مکمل ناول

صحرائے عشق : پہلا حصہ

’’ صاب ادھر مت جائیں۔ ‘‘
پیچھے سے آتی آواز پر وہ چونک کر رکا ۔ یہ شیردل تھا جو اس کا گائیڈ بن کر اسے علاقہ دکھا رہا تھا ۔ ادھر ہسپتال کا بورڈ دیکھ کر وہ اس طرف مڑا تھا تو اس نے روک دیا تھا۔
’’ کیوں؟ ادھر کیا ہے ؟ ‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ ادھر ہمارا بی بی بیٹھتا ہے ۔ عورت کا علاج کرتا ہے ۔ ادھر مرد نہیں جاسکتا کوئی… ‘‘ شیردل کے کہنے پر اس کا ماتھا ٹھنکا۔
’’ اچھا میں نہیں جاتا مگر پیاس لگی ہے بہت، پانی لادو کہیں سے ۔ میں ادھر ہی بیٹھا ہوں۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ سر ہلاتا واپس مڑ گیا ۔
ہسپتال کی یہ چھوٹی سی بلڈنگ پہاڑی پر بنی ہوئی تھی ۔ باہر کالی جیپ کھڑی تھی ‘مطلب بی بی اندر ہی تھی ۔ وہ تقریباََ دوڑتا ہوا عقبی سمت پر آیا تھا ۔ دیوار چھوٹی تھی، اس نے با آسانی پھلانگ لی ۔ جوتے اتار کر ایک سائیڈ پر رکھ کر وہ بنا آہٹ کے اندر آیا تھا ۔ اسے تسلی تھی کہ اندر کوئی مرد نہیں تھا نہ ہی آتا تھا ۔ نہ ہی شیر دل اسے ڈھونڈنے ادھر آنے کی غلطی کرے گا ۔ کمروں کے باہر چھوٹے چھوٹے بورڈ آویزاں تھے جن پر ایک قطار میں آپریشن تھیٹر، فارمیسی، لیب اور آخر میں آفس کا بورڈ تھا ۔ اس نے بڑے سکون سے آفس کا دروازہ کھولا تھا ۔ سامنے وہی تھی۔گویا وہی ڈاکٹر تھی … دروازہ کھلنے پر وہ سر اٹھا کر اسے بے یقین نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ یہ حیرانی صرف دو لمحوں کی تھی ۔ اگلے ہی لمحے وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
’’ کوشش بھی مت کرنا۔ ‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑی پینسل گھما کر اس کے میز کی طرف جاتے ہاتھ پر ماری تھی جس سے وہ بے اختیار ہاتھ پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوئی۔
وہ دروازہ لاک کر چکا تھا۔
’’ کچھ حساب رہ گئے تھے، آج سب کلیئر کر کے جاؤں گا۔ ‘‘ وہ سردلہجے میں کہتا اس کی طرف بڑھا جو خاموش کھڑی تھی ہونٹ کاٹتے ہوئے‘ اس کے وہاں آنے پر اگر حیران تھی بھی تو شو نہیں کر رہی تھی۔
’’ لالہ رخ … یہی نام ہے تمہارا۔ ‘‘ قریب آنے پر اس نے اس کا بازو کھینچ کر کرسی پر بٹھایا تھا۔
’’ اپنی حد میں رہو۔ ‘‘ وہ اس زبردستی پر غرائی تھی ۔
’’ یہ تو مجھے تم سے کہنا چاہیئے ۔ جو لڑکی اپنے خاندان، والدین کو دھوکہ دے رہی ہو، جس کی حرکتوں کی وجہ سے اس کے قبیلے کی وفاداری کو شک سے دیکھا جاتا ہو ۔ وہ مجھے کہہ رہی ہے حد میں رہنے کا۔ ‘‘ وہ کرسی کے دونوں بازؤں سے آگے ہو کر جھکا جس سے وہ واضح طور پر گھبرائی تھی۔
’’ دور ہٹو… ‘‘ اس نے تیزی سے اپنی ٹانگ اس کے بازو پر ماری تھی اٹھا کر مگر وہ ہلا نہیں تھا۔
’’ مجھے ایسے لوگوں کے قریب آنے کا شوق بھی نہیں ۔ مجھے جو چاہیئے وہ بتا دو ورنہ… ‘‘وہ سکون سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہ رہا تھا۔
