مکمل ناول

صحرائے عشق : پہلا حصہ

سورج اس وقت پورے آب و تاب سے چمک رہا تھا ۔ کھلے علاقے میں تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سورج آج ہی سوا نیزے پر آگیا ہو ۔ پسینے سے مکمل شرابور وہ قدرے تھکا تھکا دور کسی بستی کے آثار دیکھ رہا تھا ۔ جیپ ٹھکانے لگا کر وہ بڑی لمبی مسافت پیدل طے کر کے ادھر آیا تھا ۔ پہاڑوں کے دامن میں بنی اس چھوٹی سی بستی میں داخل ہوتے ہی اسے زندگی کی ہلچل کا احساس بڑی شدت سے ہوا تھا ۔ صاف ستھری کشادہ گلیوں میں درخت، مکانوں سے لٹکتی پھولوں والی سر سبز بیلیں‘ اسے بڑا ہی خوشگوار سا احساس ہوا تھا ۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ایک قدرے اونچے بنے تھڑے پر درخت کے سائے میں بیٹھ گیا اور ہاتھ میں پکڑا تھیلا بھی اپنی سائیڈ پر رکھا ۔ اکا دکا لوگ اس راستے سے گزر رہے تھے، قدرے سستانے کے بعد اس نے بغور ادھر ادھر دیکھا اور کارنر پر لگے نواز بلوچ چائے کے بورڈ نے گویا اس میں ایک نئی طاقت بھر دی تھی ۔ وہ تیزی سے اٹھ کر اس کھوکھے کی طرف آیا اور چائے بنانے کا کہ کر وہیں پڑی بوسیدہ سی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔
’’ لگتا ہے کافی دور سے آئے ہو۔ ‘‘ چائے بنانے والے عمر رسیدہ آدمی نے اس کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا۔
’’ ہاں بہت دور سے… سیاح ہوں مگر راستے میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ۔ تب سے آبادی ڈھونڈھ رہا ہوں، بڑی مشکل سے یہ بستی ملی ہے۔ ‘‘ اس نے بڑے دکھ سے بتایا۔اس کے کہنے پر مقابل کے چہرے پر افسوس کے ساتھ غصے کے تاثرات بھی ابھر آئے تھے۔
’’ بلوچ کسی کو لوٹتے نہیں، یہ خواجہ قبیلے کا لوگ ہوگا یقینا‘ وہ بلوچ نہیں ہیں، وہی ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔ ‘‘ چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے وہ اسے بتا رہا تھا۔
’’ شاید وہی ہوں پھر‘ یہ علاقہ،یہاں بھی کیا کوئی قبیلہ آباد ہے ؟ ‘‘ اس کے استفسار پر وہ چائے کے ساتھ کچھ کھانے پینے کا سامان بھی اس کے سامنے رکھ کر خود بھی سامنے آکر بیٹھ گیا۔
’’ کچھ کھالو پہلے، اتنی دور سے آئے ہو ۔ بھوک لگی ہوگی۔ ‘‘ بوڑھے کے جواب دینے کی بجائے اس نصیحت پر اس نے خاموشی سے کھانا شروع کیا ۔ اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی۔
’’ یہ زائر قبیلہ ہے ۔ یہاں تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بالکل بھی‘ ہر قسم کی مدد تمہیں ملے گی ۔ تم کچھ کھالو پھر ہم تم کو سردار کے پاس لے جائے گا ۔ وہ تمہارا تمہارے علاقے میں واپسی کا تمام بندوبست کردے گا۔ ‘‘ ان کی تسلی پر اس نے بڑے تشکر سے ان کودیکھا۔
