صوفی: ام ہانی
باجی نے مکان سے حصہ لے لیا ۔ حسین پورا پورشن مل کر بیٹھ گیا ۔ چھوٹی مدیحہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی نچلے پورشن میں امی جی کیساتھ رہنے لگی ۔ بہانہ یہ تھا کہ امی ابو اکیلے ہیں تو ان کی دیکھ بھال کیلیے کوئی بندہ تو چاہئے ۔ دیکھ بھال تو وہ کرتی تھی لیکن اس کا خراج بھی وصول کر رہی تھی ۔ نیچے والے پورشن کی اس نے اپنی سرکاری نوکری کے عوض ہائرنگ کر وا رکھی تھی ۔ یوں کرائے سے تو جان چھوٹی ہی چھوٹی ، کرائے کی رقم بھی ہائرنگ سے ہاتھ آجاتی ۔ دوہرا منافع تھا ان میاں بیوی کو۔
کہانا ایک وہی تھی جس نے اس مکان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تھا حالانکہ اس کے حالات کہتے تھے کہ یہ فائدہ اسے ہی تو اٹھانا چاہئے تھا ۔ لیکن یہ جو خود داری ہوتی ہے نا یہ ہر کسی میں نہیں ہوتی ۔ نہ ہی رشتوں کا احساس ہر کسی میں ہوتا ہے اسی لیے کسی نے بھی اس کا احساس نہیں کیا ۔
اس کے شوہر اظہر نے بس اسے جتاتی نظروں سے دیکھا تھا مگر کہا کچھ نہیں ۔وہ ایک خوددار انسان تھا ۔ کیسے بیگم سے کہہ دیتا کہ جا کر تم بھی اپنی ماں سے اپنا حصہ مانگو۔اس کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ بیوی کو یہ کام بھی نہ کرنے دیتا لیکن وہ بھی کیا کرتا ، اس کی آمدن کم تھی اور اخراجات بہت زیادہ تھے اسی لیے وہ صفیہ کو کام کرنے سے منع نہیں کرتا تھا لیکن بہت خوش بھی نہیں تھا ۔ اور وہ تو مرتی مر جاتی مگر کبھی یہ بات منہ سے نہ نکالتی کہ امی جی مجھے بھی مکان سے میرا حصہ دے دیں حالا ں کہ سب بہن بھائیوں میںایک وہی تھی جس کے مالی حالات مخدوش تھے ۔
وہ تو شادی سے قبل بھی کبھی امی جی سے رقم نہیں مانگا کرتی تھی ۔ ابو جی کی دی گئی پاکٹ منی سے اپنا خرچا نکال لیا کرتی تھی ۔ کبھی کوئی بہت ضرورت ہوتی تو ایسے شرمندہ سی ہو کر رقم مانگتی جیسے کوئی جرم کر رہی ہو ۔ نجانے کیوں اسے ہاتھ پھیلاتے بہت شرم آتی تھی ۔ اپنا آپ فقیروں سا دکھائی دیتا حتی کہ اپنی ضروریات کے لیے والدین کے سامنے ہاتھ پھیلانا بھی اسے برا لگتا تھااور اب زندگی نے اتنا ہی فقر و فاقہ کی کیفیت لاد دی تھی ۔ اتنا ہی فقیر بنا دیا تھا ۔
مزاجاً وہ خاموش طبع تھی ۔ دوسروں کے رویوں پہ بولنا ، شکوے شکایات کرنا اسے ہمیشہ سے نہیں آتا تھا ۔اسے کچھ برا لگتا تو کھل کر کبھی اظہارکرنا نہ آیا ۔ کسی سے شکایت ہوئی تو کہنا نہ آیا ۔ جیسا جس نے کہہ دیا ویسا کر دیا ۔ بحث ، بات برائے بات ، طنز طعنے،مین میخ ، فضول کی ناراضگیاں ۔ ایسی کوئی عادت اس میں کبھی پائی ہی نہیں جاتی تھی ۔ وہ بس ’’میں ‘‘کو مار کر جینے کی عادی تھی اور ایسا ہمیشہ سے تھا ۔ نجانے کب سے اسے خود بھی یاد نہیں تھا ۔ اسی لیے سب بہن بھائی اسے اللہ میاں کی گائے کہتے تھے ۔
