مکمل ناول

صحرائے عشق : دوسرا حصہ

’’کیا ہوا ؟ ‘‘ روحان نے اسے دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔ وہ اس وقت جو اہم کام کر رہا تھا، اسے بالکل بھی کوئی تنگ کرنے والا نہیں چاہیے تھا۔
’’ کچھ نہیں، ایسے ہی اچانک آنکھ کھل گئی ۔ باہر آئی تو دیکھا تمہارے کمرے کی لائٹ جل رہی ہے ۔ تم سوتے نہیں ہو کیا ؟ ‘‘ آخری بات اس نے اندر داخل ہو کر قدرے حیرت سے کی تھی ۔ پچھلے تین دنوں سے وہ ساتھ تھے اور اس نے اسے سوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
روحان بھی طویل سانس بھرتا اس کے پیچھے آگیا تھا ۔ اب وہ آگئی تھی تو وہ اسے جانے کا نہیں کہ سکتا تھا۔
’’ میں زیادہ لمبی نیند کا عادی نہیں ہوں۔ ‘‘ وہ اب مسکراتے ہوئے بولا ۔
یہ اس کی عادت تھی‘زیادہ دیر وہ کسی بھی بات کو سر پر سوار کر کے اگلے کو اپنی کیفیت کبھی عیاں نہیں کرتا تھا۔
’’حیرت ہے‘ مناسب نیند تو سب کو چاہیے ہوتی ہے۔‘‘ وہ اب لیپ ٹاپ کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
’’جتنی ضرورت ہوتی اتنا سو لیتا ہوں۔ ‘‘ اس نے پھر گول مول جواب دیا۔
’’تم اپنی ذات کے بارے میں زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے‘ ہے ناں؟‘‘ اس کے ٹھیک ٹھیک اندازے پر وہ ایک ثانیے کو حیران ہوا پھر آہستہ سے ہنس پڑا۔
’’میں عام سا بندہ ہوں ۔ اس لیے کوئی خاص بات ہو تو بندہ بات کرتا بھی اچھا لگتا۔ ‘‘ اس کا موڈ اب فریش ہوگیا تھا۔
’’کیا یہ کوئی کوڈ ورڈز ہیں؟‘‘
وہ اب اس رائیٹنگ پیڈ کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی ۔سیاہ رنگ کی سادہ سی قمیض پر بنے سفید پھول‘ روحان کی نظر ایک لمحے کو اٹکی پھر ساتھ ہی اس نے زاویہ بدل لیا تھا۔
’’ہاں‘ایساہی سمجھ لو ۔ ‘‘ وہ اب رائٹنگ پیڈ کو دیکھ رہا تھا۔
’’ لیکن میں نے اس کوڈ کے بارے میں کہیں نہیں پڑھا ۔ حالانکہ میں بہت مشہور خفیہ کوڈز پر پوری ریسرچ کرچکی ہوں۔ ‘‘ وہ اب سر اٹھا کر اسے دیکھ کرپوچھ رہی تھی اور وہ ادھر ادھر کوئی جگہ ڈھونڈ رہا تھا نظر جمانے کے لیے۔
’’ یہ میرا خود کا بنایا ہوا کوڈ ہے۔ ‘‘ اسے جگہ مل گئی تھی ۔ سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیمپ کا بلب خراب تھا ۔ وہ خوامخواہ ہی اسے صحیح کرنے لگا۔
’’ یہ آدمی تو ادھر مہندی میں تھا آج۔ ‘‘ اس کی نظر اب لیپ ٹاپ پر پڑی تھی ۔ جہاں سکرین پر موجود تصویر دیکھ کر وہ چونکی تھی۔
’’ ہاں یہ ساری گیسٹ لسٹ کی تصویریں ہیں جو آج مہندی میں تھے۔‘‘ روحان اٹھ کر اس کے پاس آگیا اور لیپ ٹاپ اٹھا کر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا تھا ۔ساتھ ہی بیک کر کے تمام تصاویر اسے دکھانے لگا۔
’’ یہ سب معلومات تمہارے پاس کدھر سے آئی ؟ ‘‘وہ قدرے مشکوک انداز میں اسے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’میرے اپنے بہت سورس آف انفارمیشن ہیں۔ ‘‘ روحان نے قدرے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’تمہاری فیملی ہے؟ ‘‘ اس کے پوچھے جانے والے سوال کی شاید وہ توقع نہیں کر رہا تھا۔
