صحرائے عشق : دوسرا حصہ
‘‘کون تمہاری این جی او کو ہینڈل کرتا ہے ؟ ‘‘ روحان نے پوچھا ۔ وہ اب جیپ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔
’’میڈم زرتاشہ مگر وہ بہت کم کسی سے ملتی ہیں، زیادہ تر سر بلال اور قندیل ہی ڈیل کرتے ہیں۔ ‘‘ اس نے جیپ میں بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
’’فوج ادھر آپریشن شروع کرنا چاہتی ہے ۔ اس سے پہلے مجھے اصل زمہ داروں کے نام سامنے لانے ہیں تاکہ کوئی بے گناہ اس آپریشن میں مارا نہ جائے۔ ‘‘ وہ سنجیدہ سا لالہ رخ کو بتا رہا تھا جواباََ وہ گویا جلتے توے پر جا بیٹھی تھی۔
’’فوج تو ہم جب سے پیدا ہوئے ادھر آپریشن ہی کر رہی ہے ۔ آئے دن ہمارے لوگ غائب ہوجاتے یوں جیسے ہم اپنے گھر میں نہیں بلکہ کسی سرائے پر رہتے ہوں جہاں کوئی محفوظ نہیں ۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ کچھ نہیں بولا تھا۔
’’ہم اتنا نقصان دیکھ چکے ہیں کہ اب ہمیں ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا کہ دشمن ہمیں الگ کرنا چاہتا ۔ ہم تو کہتے ہیں وہی کردے، ستر سال سے اپنوں کی آس میں ہی بیٹھے تھے، کسی نے پوچھا تک نہیں ہمیں ۔ اب ہم جب کوئی آپشن اپنے لیے دیکھ رہے تو وہ بھی تم لوگوں سے برداشت نہیں۔ ‘‘ روحان نے اسے بولنے دیا تھا تا کہ ایک بار اس کا غبار پوری طرح باہر آجائے۔
’’تمہارے بابا جان نے کہا تھا کہ ہم ہمیشہ سے ادھر کے ہیں اور مشکلات سے گھبرا کر اپنی وفاداری نہیں بیچتے ۔ میرے خیال میں تمہیں ان کی باتیں سننے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ روحان نے مشورہ دیا ۔ وہ پوری کی پوری اس کی طرف مڑ گئی تھی۔
’’اور اس وفاداری کی قیمت جانتے ہو تم کیا دی ہے ہم نے ؟ ‘‘ اس ک آواز روحان کو ایسے لگا تھا جیسے کہیں دور سے آرہی تھی ۔ پتھرائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وہ بول رہی تھی۔
’’میری ماما ایک شاعرہ تھیں ، ہمارا قبیلہ شروع سے ہی عورت کو اس کے حق کی پوری آزادی دیتا آیا ہے ایک محدود دائرے کے اندر رہ کر ۔ وہ بھی شعر لکھتی تھیں، اپنے علاقے پر، ادھر کے رواجوں پر، محرومیوں پر، بے بسی پر… وہ تو حصہ نہیں تھیں کسی این جی او کا،کسی تحریک کا ‘جو دیکھتی تھیں وہی لکھتی تھیں مگرتم لوگوں نے ان کوبھی شک سے دیکھا ۔ آزادی اظہار کے نعرے لگانے والے ،ادھر ہمیں اتنی بھی اجازت نہیں کہ جو ہم دیکھیں وہ کہہ سکیں ۔ ‘‘ وہ خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔
’’پھر اٹھا کر لے گئے تم لوگ‘ ان کوبھی، میرے نانا کو بھی … اتنی سی تھی میں، ہم تو چھٹیاں منانے آئے تھے نانا کے پاس ۔ تم بتاؤ‘اس بچی کا حال جس کی ماں کو، نانا کو، ماموں کو اس کے سامنے لے جایا جائے اور بچوں کو چھوڑ جائیں بلکتا ہوا، روتا ہو ا۔ تین راتیں خوف کی فضا میں‘ تم جان سکتے ہو بے بسی کا وہ عالم ۔ سات پردوں میں رہنے والی میری ماں‘ جب اسے لیڈی اہلکار لے جارہی تھی اس کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا ۔ پھر تین دن بعد چھوڑ دیا ان سب کو کہ بے قصور ہیں، اور میرے بابانے اس مٹی سے وفاداری ثابت کی ۔ میری ماں سے ان کے الفاظ چھین لیے‘ قلم چھین لیا ۔ یہ آزادی ان کاحق تھی ۔ کیوں لی گئی ان سے؟ تا کہ ہمیں دشمن نہ سمجھا جائے ؟ جب تک ہم یہاں رہیں گے کیا ہمیں ہی وفاداری ثابت کرنی ہوگی ؟ کیا تم بھی ادھر پنجاب میں سب ایسے ہی وفاداری کے سرٹیفیکیٹ دکھا کر رہتے ہو؟ یا باقی جگہوں میں؟ ہمیں ملتا بھی کچھ نہیں اور شک بھی ہم پر کیا جاتا، وفادری بھی ہم دکھائیں؟ ‘‘ وہ بولتے بولتے ہانپ رہی تھی ۔ آنسو اس کے دونوں گالوں پر لڑھک رہے تھے ۔ جیپ میں کچھ لمحوں کی خاموشی چھا گئی تھی۔
’’ فوج کے پاس بعض اوقات کوئی آپشن نہیں بچتا اٹھا کر تحقیق کرنے کے علاوہ ۔ ہم جانتے ہیں کہ زیادتی ہوئی ہے اسی لیے ڈرتے ہیں کہ کوئی ہمارے لوگوں کو ورغلا نہ دے ان کی محرومی کا فائدہ اٹھا کر ۔ اس لیے زرا سی آہٹ پر بھی چوکنے ہوجاتے ہیں ۔ تحقیق کرنے لگ جاتے ہیں ۔ تمہاری ماں کے بارے میں جان کر افسوس ہوا، شاید کوئی بھی چیز اس نقصان کا ازالہ نہیں کرسکتی مگر تمہارے بابا نے وہ قلم اس لیے نہیں چھینا کہ وفاداری ثابت ہوجائے بلکہ اس لیے چھینا کہ وہ دروازہ ہی بند کردیا جائے جو دشمن کو آنے سے پہلے حالات کی خبر دے ۔ ‘‘ اس نے ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر مضبوط لہجے میں کہا ۔
انداز تسلی دینے والا تھا مگر لالہ رخ نے اس کا ہاتھ ہٹا کر منہ کھڑکی کی جانب کر لیا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ رو رہی ہے۔ بلوچ کسی کے سامنے نہیں روتے،اس نے بھی رونے دیا ۔ غبار نکلے گا تو اسے منظر صاف نظر آنا تھا ورنہ دھند چھائی رہتی ہمیشہ۔
٭…٭…٭
زندگی کے بے انتہا رنگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جن سے ہم کبھی کھیلنا نہیں چاہتے مگر‘ جو ہم چاہیں ۔ وہ کم ہی ہو پاتا ہے ۔ زندگی ہمیں مجبور کر دیتی ہے یہ ہولی کھیلنے پر ۔ حالات، تقدیر، قسمت سب مل کر ہمیں گھسیٹ کر اس مقام پر لے آتے ہیں جہاں سے ہم فرار چاہتے ہیں ہمیشہ۔
خاران کے صحرا کے عین وسط میں اسی اڈے پر وہ اسی چھوٹے کمرے میں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے اپنی سوچ میں گم تھے ۔ دو الگ طبیعت، مزاج اور سوچ کے لوگ ۔ بالکل مخالف سمتوں میں چلنے والے جنہیں زندگی اس موڑ پر لے آئی تھی کہ وہ ساتھ تھے ۔ دشمنی تھی پھر بھی بھروسہ تھا ۔ اتنہائی غیر فطری اتحاد تھا مگر قائم تھا ۔ اپنے اپنے مفاد کے لیے یا جس بھی مقصد کے لیے لیکن وہ ساتھ تھے ۔
’’کیا قندیل سے ملنے سے پہلے ٹائم لینا پڑے گا ؟ ‘‘ روحان نے یکدم سوال کر کے اس خاموشی کا سحر توڑا تھا جو ان کے بیچ قائم تھی۔
’’نہیں، مجھ سے تو وہ ویسے ہی مل لے گی ۔ ‘‘
لالہ رخ نے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میز پر رکھی جس میں ایک طرف خشک میوہ جات تھے اور دوسری طرف انتہائی خشک اور سوکھے سے بسکٹ نما کوئی چیز ۔ شاید خاران کی کوئی اہم سوغات تھی۔
’’واہ۔، بڑی اہم ہستی ہو تم تو پھر۔ ‘‘ روحان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے چھیڑا مگر اس نے کوئی رسپانس دیئے بغیر پانی کی بوتل میز سے اٹھائی اور پانی پینے لگی۔
’’ویسے سوائے شر پھیلانے کے کوئی کار خیر بھی سر انجام دیتی ہی آپ کی این جی او یا بس ڈرامہ ہی ہے۔ ‘‘ اس کے پوچھنے پر اس نے گلاس میز پر رکھا اور بغور روحان کو دیکھا تھا۔
’’تمہیں میری شکل سے کیا لگتا ہے دیکھ کر ؟ ‘‘ وہ کافی تپ کر بولی تھی۔
’’شکل سے تو تم…‘‘وہ کہتے کہتے رکا۔
سیاہ دوپٹے کے ہالے میں چاند کی مدھم روشنی میں اس کا جگر جگر کرتا چہرہ اور نمایاں ہوتے نقوش ۔ مندر میں اس دن جو بھی ہوا تھا ان دونوں کے بیچ ‘وہ دونوں ہی اسے ڈسکس نہیں کر رہے تھے ہاں مگر تب سے وہ احتیاط کر رہی تھی اور یہ احتیاط اس سے چھپی نہیں رہی تھی ۔ اب بھی بڑے طریقے سے سر پر دوپٹہ جمائے وہ بیٹھی تھی ۔ اس کے ایسے دیکھنے پر وہ قدرے گڑبڑائی تھی۔
’’کیا میں…‘‘ ہونٹ بھینچ کر اس نے پوچھا۔
’’شکل سے تو تم انتہائی معصوم اور بے ضرر سی لگتی ہو۔ ‘‘ روحان نے ٹھیک ٹھیک تجزیہ کیا۔
’’لیکن میں شکلوں پر ویسے کم ہی جاتا ہوں ۔ کسی کو دیکھنے سے بہرحال آپ کبھی پتہ نہیں چلا سکتے کہ وہ کس مزاج کا ہے ۔ یہ میری ذاتی رائے ہے۔ ‘‘
طویل سانس بھرتے ہوئے اس نے کہا اور آگے جھک کر وہ سوکھی سی بسکٹ نما چیز اٹھائی۔
’’تمہاری ذاتی رائے انتہائی ناقص اور بے کار ہے بالکل تمہاری طرح ۔ تم فوجی لوگ ہمیشہ یہ سپیریریٹی کمپلیکس کا شکار رہتے ہو کہ جو ہم سوچتے، جیسا ہمیں لگتا بس وہی ٹھیک ہوتا۔ سویلینز میں تو عقل ہوتی ہی نہیں۔ ‘‘ اس کے طنز پر وہ بے اختیار ہنسا۔
’’ہم فوجی لوگ… دیکھیں میڈم میرا ماننا ہے کہ اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے چاہے وہ کوئی بھی جگہ ہو ۔ اور یہ بھی کہ نہ ہی کوئی انسان مکمل طور پر صرف اچھا ہوسکتا نہ ہی مکمل برا ۔ ہاں اس ترازو میں رہتا ہے وہ ساری زندگی ۔ کسی کا اچھائی کا پلڑا بھاری رہتا ہے کسی کا دوسرا ۔ لیکن کسی سے بھی صرف اس بنا پر عقیدت کا یا مخالفت کا جزو بنا لینا کہ اس کا پروفیشن یہ ہے تو وہ ایسا ہی ہوگا ‘ یہ سراسر غلط اور حماقت ہے ۔ کامل صرف ایک ہی ذات ہے انسانوں میں ،وہ ہیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم…‘‘ ٹھہر ٹھہر کر اس نے بڑی تفصیل سے اپنا نقطہ نظر واضح کیا تھا ۔ وہ قدرے قائل ہوئی تھی۔
’’باتیں کرنا آسان ہے بہت‘ یہی باتیں کر کر کے تو بیوقوف بنایا ہوا سب کو ستر سالوں سے ۔ مجھے ویسے یقین ہے کہ اس کی بھی تمہیں خاص ٹرینینگ دی جاتی ہے۔ ‘‘ اس کے پورے وثوق سے کہنے پر وہ ایک بار زور سے ہنسا تھا ۔
’’ تم تو اپنی سہیلیوں سے کہہ رہی تھی کہ فوج میں سے کوئی ہوا تو شادی کا سوچ سکتی ہو تم۔ ‘‘ اس کے ہونٹوں پر مسلسل مسکراہٹ تیر رہی تھی۔
اور وہ اتنا ہی تپ رہی تھی۔
’’چھپ کر کسی کی باتیں سننا بے حد گناہ کا کام ہے ۔ ‘‘ لالہ رخ کے دانت پیسنے پر وہ ہنستا ہوا آگے کو ہوا۔
’’اور جھوٹ بولنا تو بہت ثواب کا کام ہے‘ ہے ناں ؟ ‘‘ اس نے دلچسپی سے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ جو غصے کے باعث خاصا سرخ ہوا ہوا تھا۔
’’خیر، میں ایویں تمہیں چھیڑ رہا تھا اور تم چھڑ بھی رہی تھی ۔ ایک گر کی بات بتاؤں تمہیں؟ ایک کامیاب انسان بننے کے لیے سب سے ضروری ہے اپنے اعصاب پر کنٹرول اور اگلے کو اپنی کمزوری سے کھیلنے کی کبھی نہ دی جانے والی اجازت ۔ تم فطرتاََ سادہ مزاج ہو ، غصیلی ہو، ضدی ہو ۔ کوئی بھی تمہیں اس بنا پر استعمال کر سکتا ہے بڑی آسانی سے۔ ‘‘ روحان کے تجزیے پر وہ کھڑی ہو گئی تھی۔
’’اور تمہیں کس بیوقوف نے یہ خوش فہمی میں ڈال رکھا ہے کہ تم ایک کامیاب انسان ہو،نانسینس…‘‘ نخوت سے کہتی وہ باہر چلی گئی جبکہ وہ بڑی دیر تک مسکراتا رہا تھا۔
٭…٭…٭
جیپ شہر کے قریب اس کافی اونچی مگر قدیم بلڈنگ کے سامنے رکی تھی ۔ جیپ رکنے پر اس نے سوالیہ نظروں سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لالہ رخ کو دیکھا تھا ۔
’’آجاؤ۔ قندیل ادھر ہی ملے گی۔ ‘‘
وہ کہتی ہوئی جیپ سے اتر گئی تھی ۔ وہ بھی اس کی تقلید میں اتر کر اس کے ساتھ چل پڑا تھا ۔ دونوں آگے پیچھے اس بڑے سے گیٹ میں داخل ہوئے تھے ‘جہاں گارڈ نے لالہ رخ کو دیکھتے ہی بڑے جوش سے سلام کیا تھا۔
’’مشہور لوگ…‘‘ روحان اس کا جوش دیکھ کر زیرلب بڑبڑایا تھا ۔
’’اللہ حاسدین کے شر سے بچائے۔ ‘‘ لالہ رخ نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر با آواز بلند کہا اور تیزی سے آگے بڑھ گئی تھی ۔ وہ بھی مسکراتا ہوا پیچھے بڑھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ قندیل کے دفتر میں تھے۔
’’ارے لالی،تم بڑے دنوں بعد چکر لگایا۔ ‘‘ وہ بڑے تپاک سے لالہ رخ کے گلے ملی تھی اور ساتھ بلیک پینٹ بلیک شرٹ میں ملبوس روحان کو دیکھا تھا۔
’’ہاں بس آنا تو میں چاہ رہی تھی مگر کچھ مصروفیت تھی ۔ ان سے ملو یہ میرے کزن ہیں ۔ روحان ابراہیم‘یہ فارن سے آئے ہیں، فنڈز ڈونیٹ کرنا چاہتے ہیں این جی او میں ۔ اسی سلسلے میں تمہارے پاس لے کر آئی ہوں کیونکہ میڈم تو مصروف ہوں گی سوچا تم سے ملا دوں۔ ‘‘ اس نے روحان کی رٹائی ہوئی سٹوری دہرائی تھی۔
’’موسٹ ویلکم روحان صاب ۔ ‘‘ قندیل نے جوش سے ہاتھ آگے بڑھایا مصافحے کے لیے ۔ جسے اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ تھاما تھا ۔ قندیل کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ جان گیا تھا کہ وہ کافی متاثر ہوگئی تھی روحان سے ۔ کچھ اس کی شخصیت سے اور کچھ شاید پیسے سے۔
’’آپ لوگ چائے پیجئے ۔ میں میڈم سے بات کر کے بتاتی ہوں ۔‘‘ روحان سے تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد قندیل نے کافی متاثر کن لہجے میں کہا اور باہر چلی گئی۔
’’کافی فلرٹ ہو تم۔ ‘‘ اس کے باہر جاتے ہی لالہ رخ نے تبصرہ کیا ۔
وہ تب سے یہی نوٹ کر رہی تھی اس نے کیسے مسکرا مسکرا کر قندیل جیسی تیز عورت کو شیشے میں اتارا تھا ۔ لالہ رخ کی بات پر وہ اس کی طرف مڑا۔
’’برا لگا ؟ ‘‘ بڑے معصومانہ انداز میں اس نے پوچھا تھا۔
’’ہاں لگا مگر قندیل کے لیے …بیچاری۔ ‘‘ وہ بھی لالہ رخ تھی‘اپنے نام کی ایک۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور بات کرتے، قندیل دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تھی ۔ اس کے آتے ہی وہ سیدھا ہوگیا۔
’’روحان وہ آپ سے خود ملنا چاہتی ہیں ۔ آج ان کے بیٹے کی مہندی کا فنکشن ہے ۔ لالہ رخ تو پہلے ہی انوائیٹڈ ہے ۔ آپ کے لیے سپیشل انویٹیشن ہے ۔ ‘‘ اس کے بتانے پر جہاں لالہ رخ حیران ہوئی تھی وہیں وہ بڑے سکون سے مسکرایا تھا۔
’’شیور‘ ان سے ملنا میرے لیے اعزاز ہوگا۔ ‘‘ بڑے عاجزانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ اٹھا۔ پھر کچھ فارمل جملے بول کر وہ باہر نکل آئے تھے۔
’’حیرت ہے۔ ملے بغیر ہی اتنے پرسنل فنکشن میں بلا لیا تمہیں ۔ وہ تو کسی کو گھاس نہیں ڈالتیں۔ ‘‘ لالہ رخ نے باہر آتے ہی بے اختیار کہا۔
’’اللہ حاسدین کے شر سے بچائے۔ ‘‘ وہ شرارت سے اسی کی طرح کہتا تیزی سے آگے بڑھ گیا جبکہ وہ پیر پٹختی اس کے پیچھے آئی تھی۔
٭…٭…٭
رات معمول سے زیادہ ٹھنڈی تھی یا شاید وہ بہت دنوں بعد صحرا سے دور شہر میں تھا اس لیے اسے ایسا لگ رہا تھا ۔ اس وقت وہ ایک مقامی بڑے رہائشی ہوٹل کے کمروں میں رہائش پزیر تھے جہاں سے انہیں فنکشن میں شمولیت کے لیے نکلنا تھا ۔ وہ تیار ہو کر لالہ رخ کا ویٹ کر رہا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ اس کے کمرے میں آئی تھی ۔ لیمن بڑے بڑے شیشوں والا لمبا سا فراک اور پاجامہ اور بالوں میں بہت سارے رنگوں کا سکارف باندھے وہ خالص بلوچن لگ رہی تھی ۔ روحان کی آنکھوں میں بے اختیار ستائش ابھری تھی۔
’’بیوٹی فل۔ ‘‘ اس کے کہنے پر لالہ رخ نے بھنویں اچکا کر اسے دیکھا ۔ بے ریا سے لہجے میں اس نے کہا تھا جس میں کسی بھی قسم کا اوچھا پن یا کوئی بھی جزبہ چھپا نہیں تھا ۔ بالکل سادہ سا اور بے اختیار لہجہ۔
’’تھینکس…‘‘ بے نیازی سے کہ کر وہ موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے لگی تھی۔
’’تم بھی اچھے لگ رہے ہو ویسے۔ ‘‘ لالہ رخ نے مروت نبھائی۔ وہ ہنس پڑا تھا۔
’’تھینکس…‘‘ روحان نے مسکرا کر یہ تعریف وصول کی تھی۔
’’تم ہمیشہ سیاہ رنگ کیوں پہنتے ہو ؟ ‘‘ لالہ رخ نے بے اختیار پوچھا ۔ اب تک اس نے اسے کسی اور رنگ میں نہیں دیکھا تھا۔
’’ویسے ہی‘مجھے پسند ہے سیاہ رنگ ۔ ‘‘ روحان نے چابیاں اٹھاتے ہوئے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ وہ بھی اس کے ساتھ ہی تھی۔