پھر ایسا ہوتا ہے نا کہ جو اولاد خاموش طبع،سادہ مزاج اور اپنے احساسات دبا کر رکھتی ہے ،زیادتی بھی اکثر اسی کے ساتھ ہوتی رہتی ہے اور صفیہ اس گھر کی ایسی ہی بیٹی تھی ۔ماں باپ نے بھی اسے گائے ہی سمجھا اسی لیے پڑھائی کی بات ہوئی تو ابو جی نے کہا کہ تم اردو میں ماسٹرز کر لوکیونکہ ابو جی کو اردو ادب سے دل چپسی تھی اور دادا نے انہیں پڑھنے نہیں دی ۔ اپنی خواہش وہ اپنی گائے جیسی بیٹی پہ مسلط کر رہے تھے اور گائے نے آگے سے بھاں نہیں کرنا تھی یہ وہ جانتے تھے ۔ پھر ہوا بھی یہی ۔ اس نے بی اے میں اردو ادب رکھ لیا ۔ اردو سے اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی اسی لیے پاس ہو کر نہ دی تو ابو جی نے غصے سے پڑھائی چھڑوا دی ۔ وہ یہ تک نہ کہہ سکی کہ پڑھائی چھڑوانے کی بجائے اس کا مضمون بدل ڈالیں شاید کہ وہ پاس کر کے ڈگری حاصل کر لے ۔ سب بہن بھائی اچھا پڑھ لکھ گئے کیوں کہ سب نے اپنی مرضی کی پڑھائیاں کیں اور اس نے ابو جی خواہش کی پڑھائی کی تو پڑھائی ہی نہ کر پائی ۔ لیکن یہ کسی نے نہیں دیکھا ، دیکھا تو بس یہی کہ وہ حد کی کوڑھ مغز ہے جس سے بی اے تک نہ ہو سکا ۔ اتنے لائق فائق بہن بھائیوں میں ایک نالائق نظر بٹو تھی صفیہ بانو۔
شادی کا وقت آیا تو گائے ہی سمجھ کر کسی بھی کھونٹے سے باندھ دیا گیا اور اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔اظہر کے رشتے میں سوائے شرافت کے اور کچھ نہیں تھا لیکن اس کے والدین نے اس کے لیے بس یہی معیار بناکر اس کا رشتہ جوڑ دیا ۔ امی جی نے صاف کہہ دیا کہ ایک بی اے فیل کے لیے تو ایسے ہی رشتے آنا تھے ۔ ابھی یہ آ رہے ہیں ، کل کو یہ بھی نہیں آئیں گے تو اس سے ایک لفظ منہ سے مخالفت میں نہ نکالا گیا ۔ اظہر کے پاس نہ گھر گاڑی تھے ، نہ معقول آمدن ۔بس نری شرافت اور ایک بیاہی بہن تھی خاندان کے نام پر ۔
وہ پچھلے چودہ سالوں سے جس گھر میں رہ رہی تھی وہ کرائے کا تھا ۔ کرائے پہ بھی اگر گھر کچھ ڈھنگ کا ہوتا تو چلو خیر تھی لیکن گھر سے زیادہ چوچو کا مربہ تھا جس میں بس ایک کمرہ سونے کا اور ایک بیٹھنے کا استعمال ہوتا ۔ باورچی خانہ شروع ہوتے ہی ختم اور غسل خانہ ایک کونے میں اتنا چھوٹا کہ بہ مشکل اس میں ایک بندہ کھڑا ہو پاتا ۔ اتنے کسمپرسی کے حالات دیکھنے کے باجود ان دونوں میاں بیوی نے کبھی ابو جی کے مکان میں سے حصہ مانگنے کی ہمت نہیں کی تھی کہ وہ اپنا کوئی چھوٹا موٹا فلیٹ لے لیں اور کرائے کی اس چخ چخ سے جان چھوٹے ۔ جائیداد میں حصہ اولاد کا حق تبھی ہوتا ہے جب والدین حیات نہ ہوں اور مکان کی مالکن ابھی زندہ تھیں ۔ ابھی اس کا حق بنتا نہیں تھا اور اسے حق کے بنا مانگنا یوں بھی قبول نہیں تھا۔
تو بات ہو رہی تھی باجی کے گھر کی مرمت کی ۔ باجی کے گھر سے وہ اندر گئی تو صحن میں چھوٹی دیگ پڑی تھی ۔ اوپر والے پورشن کا شاید لنٹر ڈلا تھا اسی لیے باجی نے دیگ دلوائی تھی ۔ باجی اکثر ہی دیگ دیتی رہتی تھیں ۔ بیٹی کی بات پکی ہوئی تو دیگ ، بیٹے نے ٹاپ کیا تو دیگ ، کسی بچے کی سالگرہ گزری تو دیگ …