’’فیملی مطلب ؟ ‘‘ وہ تھوڑا اس کی طرف مڑا۔
اب وہ بالکل اس کے سامنے تھی ۔ سیاہ دوپٹے میں اس کے چمکتے چہرے کو دیکھ کر اس نے بے اختیار نظریں دوبارہ کمرے میں ادھر ادھر دوڑائی تھیں ۔ بہرحال کسی لڑکی کو غیر آرام دہ محسوس کروانا اس کی تربیت میں نہیں تھا۔
’’فیملی مطلب فیملی‘ ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچے…‘‘ اس کا انداز ایسا تھا جیسے روحان کی کم علمی پر اسے حیرت ہوئی ہو۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کون ہوگا میری فیملی میں ؟ ‘‘ روحان نے الٹا اس سے سوال کیا تھا ۔ ساتھ ہی غیر محسوس انداز میں اس کے ہاتھ سے وہ رائٹنگ پیڈ لے لیا تھا۔
’’مجھے لگتا ہے ماں باپ ہوں گے، بہن بھائی بھی مگر بیوی شاید نہیں ۔ تم سے کون شادی کرے گا‘ اتنے عجیب ہو تم۔ ‘‘ وہ بڑی پر یقین تھی ۔ روحان اب زور سے ہنسا تھا ۔
’’آخری بات ٹھیک ہے تمہاری۔ ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے تائید کی۔
’’مذاق میں مت ڈالو ‘صحیح صحیح بتاؤ۔ ‘‘ وہ اپنے سوال پر قائم تھی ۔ روحان کو اعتراف ہوا۔ وہ ذہین لڑکی تھی۔ اتنی جلدی اس کووہ گھما نہیں سکتا تھا۔
’’میری فیملی میں‘ایک بہن ہے بس۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے ہی کہا۔
’’بہن … اورپیرنٹس ؟ ‘‘ وہ الجھی تھی۔
’’ دے آر نومور(وہ حیات نہیں ہیں)‘‘
وہ اب بھی مسکرا کر بولا مگر آنکھیں جھکی ہوئی تھیں ۔ لالہ رخ بے اختیار شاکڈ ہوئی ۔ وہ بہت ہی بہترین اردو بولتا تھا ۔ شاید یہ پہلا فقرہ تھا جو اسے مکمل انگلش میں بولا تھا ۔ شاید وہ مناسب الفاظ نہیں ڈھونڈھ سکا تھا اپنے دکھ کے لیے۔
’’ایم رئیلی سوری فار یور لاس…‘‘ وہ شرمندہ سی ہونٹ چباتے ہوئے بولی۔
’’مجھے اندازہ نہیں تھا ورنہ میں نہ پوچھتی۔ ‘‘ اس کے افسردہ ہونے پر اس نے سر اٹھایا اور مسکرایا۔
’’کوئی بات نہیں‘اس میں شرمندہ ہونے والی کوئی بات نہیں۔ ‘‘ روحان کے تسلی دینے پر وہ قدرے ریلیکس ہوئی۔ کچھ لمحے وہ دونوں خاموش رہے۔
’’تم نے اتنی مشکل جاب سیلیکٹ کیوں کی ۔ تمہاری بہن کو ضرورت ہوگی تمہاری بہت۔ ‘‘ خاموشی اس نے توڑی تھی۔
’’میں کون ہوتا سیلیکٹ کرنے والا ۔ یہ تو خوش قسمت ہوتے جو چن لیے جاتے ۔ ‘‘اس کی مسکراہٹ اب گہری ہوگئی تھی ۔ لالہ رخ حیران سی اسے دیکھے جارہی تھی۔
’’میری بہن بہت ہی مضبوط اعصاب والی بہن ہے۔ میرے ابا‘وہ ایک سپاہی تھے …عام سپاہی۔ ‘‘ اب مسکراہٹ کے ساتھ لہجے میں عقیدت بھی تھی۔
’’یہ‘ یہاں گولی کھائی تھی انہوں نے کارگل میں۔ ‘‘ وہ سینے پر ہاتھ رکھ کر بولا ۔ لہجے میں دبا دبا جوش اور فخر بھی تھا ۔ یوں جیسے یہ گولی اس نے خو دکھائی تھی ۔
’’میں اس وقت دس سال کا تھا ، میری بہن تیرہ سال کی اور میری ماں … ایک سادہ گھریلو خاتون ۔ ابا کی شہادت کے بعد گھر کے حالات بھی کچھ اتنے اچھے نہیں تھے مگر میں نے انہیں ہمیشہ شکر ادا کرتے دیکھا ۔ بے انتہا پرسکون،ہمیشہ مسکراتی ہوئیں ۔ محلے کے بچے بچیاں ان سے قرآن پڑھتے تھے ۔ ہمیں بھی ساتھ پڑھاتی تھیں ۔ اس میںجب وہ جنت کی عورتوں کی خصوصیات بتاتیں ۔ مجھے لگتا تھا میری ماں انہی عورتوں میں سے ایک ہے ۔ شاید سب کو ہی اپنی ماں کے بارے میں یہی لگتا ہے۔ ‘‘ وہ کہہ کر ہلکے سے ہنسا ۔ البتہ اس کی آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا۔
’’ ہمیں انہوں نے ایک ہی چیز سکھائی ۔ ایمانداری اور وفاداری…میرے باپ نے بھی وہ وفاداری پوری ایمانداری سے نبھائی ۔ پتہ ہے لالہ رخ جو لوگ ایماندار نہیں ہوتے، وہ وفادار نہیں ہوسکتے لیکن میری ماں کہتی تھی کہ اپنے بنائے ہوئے نیکی گناہ اور اچھے برے کے پلڑے میں رکھ کر انسانوں کو نہ تولنا نہ ہی جج کرنا کیونکہ یہ سارے پیمانے انسان دوسروں کے لیے بناتا ہے ۔ خود کو کبھی اس ترازو میں نہیں رکھتا ۔ اس لیے بس ترازو میں اگر رکھنا ہے تو خود کو رکھو ۔ ‘‘
وہ بتاتے ہوئے تیز تیز آنکھیں جھپک رہا تھا گویا پانی باہر آنے سے روک رہا ہو۔
’’پھر وہ بھی پانچ سال بعد ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں ۔ میں ایک مضبوط عورت اور بہادر باپ کا بیٹا ہوں ۔ مجھے اس پر فخر ہے اور میری خواہش ہے کہ جب وہ مجھے ملیں تو ان کوبھی مجھ پر فخر ہو ۔ ‘‘ اس کی آواز اب قدرے بھاری ہوگئی تھی اس لیے وہ خاموش ہوگیا۔
کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی تھی ۔ لالہ رخ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کیے پھر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔روحان نے سر نہیں اٹھایا تھا ۔ وہ سمجھ گئی تھی وہ ابھی کسی کو فیس نہیں کرنا چاہتا ۔ بنا کسی بھی رشتے کے، کسی دوستی کے وہ دونوں گویا ایک دوسرے کو پڑھنے لگے تھے ۔ بڑے طریقے سے سمجھنے لگے تھے ۔ کچھ دنوں کا ساتھ تھا اور وہ بھی مفاد کے تحت مگر ایسے لگ رہا تھا جیسے صدیوں کی روحوں کی آشنائی تھی۔
’’دے ول بی ویری پراؤڈ آف یو روحان، بلیو می…‘‘ وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
’’ٹیک یور ٹائم۔ ‘‘
اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے وہ باہر چلی گئی جبکہ اس کے جاتے ہی اس کے جھکے سر سے پانی آنکھوں سے نکل کر آہستہ آہستہ اس کے ہاتھوں پر گرنے لگا تھا ۔
٭…٭…٭
اگلی صبح وہ اسے اپنے ازلی خوشگوار موڈ میں ناشتے کی میز پر ملا تھا اور پتہ نہیں کیوں اسے ایسے دیکھ کر وہ بہت ریلیکس ہوگئی تھی ۔ اسے آتا دیکھ کر اسے مسکراتے ہوئے اسے خوش آمدید کیا تھا ۔ سیاہ شلوار قمیض میں مسکراتے ہوئے اس منظر میں لالہ رخ کو لگا تھا گویا کوئی کمی نہیں تھی ۔ ہال میں ہر چیز باقی بے معنی ہوگئی تھی ۔ بے رنگ سی،سارے رنگ اسی کی مسکراہٹ سے آکر جڑ گئے تھے۔ وہ بھی بے اختیار مسکرائی۔
’’آج پہلی بار میں نے تمہیں مسکراتے ہوئے دیکھا ہے ویسے ۔ ‘‘ اس کے لیے کرسی کھینچتے ہوئے وہ شرارتی انداز میں بولا ۔ لالہ رخ بے اختیار ہنس پڑی۔
’’واہ، میری صحبت کا کتنا اچھا اثر پڑ رہا ہے۔ ‘‘ روحان کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔ وہ واپس آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
’’ نو ڈاؤٹ‘ تم جتنے خوش مزاج ہو، کوئی بھی تمہاری صحبت میں زیادہ دیر سنجیدہ نہیں رہ سکتا۔ ‘‘ اس نے اعتراف کیا۔ آج وہ اسے شاید حیران کرنے پر تلی ہوئی تھی۔
’’ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے میڈم۔ ‘‘ وہ پریشان سا آگے کو جھکا۔
’’شٹ اپ …‘‘ لالہ رخ کے گھورنے پر وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہوگیا۔
’’ یہ تم اتنا ہیوی ناشتہ بھی کرلیتے ہو ؟ ‘‘ وہ اس کے سامنے پڑے بلوچوں کے مشہور بڑے بڑے بل والے پراٹھے دیکھ کر حیرت سے بولی تھی ۔ ابھی تک تو اس نے اسے بہت ہی گزارے لائق کھاتے دیکھا تھا۔
’’کسی کے کھانے پر نظر رکھنا بہت ہی غلط بات ہے۔ ‘‘ روحان نے پراٹھے اپنی طرف کھینچے اور دونوں بازو فولڈ کر کے ان پر جھک گیا تھا۔
’’ اتنے دنوں سے تمہارے ساتھ ہوں، مجال ہے کچھ اچھا کھلانے کی آفر کی ہو تم نے ۔ حالاں کہ تمہارا علاقہ ہے ‘آج خود ہی ہمت کی۔ ‘‘ساتھ ساتھ اسے سنا بھی رہا تھا۔
‘‘ تم خود ہی تو کہتے ہو کہ پورا ملک تمہارا اپنا ہے ۔ اس لیے میں ان تکلفات میں نہیں پڑی ۔ ‘‘ لالہ رخ کی نظریں اس کے بازو پر بندھی گھڑی سے،بالوں سے ہوتی اس کے چہرے پر جا رہی تھیں ۔ کچھ پل کے لیے اسے نظر ہٹانا بہت مشکل لگا تھا ۔ ایک عجیب سی کشش تھی جو بری طرح محسوس ہوئی تھی۔
’’کیا تم نہیں کھاؤ گی ؟ ‘‘ روحان نے بے اختیار نوٹ کیا کہ وہ اس کو مرکز نگاہ بنائے بیٹھی تھی ۔
’’نہیں، میں صرف چائے لوں گی۔ ‘‘ وہ چائے کا کپ اپنے آگے کرتے ہوئے بولی۔
روحان نے ایک پلیٹ اٹھا کر پراٹھا اس کے آگے رکھامگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا،ہال میں موجود ٹی وی پر چلنے والی بریکنگ نیوز نے اس کے ہاتھ روک دیئے تھے ۔ اینکر خاران کے قریب ایک انٹیلیجنس ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کے بارے میں بتا رہا تھا جس سے پورا ہیڈ کوارٹر تباہ ہوگیا تھا ۔ ساتھ ہی بلوچ فریڈم آرمی کی طرف سے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی ۔ وہاں بیٹھے بیس تیس لوگوں میں سے وہ دونوں بالکل ساکت ہوگئے تھے ۔ لالہ رخ نے سفید پڑتے چہرے کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تھا جو سپاٹ چہرہ لیے ٹی وی سکرین کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر ہمیشہ کی طرح اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کیا سوچ رہا ہے لیکن اس کے ہونٹ اس قدر سختی سے بھینچے تھے کہ نچلے ہونٹوں سے خون رس آیا تھا ۔ کوئی وقت اور ہوتا تو شاید وہ خوش ہوتی اس خبر پر لیکن وقت بدل گیا تھا اور وہ صحیح کہتا تھا وہ بدل گئی تھی۔
’’ایم… ایم سوری‘ مجھے اس بارے میں علم نہیں تھا۔ ‘‘ اس نے بے اختیار صفائی دی تھی۔
’’تمہیں مجھ سے کم ازکم یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لالہ رخ‘تمہیں لگتا ہے کہ میں کوئی بھی الزام تمہیں دوں گا؟‘‘ وہ سنجیدہ تھا مگر پرسکون تھا۔
’’میں اس سب کا حصہ رہی ہوں ۔ اس لیے مجھے برا لگ رہا ہے۔ ‘‘ اس کی صاف گوئی پر وہ تھکا تھکا سا مسکرایا تھا۔
’’تمہارے آخری جملے کو سن کر مجھے خوشی ہوئی ۔ ‘‘ وہ کرسی کی بیک پر کمر لگاتے ہوئے بولا۔
’’صرف یہی میں چاہتا تھا کہ ہمارے لوگ استعمال نہ ہوں ہمارے خلاف ‘تم سب ہمارے ہو ۔ مجھے خوشی ہے کوئی ایک تو اس دلدل سے باہر آیا۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ خاموش رہی۔
’’اب ری ایکشن میں ہمارے بے گناہ لوگوں کو بھی اٹھایا جائے گا۔ ‘‘ لالہ رخ کی بات پر اس کے ماتھے پر لیکیریں ابھری تھیں۔
’’یہ جنگ ایسے ہی رہی تو بڑھتی جائے گی اور سب ختم کر دے گی ۔ بغاوت بڑھ رہی ہے‘فوج اور ریاست جو حل اس کا دیکھ رہے ہیں وہ اس بغاوت کو مزید بڑھائے گا ۔ لوگوں کو گناہ گار اور بے گناہ جانے بغیر تحقیق کے لیے لاپتہ کر کے ۔ اپنے علاقوں میں آپریشن کرکے یہ آگ مزید پھیلے گی ۔ ریاست یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ ہم نے اپنے لوگوں کو ہر بنیادی سہولت سے محروم کر کے خود دشمن کو موقع دیا ہے کہ ان کوہمارے سامنے کھڑا کردے ۔ یہی سب…یہی سب میں چاہتا تھا کہ ختم ہو ۔ اصل زمہ داروں کا تعین ہو ۔ جڑ پکڑی جائے اور ہمارے اپنے اس آگ میں نہ جلیں ۔ ‘‘ وہ افسوس سے اور دکھ سے کہ رہا تھا۔
’’جیسا تم چاہتے ہو ویسا کبھی نہیں ہوگا روحان ۔ یہاں نفرت کی فصل بونے والوں کے اپنے مفاد ہیں، اس کوپروان چڑھانے والوں کے اپنے اور یہ سیاسی لوگ ۔ تمہیں واقعی لگتا ہے کہ ان کے لیے کبھی ملکی مفاد بھی اہم ہوسکتا ہے ؟ ‘‘ لالہ رخ کی ناامیدی بڑی پر یقین تھی ۔ اور وہ اسے بھی ان خوش فہمیوں سے باہر لانا چاہ رہی تھی۔
’’کسی نہ کسی کو تو پہل کرنی ہے ناں ‘کب تک ہم اپنے لوگوں کے ساتھ ہی لڑتے رہیں گے ۔ یہ سب صرف بلوچ عوام کی محرومیوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں علیحدگی کے لیے اکسانے پر اور ہمیں توڑنے پر ہی منحصر نہیں ہے لالہ رخ، یہ نقصان صرف اتنا نہیں ہوگا ۔ یہ تو ہمیں اندر تک ختم کر رہے ہیں ۔ فوج کو اندرونی جنگوں میں پھنسا دیا گیا ہے ایک لمبے عرصے کے لیے تا کہ دفاع کمزور ہو ۔ خانہ جنگی عروج کو پہنچے اور جڑیں ہر کمزور ہوجائیں۔ بتاؤ؟ کیا مستقبل ہے آنے والوں کا ادھر ؟ ‘‘ وہ جس دور اندیشی سے اس سب حالات کا جائزہ لے رہا تھا، اس کی تشویش بجا تھی۔
’’اب کیا کروگے تم ؟ ‘‘ لالہ رخ کے پوچھنے پر اس نے طویل سانس بھری تھی۔
’’میں اپنا کام کروں گا ۔ سب شاید نہ بدلا جائے مگر میں کوشش کروں گا ۔ انسان کو کبھی بھی رکنا نہیں چاہئے‘ رکنا تو موت ہے چلتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے۔ ‘‘ وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا ۔ ٹی وی پر اب فوج کے ان علاقوں میں فوری آپریشن شروع ہونے کی خبر آرہی تھی۔
’’یہ غلط ہے‘آپریشن ادھر نہیں ہونا چاہئے۔ سب لوگ قصور وار نہیں ہیں۔ ‘‘ وہ بے اختیار بولی۔
’’ سب کے خلاف ہوگا بھی نہیں …‘‘ اس کا لہجہ قدرے سرد تھا۔
’’ تحقیق تو ہوگی سب سے اور جو امن خراب ہوگا ان علاقوں کا اس کا کیا ؟ ڈر اور خوف کی فضا… مجرم اور بے گناہ ہر کوئی اس اذیت میں رہتا کہ مجھے شک کی نظر سے نہ دیکھا جائے۔ اس کا کیا ؟ ان وڈیروں کا، سیاستدانوں کا یا جرنیلوں کا تو کچھ نہیں جاتا ، نقصان تو ہمارے عام آدمی کا ہوتا ‘جو کسی گنتی میں نہیں آتا ۔ ‘‘ اس کے اندر کی قبائلی لالہ رخ لوٹ آئی تھی۔
’’میرا خیال ہے ہمارا ساتھ یہیں تک تھا ۔ تمہیں واپس بلا لیا جائے گا ۔ ظاہر ہے آپریشن شروع ہونے والا اور تمہیں اتنا تو میں جان گئی ہوں کہ تم فوج کے خلاف نہیں جاؤ گے ۔ اور میں اپنے لوگوں کے ساتھ یہ زیادتی ہونے میں تمہارا ساتھ کبھی نہیں دوں گی۔ ہاں میں مانتی ہوں میں غلط تھی لیکن ہمیں ایسا بنایا گیا اور اب اس سب کے بعد مزید لوگ علیحدگی میں، آزاد بلوچستان میں ہی خود کومحفوظ سمجھیں گے ۔ ‘‘ وہ تیز تیز بولتے ہوئے رکی۔
’’ایک عام شخص جو اپنا دن کا روٹی کپڑا بڑی مشکل پورا کرتا ہے ۔ جسے سرکار یا ریاست کسی بھی قسم کا ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے ،جو اگنورڈ علاقوں کا رہنے والا ہے ۔ ہر طرح کی محرومی اس کودے کر پھر اس کی وفاداری کو بھی شک سے دیکھا جائے گا اگر تو وہ باغی ہی ہوگا روحان ۔ اسے تم ’’ ملک دشمن ‘‘تمہیں استعمال کر کے الگ کرنا چاہتے ۔ یہ تھیوری نہیں سمجھا سکتے تم‘ اسے وہ دشمن ہی اپنا آسرا لگے گا ۔ جب اپنوں سے کچھ نہیں ملتا انسان غیر کو ہی اچھا سمجھتا ہے۔ ‘‘ اب کے اس کا لہجہ تلخ تھا بہت۔وہ چپ چاپ اسے سن رہا تھا۔
’’ہمارا ساتھ یہیں تک تھا ۔ ہم دو الگ دنیاؤں کے لوگ ہیں ۔ بہتر ہے ہم اپنی دنیا میں ہی رہیں ۔‘‘
آنکھوں کے آگے کوئی دھند چھائی تھی یا نمی تھی کہ اسے روحان کا چہرہ دھندلا نظر آیا تھا مگر اس پانی کے باہرآنے سے پہلے ہی وہ مڑ گئی تھی ۔ ہر اٹھتے قدم کے ساتھ ایک موہوم سی امید تھی کہ وہ اسے آواز دے گا ۔ وہ ہمیشہ اس کے پیچھے آتا تھا مگر آج نہیں آیا تھا ۔ اس کے قدم من من کے ہونے لگے لیکن چلنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ رک جاتی تو واقعی مر جاتی۔ ابھی تو سب ٹھیک ہوناشروع ہوا تھا کہ سب غلط ہوگیا ۔ وہ مضبوط لالہ رخ جسے مان تھا ناقابل شکست ہونے کا ۔ اپنے دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی مگر وہ پہاڑوں کی بیٹی تھی ۔ اندر جتنی مرضی توڑ پھوڑ تھی باہر سے اسی طرح بھرم رکھے قائم تھی ۔
اور روحان ابراہیم…وہ اگر مڑجاتی تو وہ دیکھ لیتی کہ وہ رکنے کو موت کہنے والا رکا ہوا تھا ۔ جس کی شناخت ہی اس کی مسکراہٹ سے ہوتی تھی وہ ایسے چپ تھا جیسے زندگی میں کبھی نہیں مسکرایا تھا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page