’’ ورنہ کیا؟ ماردو گے مجھے؟ ماردو… ‘‘ اس کی بے خوفی واپس آچکی تھی ۔ کہیں سے بھی اب وہ دھان پان سی لڑکی نہیں لگ رہی تھی۔
’’ ماروں گا نہیں‘ یہ تو تم بھول جاؤ لیکن کیونکہ ابھی تمہارا کچھ بتانے کا ارادہ نہیں اس لیے مجھے مجبوراََ تمہیں ساتھ لے جانا پڑے گا۔ ‘‘ وہ تھوڑا اور قریب ہوا ۔ بالکل اس کی آنکھوں کے قریب ۔ جواباََ اس نے فوری نظر ہٹائی تھی اور پوری قوت سے اس کو پیچھے کی طرف دھکیلا تھا۔
’’ مجھ سے دور رہ کر بات کرو۔ ‘‘ وہ چیخی تھی۔
’’ کیوں؟برا لگ رہا ہے؟‘‘ وہ مسکرا کر پھر قریب آیا۔
’’میرے ناقص علم کے مطابق تمہیں تو فوجی بہت پسند ہیں ، تم تو غالباََ شادی بھی کسی فوجی سے کرنے کی خواہشمند ہو۔ ‘‘ وہ گہری نظر سے اس کے چہرے پر پڑتی روشنی میں اس کی سنہری چمکتی پیشانی پر ہلکے ہلکے پسینے کے نمودار ہوئے قطروں کو دیکھتا حظ اٹھا رہا تھا۔
’’ اگر تمہیں لگ رہا ہے کہ اس طرح کی باخبری شو کرکے تم مجھے ڈرا لوگے تو… ‘‘وہ دانت پیستی ہوئی بولی تھی۔ وہ زور سے ہنسا۔
‘‘مجھے ڈرانا نہیں ہے نہ مارنا ہے ۔ یہ سب کرنا ہوتا تو آج سے ٹھیک دو دن پہلے میں با آسانی کر سکتا تھا ۔ ‘‘وہ مسکراتے ہوئے اسے یاد کروا رہا تھا۔وہ احسان جو اس پر کر چکا تھا ۔
’’ ایک بھی اچھی عادت نہیں تم میں تمہارے قبیلے کی … نہ مہمان نوازی، نہ وفاداری اور نہ ہی احسان قدری۔ ‘‘ وہ اب میز پر بیٹھ چکا تھا۔
’’ چلو پھر تیاری کرو شاباش۔ ‘‘ اس کے کہنے پر اس نے کرسی سے اٹھنا چاہا تھا مگر اس سے پہلے ہی وہ ٹانگ آگے کر چکا تھا۔
’’ اتنی فرمانبرداری بھی اچھی نہیں… ‘‘ دوسرا ہاتھ پیچھے سے اس کی ناک کے قریب لاتے ہوئے اس نے سرگوشی کی اور پھر زور سے ہاتھ میں پکڑی وہ سوئی جیسی چیز زور سے اس کے بازو میں چبھوئی تھی ۔ اگلے ہی لمحے وہ بے جان سی ہو کر کرسی پر گری تھی ۔ وہ اسے احتیاط سے اٹھا کر باہر کھڑی جیپ کہ طرف بڑھا تھا ۔ یہ وقت ڈائریکٹ ایکشن کا تھا اور وہ مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ یہاں سے نکلنا کتنا بڑا رسک تھا، بلوچ اپنی عورتوں کے لیے کتنے حساس ہوتے یہ وہ بہت اچھے سے جانتا تھا لیکن رسک لینا اس کی عادت تھی ۔ یا تو وہ ان کی ناک کے نیچے سے نکل جائے گا یا پھر یہ صحرا ہی اس کا مدفن بننے والا تھا یہ تو قسمت ہی جانتی تھی۔
٭…٭…٭
چھم چھم گرتی بارش مستزاد اس پر بادلوں کی گھن گرج اور کڑک… ایک بار پھر وہ تھا اور خاران کا صحرا تھا ۔
فرق یہ تھا کہ اس دفعہ اس کے ساتھ ہوش و خرد سے بے خبر پچھلی سیٹ پر وہ بھی تھی ۔ اس دفعہ پھر سے رات کا وقت تھا اور طوفان تھا صحرا میں، بس پچھلی دفعہ وہ طوفان ریت کا تھا ۔ اس دفعہ پانی کا… وہ لب بھینچے فل سپیڈ پر جیپ دوڑا رہا تھا ۔ بستی سے وہ تقریبا پانچ سو کلومیٹر دور آگئے تھے مگر اب اس بارش اور طوفان نے اسے اچھی خاصی پریشانی میں ڈال دیا تھا ۔ صحرا کا موسم ایسا ہی بے اعتبار ہوتا ہے۔ نہ کوئی نیٹورک تھا ادھر نہ مدد کا کوئی اور زریعہ … بارش کی شدت زور پکڑتی جارہی تھی ۔ سالوں بعد ہی ایسی بارش نصیب ہوتی تھی اس ریت کے میدان کو ۔ تھوڑی ہی دیر بعد جیپ کے ٹائر ریت میں دھنسنے لگے تھے اوپر سے گاڑی کے شیشوں پر تابڑ توڑ گرتا پانی ۔ اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ بھی دیکھنے کے لائق نہیں رہا تھا۔ بالآخر اسے لق و دق صحرا کے بیچ و بیچ جیپ روکنا ہی پڑی تھی ۔ جتنی جلدی وہ یہاں سے نکلنا چاہتا تھا اتنی ہی دیر ہورہی تھی ۔ وہ جانتا تھا پیچھے قبیلے میں اس وقت کیا حالات ہوں گے اور اس کے پیچھے اگر وہ آگئے تو وہ بنا کچھ پوچھے سیدھی گولی ماریں گے ۔ گو کہ وہ کافی دور تھے اور تھے بھی بالکل مخالف سمت میں مگر پھر بھی یہ رسکی تھا اور اس وقت یہاں رکنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔ یہ جیپ بھی لالہ رخ کی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کتنے دم خم کی تھی اس لیے اس نے رکنا ہی مناسب سمجھا۔
’’آہ…‘‘ کراہنے کی آواز پر وہ بے اختیار پیچھے مڑا۔
وہ دونوں ہاتھ سر پر رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ اس کے مطابق اسے ابھی گھنٹہ مزید ہوش میں نہیں آنا چاہیئے تھا مگر وہ آگئی تھی ۔ یقینا وہ مضبوط قوت مدافعت کی مالک تھی ۔ سر چکرانے کے باعث وہ دوبارہ گرنے کو تھی کہ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا بازو تھاما ۔ جوابا وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگی ۔ شاید وہ ذہنی طور پر ابھی مکمل ہوش میں نہیں تھی ۔
’’ کک…کہاں ہوں میں،تم… ‘‘ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کے اس کے منہ سے نکل رہے تھے۔
’’ بے ہوشی کی ایک ڈوز سے کسی کی یادداشت نہیں جاتی ۔ اس لیے ڈرامے مت کرو اور سیدھی طرح بیٹھو ۔ پہلے ہی تمہاری وجہ سے میرا بہت ٹائم ویسٹ ہوگیا ہے۔ ‘‘ اس نے بیزاری سے اس کا بازو ہلکا سا جھٹک کر اس کا سر پیچھے سیٹ کے ساتھ لگایا ۔آگے سے اس کا کوئی ریسپانس نہیں آیا تھا ۔ وہ آنکھیں موند گئی تھی تبھی بجلی اتنی زور سے کڑکی تھی کہ وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی تھی ۔ یوں لگ رہا تھا کہیں گری تھی ۔ اب کی بار سر اس نے دونوں ہاتھوں میں تھاما تھا ۔
’’ یہاں کی رہنے والی ہوتم ۔ یہاں پاس ہی اڈا تھا تمہارا‘ ہر طرح کے موسم سے واقف ہو پھر یہ ناٹک کا مقصد ؟ ‘‘ وہ دانت پیستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا جو اب کافی ہوش میں آگئی تھی۔
’’ کہاں لے کر جا رہے ہو تم مجھے۔ ‘‘ وہ واقعی اب ہوش میں آگئی تھی۔
’’ پتہ چل جائے گا تمہیں بہت جلد… ‘‘ وہ رخ موڑ کر سیدھا ہوگیا تھا ۔
جانتا تھا وہ بھاگ نہیں سکتی، اس کے ہاتھ کلپڈ تھے، دروازے لاکڈ تھے اور پاؤں بھی بندھے ہوئے تھے۔
’’ ایک عورت کو باندھ کر لے لے جارہے ہو ۔ یہ ہے تمہاری مردانگی اور بہادری… بزدل… اس سے زیادہ بہادر تو ہماری عورتیں ہوتی ہیں۔ ‘‘ وہ پھنکاری جواباََ وہ خاموش رہا ۔ اگر وہ اسے اشتعال دلانے کی کوشش کر رہی تھی تو یہ ناممکن تھا ۔ وہ اتنی جلدی غصے میں آنے والوں میں سے نہیں تھا۔
’’ سارے بے غیرت لوگ ہی اکٹھے ہیںفوج میں شاید … ‘‘ وہ بڑبڑائی۔
اس کی بات پر اس نے لب اتنے زور سے بھینچے تھے کہ خون رسنے لگا تھا مگر وہ بولا پھر بھی کچھ نہیں تھا ۔ بارش اور گھپ اندھیرے کے باعث اسے ہر چیز تاریک لگ رہی تھی ۔
’’ مجھے کھول دو تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا مسٹر ورنہ یہ صحرا تمہاری قبر بن جائے گا، یاد رکھنا۔ ‘‘ اب وہ عادت کے مطابق چیخ رہی تھی۔
اس نے گلے میں پڑا مفلر نما کپڑا ہلکا سا اوپر کر کے کانوں پر رکھ لیا تھا ۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اس نے بندھی ہوئی ٹانگ زور سے اس کی سیٹ پر ماری تھی پیچھے سے مگر وہ ویسے ہی بیٹھا رہا ۔ اب وہ بندھی ہوئی آگے آنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھر بے بس ہو کر اس نے بازو سائیڈ شیشے ہر مارنے شروع کر دیئے۔
’ ’ تمہیں تو کسی پاگل خانے میں ہونا چاہیئے۔ ‘‘ اس نے پیچھے مڑ کر اسے کھینچا۔
’’ چھوڑو مجھے۔ ‘‘ اس کے بازو سے خون رس رہا تھا۔
’’ مجھے کوئی شوق نہیں تمہیں پکڑنے کا یقین کرو‘ پر تم حرکتیں ایسی کرتی ہو کہ میں مجبور ہوجاتا ہوں۔ ‘‘ وہ سنجیدگی سے اسے اٹھا کر آگے بٹھاتے ہوئے بولا۔
’’ اٹھا اٹھا کر تمہیں ایسے پھر رہا ہوں لگ رہا جیسے گناہوں کی پوٹلی اٹھائے پھر رہا ہوں اپنی۔ ‘‘ اس کی سیٹ تھوڑی پیچھے کی طرف کرکے اس نے اسے ایزی کیا ۔ اب وہ بول رہا تھا تو وہ چپ تھی۔
’’مجھے کھول دو پھر دیکھنا تمہارے گناہ بخشواتی سارے۔ ‘‘ اس نے ٹانگ پھر اس کے پاؤں پر ماری۔
’’اب اگر تم چپ کر کے نہ بیٹھی تو میں تمہیں دوبارہ بے ہوش کردوں گا۔ ‘‘ اس نے سرد لہجے میں کہا ۔ دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی ۔ وہ واقعی چپ کر کے بیٹھ گئی تھی ۔ بارش کا زور ٹوٹ رہا تھا ۔ اس نے جیپ دوبارہ سٹارٹ کی اور فل سپیڈ دی ۔ ابھی تیز رفتاری سے جیپ بھاگی ہی تھی کہ اس نے ٹانگ ایک بار پھر پوری قوت سے اس کے ہاتھ پر ماری تھی ۔ سٹیئرنگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا ۔ جیپ نے زور سے ہچکولے کھائے۔
’’ میں تو اس مقدس کام کے لیے مرنے کے لیے کب سے ترس رہی تھی مگر اب تم بھی مرو گے ساتھ۔ ‘‘ اس کی آواز الٹتی جیپ میں اس کے کانوں میں گونجی ساتھ ہی ہر طرف تاریکی چھا گئی تھی۔
٭…٭…٭
کسی گہرائی سے باہر آیا تھا وہ یا کوئی روشنی کا سرا تھا جو اندر پھیلا تھا ۔ اس نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ آنکھیں کھولیں اور اردگرد کا جائزہ لے کر بے اختیار لمبی سانس لی ۔ یہ پاک آرمی کا ہسپتال تھا ۔ اس کے ہوش میں آتے ہی دروازہ کھلا تھا اور ایک لمبا سا انتیس تیس سالہ شخص اندر داخل ہوا جو فل یونیفارم میں تھا، کندھے پر سجے سٹار کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا تھا وہ کیپٹن تھا ۔ سامنے شرٹ پر ’’اسفندیار‘‘کا نام کنندہ تھا۔
’’شکر ہے آپ کو ہوش آگیا ۔ ‘‘ اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ بے اختیار بولا ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی‘کمر میں زور کی ٹیسیں اٹھی تھیں ۔
’’ یہ کونسی جگہ ہے۔ ‘‘ اس نے آہستہ سے پوچھا۔
’’ یہ جنت پور ہے ۔قصبہ ہے خاران کے نزدیک … آپ کا سگنل ہمیں مل گیا تھا مگر رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا ۔ بہت مشکل سے لوکیشن ٹریس ہوئی ۔ ‘‘ وہ تفصیل سے بتا رہا تھا کھڑے کھڑے ۔ اس کا سینیئر زخمی لیٹا ہوا تھا اس لیے وہ احتراماََ کھڑا تھا آرمی رولز کے مطابق ۔
’’ آپ کی جیپ شاید قابل استعمال نہ رہے ۔ وہ کافی سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ گئی ہے۔ ‘‘ اس نے مزید رپورٹ کی۔
’’ میرے ساتھ ایک عدد خاتون تھیں۔ ‘‘ وہ قدرے بے چینی سے بولا ۔ اسفند یار نے اس بے چینی پر حیرت سے دیکھا تھا۔
’’ان کو کافی چوٹ لگی ہے ۔ زیر علاج ہیں۔ ‘‘ اس کے بتانے پر اس نے سر ہلایا۔
’’ مجھے ایک جیپ کا بندوبست کردو اور اس لڑکی کا ضروری ٹریٹمنٹ جلد از جلد کر کے سیل میں لے کر جاؤ ۔ اس کا باقی کا علاج میں ادھر ہی کروں گا ۔‘‘ اس کا لہجہ سرد تھا۔
’’ کیا وہ ساتھی نہیں ہے ؟ ‘‘ اسفند یار کے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’نہیں، ساتھی نہیں ہے۔‘‘ اس کے مختصر جواب پر اسفند یار سرہلاتا ہوا باہر چلا گیا ۔ اس کے باہر جاتے ہی وہ بھی آہستہ سے بیڈ سے نیچے اتر کر آہستہ آہستہ کمرے میں چلنے لگا۔ اسے جلد از جلد ٹھیک ہو کر اپنا کام کرنا تھا ہر صورت ۔ تقریباََ آدھے گھنٹے بعد اسفند یار آیا تھا ۔ اس کے ہاتھ میں موجود ٹیب دیکھ کر اس نے سوالیہ نظروں سے اسفندیار کو دیکھا۔
’’ کرنل عابد بات کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ اس کے کہنے پر اس نے ٹیب تھام لیا ۔ دوسری طرف میٹنگ نما کمرے میں کرنل کے ساتھ کچھ اور انٹیلیجنس آفیسرز بھی بیٹھے تھے۔
اس نے سلیوٹ مارا۔
’’ کیسے ہو جوان۔ ‘‘ ان کی آواز پر وہ مسکرایا۔
’’الحمدللہ۔ ‘‘ اس نے خوشدلی سے جواب دیا۔
’’پروگریس؟‘‘ یہ سوال ایک دوسرے آفیسر کی چرف سے تھا۔
’’فی الحال کوئی خاص نہیں۔ ‘‘ وہ اینڈ تک اپنی کامیابی کا پتہ نہیں چلنے دیتا تھا کبھی بھی ۔ یہ اس کی عادت تھی۔
’’سب کچھ بتا کر بھیجا گیا تھا آپ کو، اس کے باوجود زیرو پروگریس اور الٹا آپ اس قدر زخمی حالت میں ملے ہیں ۔ یہ تو سراسر ناکامی ہے۔ ‘‘ یہ سرد آواز سعد کی تھی ۔ وہ بھی میجر تھا روحان کی ہی طرح مگر اس سے سینیئر تھا ۔ اس کی آواز پر وہ پھر مسکرایا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے