صحرائے عشق : دوسرا حصہ
’’پسند تو ہر کسی کو کوئی نہ کوئی رنگ ہوتا ۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ وہی رنگ پہنے اوڑھے۔ ‘‘ اسے تعجب ہوا۔
’’ہاں ضروری تو نہی۔ اپنی اپنی چوائس ہے‘ مجھے سیاہ رنگ منفرد لگتا ہے ۔ گہرا… ہر رنگ اس میں آکر اپنی شناخت کھو دیتا ہے لیکن یہ کسی بھی رنگ میں چلا جائے اپنا آپ برقرار رکھتا ہے ۔ ‘‘ کمرہ لاک کرتے ہوئے روحان نے اب تفصیلی جواب دیا۔
’’ہوگیا تمہارا فلسفہ شروع ۔ ‘‘ اس نے منہ بناتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف رخ کیا۔
’’ویسے مجھ ناچیز میں اتنی دلچسپی کی وجہ ؟ ‘‘ روحان نے اس کے عقب سے شرارتی انداز میں پوچھا۔ توقع کے عین مطابق وہ تپ کر مڑی تھی۔
’’یہ منہ اور مسور کی دال‘ میں نے صرف جنرل سوال کیا اور تمہیں خوش فہمی کے بخار ہونے لگے ۔ میں قندیل نہیں ہوں۔ ‘‘ تیز لہجے میں وہ اسے اچھے سے سنا گئی تھی۔
’’چلو ایک بات تو تم نے مانی کہ قندیل صاحبہ بالکل عقل سے فارغ ہیں پھر بھی تم ان سے وفاداری نبھاتی ہو اپنے قبیلے کو چھوڑ کر۔ ‘‘ روحان نے بھی فورا حساب برابر کیا۔
’’میرا کوئی موڈ نہیں فی الحال تمہاری باتوں کا جواب دینے کا ، چلنا ہے تو چلو ورنہ ان ہی سیڑھیوں سے دھکا دے دوں گی۔ ‘‘ اسے تنبیہ کرتے ہوئے وہ تیز تیز نیچے اتر گئی تھی۔ روحان بھی سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے پیچھے چلا گیا۔
تھوڑی ہی دیر بعد وہ ہال کے سامنے تھے ۔ ہال کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ کسی بڑی شخصیت کی شادی ہے ۔ وہ اس علاقے میں اتنا ڈویلپڈ میرج ہال دیکھ کر قدرے حیران ہوا تھا ۔ یہ سارے اضلاع قبائلی اضلاع تھے مگر اب ان معاملات میں ادھر بھی ترقی ہو گئی تھی۔
’’کافی بڑا فنکشن لگ رہا ہے۔ ‘‘ ہال میں آتے ہی اس نے کہا ۔ کیونکہ اسے اندر آتے ہی کافی بڑی سیاسی شخصیات اور مقامی رہنما نظر آئے تھے۔
’’ہاں‘ان کا ایک ہی بیٹا ہے ۔ فنکشن تو بڑا ہونا ہی تھا۔ ‘‘ لالہ رخ نے تائید کی ۔فنکشن مخلوط تھا ۔ صرف سجاوٹ سے لگ رہا تھا کہ کسی بلوچی علاقے میں شادی ہورہی ورنہ تو اسے اسلام آباد کی شادی لگ رہی تھی ۔ بلوچ روایات کے بالکل برعکس جدید فیشن کے تحت کی گئی ڈریسنگ، میوزک، ڈانس فلور ۔ پورا ماحول بنا ہوا تھا ۔اسے لالہ رخ بھی کچھ کنفیوز لگی تھی۔
’’کیا تم پہلی بار آئی ہو ؟ ‘‘ اس کے چہرے پر الجھن دیکھ کر اس نے بے اختیار پوچھا۔
’’ہاں، اس طرح کے فیملی فنکشن میں تو پہلی بار آئی ہوں ۔ وہ بھی تمہاری وجہ سے ورنہ میں نہ آتی۔ ‘‘ لالہ رخ نے اسی طرح الجھے ہوئے ہی جواب دیا تھا۔
’’کمفرٹیبل نہیں لگ رہا ؟ ‘‘ روحان نے پھر پوچھا۔
جواباََ وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی تھی ۔ وہ قدرے سائیڈ پر کھڑے تھے۔
’’تم میڈم سے مل لو ہم جلدی واپس چلے جائیں گے۔ ‘‘ لالہ رخ کے کہنے پر وہ پریشان ہوا تھا۔
’’ملنا اتنا بھی ضروری نہیں، اگر تم کمفرٹیبل نہیں ہو تو ہم واپس چلتے ہیں ۔ ‘‘ روحان بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
’’نہیں‘ میں ٹھیک ہوں ۔ میں اس طرح کے ماحول کی عادی نہیں ہوں ۔ اس لیے عجیب لگ رہا ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ ہلکا سا مسکرایا۔
انسان جہاں بھی چلاجائے، جتنا بھی ماڈرن ہوجائے وہ اپنے اصل سے نہیں نکل سکتا ۔ وہ بھی نہیں نکل سکتی تھی ۔ وہ اندر سے وہی قبائلی لالہ رخ تھی جس نے آزادی کا خواب ضرور دیکھا تھا مگر روایتوں سے باہر نہیں آپائی تھی۔
’’ڈونٹ وری‘ایزی رہو ۔ ہم جلدی واپس چلے جائیں گے ۔‘‘ روحان نے ہلکے سے اس کا سر تھپتھپایا ۔
اسی اثنا میں قندیل انہیں اپنی طرف آتے دکھائی دی، اس کے ساتھ پنک کل کی سلیو لیس ساڑھی میں ملبوس وہ چالیس بیالیس سالہ خاتون۔ یقینا وہی میڈم تھیں ۔ وہ دونوں ان کی طرف ہی آرہی تھیں۔
’’ہائے لالہ رخ ۔ تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ ‘‘ اس نے آتے ہی لالہ رخ کو لپٹایا تھا اور ساتھ دونوں گال چومے ۔ روحان خائف سا ہو کر پیچھے ہوگیا ۔ وہ اب اس کی طرف مڑی تھی۔
’’ہائے ینگ مین…‘‘ اس کی ستائشی نظریں اب روحان پر تھی۔
’’روحان ابراہیم۔ ‘‘ روحان نے مسکراتے ہوئے تعارف کروایا۔
’’زرتاشہ دانیال…‘‘ اس نے ہاتھ بڑھایا۔
ساتھ ہی اپنی ساڑھی کا پلو سمیٹا تھا جس سے جو کچھ ان کا وجود ڈھکا چھپا تھا وہ بھی عیاں ہونے لگا تھا ۔ اس کی حرکت پر روحان نے زیر لب مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھاما تھا ۔ ایسے جلوے اس نے بہت دیکھے تھے۔
’’بہت خوشی ہوئی جب قندیل سے تمہارا پتہ چلا ۔ ہم تو ایسے نوجوان تلاش کرتے ہیں جو ہمارا کل بنائیں ۔ ہمارا بلوچستان تو ترستا ہے ایسے لوگوں کے لیے ۔ لالہ رخ نے ہمیشہ ہی بہت اچھا کام کیا ہے اپنی مٹی کے لیے ۔ امید کرتی ہوں تم بھی ایسا ہی کروگے۔ ‘‘ ان کا پرجوش لہجہ اسے بہت کچھ سمجھا رہا تھا ۔ اس لیے اسے اتنی اہمیت دی گئی تھی۔
وہ دیکھ بھال کر ایسے لوگوں کو منتخب کرتی تھیں جو فنانشلی بھی سٹرانگ ہوں اور ان کے دل میں اپنے علاقوں کا درد موجود ہو، اپنے لوگوں کے لیے رحمدلی بھی ہو ۔ پھر ان کے خالص جزبات کو محرومیوں کا احساس دلا کر استعمال کرنا ۔ آہستہ آہستہ اس نہج پر لے کر آنا کہ وہ باغی ہوجائیں۔ ۔
’’یقینا، لالہ رخ اور میں الگ تھوڑی ہیں ۔ مجھ سے آپ کبھی مایوس نہیں ہوں گی۔‘‘ روحان نے بڑے خلوص سے کہا۔
’’لالہ یہ کیا صرف کزن ہیں یا کچھ اور بھی۔ ‘‘ اب کہ وہ کچھ شرارتی سے انداز میں پوچھ رہی تھی۔
’’صرف کزن نہیں ہیں‘لالہ میری فیانسی ہیں ۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ لالہ رخ کچھ کہتی روحان نے تیزی سے جواب دیا ۔ لالہ رخ کا پورا منہ کھل گیا تھا۔
’’واؤ، واٹ آ پرفیکٹ کپل ۔ ‘‘ ان کے کہنے پر لالہ رخ نے انہیں کلیئر کرنا چاہا مگر روحان نے اپنا پاؤں اس کے پاؤں پر رکھ دیا تھا۔
’’چلیں انجوائے کریں آپ لوگ ۔ روحان، آپ سے مل کر مزید تسلی ہوگئی ۔ آپ دو دن بعد آفس آجائیں‘ وہاں سب ڈیٹیلز ڈسکس کرلیں گے ۔ ‘‘ وہ کہتی ہوئیں آگے بڑھ گئیں۔
ان کے جاتے ہی روحان نے پاؤں اٹھایا اور لالہ رخ کی طرف دیکھا جو خونخوار نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
’’یہ کیا بکواس ہے۔ ‘‘ وہ دبی دبی آواز میں چیخی۔
’’بکواس تو نہ کہو اب۔ ‘‘ روحان نے ڈرتے ڈرتے پیچھے ہوتے ہوئے کہا۔
’’تم…تم جہنم میں جاؤ میری طرف سے ‘ بس بہت ہوگیا ۔ اس سے زیادہ میں نہیں چل سکتی تمہارے ساتھ۔ ‘‘ وہ شعلہ جوالہ بنی مڑی۔
’’اے لالہ بات تو سنو یار…‘‘ وہ بے اختیار ہی پیچھے گیا۔
’’میرا نام لالہ رخ ہے ‘ سمجھے تم…؟ اور میرے پیچھے مت آنا، اسی میں تمہاری بہتری ہے۔ ‘‘ وہ ایک بار پھر مڑ کر انگلی اٹھا کر اسے وارن کر رہی تھی۔
’’ہائے لالہ رخ۔ ‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا، لالہ رخ کے عقب سے آنے والی مردانہ آواز پر وہ دونوں چونکے۔
’’آپ یہاں ؟ ‘‘ لالہ رخ نے مڑ کر اس بلیو ٹوپیس میں ملبوس شخص کو دیکھ کر قدرے حیرت سے کہا ۔ روحان بھی اسے دیکھ رہا تھا۔
’’جی،احمد میرا بیسٹ فرینڈ ہے ۔ ‘‘ اس آدمی نے دلہے کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔
’’اوہ…‘‘ لالہ رخ کے منہ سے کافی لمبا سا اوہ نکلا تھا ۔ وہ اب سوالیہ نظروں سے روحان کی طرف دیکھ رہا تھا گویا پوچھ رہا ہو یہ کون ہے اور تم یہاں کیسے۔
’’یہ… یہ میرے کزن ہیں روحان اور میں زرتاشہ میم کی این جی او سے منسلک ہوں اس لیے ادھر انوائیٹڈ تھی ۔ یہ ی بھی این جی او سے ہی ریلیٹڈ ہیں۔ ‘‘ لالہ رخ نے روحان کی طرف اشارہ کر کے بتایا۔
’’اوہ نائس ٹو میٹ یو…‘‘ اس آدمی نے ہاتھ روحان کی طرف بڑھایا۔
’’آپ کی تعریف ؟‘ ‘ روحان نے پوچھا ۔
پتہ نہیں کیوں اس آدمی کو دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا تھا مگر مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے پھر بھی جدا نہیں ہوئی تھی۔
’’عادل احسان، لالہ رخ میری جونیئر ہیں میڈیکل کالج سے۔ ‘‘ اس نے مکمل تعارف کروایا۔
’’ویل،اٹس گریٹ۔ ‘‘ روحان نے گویا سراہا۔
ہال میں میوزک کی آواز اب تیز ہوگئی تھی ۔ بہت سارے جوڑے ڈانس فلور کی طرف بڑھ رہے تھے۔
