہ زم زم پی کر ایک طرف بیٹھی اور اللہ کے گھر کے کالے رنگ کو اپنے اندر اتارنے لگی ۔ اتنا پرنور منظر تھا کہ دیکھ دیکھ کر بھی جی نہیں بھرتا تھا ۔ کبھی تو وہ محض ایک کونے میں بیٹھ کر گھنٹوں کعبہ کو دیکھا کرتی تھی اور کوئی عبادت نہیں کرتی تھی ۔ پھر اگلی نماز کا وقت ہوتا تو اٹھ جاتی اور پھر سے اسی طرح بیٹھ کر دیکھنے لگتی ۔ اظہر ہنستے تھے کہ لگتا ہے صفیہ بانو پاکستان سے بس کعبہ کو سکون سے بیٹھ کر دیکھنے آئی ہے ۔یہ سچ بھی تھا کہ وہ باقی تمام زائرین کی طرح گھنٹوں عبادت کرنے کی بجائے بس کعبہ کو دیکھنے کا کام ہی کرتی تھی ۔ نجانے کیوں اسے عجب سکون ملتا تھا ۔اندر سے محبت کے سوتے تھے جو پھوٹتے تھے ۔
اس وقت بھی وہ اسی کام میں منہمک تھی تو کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا ۔ صفیہ نے مڑ کر دیکھا تو اماں بیٹھی تھی ۔
’’ اماں ؟‘‘ حیرت سے اس نے اماں کو دیکھا ۔
دو سال کے بعد اسے اماں پھر سے ملی بھی تو کہاں ؟ اللہ کے گھر میں ، کعبے کے سامنے ۔ حیرت صد حیرت ۔ اماں اس دن جیسے ہی سفید عبائے میں ملبوس تھی، ہاتھ میں تسبیح اور لاٹھی تھی ۔ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔
’’ اماں آپ یہاں کیسے ؟‘‘
’’ میں تو یہاں جیسے بھی آ گئی تو بتا تو یہاں کیسے آگئی ؟ حالات ٹھیک ہو گئے تیرے ؟ اب تو خوش لگ رہی ہے پہلے سے بہت ۔ لگتا ہے کہ زندگی میں سکون آ ہی گیا ہے جسے تو ڈھونڈتی تھی ۔ ‘‘ اماں دو سال بعد اس سے ٹکرائی تھی اور اب تک اماں کو وہ دن اسی طرح یاد تھا جیسے کل کی بات ہو ۔
’’ مجھے تو خود یقین نہیں آتا کہ میں یہاں تک کیسے پہنچ گئی ہوں ۔ لیکن اللہ کا فضل ہی ہے جس نے یہاں تک پہنچا دیا ۔ورنہ میں کہاں اور یہ مقام کہاں۔‘‘ وہ خوشی خوشی اماں کو بتا تے نم آنکھوں سے اللہ کے گھر کو دیکھنے لگی۔
’’ میں نے کہا تھا ناکہ اللہ تجھے بھاگ لگائے گا اور دنیا دیکھے گی ۔اب دیکھ کیسے دنیا دیکھ رہی ہے ۔‘‘ اماں نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا ۔ اس کی خوشی پہ اسے خوشی ہوئی تھی ۔
’’ سچ کہا تھا اماں ۔ بالکل سچ کہا تھا ۔ نجانے کیسے یہ سب ہوتا چلا گیا ۔ ایسا لگتا ہے اللہ ایک ایک کر کے تما م بند دروازے کھولتا چلا گیا ۔ رستے بنتے چلے گئے ۔ آسانیاں آتی چلی گئیں ۔‘‘
’’ تو نے یقین پختہ کیا ہو گا ، شک کو بھٹکنے نہیں دیا ہو گا ۔ ‘‘ اماں نرمی سے مسکرا دیں ۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page