لیکن اسے کبھی دیگ کے چاول کھانا نصیب نہ ہوئے کیونکہ وہ دیگ تو غریبوں میں بانٹی جاتی تھی اور اسے کوئی غریب نہیں سمجھتا تھا ۔
’’ ارے صفیہ ، تم اچانک کیسے ؟‘‘ وہ کریم بھائی جان تھے جو باہر کسی کام سے ہی آئے تھے ۔ اسے دیکھ کر ٹھٹکے ۔
’’ وہ بھائی جان یہاں کسی کام سے آئی تھی تو سوچا کہ باجی سے ملتی چلوں ۔‘‘
سچ ہی تھا جو اس نے بیان کیا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ انگلی کی پوروں پہ گنا جا سکتا تھا جب جب وہ بہن کے گھر آئی تھی ۔ چونکنا تو کریم بھائی کا بھی بنتا ہی تھا ۔
’’اچھا اچھا ۔ تو یہاں کیوں کھڑی ہو ۔ اندر چلو نا‘ رضیہ اندر ہی ہے ۔ ‘‘کریم بھائی نے بڑی اپنائیت سے اس کا استقبال کیا تو اس کی بھی ہمت بڑھ گئی ۔
’’ تم اندر چلو میں ذرا مزدوروں کو دیکھ آؤں ۔ ان کے سر پہ کھڑے نہ ہو تو کام نہیں کرتے ۔‘‘
اس نے سر ہلایا اور اندر چلی گئی ۔
باجی بھی اسے دیکھ کر حیران ہوئیں لیکن اپنی خوشی میں زیادہ اظہار نہیں کیا ۔ ان کے پاس اسے سنانے کو اپنے گھر کی روداد تھی کہ کیسے ان کا ایک منزلہ گھر اب دو منزلہ ہو نے جا رہا تھا ۔ ان کی آبشار کی خواہش پوری ہو نے جا رہی تھی ۔ باجی اپنی ترنگ میں بولے جا رہی تھیں ‘ جسے وہ چائے کی چسکیاں لے کر سنتی رہی ۔ اس نے کبھی اپنے گھر کا نہیں سوچا تھا ۔ وہ خواب اپنی حیثیت دیکھ کر دیکھتی تھی اور اس کی حیثیت کہتی تھی کہ اس کا اپنا گھر تو اسے قبر کی صورت ہی مل سکتا ہے ۔ چھت کی صورت میں کبھی ایسا ممکن نہ ہو پائے گا ۔ باجی کے گھر کی باتیں دل پہ بوجھ ڈال رہی تھیں ۔ انسان جذبات کا پتلا ہے ، کتنا بھی قانع کیوں نا ہو ، جذبات امڈ ہی آتے ہیں ۔ وہ بھی انسان ہی تو تھی ۔
’’ ارے ہاں یاد آیا ۔ وہ کریم کی کزن نہیں ہے فاطمہ ۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہے ۔ تم کہو تو بات کروں ؟‘‘
’’ کس سلسلے میں ؟‘‘ ہونقوں کی طرح اس نے باجی کو دیکھا ۔
’’ ہائے صفیہ رشتے کے سلسلے میں اور کیوں ؟ تین تین بیٹیاں ہیں ۔ ابھی سے سوچو گی تو وقت سے گھروں کا کروگی نا ۔ بیٹیاں بڑی ہونے میں کون سا وقت کا پتا چلتا ہے ۔ ‘‘ صفیہ حیران پریشان تھی ۔
’’ باجی آمنہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے ۔ ‘‘ اس کی آمنہ ابھی تیرہ سا ل کی بچی تھی ۔ آٹھویں میں پڑھتی تھی۔
خود باجی نے اپنی دونوں بیٹیاں بھی انیس انیس سال میں بیاہ دی تھیں لیکن ان کے تو رشتے بھی بہت اچھے گھروں سے آئے تھے ۔ اور دوبارہ ایسے رشتے کہاں آنا تھے اسی سوچ کی بدولت باجی نے دونوں بیٹیاں جھٹ پٹ اپنے گھروں کی کر دیں ۔ لیکن فاطمہ کون سا اچھے حالات کی مالک تھی کہ اس کے بیٹے سے بہتر کوئی رشتہ صفیہ کی بچیوں کو نہیں مل سکتا تھا ۔ غربت تو ان کے گھر کے درودیوارسے ٹپکتی تھی ۔ ایسا کیا تھا کہ وہ بیٹی کی شادی کے معاملے میں ہتھیلی پہ سرسوں جماتی۔
’’ تو فاطمہ کا لڑکا کون سابہت بڑا ہے ۔ بیس بائیس برس کا ہو گا ۔خیر سے پڑھ لکھ گیا ہے ۔ڈگری مکمل کرتے ہی نوکری مل گئی ۔ معمولی ہی سہی نوکری کر تو رہا ہے ۔بہتر بھی مل ہی جائے گی ۔بچوں کو جتنا جلدی اپنے گھر بار والا کر دیا جائے اتنا اچھا ہے ۔ بڑا فتنے کا دور ہے ۔ جلدی اپنی ذمہ داری نبھا دینی چاہئے ۔ دیکھے بھالے لوگ ہیں ہمارے اسی لیے تو مجھے آمنہ کے لیے مناسب لگا۔ پھر کس بات پہ سوچنا ۔‘‘
صفیہ نے ہوں ہاں کچھ نہیں کی ۔ وہ بچیوں کو اپنی جیسی زندگی نہیں دینا چاہتی تھی ۔ پہلے وہ انہیں خوب پڑھانا چاہتی تھی اور پھران کی شادی خوش حال گھروں میں کرنا چاہتی تھی ۔ ایک فیصلہ اس کی امی جی نے اس کے لیے برسوں پہلے لیا تھا اظہر کی معمولی نوکری پہ کہ چلو پڑھا لکھا ہے تو بہتر نوکری بھی مل ہی جائے گی‘ لیکن وہ بہتر نوکری اظہر کو اب تک نہ ملی تھی اور بیٹیاں جوان ہونے کو آئی تھیں ۔ آگے بھی امید دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ اظہر کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں وہ خود تھک چکی تھی لیکن ابھی اسے مزید دوڑنا تھا۔سکون اور آرام نہیں تھا اس کی زندگی میں ۔ اپنی بچیوں کے لیے وہ ایسی کوئی دوڑ نہیں چاہتی تھی ۔وہ انہیں آسودہ زندگی دینا چاہتی تھی ۔جو سکھ ماں کے گھر نہیں مل سکا کیا خبر ان کے اپنے گھر میں لکھا ہو ۔ اسی امید پہ وہ جیتی تھی کہ وہ بیٹیوں کی پرسکون زندگی میں اپنا عکس ڈھونڈ لے گی ۔
اس کی خاموشی پہ باجی نے کچھ برا مناتے ہوئے اسے دیکھا ۔
’’ موڈ بنے تو بتا دینا ۔ زیادہ دیر سوچنے سے بس دیر ہی ہو گی صفیہ ۔ انسان کو اپنے جیسوں میں ہی رشتہ جوڑنا چاہئے تو گزارا ہوتا ہے ۔ لوئر مڈل کلاس لڑکیوں کے لیے شہزادوں کے رشتے تو آنے سے رہے ۔ جس کی جیسی حیثیت ہو اسے ویسا ہی جوڑ ملتا ہے۔‘‘ باجی کے جملوں میں ایسی کاٹ تھی کہ صفیہ کا دل کٹ کر رہ گیا ۔
اپنے جیسے لوگ … وہ تو اپنے جیسوں میں نہیں بیاہی گئی تھی ۔ اس کی حیثیت تو مالی لحاظ سے یہ نہ تھی جس میں وہ رہ رہی تھی ۔ کس ماحول میں پلی بڑھی تھی اور کہاں بیاہ دی گئی تھی ۔ ہمیشہ سہولیات میں رہنے والی ضروریات پوری کرنے میں کھپ گئی تھی ۔اب بیٹیوں کو بھی اپنے جیسوں میں بیاہ دے تاکہ وہ بھی اس جیسی یا اس سے بدتر زندگی گزاریں ۔ اتنی محنت وہ بچیوں کے مستقبل کے لیے ہی تو کر رہی تھی ۔ اگر انہوں نے بھی اس جیسی زندگی ہی گزارنا تھی تو کیا فائدہ تھا اس کی محنت کا ۔
’’ مجھے ابھی آمنہ کی شادی نہیں کرنی ۔میں چاہتی ہوں میری بیٹیاں پڑھیں لکھیں ۔ اپنے پیروں پہ کھڑی ہوں ۔ خود مختار ہوں تاکہ مشکل وقت میں کوئی ڈھنگ کی نوکری کر سکیں ۔ اپنی ماں کی طرح سوئیاں سلائیاں نہ چلائیں۔‘‘ وہ بس اتنا کہہ کر دکھے دل سے اٹھ آئی تھی ۔
باجی کے گھر سے نکل کر وہ امی جی سے ملنے گئی تھی جو باجی کے گھر سے تین گلیاں چھوڑ کر رہتی تھیں ۔
امی جی کے گھر بھی کبھی کبھار کا آنا تھا۔شروع میں وہ بچیوں کو ساتھ لے کر میکے مہینے میں دو چکر لگا لیتی لیکن پھر بھائی کے بچوں کے سامنے اپنی بچیوں کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ۔ بہت آسودہ زندگی دیکھ کر اپنی زندگی پہ دکھ ہوتا ۔ وہ کہتے ہیں نا کہ میل ملاپ اپنے جیسوں کے ساتھ رکھنا چاہئے تو ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔ اس کے اپنے سگے رشتے اس کے جیسے نہیں رہے تھے اسی لیے اس نے میل ملاپ ترک کرنے میں ہی عافیت جانی ۔ ذہن پہ بوجھ لے کر ہمیشہ وہ ماں کے گھر سے اپنے گھر جاتی ۔ اسی لیے اس نے جانا کم کر دیا اور اب تو مصروفیات ہی اتنی تھیں کہ وقت ہی نہیں ملتا تھا ۔
امی جی صبح کے وقت گھر پہ اکیلی ہوتی تھیں ۔ مدیحہ اور اس کا شوہر آفس ہوتے ۔ ان کے بچے نہیں تھے سو گھر میں خاموشی ہوتی لیکن اس دن سب گھر پہ ہی موجود تھے ۔ حسین اور اس کے بیوی بچے اوپر کے پورشن میں ہی رہتے لیکن نیچے آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ امی کا بھی اس کے بچوں سے دل بہلا رہتا تھا ۔ وہ دادی سے وہ فرمائشیں منواتے تھے جو باپ یا ماں پوری کر کے نہیں دیتے تھے ۔
’’ شکر ہے کہ تم بھی خود سے آئی اور اپنی قسم تو توڑی ورنہ تو عرصہ ہو جاتا ہے تمہاری شکل دیکھے ہوئے اور بچیاں تو اسی شہر میں رہتے ہوئے بھی عید پہ ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ‘‘ امی جی نے تازہ آم کا جوس اس کے سامنے رکھا ‘ جو وہ غٹا غٹ پی گئی ۔
’’ وقت نہیں ملتا امی جی ۔ ‘‘
وہ سچ کہتی تھی کہ اس کے پاس واقعی فرصت نہیں ہوتی تھی ۔ گھر کا سارا کام اس کے سر تھا کہ بچیاں پڑھتی تھیں ۔ جو وقت بچتا اس میں وہ اون سے بنائی کا کام کیا کرتی تھی ۔سردیوں سے قبل کروشیے کے آرڈر خوب ملا کرتے تھے اور سردیا ں آتے ہی اون کی ٹوپیاں ، سویٹریں اور شالز ۔ پھر سامان لینے اسے ہر ہفتے بازار کا چکر بھی لگانا پڑتا تھا اور اس میں بھی پورا دن لگ جاتا تھاانار کلی اور اچھرہ کی دکانوں کو چھاننے میں ۔ وقت کہاں سے لاتی بھلا ۔
’’ کام بہت بڑھا لیے ہیں تم نے اپنے لیے ۔ کچھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھو ۔ کاموں کا کیا ہے وہ تو کبھی ختم نہیں ہوتے اور بندہ ختم ہو جاتا ہے ۔‘‘ اس نے امی جی کی شکل دیکھی ۔یہ بات وہ کہہ رہی تھیں جو اس کے حالا ت سے واقف بھی تھیں ۔
کاموں کو نہ بڑھاتی توکیا کرتی ۔کوئی دوسرا آپشن تھا اس کے پاس کیا؟ مہنگائی کا جو حال چل رہا تھا ۔ پہلے سے تین گنازیادہ محنت درکار تھی اور وہ تو پہلے سے ہی اپنی حتی الوسع محنت کر رہی تھی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ اسے کبھی ماں کے سامنے بھی زبان کھولنا نہیں آئی تھی ، شکوہ کرنا نہیں آئے تھے ۔ نجانے وہ کیوں اپنے بہن بھائیوں جیسی نہیں تھی ۔ کبھی اسے افسوس ہوتا کہ انسان کو اتنا تو بولنا آنا چاہئے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکے ۔ بنا مانگے تو ماں دودھ تک نہیں پلاتی اور وہ چاہتی تھی کہ سب اس کے دل کی بات سمجھ لیں ۔لیکن اپنا حال دل اس نے کبھی ماں تک سے نہیں کہا ۔ ان پندرہ سالوں میں یہ تک شکوہ نہیں کیا کہ ماں مجھے کہاں بیاہ دیا ۔ آ پ کا فیصلہ غلط تھا ۔ان باتوں کا اب کوئی فائدہ بھی تو نہیں تھا جو پلٹائی نہیں جا سکتی تھیں ۔ اسے اسی زندگی سمیت جینا تھا اور جب وہ اپنی قسمت بدل نہیںسکتی تھی تو پھر اس پہ شکوے کیوں کرتی ۔
’’ ارے صفیہ آئی ہے ۔‘‘ وہ مدیحہ تھی جو کوئی بیگ اٹھائے سٹور سے نکل رہی تھی ۔
اس نے مسکرا کر حال احوال پوچھا تو وہ بتانے لگ گئی ۔
’’ بس میں اور حماد تو سکردو جانے کی تیاری کر رہے ہیں ۔ دو ہفتے کا پلان ہے ۔ میں نے تو امی جی سے بھی کہاتھا کہ ہمارے ساتھ چلیں ۔ کچھ ماحول بدل جائے گا مگر یہ نہیںمان رہیں ۔ ‘‘ اس نے پھیکا سا مسکرا کر امی کو دیکھا ۔
’’ بھئی تم لوگوں کے گھومنے پھرنے کے دن ہیں ۔ میں جا کر کیا کروں گی ۔‘‘ امی جی اٹھ کر کچن میں چلی گئیں۔
اس کی بچیاں پہلے باپ سے کہا کرتی تھیں کہ دنیا کہاں کہاں گھومنے جاتی ہے اور کچھ نہیں تو ہمیں مری ہی لے چلیں لیکن اظہر اپنی کم آمدن کا بھرم رکھنے کے لیے بس خاموش ہی رہتے تھے ۔ بس کبھی کبھار بچیوں کو قریبی پارک لے چلتے ‘ یہی ان کی تفریح تھی ۔ اس نے گہری سانس بھری ۔ بس اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے ۔
’’ امی ، آئل کا ایک پاؤچ دے دیں پلیز ۔ ‘‘
یہ حسین تھا جو ہر دوسری چیز کے لیے امی جی سے مانگنے چلا آتا تھا ۔ امی جی بھی خوشی خوشی اس کی ضروریات پوری کر دیا کرتی تھیں ۔ امی کے ساتھ جڑے رہنے کا یہی فائدہ تھا ، آدھا راشن امی کے سر پہ ہوتا ، آدھا کام بھی امی نبٹا دیتیں ۔ان میاں بیوی کا بھی عجب ہی قصہ تھا۔ گھر کے راشن میں کوئی حصہ نہیں ڈالنا لیکن وقت بے وقت امی جی سے راشن لینے نیچے آتے رہنا ہے ۔ جب بچے چھوٹے تھے تو بھابھی کام بھی نہیں کرتی تھی ۔ کھانا پکانا امی جی کرتیں جو نیچے سے اوپر جاتا اور صفائی کام والی ماسی ۔ اپنی بھابھی کی قسمت پہ بھی اسے رشک ہی آتا ۔ وہ بھی سادہ بی اے پاس تھی لیکن مزے سے رہ رہی تھی ۔ اس سے فرق نہیں پڑا کرتا کہ آپ کتنے پڑھے لکھے ہیں اور کتنی اچھی نوکری کرتے ہیں ، جب نصیب میں ہی مالی آسودگی اور رشتوں کا سکھ نہ لکھا ہو تو سب کچھ بے مایہ ہے ۔ ایک وہ تھی چالیس منٹ کی مسافت پہ ایک غریب سے علاقے میں رہتی تھی اسی لیے اسے ایسا کوئی فائدہ نہیں حاصل ہو سکتا تھا جیسا اس کے دیگر بہن بھائی امی جی کے ساتھ جڑکر اٹھا رہے تھے ۔