مضامین

اداکار سہیل احمد ایک اکیڈمی، ایک عہد

’’چائے پیو گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’کیوں؟‘‘
نوے کی دہائی میں ایک ڈرامہ ’’شب دیگ‘‘ بہت مشہور ہوا تھا۔جس میں اندرون لاہور کی کہانیوں کو موضوع بنایا گیا تھا۔
یہ برجستہ مکالمہ سہیل احمد ادا کرتے تھے ۔ جو عوام میں بے حد مقبول ہوا ۔سہیل احمد پاکستان کے اسٹیج ٹی وی پر بطور مزاح نگار تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ ان کی وجہ شہرت اسٹیج ڈرامے،برجستہ مکالمے اور بہترین جان دار اداکاری ہے۔
جو لوگ اسٹیج پر پر فارم کرتے ہیں انہیں بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ حاضرین کی توجہ کیسے خود پر مبذول رکھنی ہے ۔جو لوگ اس میدان میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ان کے لیے ٹی وی فلم کی سکرین کا سامنا کرنا دشوار کام نہیں۔
سہیل احمد کا کام تین دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈرامہ سیریل ’’دن ‘‘سے کیا ۔ جو لاہور سینٹر کی پیش کش تھی ۔ اور انہوں نے اداکاری میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ اسی لیے حکومت نے انہیں تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔
سہیل احمد اسٹیج پر بے باک رقص کے خلاف ہیں ۔ اور اس کا اظہار واشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔
حسب حال میں یہ ملکی امور پر مزاحیہ انداز سے بات کرتے نظر آتے ہیں۔
مختلف سیاست دانوں کا بہروپ،لب و لہجہ یوں بناتے ہیں کہ اصل کا گمان ہوتا ہے۔
ڈرامہ انڈسٹری کو انہوں نے اپنی بے مثال پرفارمنس دی ۔ دکھ سکھ،حویلی،شب دیگ،ریزہ ریزہ،کاجل گھر ان کے یادگار ڈرامے ہیں۔
آج کل ان کے دو ڈرامے ’’ جیون نگر‘‘ اور ’’سٹینڈ اپ گرل ‘‘دیکھے جا رہے ہیں ۔جن میں ان کی اداکاری کمال کی ہے ۔جیون نگر میں وہ ایک ہیجڑے اور ایک بدمعاش کے کردار میں نظر آرہے ہیں ۔ ان کا ہر کردار دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ۔ ان پر مخصوص کردار کی چھاپ نہیں ہے ۔وہ ہیروز کی طرح رومانس نہیں بگھارتے، ولن کی طرح بڑھکیں نہیں مارتے۔
لیکن ان کی جاندار اداکاری نے انہیں منجھے ہوئے فنکاروں میں لا کھڑا کیا ہے۔
مجھے اسٹینڈ اپ گرل میں ان کا کردار نانا میاں بہت پسند ہے۔
ایک بوڑھا شخص جو رشتوں سے محبت کرتا ہے ۔ مثبت سوچ کے ساتھ رشتے نبھاتا ہے ۔ ان کی برجستگی،صاف گوئی کمال کی ہے۔
گرین چینل کے اس ڈرامے نے مجھے پی ٹی وی کے پرانے دور سے متعارف کروایا ہے ۔ بنا گلیمر کے بھی ڈرامے بن سکتے ہیں۔اس دعویٰ کو اس چینل نے ثابت کیا ہے۔
اداکارہ ایک فصل ہے جس میں آپ اپنی ذات کی نفی کرتے ہیں اور خون پسینہ ایک کرتے ہیں تب آپ ایک شاہکار پیش کرنے کے قابل بنتے ہیں۔
سہیل احمد ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتے ہیں۔جن سے جوئنیرز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

عندلیب زہرا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page