مکمل ناول

صحرائے عشق : پہلا حصہ

’’مجھے جو بتایا گیا ہے سب ویسا نہیں ہے ۔ بہت ساری معلومات کو درست ہونے کی اشد ضرورت ہے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ ٹھوس تھا ۔ وہاں موجود پانچ میں سے دو کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری تھی۔
’’ اس بات کا کیا مقصد ہے روحان ؟ ‘‘ کرنال عابد کا لہجہ اب سخت تھا۔
’’صرف یہ کہ وہ سب دشمن نہیں ہیں ۔ ان میں سے زیادہ دوست ہیں ۔ سب کو ایک ہی پلڑے میں رکھ کر تولا جاتا رہا تو جو دشمن نہیں بھی ہیں وہ بھی دشمن بن جائیں گے۔ ‘‘ وہ سنجیدہ تھا۔
’’ہم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب دشمن ہیں مگر تحقیق سب سے کرنی پڑتی ہے ۔کیسے فرق کریں ہم ؟ کون دشمن ہے کون نہیں، نہ ان کا کوئی یونیفارم ہے نہ کوئی پہچان ۔ دودن پہلے کوہلو میں حملہ کیا ہے انہوں نے، ہمارے بیس سپاہی شہید ہوئے ۔ بتاؤ‘کس سے تحقیق کریں ؟ ‘‘ کرنل کی آواز پر اس نے لب بھینچ لیے۔
’’تمہیں اس بغاوت کا سرا پکڑنا ہے روحان ، اسے ہم نے ہر صورت کچلنا ہے ۔ باقی رہی سب کی بات تو سب کو ہم قصور وار نہیں مانتے لیکن جب جنگ ہوتی ہے تو صرف گناہگار ہی نہیں مارے جاتے۔ ‘‘اسد کے کہنے پر اس نے تیوری چڑھائی تھی۔
’’ میرا خیال ہے کہ جنگ کے اصول بدلنے کا وقت آگیا ہے ۔ اگر مجھے بھیجا گیا ہے تو کسی بھی قسم کا آپریشن شروع کرنے سے پہلے مجھ پر بھروسہ کیا جائے ۔ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں ۔ جنگ سے زیادہ ذہن سازی ضروری ہے فی الوقت، اگر آپ واقعی چاہتے ہیں کہ 1971 والے حالات نہ ہوں تو ریاست کی طرف سے ہوئی زیادتی پر بھی غور کریں۔ ‘‘ اس نے کہہ کر ویڈیو آف کردیا تھا ۔
وہ جانتا تھا اسے اس کے نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں ۔ اس لیے فون آف کرتے ہی وہ اٹھ کر باہر آیا جہاں اسد اس کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ مجھے جیپ اور وہ لڑکی ابھی چاہئے ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر اسفند نے کہنا چاہا کہ وہ ابھی ٹھیک نہیں، جیپ ڈرائیو نہیں کرسکے گا مگر اس کے چہرے پر موجود قطعیت دیکھ کر وہ بنا بولے احکامات کی تیاری کرنے لگا جبکہ وہ چپ چاپ وہاں کھڑا سوچ رہا تھا ۔ وہ جانتا تھااپنے سینیئرز کے ساتھ اس طرح کی گفتگو پر اسے گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس سے پہلے کہ ایسے احکامات اسد کے پاس آتے وہ نکلنا چاہتا تھا ادھر سے لیکن جانے سے پہلے اس نے باس کے نام ایک میسج چھوڑ دیا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ اس کی بات سمجھیں گے ضرور ۔ ہمیشہ ان کی مدد سے ہی اسے اتنی چھوٹ ملتی رہی تھی ورنہ جتنے اصول اس نے توڑے تھے اسے کب کا فارغ کیا جاسکتا تھا ۔اپنی غیر معمولی زہانت اور فطرت کی وجہ سے وہ باس کا لاڈلہ تھا ۔ سینیئرز سے اس کی آج تک کبھی بن نہیں سکی تھی ۔ یہ نہیں تھا کہ وہ غلط تھے ۔ وہ قواعد و ضوابط کے پابند لوگ تھے ۔ ایجنسی کے مفاد کو آگے رکھنے والے، بس ان کا سوچنے کا زاویہ مختلف تھا ۔ وہ ہمیشہ اپنی بات ان کو سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوپاتا تھا ۔ کبھی ہوجاتا کبھی نہیں مگر قواعد و ضوابط کے تحت اسے بات پہلے سینیئرز سے ہی کرنی پڑتی تھی ۔ اسفند کو آتا دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ انتظام ہوگیا ہے ۔ وہ بھی پرجوش سا باہر کی طرف بڑھا۔