’’آپ کا پروفیشن ؟ ‘‘ عادل نے اب اس سے پوچھا قدرے بلند آواز میں ۔ میوزک کی وجہ سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔
’’میں…میں ایڈووکیٹ ہوں ۔ ‘‘ روحان نے فوراََ جواب دیا جس پر لالہ رخ نے کافی گھور کر اسے دیکھا تھا ۔ اسی اثنا میں زرتاشہ ان کی طرف آئی تھی۔
’’ول یو لائک ٹو ڈانس ؟ ‘‘ اس نے بڑی ادا سے روحان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا ۔
روحان نے ایک نظر لالہ رخ کو دیکھا تھا، ڈانس کرنے میں اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ وہ تو چاہتا تھا جلد از جلد زرتاشہ کے با اعتماد لوگوں میں شامل ہونا لیکن وہ اس کو اس آدمی کے ساتھ اکیلا چھوڑ کر بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔
’’نو تھینکس، میں اس ٹائپ کا آدمی نہیں۔ ‘‘ اس نے بڑی شائستگی سے انکار کیا ۔
زندگی میں شاید پہلی بار اس نے دماغ کی بجائے دل کی سنی تھی ۔ زرتاشہ کا رنگ ایک لمحے کے لیے پھیکا پڑا تھا مگر ساتھ ہی وہ نارمل ہوگئی تھی۔
’’لالہ نے میرا خیال پرمیشن نہیں دے رکھی، کیوں لالہ…‘‘ اس نے بات اب مزاح میں ڈالی۔
’’نہیں،آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔ ‘‘ لالہ رخ نے کلیئر کرنا چاہا کہ وہ کسی بھی رشتے میں نہیں بندھے ہوئے مگر وہ درمیان میں ہی ’’اہم اہم‘‘ کرتا آگیا تھا۔
’’لالہ رخ ٹھیک کہ رہی ہے آپ غلط سمجھ رہی ہیں ۔ ان کوپورا ٹرسٹ ہے مجھ پر مگر میں ڈانس کرنا نہیں جانتا ۔ ‘‘ اس نے بڑی خوبصورتی سے بات بنائی تھی لالہ رخ کے چہرے کے بگڑتے تاثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے۔
’’کیا مطلب، لالہ رخ کی پرمیشن ؟ ‘‘ عادل نے اچانک کہا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’یہ ہماری لالہ رخ کے منگیتر جو ہیں ۔ پرمیشن تو چاہیے ناں۔ ‘‘
زرتاشہ نے ہنستے ہوئے کہا اور واپس مڑ گئی جبکہ لالہ رخ سر پکڑ کر ادھر ہی کرسی پر بیٹھ گئی تھی ۔ البتہ روحان کی نظریں عادل کے رنگ بدلتے چہرے پر تھیں ۔ جو عجیب سی نظروں سے روحان کو دیکھتا مڑ گیا تھا ۔ اس کے جاتے ہی وہ اس کے پاس آکر بیٹھ گیا تھا۔
’’یہ کون سا کھیل کھیل رہے ہو تم میرے ساتھ… ‘‘ وہ غرائی۔
’’کوئی کھیل نہیں کھیل رہا۔ ‘‘ روحان نے قدرے بے بسی سے اس کے بالوں میں بندھے سکارف سے نکلتی لٹوں کو دیکھا تھا اور پھر اس کے کسی بھی قسم کے آرائش سے مبرا چہرے کو۔
’’ میں صرف زرتاشہ کا اعتماد جیتنا چاہتا ہوں ۔ تم پر وہ بہت بھروسہ کرتی ہے ۔ تمہارے اتنے قریبی رشتے پر بھی وہ پورا بھروسہ کرے گی۔ ‘‘اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’اور اس سب میں ‘میں کہاں ہوں ؟ تم اپنے مقصد کے لیے میری ریپوٹیشن استعمال کر رہے ہو ۔ میرے کریکٹر کو ڈاؤٹ میں ڈال رہے ہو۔ ‘‘ لالہ رخ کالہجہ اب قدرے روہانسا تھا ۔ وہ پھنس کر رہ گئی تھی ۔یہاں سب اسے جانتے تھے ۔ اس نے خود روحان کو متعارف کروایا تھا ۔ اب نہ ان کوکچھ کہہ سکتی تھی نہ روحان کو۔
’’ایم سوری، لیکن اس سے تمہارا کریکٹر ڈاؤٹ میں نہیں جائے گا بلیو می ۔ ‘‘ اس نے اپنا لہجہ مزید نرم کیا۔ وہ خاموش ہوگئی۔
’’لالہ…‘‘
’’لالہ مت بلاؤ مجھے… ‘‘ وہ پھر تنک کر بولی۔
روحان فورا ہنسا ۔ اس نے جان بوجھ کر کہا تھا ۔ اس پورے ہال میں بہت سے لوگ تھے جن کی نظریں ان پر تھیں ۔ جو فنکشن بھلائے ایک دوسرے میں گم تھے ۔ روحان جیسا شارپ سینسز والا بندہ یہ بخوبی محسوس کر رہا تھا۔
’’چلو چلیں…‘‘ اس نے غیر محسوس انداز میں کھڑے ہوتے ہوئے اس کے بالوں سے پھسلتے سکارف کو اوپر کیا۔
’’زرتاشہ سے مل لو‘ پھر جانا ۔ ڈانس والی بات پر ایک بار پھر معذرت کرلو تاکہ وہ واقعی اعتبار کر سکے۔ ‘‘ خفا لہجے میں کہتی وہ بھی کھڑی ہوگئی لیکن اس کی بات پر وہ خوشگوار حیرت میں گھرا اسے دیکھنے لگا۔
’’کیا وفاداری بدل گئی ؟ ‘‘ اس نے واقعی حیران ہوکر پوچھا۔
’’شٹ اپ…‘‘ وہ تیز ی سے کہتی آگے بڑھ گئی تھی۔
’’بالکل بیویوں کی طرح ڈانٹتی ہو تم…‘‘ اس کے منہ سے نا چاہتے ہوئے بھی نکل گیا تھا ۔ اور وہ آگ بگولہ ہوتی مڑی تھی دوبارہ،روحان بے اختیار پیچھے ہوا۔
’’تمہارا قتل میرے ہی ہاتھوں لکھا ہے ۔ یہ تم نوٹ کرلو۔ ‘‘ دانت پیستی وہ دوبارہ مڑ گئی تھی۔
وہ طویل سانس بھرتا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا تھا ۔ پہلی بار بہرحال وہ اعتراف کر رہا تھا کہ ملک ملک گھوم کر،ہر طرح کا حسن،جلوے، دوستیاں دیکھ کر بھی وہ کسی کی طرف اس طرح سے اٹریکٹ نہیں ہوسکا تھا ۔ کچھ تھا اس لڑکی میں جو اسے باندھ رہا تھا اور وہ بڑی خوشی سے بندھ رہا تھا۔
٭…٭…٭
رات دھیرے دھیرے ڈھلتی جارہی تھی مگر وہ اس پہر بھی لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے بڑے غور سے سکرین کو دیکھ رہا تھا ۔ کافی دیر غور سے دیکھنے کے بعد وہ ساتھ پڑے ایک جدید رائٹنگ پیڈ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتا‘پھر دوبارہ سکرین دیکھتا اور پھر سے لکیریں کھینچتا ۔ یوں جیسے کچھ خاص نوٹ کر رہا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد دروازے پر دستک سن کر وہ بے اختیار چونکا۔
’’کون ہے۔ ‘‘ اس نے با آواز بلند پوچھا۔
اس کے خیال میں شاید ہوٹل روم سروس والے تھے۔
’’میں ہوں لالہ رخ۔ ‘‘ اس کی آواز پر اس نے ایک نظر کلاک پر ڈالی جہاں رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے ۔
وہ خاموشی سے اٹھا اور دروازہ کھول دیا ۔ سامنے وہ کھڑی تھی۔ آنکھوں سے لگ رہا تھا سو کر اٹھ کر آئی ہے۔