’’ شکریہ آپ کا بہت بہت… کیا یہاں حکومت کا کوئی نمائندہ ہے ؟ یا آس پاس کہیں‘ مجھے وہاں سے مدد مل سکتی ہے ۔ ‘‘ اس نے کہنے کے ساتھ بغور مقابل کے تاثرات دیکھے تھے۔
’’یہاں حکومت کا لوگ نہیں آتا‘ وہ سب شہر میں ہوتا ہے ۔ تم سردار سے مل لو‘یہاں وہی حکومت ہے ۔ ‘‘ اب کے اس کا لہجہ کچھ عجیب تھا۔
’’کیا تم حکومت کا آدمی ہے؟‘‘ ان کے پوچھنے پر وہ ہلکے سے مسکرایا۔
’’ میں سرکاری ملازم ہوں ۔ اس لیے سوچا کہ حکومت کی مدد لے لوں۔ ‘‘ اس کے گول مول جواب پر اس نے سمجھ آنے والے انداز میں اثبات میں سر ہلایا۔
’’اچھا اچھا مگر ادھر حکومت کا آدمی نہیں ہے کوئی ۔ حکومت غریبوں کے پاس کدھر آتابھلا‘ادھر کا لوگ ان کو زیادہ پسند بھی نہیں کرتا۔ ‘‘ انہوں نے آخری بات قدرے سرگوشیانہ انداز میں کہی۔
’’اس لیے سردار کے پاس حکومت کا ذکر مت کرنا ۔ غریب لوگ ہے سب ادھر‘محنت مزدوری کرتا ہے اور خوش رہتا ہے ۔ ہمیں حکومت سے کیا لینا دینا۔ ‘‘
ان کے سمجھانے پر اس نے آہستہ سے سر ہلا دیا ۔ پھر کھانا ختم کرنے کے بعد وہ ان کے ساتھ سردار سے ملنے کے لیے نکلا تھا ۔ راستے میں اسے پتہ چلا کہ اس کا اپنا نام ہی نواز بلوچ ہے اور وہ اپنے نام سے ہی چائے کا کھوکھا چلا رہا تھا ایک لمبے عرصے سے‘ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔
’’ اگر رہنا ہو تو تم میرے غریب خانے پر رہ سکتے ہو ۔ میں کوئی کرایہ نہیں لوں گا لیکن اس سے پہلے سردار سے اجازت لینا ضروری ہے۔ ویسے تو وہ تمہیں اپنے مہمان خانے میں ہی رکھے گا۔ ‘‘ گلابی پھولوں کی بیلوں سے ڈھکے اس سفید محل کے سامنے رکتے ہوئے نواز بلوچ نے بڑے خلوص سے اسے آفر کی تھی۔
’’آپ کے پاس رہنا میرے لیے اعزاز ہو گا مگر سردار سے مل کر ہی کوئی فیصلہ کرسکتا میں۔ ‘‘ ان کوکہتے ہوئے وہ بغور اس کنالوں پر پھیلے محل کا جائزہ لے رہا تھا۔
’’آؤ پھر… ‘‘ ان کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی اس گیٹ سے اندر داخل ہوا تھا ۔ وسیع و عریض راہداریوں اور ملازموں کے درمیان سے گزرتے ہوئے وہ ایک کھلے دالان کے سامنے آکر رکے تھے۔
’’ یہ کون ہے نواز۔ ‘‘ سرمئی قمیض شلوار میں ملبوس وہ اپنی وضع قطع سے سردار خاندان کا ہی کوئی فرد لگ رہا تھا ۔ شاید اس کا بیٹا ہو۔
’’ مہمان ہے مہروز صاب ۔ بہت دور سے آیا ہے ۔ خواجہ کے لوگوں نے لوٹا ہے اس کو ‘ سردار کی مدد چاہئے۔ ‘‘
نواز کے مؤدبانہ لہجے پر اسے اپنا اندازہ ٹھیک لگا تھا ۔ وہ یقینا سردار کا بیٹا تھا۔
’’ کدھر سے آئے ہیں آپ؟‘‘ وہ اب بغور اسے دیکھ رہا تھا۔
‘‘میں کراچی سے آیا ہوں ۔چھٹی پر سیاحت کے لیے‘مگر ادھر ان حالات کی وجہ سے فی الحال میں آپ کے رحم وکرم پر ہوں۔ ‘‘ مسکراتے ہوئے اس نے بتایا۔
’’ ڈونٹ وری‘ادھر آپ محفوظ ہیں ۔ ‘‘ وہ بھی مسکرایا تھا۔
‘‘ یور گڈ نیم؟‘‘ اس کے پوچھنے ہر وہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے لیے قدرے گڑبڑایا۔
’’ میرا نام روحان ہے‘ روحان ابراہیم ۔ ‘‘ اس نے اصل نام بتایا۔
’’ آئیے، کاکا آپ کا ویٹ کر رہے ہیں۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ سرہلاتا اس کے پیچھے چل پڑا ۔
اندر سرخ کارپٹ بچھے کمرے میں ایک بارعب آدمی کندھے پر چادر ڈالے تکیے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندے ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے گھما رہے تھے ۔ یقینا وہی سردار تھے ۔
’’ کاکا مہمان ہے‘خواجہ نے سب ہتھیا لیا۔ مدد چاہیئے۔ ‘‘
مہروز کے کہنے پروہ آنکھیں کھول کر سیدھے ہوئے اور پھر ایک نظر اس کو دیکھا ۔ اس سے پہلے کہ کچھ بولتے دوسری طرف کا دروازہ کھلا اور وہ نسوانی وجود بڑی تیزی سے اندر داخل ہوا تھا ۔ دھانی رنگ فراک اور آنچل میں اس وجود کو دیکھ کر وہ محاورتاََ نہیں حقیقتََا اچھل پڑا تھا البتہ وہ اس کو نہیں دیکھ سکی تھی کیونکہ وہ پشت پر تھے۔
’’ بابا ہمیں واپس جانا… ‘‘ اس کے منہ سے بس اتنے ہی الفاظ نکلے تھے جب مہروز نے زور سے ہنکارا بھر کر گویا اسے اشارہ دیا۔
’’ ہمارے ساتھ مہمان ہے لالہ رخ‘ ابھی اندر جاؤ۔ ‘‘عقب سے مہروز کی آواز سنتے ہی اس نے وہ آنچل چہرے پر بھی ڈال لیا تھا ۔
اس کی آنکھوں کے سامنے گرے کیپری میں عریاں ہوتی پنڈلیاں اور گلے میں جھولتا سٹالر کا منظر گھوما تھا اور اب یہ… وہ کون تھی ۔ ابھی کل وہ اس کو وہاں بے ہوش چھوڑ کر آیا تھا اور آج یہاں اس جگہ سے بالکل مخالف سمت میں ایک نئے روپ میں‘ منہ ڈھکے وہ جس تیزی سے آئی تھی اسی تیزی سے باہر نکل گئی تھی ۔ جبکہ وہ الجھا ہوا سردار کے سوالوں کے بے دھیانی میں جواب دیتا رہا ۔ دماغ کی سوئی ادھر ہی اٹکی تھی ۔ وہ یہاں کسی سے پوچھ نہیں سکتا تھا، کسی کی عورت کے بارے میں بات کرنا بلوچ قوم انتہائی نیچ اور بے عزتی کے مترادف سمجھتی تھی ۔ خاموشی سے ملازم کے پیچھے چلتا وہ مہمان خانے میں آگیا تھا جہاں تقریباََ ہر سہولت موجود تھی ۔ عادتاََ وہ کتنی دیر بیٹھا سوچوں کے تانے بانے بنتا رہا اور چونکا تب جب دروازے پر آہٹ ہوئی ۔ اوڑھنی اوڑھے کوئی ملازمہ تھی شاید جو کھانا اندر رکھ رہی تھی ۔ وہ تیزی سے مڑا۔
’’ایکسکیوزمی… آئی مین بات سنیں پلیز ۔ ‘‘ کافی محتاط لہجے میں اس کو مخاطب کیا ۔ وہ وہیں رک گئی تھی۔
’’ کیا میں ہوا کھانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے باہر جاسکتا ہوں ؟ ‘‘ اپنے بے تکے سوال پر وہ خود بھی کچھ شرمندہ ہوا تھا مگر فی ا لوقت اسے یہی سوجھا تھا۔
’’ نہیں صاب، ادھر پاس میں زنان خانہ ہے اس لیے مہمان باہر نہیں آتے ۔‘‘ سوال بے تکا تھا مگر اسے معلومات بہت اچھی مل گئی تھی ۔ وہ بتا کر چلی گئی تھی جبکہ وہ کچھ سوچتے ہوئے کھانے کی ٹرے سامنے رکھ کر دیکھے جارہا تھا۔
٭…٭…٭
رات کی تاریکی میں چاند کی مدہم روشنی میں وہ الجھا ساسمت کا تعین کرنا چاہتا تھا ۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے وہ داہنی طرف کی دیوار پر چڑھ کر اندر کودا تھا ۔ راہداری میں پڑے بڑے سے سنگھار میز کو دیکھ کر اسے تسلی ہوگئی تھی ۔ وہ صحیح جگہ آیا تھا ۔ قدموں کی آہٹ پر تیزی سے اسی میز کے عقب میں بیٹھ گیا تھا ۔ہنستی کھلکھلاتی آوازیں اب قریب ہوگئی تھیں۔
’’ لالہ رخ کی شادی پر تو لالہ خود ہی فائرنگ کرے گی‘ہے نا … ‘‘ لالہ رخ نام سن کر اس کے کان مزید کھڑے ہوئے۔
’’ مجھے شادی وادی کرنا ہی نہیں ۔ زندگی میں اس سے بڑے کام ہیں کرنے کے لیے۔ ‘‘ وہی لہجہ،وہی بے نیازی کا تاثر لیے آواز… وہ وہی تھی۔
’’ اگر فوج سے کوئی رشتہ آگیا پھر بھی نہیں ؟ ‘‘ آوازیں اب کچھ دور ہوگئی تھیں۔
’’ پھر شاید سوچ لوں۔ ‘‘ مدھم سی آواز دوسری راہداری میں غائب ہوگئی تھی ۔
یقینا وہ اسی فوج کی بات کر رہی تھی جس کاحصہ وہ خود تھی ۔ تو کیا یہ سارا قبیلہ… وہ لب بھینچے کچھ سوچنے لگا پھر آہستہ سے اس نے کالر کے بٹن پر دباؤ ڈالا ۔ رابطہ کرنے کا وقت آگیا تھا ۔ اسے واقعی اب مدد کی ضرورت تھی ۔ جو اسے بتایا گیا تھا وہ ویسے نہیں تھے ۔ ایماندار، خالص، مہمان نواز لوگ تھا ۔ پھر کس چیز نے انہیں باغی بنا دیا تھا ۔ حالات یہاں تک ایسے کیسے آگئے ۔ کیا کوئی غلطی ریاست کی جانب سے ہوئی تھی یا دشمن کسی کمزوری کا ضرورت سے زیادہ فائدہ اٹھا چکا تھا۔
اسی الجھن میں وہ واپس آچکا تھا ۔ فی الحال اسے انتظار کرنا تھا ۔ وہ پیغام بھیج چکا تھا جانتا تھا اس سے جلد رابطہ کیا جائے گا۔
٭…٭…٭
صبح اس کی آنکھ کانوں میں پڑنے والی تلاوت کی آواز سے کھلی تھی ۔ نجانے کب ذہن لڑاتے لڑاتے اس کی آنکھ لگی تھی اور ابھی اسے سوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا ۔ وہ زیادہ لمبی نیند کا عادی تھا بھی نہیں ۔ اسے عادت تھی ‘وہ بہتر گھنٹے مسلسل جاگ کر گزار سکتا تھا ۔ فریش ہونے کے بعد وہ دوبارہ کھڑکی کے پاس آکر کھڑا ہوا تھا، یہ باہر لان میں کھلتی تھی ۔ یہیں سے ایک راستہ زنان خانے کو جاتا تھا اور دوسرا ادھر جدھر سے وہ یہاں آیا تھا ۔تھوڑی ہی دیر بعد اسے سردار کا بلاوا آگیا تھا۔
’’ تمہاری واپسی کا انتظام ہو گیا ہے برخوردارمگر ابھی ایک دو دن لگ جائیں گے ۔ مہروز جاتا رہتا ہے کراچی، کل شام یا پرسوں جانا ہے اس نے ۔ اس کے ساتھ تم واپس جاسکتے ہو ۔ تب تک ہماری مہمان نوازی کا لطف اٹھاؤ۔ ‘‘ان کے کہنے پر اس نے پوری فرمانبرداری سے سر ہلایا۔
’’ کیا میں باہر گھوم سکتا ہوں؟ ایکچوئیلی میں ایک سیاح ہوں، ادھر آیا بھی یہ علاقے دیکھنے ہی تھا مگر اس کا موقع نہیں مل سکا۔ ‘‘ اس کے کہنے پر انہوں نے پہلی مرتبہ غور سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ مگر وہ پورے اعتماد سے مسکراہٹ سجائے بیٹھا تھا۔
’’ٹھیک ہے مگر دھیان سے ۔ یہاں انٹیلیجنس کے لوگ باہر کبھی کبھار پھرتے رہتے ہیں ۔ کوئی اجنبی نظر آجائے تو اٹھا کر بھی لے جاتے ہیں اس لیے خیال رکھنا۔ ‘‘ ان کے لہجے میں تنبیہ تھی ۔ وہ کچھ ثانیے ان کی طرف دیکھتا رہا ۔ وہ کس انٹیلیجنس کی بات کر رہے تھے جو ان کی بیٹی نے بنائی ہوئی تھی یا…
’’ انٹیلیجنس ؟ مگر کیوں؟ان کاکیا کام؟‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’ ہاں انٹیلیجنس…‘‘ وہ لمبی سانس بھر کر کچھ آگے کو ہوئے۔
’’ اردگرد بغاوت بڑھ رہی ہے ۔ حکومت نے ان علاقوں کو اس قدر نظرانداز کیا ہے کہ نوجوان طبقہ پوری طرح مایوس ہو کر نئی مگر غلط راہوں کو چن رہا ہے ۔ پاک فوج نے بہت کام کیا ہے ادھر بہتری کا، تعلیم کا مگر بہت دیر ہوگئی ۔ انہیں اب بغاوت کا سر بھی کچلنا ہے اور ساتھ میں لوگوں کو مایوسی سے بھی بچانا ہے لیکن مجھے لگتا نہیں کہ ایسا ہوگا ۔ ‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بول رہے تھے جبکہ رات بھر جو وہ اندازے لگاتا رہا تھا کہ فریڈم کی تحریک میں شاید یہ پورا قبیلہ شامل تھا وہ سارے اندازے سرا سر غلط ثابت ہوئے تھے۔
’’ کل کا پتہ نہیں مگر جب تک زندگی ہے ہم لوگ اپنی مٹی کا وفادار رہے گا لیکن بغاوت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہمیں بھی شک کی نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے اکثر اور کبھی تو ہمارے لوگوں کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے اس شک میں مگر وہ واپس آجاتے ہیں پھر ۔ ‘‘ وہ انکشافات پر انکشافات کر رہے تھے ۔ لیکن ان کی وہ بیٹی … وہ کہاں فٹ ہوتی تھی اس خانے میں ۔ وہ وہی تھی‘سو فیصد وہی، وہ وفادار نہیں تھی۔
’’ ہم حساب لیں گے۔ ‘‘ اس کے کانوں میں اس کی آواز گونجی ۔ تو کیا سرادر اس بات سے بے خبر ہے کہ یہ بغاوت اس کے گھر سے بھی سر اٹھائے ہوئے ہے۔
‘‘ معاف کیجیے گا مگر وفاداری پر جب شک کیا جاتا ہے تو آپ کو غصہ نہیں آتا ؟ ‘‘ اس کے پوچھنے پر وہ مسکرائے۔