٭…٭…٭
ایک بار پھر روحان اپنے ناپسندیدہ ترین ہمسفر کے ساتھ جیپ میں تھا ۔وہ ہوش میں تھی مگر سر پر، بازو پر اور کمر پر آئی چوٹوں کے باعث وہ ہل بھی نہیں سکتی تھی ۔ اوپر سے اس نے اسے سیٹ کے ساتھ باندھ دیا تھا ۔ اس دفعہ وہ اسے بالکل بھی مارجن نہیں دینے والا تھا ۔ سارے فساد کی جڑ ہی وہ تھی ۔ تین گھنٹے کی مسلسل ڈرائیو کے بعد وہ ایک سنسان جگہ پر اسے لے آیا تھا ۔ جیپ روک کر روحان نے اسے اٹھا یا اور اس قدیم مندر کے اندر لے آیا تھا جو سالوں سے بند تھا ۔ اندر گھپ اندھیرا تھا ، اس نے ٹارچ آن کر کے اسے زمیں پر لٹایا اور مٹی سے اٹی کھڑکیاں کھولیں ۔ کھڑکی کھولتے ہی روشنی اندر آئی تھی اور سب واضح ہوگیا تھا ۔ اسے اٹھا کر چبوترے کے ساتھ باندھ کر اس نے اس کے منہ پر لگی پٹی کھولی تھی ۔پٹی کھلتے ہی مغلظات کا ایک طوفان تھا جو اس کے منہ سے نکلا تھا ۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا ۔ ایک پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی بلکہ ڈاکٹر کے منہ سے یہ سب سننا اسے کافی عجیب لگ رہا تھا۔
’’آپ انتہائی بدزبان اور جاہل خاتون ہیں ۔ ‘‘ اس کے خاموش ہونے پر وہ بولا۔
’’ اور تم انتہائی ڈرپوک اور بزدل مرد،بلکہ مرد کہنا بھی تمہیں مردوں کی توہین ہے۔ ‘‘ اس کے منہ پر تھوکتی ہوئی وہ بولی۔
ایک آگ تھی جواس کے اندر باہر لگی تھی یکدم مگر سرخ چہرے کے ساتھ وہ ضبط کرگیا تھا۔
’’ تمہاری فیملی ایسی نہیں ہے پھر تمہیں کیا تکلیف ہے ؟ ‘‘ تھوک صاف کرتے ہوئے وہ بہت ٹھنڈے لہجے میں بولا۔
’’ بڑے بے غیرت ہو ‘ غیرت ہو تو غصہ ہی آجائے۔ ‘‘ اس کے کہنے پروہ مسکرایا ۔ اتنا تو وہ جان گئی تھی کہ اسے مسکرانے کی عادت ہے۔
’’ غصہ آنا غیرت کی نشانی نہیں ہوتی بلکہ شیطان کا غلبہ ہوتا ہے ۔ وہی غصہ دلاتا ہے ہمیں جان بوجھ کر بالکل ایسے جیسے تم ابھی کوشش کر رہی ہو۔ ‘‘ وہ کسی بچے کی طرح اسے سمجھاتے ہوئے چوٹ کرگیا تھا ۔ اور توقع کے مطابق وہ آگ بگولہ ہوگئی تھی۔
’’ شٹ اپ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر اس نے پیچھے ہوکر ہاتھ کانوں پر رکھ لیے تھے۔
’’ بہت ہی گندی پچ ہے تمہاری آواز کی۔ ‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولا۔
’’ شاباش اب اسی آواز میں بتاؤ سب کچھ۔ ‘‘ وہ اب سنجیدہ ہوکر آگے بڑھا۔
’’کبھی نہیں، مر کر بھی نہیں ‘ تم کسی صورت مجھ سے کچھ اگلوا نہیں سکتے ۔ میں مرجاؤں گی لیکن بتاؤں گی نہیں۔ ‘‘ وہ اسی طرح چیختے ہوئے بولی تھی۔
’’ میں نے ایموشنل ڈرامہ کرنے کو نہیں کہا تمہیں‘ شرافت سے کہہ رہا ہوں بتادو۔ ‘‘
وہ یکدم اس کے قریب ہوگیا تھا بالکل قریب‘ اتنا کہ وہ سانس بھی لیتی تو وہ محسوس کرلیتا ۔ اس کی سنہری رنگت پر ہوائیاں اڑی تھیں اس حرکت پر ۔ مخالف نے اس کی بالکل صحیح کمزوری پکڑی تھی ۔ وہ جان گیا تھا کہ تشدد،ٹارچر جیسی کسی چیز سے اس نے کچھ نہیں بتانا ۔ جتنی وہ ضدی تھی وہ واقعی مرجاتی مگر بتاتی نہ کچھ ۔ ہاں مگر وہ ایک روایتوں کے امین پہاڑی قبیلے کی بیٹی تھی جس نے شروع سے ایک زنان خانے میں سات پردوں میں مردوں سے دور پرورش پائی تھی ۔ باغی ہوکر اس کا میل جول مردوں سے ہوگیا تھا مگر اندر سے وہ وہی تھی ۔ زندگی میں اس کے اتنا قریب کوئی اجنبی نہیں آیا تھا ۔ اس کی یہ کمزوری اس نے ہسپتال میں پکڑی تھی ۔ وہ بے بس اسے دیکھ رہی تھی، نا اسے پیچھے دھکیل سکتی تھی ، اس کا پورا وجود بندھا ہوا تھا ۔ یہاں دور دور تک کوئی نہیں تھا، وہ چاہتا تو کیا نہیں کرسکتا تھا اس کے ساتھ ۔ اسے پہلی بار اس سے خوف محسوس ہوا تھا۔
’’ دد…دور،دور ہوجاؤ ۔ یہی کرنا آتا تمہیں بس‘ ایسے تم مجھے ڈرانہیں سکتے… تم…تم۔ ‘‘
وہ چیخنا چاہتی تھی مگر اس کا اپنے چہرے پر جھکتا چہرہ دیکھ کر وہ بے بس اسے دیکھ رہی تھی پھر ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر پھیل گئے تھے ۔ وہ اب اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی، بس بے آواز رو رہی تھی جبکہ وہ ساکت سا اس کی بھیگتی لمبی خمدار پلکوں کو دیکھ رہا تھا ۔ بے اختیار ہی اس کے دل کو کچھ ہوا تھا ۔ شاید وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ وہ رو ہی پڑے گی ۔ اب تک اس نے لالہ رخ کو با اختیار،حکم چلاتے چیختے اور مضبوط دیکھا تھا ۔ اس وقت وہ ایک عام سی بے بس،معصوم لڑکی لگ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے پیچھے ہوگیامگر وہ اب بھی رو رہی تھی ۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر اس کی رسیاں کھولی اور آزاد کردیا تھا۔
’’ یہاں سے دو کلومیٹر پر آبادی ہے، تم با آسانی جاسکتی ہو، وہاں جاکر اپنے گھر رابطہ کرلینا ۔ ‘‘ روحان کے کہنے پر اس نے بے یقینی سے اس کو دیکھا تھا مگر وہ اسے دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ۔ دل کی حالت یکسر بدل گئی تھی۔
’’ امید کرتا ہوں تم صحیح راستہ جلد چن لو… خدا حافظ ۔ ‘‘
مظبوطی سے کہتا وہ باہر کی طرف بڑھ گیا تھا جبکہ وہ ساکت وہیں بیٹھی تھی ۔جیپ سٹارٹ ہو کر روانہ ہوگئی تھی جبکہ وہ مندر کی سیڑھیوں پر کسی بے حس و حرکت مجسمے کی طرح بیٹھی تھی ۔
٭…٭…٭
جیپ تیزی سے ریتلے راستے پر دوڑتی جارہی تھی ۔تھکاوٹ اور بھوک نے اسے نڈھال کردیا تھا مگر اس دن اڈے کی لی جانے والی تلاشی سے ملی مبہم سی معلومات کے آسرے پر وہ اب آگے بڑھنا چاہتا تھا ۔ لالہ رخ والا سرا اس کے ہاتھ اب نہیں تھا ۔ وہ جانتا تھا اس نے سب سے اہم سرا خود ہی اپنے ہاتھ سے جانے دیا تھا مگر اس لمحے میں وہ کونسی کیفیت تھی،کیا احساس تھا جس نے اسے بار بار مجبور کیا تھا کہ وہ اس لڑکی کو ایسے بے بس نہیں دیکھ سکتا ۔ جو بھی تھا اس قدر طاقتور تھا کہ وہ اپنی اتنے دنوں کی محنت، زخم ہر چیز بھول کر وہاں سے نکل آیا تھا ۔ اسے لگا تھا اگر وہاں رک جاتا تو شاید بندھ جاتا وہیں‘پلکوں کی گیلی ہوتی باڑ سے نکل نہ پاتا پھر … عجیب کیفیات کا ملاپ تھا ۔ اس ٹرانس سے وہ ابھی تک باہر نہیں آسکا تھا ۔ اس کے جیسے پریکٹیکل اور بے حد ٹھنڈے دماغ والے شخص کے لیے یہ سب قدرے ناقابل یقین تھا ۔ یہ نہیں کہ وہ کوئی عورت بیزار آدمی تھا، اس کی اپنی فیلڈ میں بہت ساری کولیگز کے ساتھ بہت اچھی ہیلو ہائے تھی ۔ نہ صرف یہاں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر اس نے چار بار اقوام متحدہ کے مشنز میں حصہ لیا تھا، وہاں مختلف ممالک سے آئی ہوئی بڑی ذہین ایجنٹس سے وہ مل چکا تھا اور ابھی تک ان سے رابطے میں تھا ۔ اس کی فطرت اور مسکراہٹ ایسی تھی کہ وہ صنف نازک خود بخود اس کی طرف متوجہ ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ سب کو بے حد کمفرٹیبل فیل کرواتا تھا اس لیے ہر دلعزیز تھا مگر اس دفعہ کچھ الگ ہوا تھا ۔ یہ وہ خود بھی صحیح سے سمجھ نہیں پارہا تھا ۔ اس مشن کے ساتھ وہ عجیب طریقے سے دن بدن زیادہ ہی ایموشنلی جڑتا جارہا تھا۔
سامنے سائن بورڈ دیکھ کر اس نے سٹیئرنگ موڑا اور گاؤں میں داخل ہوگیا۔ جیپ اس نے ایک روایتی برتنوں کی دکان کے آگے روکی ۔ دکان پر موجود آدمی اور اردگرد والے کچھ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔
’’ سردار سے ملنا ہے۔ ‘‘ اس نے سلام دعا کے بعد کہا۔
’’ شہر سے آیا ہے ہم‘ایک ضروری کام ہے۔ ‘‘
اس کے کہنے پر دکاندار نے ایک بچے کو اس کے ساتھ روانہ کیا تھا ۔ تقریباََ پانچ منٹ بعد وہ سردار کے گھر کے سامنے تھا ۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا ۔زائر قبیلے کی طرح نہیں تھا نہ ہی کوئی ملازم تھا نہ پہرے دار ۔ اس کی دستک پر اندر سے ’’کون ہے‘‘ پوچھا گیا تھا بلوچی میں۔ اسے بلوچی سمجھ آتی تھی تھوڑی بہت مگر بولنی نہیں آتی تھی ۔ یہاں آنے سے پہلے اس نے کافی سیکھی تھی لیکن روانی نہیں آسکی تھی پھر بھی۔
’’ شہر سے مہمان ہے، سردار سے ملنا ہے۔ ‘‘ بچے نے با آواز بلند جواب دیا تھا ۔
جواباََ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اندر آنے کی اجازت مل گئی تھی ۔ بیٹھک نما کمرہ تھا جس میں کرسیاں اور میز لگا ہوا تھا، ایک کرسی پر بیٹھا وہ چالیس بیالیس سالہ آدمی یقینا سردار تھا اور اس کے سااتھ اسی کی عمر کا بغیر پگڑی کے ایک اور آدمی بیٹھا تھا ۔ اس کی تیز نظروں نے اس دوسرے آدمی کے چہرے اور کان کی لو کے رنگ میں فرق بڑی تیزی سے محسوس کیا تھا ۔ بنا کچھ ظاہر کیے وہ اندر آگیا۔
’’ کون ہوتم‘ کدھر سے آئے ہو۔ ‘‘سردار نے اس کو قدرے حیرت سے دیکھا تھا ۔
’’ ہم کو لالہ رخ نے بھیجا ہے ۔ تمہارا دونوں آدمی مارا جاچکا ہے۔۔ فوج نے حملہ کیا تھا اڈے پر‘بی بی خود بھی انڈر گراؤنڈ ہوگیا ہے ۔ اطلاع بھجوائی ہے۔ ‘‘
؎ اس نے بنا رکے مؤدبانہ لہجے میں بغور ان کے چہرے دیکھتے ہوئے کہا رنگ بدل چکا تھا ۔تیر نشانے پر لگا تھا ۔ اس نے صرف وہاں سردار کے نام کی اور گاؤں کی مہر دیکھی تھی ان دونوں آدمیوں کی جیب میں ۔ اور رسک لے کر تکا مارا تھا جو عین نشانے پر لگا تھا ۔وہ جانتا تھا ادھر آپسی رابطہ فون پر کرنے سے گریز کیا جاتا تھا کیونکہ جگہ جگہ کال ریکارڈز ہوجاتی تھیں۔۔اطلاع دینے کے لیے مخصوص بندے ہی بھیجے جاتے تھے ادھر ادھر۔
’’یہ…یہ کیا بکواس ہے،یہ کیسے ہوسکتا ۔‘‘ وہ دونوں کھڑے ہوگئے۔
’’معلوم نہیں کیسے ہوا‘ میں صرف اطلاع دینے آیا ہو ں۔ ‘‘ اس کے کہنے پرچھ فٹ سے نکلتے قدوقامت اور صاف رنگت کے دوسرے آدمی نے اسے دیکھا۔
’’ تم کون ہو پہلے تو کبھی نظر نہیں آئے لالہ رخ کے ساتھ؟‘‘اس کے پوچھنے پر وہ عادتاََ مسکراتے مسکراتے رکا ۔
’’ میں ان کا باڈی گارڈ ہوں، نیا رکھا ہے انہوں نے۔ ‘‘ بڑے اطمینان سے اس نے جواب دیا تھا ۔ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔
ان کا دھیان بٹا۔
’’ کون ہے۔ ‘‘ سردار نے ایک باآواز بلند پوچھا۔
’’ میں ہوں بابا جان گلنار ۔ ‘‘ باہر سے کسی لڑکی کی آواز آئی تھی ۔ وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔
’’ مہمان ہیں ابھی بعد میں آنا ۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔
’’ تھوڑا جلدی ہے بابا،ہمارا دوست ہے ساتھ لالہ رخ… ‘‘ آواز تھی یا ہتھوڑا‘ اس جیسا بندہ بھی بے اختیار ایک لمحے کے لیے گڑبڑاگیا تھا ۔ جبکہ ان دونوں نے قدرے مشکوک ہو کر اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’ اندر آجاؤ۔ ‘‘ سردار کے کہنے پر وہ دونوں اندر آئی تھیں۔
لالہ رخ کی نظر اندر آتے ہی اس پر پڑی تھی ۔ روحان نے بمشکل تھوک نگلا ۔ بستی میں جاکر گھر والوں سے رابطہ کرنے کی بجائے وہ رابطہ کر کے ادھر آپہنچی تھی ۔ وہ حیران سی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔
’’ یہ سب کیا ہے لالہ رخ، یہ تمہارا باڈی گارڈ… یہ کون ہے کہہ رہا ہے اڈا ختم ہوگیا ہے۔ ‘‘ سردار کے کہنے پر اس کی آنکھوں میں حیرت کی جگہ سرد مہری اتر آئی تھی۔
’’ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے ماموں جان۔ ‘‘ اس کے لہجے میں کیا تھا وہ سمجھ نہیں سکا۔
’’ حیرت ہے فوج والے اب بتانے بھی خود آجاتے ہیں کہ حملہ کرکے سب ختم کردیا ہے ہم نے۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ حرکت کرتا وہ گن اس کے ماتھے پر رکھ چکی تھی۔
’’کوشش بھی مت کرنا… ‘‘ اس نے اسی کی بات دہرائی تھی۔
وہ آنکھیں،بے بسی اب کہیں نہیں تھی ۔ وہ خاموشی سے ہاتھ اوپر کرگیا ۔ اس کے گن پکڑنے کے سٹائل سے ہی وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ کمرے میں موجود باقی لوگ کچھ حیرت اور سمجھی ناسمجھی کے ملے جلے تاثرات لیے انہیں دیکھ رہے تھے جہاں باڈی گارڈ ہاتھ اٹھائے مالکن کے آگے کھڑا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے