صوفی: ام ہانی
دوپہر کے بارہ بجے سورج کی جھلسا دینے والی گرمی نے پسینے میں ایسا شرابور کیا کہ پیدل چلتی صفیہ بانو کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے گئی ۔اس سے اب مزید نہیں چلا جا رہا تھا ۔
بعض دفعہ ہماری ساری ہمت بیرونی حالات نہیں بلکہ اندرونی حالات ختم کرتے ہیں ۔ کچھ ایسا ہی اس کے ساتھ بھی ہوا تھا ورنہ شدید گرمی میں مال پہنچا کر آنا ‘ کوئی پہلی دفعہ تو نہیں ہوا تھا ۔یہ تو اس کا معمول تھا ۔ ہر ہفتے وہ مال دینے ایسے ہی پیدل جایا کرتی تھی اور پچھلے کئی سالوں سے اس کا یہی معمول تھا ۔ کبھی بازار سے مطلوبہ مال خریدنے توکبھی تیار مال گھر تک پہنچانے ۔ یہ معمول تو ایک دہائی پہ محیط تھا ۔
ہاتھ میں تھامے چرمی تھیلے کو ایک طرف رکھ کر و ہ پاس کے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ کر پھولا ہوا سانس بحال کرنے لگی ۔ چہرے اور گردن سے ٹپکتے پسینے کو اس نے موٹے تولیے والے رومال سے پونچھا اور پلاسٹک کی بوتل نکال کر پانی پیا جو گرمی کی تمازت سے گرم سیال مادے میں ڈھل چکا تھا ۔ لیکن اتنی گرمی میں وہ بھی کسی امرت سے کم نہیں تھا جس سے کم از کم حلق تو تر ہو رہا تھا ۔
’’ اللہ تیرا شکر ۔‘‘
پانی کی بوتل پہ ڈھکن لگاتے اس نے بوتل واپس تھیلے میں ڈالی اور پاؤں کی جوتی کو دیکھا جو چلتے ہوئے بار بار پیروں میں کاٹ رہی تھی اور اس سے مزید قدم رکھنا بھی محال ہو رہا تھا ۔ پاؤں میں پسینے کی وجہ سے جوتی کاٹنے سے نچلی طرف دو چھوٹے سے چھالے بن گئے تھے جو اب درد کر رہے تھے ۔ اسی حالت میں اسے ابھی بیس منٹ مزید چلنا تھا ‘ جس کا سوچ کر ہی اس کا دل بیٹھ رہا تھا ۔ کب سے آمنہ اسے کہہ رہی تھی کہ اس کی جوتی کافی گھس چکی ہے ، اسے نئی خرید لینی چاہئے لیکن وہ اپنی ضروریات ہمیشہ ایسے ہی ٹالتی رہتی تھی کیوں کہ بچیوں کی ضروریات اس سے زیادہ اہم ہوا کرتی تھیں ۔ بچیوں کی ضروریات پوری کرتے کرتے پیسے ہی ختم ہو جایا کرتے اور اب اسے لگ رہا تھا کہ اسی جوتی کے ساتھ و ہ مزید گزارا نہیں کر پائے گی ۔
فی الحال تو بٹوے میں رکھی رقم سے ایک چونی بھی خرچ کرنا اس پہ حرام تھا ورنہ وہ کوئی رکشہ ہی پکڑ کر گھر چلی جاتی ۔ پیڑول کی بڑھتی ہوئی قیمت نے کبھی کبھار کی یہ عیاشی بھی چھین لی تھی ۔ اسے اپنے کام سے ملنے والی رقم سے کئی ضروریات پوری کرنا تھیں ۔ آمنہ کے سکول کا جوتا خریدنا تھا جو پھٹ چکا تھا اور بڑی مشکل سے اس نے مہینہ گزارا تھا ۔ وانیہ کی نظر چیک کروا کر نئی عینک بنوانا تھی،وہ بیچاری کب سے دھندلی نظر کا رونا رو رہی تھی ۔ تانیہ کا سکول بیگ جا کر لنڈے سے خریدنا تھا اور اس کی کچھ کاپیاں بھی ، جو ختم ہو چکی تھیں ۔ اور بچیوں کی انہی ضروریات کو پورا کرتے کرتے یہ ملنے والی رقم پوری ہو جانا تھی ۔ سوچ کر وہ پھیکا سا مسکرا دی ۔ ایسی مسکراہٹ جس میں دکھ زیادہ تھا۔
جاتے کے سفر میں وہی چرمی تھیلا اونی ٹوپیوں ، سویٹروں اور موزوں سے بھرا ہو اور بٹوہ خالی تھا اور واپسی کے رستے میں تھیلا خالی اور بٹوا بھرا ہوا تھا ۔لیکن واپسی کے سفر میں بٹوے کے ساتھ ساتھ دل بھی تو بھرا ہوا تھا اور بھرے دل کا خالی ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ انسان سے اپنا بوجھ اٹھانا بھی دوبھر ہو جاتا ہے ۔
’’ واہ رے مولا ۔ ‘‘ پاؤں کے چھالوں کو ہی دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھیں بھرا گئیں۔
یہ بھی پاؤ ں کے چھالے نہیں تھے جو رلا رہے تھے ، یہ تو اس کی قسمت تھی جو رلاتی تھی لیکن اس سے قبل وہ قسمت کی ستم ظریفی پہ بھی کہاں روتی تھی ۔ آج تو بہت کچھ ایسا ہوا تھا جس نے آنکھیں اور دل بھر دیے تھے ۔
وہ ایک ایسی عورت تھی جو حالات پہ نہیں روتی تھی ، ایسا نہیں تھا کہ اسے حالات چبھتے نہیں تھے ۔ گوشت پوست کی عام انسان تھی اور حالات اسے بھی ایسے ہی تکلیف دیتے تھے جیسے باقی سب لوگوں کو لیکن ان حالات پہ اس نے صبر کرنا کب کا سیکھ لیا تھا ۔ ہر نیا واقعہ کچھ دیر کو ٹھیس بنتا اور پھر درد غائب ہو جا یا کرتا تھا ۔ پھر اسی دکھ پہ وہ راضی و برضا دکھائی دیتی ۔ بچیوں کو بھی صبر اور برداشت کی تلقین کرکر کے اس نے کم و بیش اپنے جیسا بنا لیا تھا ۔ اس کی بچیاں بھی آج کل کی بچیوں کی طرح لاابالی اور بے حس نہیں تھیں ۔وہ حساس تھیں ۔ ماں کا خیال کرتی تھیں ، گھر کے حالات کو سمجھتی تھیں ‘ بے جا فرمائشیں نہیں کرتی تھیں ۔ بس اسی پہ صبر کر لیتیں کہ ان کی ضروریات پوری ہو جایا کرتی ہیں ۔ انہیں اپنی حیثیت کے مطابق رہنا آتا تھا ۔ اور خود وہ اس بات پہ بہت شکر کرتی کہ بچیاں اس کے مسائل سمجھتی ہیں اور فضول کی ضدیں نہیں کرتیں ورنہ تھیں تو بچیاں ہی نا ۔ یہ کسی نعمت سے کم نہ تھا ورنہ بچوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں ہی والدین کی کمریں ٹوٹ جایا کرتی ہیں ۔ اس کی بچیاں کم از کم اس کے لیے ایسی آزمائش نہیں بنی تھیں ۔
کچھ لمحے پہلے کی تمام باتیں یاد آئیں توکچھ آنسو آنکھوں سے بہنے لگے جسے اس نے بہنے دیا ۔ کیا ہو جاتا جو وہ یوں سڑک کنارے بیٹھ کر رو لیتی ۔ یہاں کون بیٹھا تھا اس کا سگا جو اسے طعنے دیتا یا باتیں سناتا ۔ یہاں کون تھا جس کو وضاحتیں دینا پڑتیں کہ وہ اپنے کس دکھ کو لے کر رو رہی ہے ۔ یہاں کون تھا جو کہتا صفیہ بی بی کہاں گئی تمہاری بہادری اور صبر جو ہر موقع پہ تم ڈھال کے طور پہ استعمال کرتی ہو اور ہر کسی کو راضی و برضا دکھائی دیتی ہو ۔ یہاں اسے کسی کاکوئی ڈر نہیں تھا ۔ اس وقت وہ اپنے رب کے ساتھ تنہا ہی تو تھی ۔ اسے ایسا موقع پسند تھا جس میں وہ اپنے مالک کے ساتھ اپنا دکھ سکھ کہہ کر پرسکون ہو جایا کرتی تھی ۔ اسی لئے جب دل بھر آیا تو اس نے خود کو رونے دیا ۔ گرمی میں بہتے آنسو گالوں پہ جیسے ٹھنڈک کا کام دے رہے تھے اسی طرح اندر بھی ایک عجیب سا سکون اتر رہا تھا ۔
’’ اللہ جی ۔‘‘ وہ روتی گئی اور زبان سے بس یہی نکلتا رہا ۔
وہ ہوتا ہے نا کہ کبھی دل اتنا دکھی ہوتا ہے کہ الفاظ منہ سے ہی نہیں نکل کر دے رہے ہوتے نہ ہی انسان کو سمجھ آتی ہے کہ وہ کیا کہے اور کن الفاظ میں اپنا دکھ بیان کرے ۔ اپنی کیفیت ہی انسان کو بیان کرنا مشکل ہو رہا ہوتا ہے تو وہی کیفیت اس وقت اس کی تھی کہ وہ پیدا کرنے والے رب سے ہی نہیں کہہ پا رہی تھی کہ اس پہ کیا بیت رہی ہے۔
’’ اللہ جی ۔‘‘
تھیلا اس نے گود میں دھر کر اس پہ سر گرا دیا ۔ اس کی گھٹی گھٹی سسکیاں تھیلے کے موٹے کپڑے میں دم توڑنے لگیں ۔ بہت کم ایسا ہوا تھا کہ دن کی روشنی میں وہ یوں سر عام روئی ہو ۔ لیکن دل بوجھل ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو اسے بوجھ اتارنا ہوتا ہے ۔ پھر وہ انسان کی نہیں سنتا ‘ پھر وہ قابو میں نہیں رہتا ۔ پھر بس وہ اپنی ہی کرتا ہے ۔ اس کا دل بھی بغاوت پہ اتر کر اندر گرنے والے آنسوؤں کو باہر بہا رہا تھا ۔
’’ کیا ہوا بچی کیوں روتی ہے؟‘‘ درخت کے کسی کونے سے آواز ابھری تو اس نے سر اٹھا کر دیکھا ۔
وہاں سفید لباس میں ملبوس ایک صاف ستھری اماں تسبیح ہاتھ میں لئے ایک پتھر پہ بیٹھی تھی ۔ پاس میں زمین پہ لاٹھی بھی پڑی تھی ۔ گو کہ اب صفیہ خود تین بچیوں کی ماں تھی لیکن اس بوڑھی عورت کے لیے ، جو خود اسی کے لگ بھگ دکھائی دیتی تھی ، تو بچی ہی تھی ۔ اس نے حیرت سے اماں کو دیکھا کیوں کہ جب وہ وہاں بیٹھ رہی تھی تب تو اماں اسے دکھائی نہیں دی تھی ورنہ شاید وہ یہاں بیٹھ کر رونے کی حماقت نہ کرتی یا شاید تب وہ درخت کی اوٹ میں ہوگی اور اپنے دکھ میں صفیہ اسے دیکھ نہیں پائی ۔
صفیہ نے آنسو پونچھ لئے ۔ یہ دنیا یہاں بھی اسے رونے نہیں دے گی یہ طے تھا ۔اپنی کھل کر رونے کی ننھی منی خواہش کو وہ تہجد کے وقت میں کسی حد تک پورا کرتی تھی جب سارا جہاں سو رہا ہوتا تھا اور وہ نمازمیں جی بھر کر روتی ۔ تب کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا کہ آخر وہ کون سے دکھ ہیں جو اسے یوں رلاتے ہیں ۔
’’ کچھ نہیں اماں ۔بس تھک گئی تو یہاں بیٹھ گئی ۔ ‘‘
اس نے گال رگڑ لئے ۔وہ اپنے گیلے گال اپنے رب کے سوا کسی کو نہیں دکھاتی تھی ۔ اسے آنسو انسان کو دکھانا رب اور اپنے تعلق کی توہین لگتا تھا ۔
’’ یوں اکیلی بیٹھ کر روتی ہے اور کہتی ہے کوئی بات نہیں ۔کوئی تو بات ہے ورنہ تھک جانے پہ کب کوئی روتا ہے؟‘‘ اس نے اماں کی بات پر سر نفی میں ہلایا ۔
اماں نے اسے ٹوکا۔
’’ جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں ہے ۔‘‘
’’ کسی کا شکوہ کرنا کیا اچھی عادت ہے ؟‘‘ اس کے دو بدو جواب پہ اماں نے گہری سانس لی۔
’’ اپنوں کی ستائی ہوئی ہے یا پرائیوں کی ؟‘‘
وہ خاموش رہی بس سوچا تو اتنا کہ پرائے کہاں ویسا ستاتے ہیں جیسا کہ اپنے ۔ دل پہ چوٹ تو بخوبی اپنے ہی کرنا جانتے ہیں ۔
’’ کہاں سے آ رہی ہے ؟‘‘
’’ میں کروشیے سے بنائی کا کام کرتی ہوں ۔ سویٹر، ٹوپیاں ، چادریں ، موزے ، میز پوش، تکیے ، پرس سب بناتی ہوں ۔ جب بن جاتا ہے تو گھر پہنچا کر آتی ہوں ۔ بس وہی دینے گئی تھی یہاں قریب ہی ایک گھر میں ۔‘‘
’’ ماشاء اللہ… ما شاء اللہ ۔ ‘‘ اماں نے تسبیح ایک ہاتھ سے دوسرے میں منتقل کی اور پتھر سے اٹھ کر اس کے برابر آ کر بیٹھ گئی ۔
یقینا اماں کوئی فقیرنی تھی ۔ اس نے سوچا ۔ لیکن حلیے سے بڑی صاف ستھری تھی اور فقیروں جیسی کوئی بات اس میں نہیں تھی ۔ اسی لیے اس نے اپنا خیال رد کردیا ۔ شاید اماں بھی اس کی طرح اپنوں کی ستائی ہوئی تھی اور تبھی یہاں کسی کونے کھدرے میں اس کی طرح سکون کی تلاش میں آ بیٹھی تھی ۔
’’ یہ جو محنت کا کام ہوتا ہے نا یہ بڑا برکت کا کام ہوتا ہے ۔‘‘
’’ کیسی برکت اماں ۔ سارا سار ا دن آنکھیں پھوڑتی ہوں ، بیٹھ بیٹھ کر کمر توڑتی ہوں،ہاتھوں میں سوئیاں کھب کھب کر گڑھے بن گئے ہیں تب جا کر کوئی ایک چیز بنتی ہے اور کمائی چند سو روپے ملتی ہے۔‘‘
اس نے کبھی اپنے کام کے بارے میں آج تک کسی سے یہ نہیں کہا تھا لیکن اماں کون سااس کی جاننے والی تھی جس سے کچھ کہتے اسے عار محسو س ہوتا ۔ اسی لئے بلا ارادہ اس کے منہ سے یہ سب نکل گیا ۔بعد میں پشیمانی نے جھٹ سے گھیر لیا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا ۔ اسے شکوہ نہیں کرنا چاہئے تھاکہ یہ اس کا شیوہ نہیں رہا تھا ۔ شکر تھا کہ اللہ نے محنت کی توفیق تھی ، کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نہیں ۔ اللہ کی توفیق پہ تو شکر کرناواجب ہوتا ہے نا کہ ناشکری کرنا ۔
’’ بھلے چند سو ہی کیوں نا ہوں لیکن ان چند سو میں بھی ہزاروں والی برکت رکھی ہو گی اللہ نے ۔ کبھی کسی لاکھوں کمانے والے سے پوچھنا ، کہے گا کہ لاکھ بھی پورے نہیں پڑتے اور تو چند سو کمانے والی بھی اچھے سے گزارا کر رہی ہے ۔‘‘
اماں نجانے اپنا حال بیان کر رہی تھیں یا سب ہی غریب محنت کش انسانوں کا ۔ بات ان کی درست تھی ۔ لیکن وہ کیا کرتی کہ دن بد ن مہنگائی مت مارتی جا رہی تھی ۔ وہی اچھے سے گزارااب دن بدن مشکل ہوتا چلا جا رہا تھا ۔ا س سے زیادہ وہ کیا محنت کرتی ۔ وہ پہلے ہی اپنی محنت کے کمال درجے پہ تھی ۔ انسان ہو یا گدھا ایک حد تک ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے ۔
’’ زندگی میں کبھی نا کبھی یہ برکت ایسے دکھائی دے گی جیسے انگوٹھی میں جڑا نگینہ جگر جگر کرتا ہے ۔ یہی محنت ضرب ہو ہو کر اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ تو اسے تقسیم کرنے پہ آ جائے گئی ۔ پھر تجھے احسا س ہو گا کہ برکت ہونا کسے کہتے ہیں ۔‘‘اماں کی باتیں مشکل تھیں لیکن اتنا احساس ہو گیا تھا کہ اماں کوئی عام عورت نہیں تھی ۔ اس کی باتوں سے گنجلک زندگی کا تجربہ ٹپکتا تھا ۔
’’ اماں پیسہ تو وہ شے ہے جو جتنا ہو کم ہی لگتا ہے ۔‘‘ اماں نے سر ہلایا ۔
’’پر ہاتھ کی میل نے دھل ہی جانا ہوتا ہے ، بہہ جانا ہوتا ہے چاہے جتنی بھی ہو ۔زیادہ ہو تو بھی ، کم ہو تو بھی ۔ ‘‘ اس نے اماں سے اتفاق کیا اور سر ہلادیا۔
’’ لیکن جنہیں موزے ، سویٹر دینے گئی تھی رلایا انہوں تو نہیں ہو گا ۔ کسی اور ہی بات پہ روئی ہے نا ۔لیکن بتا نہیں رہی کہ کیوں رو رہی تھی۔‘‘صفیہ جیسے پھر سے وہ سب یاد کرنے لگی جو اس کے رونے کاسبب بنا تھا ۔
’’ چل اب بتا دے روتی کیوں تھی ؟‘‘ صفیہ نے ایک گہری سانس بھری ۔ کیا بتاتی کہ کیوں روتی تھی ؟ کچھ سوالوں کے کوئی جواب دنیا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔
٭…٭
دینے تو وہ سامان گئی تھی لیکن یہ وہ علاقہ تھا جہاں اس کا میکا بھی تھا ۔ اس کی پوری زندگی اس علاقے میں گزری تھی جس علاقے کی اب شکل تک دیکھنے کو وہ ترس جاتی تھی ۔
اس کی بڑی باجی کاگھر بھی امی جی کے گھر سے ایک دوگلیوں کے فاصلے پہ تھا ۔ اسی لیے سوچا کہ جب یہاں آئی ہی تھی تو چلو اپنے میکے والوں سے بھی ملاقات کر ہی ڈالے ۔ عرصہ ہو جاتا تھا ان سے ملے ہوئے ۔وہ خود اس کی طرف چکر نہیں لگاتے تھے اوراس کے اپنے لیے کاموں کی مصروفیت ہی اتنی ہوتی تھی کہ جب تک امی جی باقاعدہ فون کر کے نہ بلواتیں اس کا جانا ممکن ہی نہ ہوتا تھا ۔اور امی جی بھی بس عید ین یا چند خاص مواقع پہ ہی اسے مدعو کرتی تھیں ۔
مطلوبہ آرڈر پہنچانے کے بعد وہ برابر والی گلی میں واقع بڑی باجی کے گھر کی طرف نکل گئی ۔ ان کے گھر کے باہر والی کیاری میں کام ہو رہا تھا ۔ قریب جانے پہ معلوم ہوا کہ کیاری کے برابر میں چھوٹی سی مصنوعی آبشار کی تعمیر کی جا رہی ہے ۔ اسی کام کے لیے مزدور لگے ہوئے تھے ۔ باجی کو شروع سے ہی گھر میں آبشار بنوانے کا بڑا شوق تھا ۔ اب ان کا شوق پورا ہو رہا تھا تو وہ سمجھ سکتی تھی کہ وہ کس قدر خوش ہو ں گی۔
اس نے ٹھنڈی آہ بھری ۔ یہ اس کی باجی تھیں جو سرکاری نوکر تھیں اور ان کا میاں بزنس مین تھا ۔ گھران کا اپنا تھا لیکن جب سے ابو جی فوت ہوئے تھے باجی نے امی جی کے کان کتر ڈالے تھے کہ گھر میں سے ان کا حصہ انھیں دے ڈالیں۔ابو جی نے مکا ن امی جی کے نام کروا دیا تھا اسی لیے اب مکان کی اصل مالک امی جی تھیں لیکن باجی یہ بات سمجھنے کی بجائے الٹی بات کر رہی تھیں کہ انہیں ان کا حصہ دے دیا جائے ۔ امی جی نے بہت سمجھایا کہ وہ اپنی زندگی میں اولاد کو حصہ دینے کے حق میں نہیں ہیں لیکن باجی نے عجیب ضد پکڑ رکھی تھی ۔
انہوں نے اپنے گھر میں کچھ کام کروانا تھااور انہیں رقم کی فوری ضرورت تھی ۔ امی پہلے تو ٹالتی رہی تھیں لیکن کب تک آخر منع کرتیں ۔ باجی کی جگہ جب ان کے شوہر نے امی جی سے براہ راست بات کی تو امی جی سے کوئی بہانہ نہ بن سکا ۔ بیٹی کے مقابل داماد کو ٹال مٹول کرنا آسان کام نہیں ہوتا ۔ وہ بھی گھر کا سب سے بڑا داماد ہو تو ۔
’’ بیٹا وہ تو ٹھیک ہے لیکن ۔‘‘
’’ لیکن ویکن کیا آنٹی ۔ جب رضیہ کا حصہ ہے اس مکان میں اور کل کو یہ مکان بکنا ہی ہے تو آج کیوں نہیں اسے مل سکتا ۔ ویسے بھی حسین بھی تو مکان کی اوپری منزل میںمفتے کا رہ رہا ہے ۔ کرائے کی جھنجھٹ سے بچا ہوا ہے ۔ اب اگر ہم مکان کے حصے میں سے رقم لے کر اوپری پورشن بنوانا چاہتے ہیں تاکہ اوپر کا پورشن رینٹ پہ دے سکیں تو اس میں کیا قباحت ہے ۔ کیا ہمیں اپنی زندگی میں سہولیات یا آسانیاں پیدا کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔‘‘
یہ سچ تھا کہ حسین کی جب سے شادی ہوئی تھی وہ اوپر کا پورشن کرائے داروں سے خالی کروا کر رہ رہا تھا ۔یہ بھی امی جی نے ہی اسے شروع سے الگ کر دیا تھا تاکہ ساس بہو کی روایتی چخ چخ سے بچ سکیں اور گھر میں سکون و امن قائم رہے ۔امی جی کی اس دور اندیشی سے ان کے گھر میں کبھی کوئی جھگڑا ہوا بھی نہیں تھا ۔بہو اور بیٹا جو جی میں آتا اپنے پورشن تک محدود رہ کر کرتے اور انہیں ان کی مرضی سے جینے دیتے ۔ اتنے بڑے پورشن میں دونوں میاں بیو ی راج کر رہے تھے جو دامادوں کی نظروں سے کیسے مخفی رہ سکتا تھا ۔اسی لیے بڑے داماد کو ٹالنا مشکل امر تھا ۔ امی جی نے خاموشی سے مکان کا ریٹ لگوا کر باجی کو ان کا حصہ دے ڈالا ۔ اس کے سوا سب بہن بھائیوں نے واویلا تو کیا مگر امی جی نے سب کو ‘ ان کی حاصل سہولیات کا جتا کر خاموش کروا دیا۔