’’ میں اس وقت نہیں تھا جب یہ ریاست آزاد ہوئی تھی ۔ میرے ابا بتایا کرتے تھے کہ کس طرح ہمارے قبیلے نے آنے والوں کو اپنے سگے بہن بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز جانا اور محبت دی ۔ اپنی جانوں پر کھیل کر ان کی حفاظت کی ۔ وفاداری ہمارے خون میں ہے، کسی کے شک کرنے پر ہم کیا غصہ کر کے اس کو بیچ دیں گے؟ ہم بے غیرت نہیں ہیں ۔ ہم تو ہمیشہ سے یہاں کے ہیں، ایسے میں جب وفاداری پر شک ہو تو دل تو دکھتا ہے مگر ہم پھر بھی اپنی فوج کے ساتھ کھڑے ہیں، کھڑے رہیں گے ۔حکومت کے آگے نہ پہلے کبھی جھکے نہ اب جھکیں گے ۔ ہمارا لوگ روزگار، تعلیم، سہولیات،ہسپتال، سڑکیں ہر بنیادی ضرورت اور چیز سے محروم ہیں ۔ کبھی کسی کو ان محرومیوں کا خیال نہیں آیا ۔ تھوڑا بہت ایک اسکول جو بنایا ادھر وہ دو سال پہلے آپریشن کے بعد فوج نے بنایا تھا۔ ‘‘ ان کی باتوں پر وہ بالکل خاموش تھا ۔ وہ ضرورت سے زیادہ سچی باتیں تھیں۔
’’ہم سردار ہے، اپنے لوگوں کا خیال رکھتا ہے کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے ۔ ہمارے خاندان نے یہ ذمہ داری لی تھی، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹتے کبھی بھی … حکومت کے آسرے پر چھوڑ دیں تو جو بغاوت ابھی کچھ قبیلوں تک محدود ہے آگ کی طرح پھیل جائے کیونکہ دشمن تو اسی تاک میں رہتا ہے کہ محرومی کا فائدہ اٹھائے ۔ یہ تو ہمارے سرپرستوں کی بیوقوفی ہے جو بے خبر فائدہ اٹھانے دے رہے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے کہہ کر تسبیح سائیڈ پر رکھی۔
’’ تم تو شاید ڈر گیا۔ ‘‘ وہ کہہ کر ہولے سے ہنسے۔
’’ ادھر سب محفوظ ہے، ہمارے ہوتے ہوئے ٹینشن نہ لو ۔ جاؤ گھومو پھرو بس ہماری عورت کا یا بچی کا تصویر مت بنانا‘ باقی جو مرضی کرو۔ ‘‘
وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوئے اور تنبیہ کر کے باہر چلے گئے جبکہ وہ ساکت وہیں بیٹھا تھا ۔ یہ واقعی اس کی زندگی کا سب سے الگ نوعیت کا مشن تھا ۔ اس سے پہلے اس نے جب بھی کام کیا تھا بیرون ملک کیا تھا جہاں دشمن، ٹارگٹ سب کلیئر ہوتا تھا مگر یہاں … یہاں گھس کر دیکھا تھا تو سب ہی اپنے تھے ۔ نقصان کے بعد بھی وفادار تھے، مشکوک ہو کر بھی فرض نبھا رہے تھے جس کا بدلہ انہیں کبھی نہ ملا تھا نہ ہی ملنے والا تھا ۔
وہ جانتا تھا اسے سٹارٹ کہاں سے لینا تھا ۔ اس لڑکی سے جو نہ ریاست کی وفادار تھی نہ ہی اپنے خاندان کی اورنہ قبیلے کی ۔ وہی تھی جس کے ذریعے وہ اصل لوگوں تک پہنچ سکتا تھا ۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے