صحرائے عشق : دوسرا حصہ
’’دل تو کر رہا ہے تمہیں ادھر ہی اڑادوں مگر اتنی جلدی نہیں ۔ کافی کام آسکتے ہو تم ہمارے۔ ‘‘ وہ نفرت سے کہتی گن ماتھے سے ہٹاکر اس کے سینے پر رکھ چکی تھی۔
’’پیچھے مڑو…‘‘
اس کے کہنے پر وہ سرہلاتا مڑا اور مڑتے ساتھ ہی اس کی ٹانگ گھومی تھی ۔ بوٹ کی نوک سیدھے اس کے گن پکڑے ہاتھ میں جاکر لگی اور گن اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر اس کی طرف آکر گری جسے اس نے ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر اٹھالیا تھا ۔ ایک لمحے کا کھیل تھا اور بازی اس کے ہاتھ میں تھی ۔ وہاں موجود سب لوگوں کے رنگ اس کے ہاتھ میں گن دیکھ کر بدل گئے تھے ۔ سردار کو حرکت میں آتا دیکھ کر اس نے حق دق کھڑی لالہ رخ کا بازو کھینچ کر ساتھ لگایا اور گن اس کی کنپٹی پر رکھ دی تھی۔
’’کسی بھی غلط حرکت کی صورت میں نتائج کے زمہ دار آپ خود ہوں گے۔‘‘ کہیں نہ کہیں وہ جانتا تھا کہ لالہ رخ ان کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے ۔ پھر سردار کی بھانجی بھی تھی ۔ اب وہ اس کے نرغے میں تھی۔
’’ لالہ رخ کو چھوڑ دو‘ ہم تم کو یہاں سے زندہ جانے دے گا ۔ یہ سردار کی زبان ہے ۔ہم لوگ اپنی زبان سے نہیں پھرتا۔ ‘‘سردار نے کچھ غصے اور کچھ بے بسی سے اس کے ساتھ اس کے ساتھ لگی کسمساتی لالہ رخ کو دیکھ کر کہا۔
’’ یہ مجھے کبھی نہیں مارے گا ۔ اسے جانے مت دیں۔ ‘‘ وہ چیخی تھی جبکہ وہ اس کے لہجے میں موجود یقین پر سن سا ہوگیا ۔کتنا اعتماد تھا اس کوکہ وہ اس کو نہیں مارسکتا ۔
’’ میں اکیلا یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔ یہ میرے ساتھ جائے گی ورنہ… ‘‘ اس کا لہجہ ایسا تھا کہ سردار نے بے اختیار دروازہ کھول دیا۔
’’ تم جاؤمگر یہ ہمارا بیٹی ہے ۔ یہ نہیں جائے گا، اس سے بہتر ہے تم ہم کو مار دو۔ ‘‘ سردار کی غیرت پر وہ خاموش ہوگیا تھا ۔
وہ جانتا تھا وہ واقعی لالہ رخ کو ساتھ جانے نہیں دیں گے بھلے خود مر جائیں ۔ اس نے لالہ رخ کی گردن کے گرد بازو کا دائرہ مزید تنگ کیا اور آگے کو ہوا، اگلے ہی لمحے اس کا ہاتھ گھوما تھا اور سردار کے ساتھ کھڑے آدمی کو اس نے کھنچ لیا تھا اور لالہ رخ کو آزاد کردیا تھا۔
’’پھر یہ جائے گا میرے ساتھ ۔ امید ہے آپ اپنی زبان سے نہیں پھریں گے۔ ‘‘ اب کے وہ مسکراتے ہوئے بولا اور اس آدمی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کان کی لو سے اس نے وہ جھلی کھینچ دی تھی پورے چہرے سے ۔ سامنے کوئی اور چہرہ تھا جو بلوچ بالکل نہیں تھا ۔ لالہ رخ، سرداراور سردار کی بیٹی غیر یقینی سے اس آدمی کو دیکھ رہے تھے جو سانولی رنگت کا مالک تھا اور منہ پر جمے روحان کے بھاری ہاتھ کے باعث باوجود کوشش کے کچھ بول نہیں سکا تھا۔
’’ امید ہے تمہیں سمجھ آجائے کہ تمہیں غلط گائیڈ کیا جارہا ہے ‘ استعمال کیا جارہا ہے۔ ‘‘ وہ اسے کھینچتے ہوئے باہر جاتے جاتے لالہ رخ کے پاس ایک ثانیے کو رکا اور بغور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا جو یک ٹک اسے ہی دیکھے جارہی تھی ۔ وہ کہہ کر رکا نہیں تھا مگر وہ تیزی سے اس کے پیچھے آئی تھی۔
’’یہ …یہ سب ‘ یہ ہماری این جی او کے مینیجر ہیں ،مطلب تھے ۔ڈاکٹر افگن‘ہمارے مقدس مشن کے فیمیل ونگ کمانڈر بھی لیکن یہ…‘‘ وہ اس قدر ذہنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی کہ خود ہی سب بتائے جارہی تھی۔
’’ یہ وہ نہیں جو تم سمجھتی رہی ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس زمین کو جلتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہمارے معصوم لوگوں کا استعمال کرتے ہیں، ان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ ان کا ایک چھوٹا سا مہرہ ہے ۔ اس کے بڑوں تک اب یہی لے کر جائے گا۔ ‘‘ اسے جیپ میں باندھتے ہوئے وہ بنا مڑے جواب دے رہا تھا۔
’’ یہ نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ وہ اب بھی بے یقین تھی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیااور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔
’’ٹھہرو‘مجھے ساتھ جانا ہے تمہارے۔ ‘‘ اس کے پکارنے پر وہ زرا کی زرا رکا اور مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو سیاہ دوپٹہ ہلکا سا چہرے کے آگے کیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
’’ تمہیں یہ خوش فہمی نجانے کہاں سے لاحق ہوگئی ہے کہ تم جب کہوگی جیسے کہوگی میں اعتبار کرلوں گا اور لے جاؤں گا ساتھ۔‘‘ وہ سرد مہری سے کہتا دوبارہ سیٹ کی طرف بڑھا۔
’’ میں صرف سچ جاننا چاہتی ہوں ۔ وہ سچ تمہارے خلاف بھی ہوا تو بھی میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گی ، یہ میرا وعدہ ہے ۔ ہم پہاڑی لوگ وعدے سے پھرنا موت کے برابر سمجھتے ہیں۔ ‘‘ اس کے مضبوط لہجے پر وہ ایک بار پھر رک گیا۔
’’ سوچ لو، میں تمہارے بہت کام آسکتی ہوں۔ ‘‘ اس کے کہنے پر اس نے بمشکل مسکراہٹ دبائی ۔ اس کی پلاننگ سو فیصد کامیاب رہی تھی۔
’’ آجاؤ … ‘‘ کہہ کر وہ سیٹ سنبھال چکا تھا جبکہ وہ بھی تیزی سے اس کے ساتھ آگے آکر بیٹھ گئی تھی ۔
گاڑی وہاں سے روانہ ہوچکی تھی ۔ آگے بیٹھا روحان جہاں قسمت کا ساتھ دینے اور اپنی پلاننگ پوری ہونے پر وہ خوش تھا وہیں وہ الجھی سی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔ جس سراب کے پیچھے وہ ایک عرصے سے بھاگ رہی تھی کیا واقعی مکروز لالہ سچ کہتے تھے ۔کیایہ سب سراب ہی تھا ۔
٭…٭…٭
زندگی ہمیں کھینچ کھانچ کے اس مقام پر لے ہی آتی ہے جدھر سے ہم ہمیشہ فرار چاہتے ہیں مگر جو ہم چاہتے ہیں ویسا کم ہی ہوتا ہے ۔ وہ خاموش بیٹھی جیپ کو ان جانے مگر انجانے راستوں پر جاتا دیکھ رہی تھی ۔ یہ سارا علاقہ یہاں کا چپہ چپہ وہ جانتی تھی لیکن اس وقت اسے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کبھی بھی نہیں آئی تھی ۔
’’ تم کچھ کہنا چاہتی ہو ؟ ‘‘ روحان کی آواز پر وہ چونکی۔
’’نہیں۔ ‘‘ اس نے یک لفظی جواب دیا۔
’’ تمہاری فیملی‘ان سے رابطہ کیوں نہیں کیا تم نے ؟ کیا وہ جانتے ہیں سب تمہاری ان ایکٹیویٹیز کے بارے میں۔ ‘‘ اس کے مزید پوچھنے پر اس نے بیک مرر میں اس بندھے آدمی کو ایک عجیب نظر سے دیکھا پھر گہرا سانس بھرا۔
’’ نہیں، وہ کچھ نہیں جانتے ۔ ان کوصرف یہ پتہ کے میں ایک این جی او سے منسلک ہوں اور مختلف جگہوں پر ان کے ساتھ آتی جاتی رہتی ہوں کئی کئی دن کے لیے ۔ اس دن بھی میں ہسپتال سے نکل کر جانا ہی تھا ۔بابا جان کے نزدیک میں اس وقت کیمپ میں ہوں گی۔ ‘‘ اس کی آواز مدھم تھی ۔ روحان نے قدرے افسوس سے سر ہلایا۔
’’ اتنے جھوٹ کیوں بولتی ہو تم ان کے ساتھ۔ ‘‘ اس کی آواز میں تاسف تھا۔
’’نہیں یہ اتنا بھی جھوٹ نہیں ہے ۔ ہم واقعی فری میڈیکل کیمپ لگاتے ہیں مختلف علاقوں میں‘ یہ سچ ہے۔ ‘‘ وہ بالکل بے تاثر لہجے میں جواب دے رہی تھی۔
’’اور باقی کا سچ؟ وہ کیوں چھپایا ؟ کہیں نہ کہیں تو تم بھی جانتی تھی کہ تم غلط ہو، اس لیے بتا نہیں سکی فیملی کو۔ ‘‘ اب کے روحان کا لہجہ قدرے سخت سا تھا۔
’’تم مجھے اس لیے ساتھ لے کر آئے ہو کہ مجھے جج کرو؟‘‘ اس کا غصہ بھی لوٹ آیا تھا۔
’’میں نہیں لے کر آیا، تم خود آئی ہو میرے ساتھ۔ ‘‘ روحان نے سٹیئرنگ موڑتے ہوئے فوراََ تصیح کی تھی ۔
’’ غلطی ہوگئی مجھ سے اور یہ تم کدھر موڑ رہے ہو ۔ رات ہو رہی ہے، ان راستوں پر خواجہ قبیلے کے لوگوں کا ناکہ لگا ہوتا ہے‘ وہ حملہ کر دیتے ہیں۔‘‘ اس نے ٹوکا۔
’’ اچھی گائیڈ ہو تم‘ لیکن تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ادھر ہم ایک محفوظ جگہ ہی جارہے ہیں۔ ‘‘ اس نے کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی تھی۔
اس سے پہلے کہ وہ محفوظ جگہ پہنچتے، فائرنگ کی تیز آوازوں سے پورا علاقہ گونج اٹھا تھا ۔ یہ صحرائی علاقہ نہیں تھا بلکہ صحرا کی ایک طرف پہاڑوں کے پیچھے تھے ۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی اس نے جیپ میں لگے سرخ بٹن کو دبایا تھا ۔ اس کے دبتے ہی حیرت انگیز طور پر جیپ کے چلنے کی آواز نہ صرف بند ہوگئی تھی بلکہ سرر سرر کی آواز سے کوئی شیٹ تھی جو جیپ پر آگئی تھی ۔
’’یہ کیا۔‘‘ وہ حیرانی سے بولی۔
’’تحفظ… ‘‘ اس نے کہتے ہوئے فل ریس دے کر جیپ کو ڈھلوان سے نیچے کی طرف گیئر لگایا ۔ ایک لمحے کو اسے لگا کہ وہ کسی کھائی میں گر رہے ہیں ۔نا چاہتے ہوئے بھی لالہ رخ کے حلق سے چیخ نکلی تھی۔
’’لاحول ولا قوۃ…‘‘ روحان نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔
’’ میں نے تو سنا تھا کہ بلوچ لڑکیاں بے حد نازک اندام، نرم مزاج، پردہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مدھم آواز میں بولتی ہیں تاکہ کسی نامحرم کے کان میں آواز نہ پڑ جائے ۔ ادھر تو بالکل ہی الٹ ہے سب۔ ‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے جیپ ایک پتھریلی چٹانوں کی طرح بنے ہوئے غار کی طرف لے گیا۔
’’ شٹ اپ۔ ‘‘ سرد مہری سے اس نے فقط اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا۔
غار کے سامنے جیپ روک کر وہ اترا تھا اور پچھلا دروازہ کھول کر اس آدمی کو نکالا جو بے ہوش پڑا تھا ۔ اسے اٹھا کر وہ غار کے اندر لے گیا تھا جبکہ وہ حیران سے غار کو دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آیا، وہ اس طرح ہی جیپ میں بیٹھی تھی۔
’’ آپ خود آجائیں گی یا آپ و بھی ویسا ہی ’’ان کے جیسا ‘‘ ٹریٹمنٹ چاہئے۔ ‘‘ اس نے بڑے مؤدبانہ انداز میں ہاتھ کی انگلی سے غار کے اندر لیٹے آدمی کی طرف اشارہ کر لے ’’ان کے جیسا ‘‘پر خاصا زور دے کر پوچھا۔
’’ میں آرہی تھی بس…‘‘ وہ فوراََ اتر آئی تھی ۔آگے پیچھے چلتے ہوئے وہ دونوں اندر داخل ہوئے تھے ۔ غار میں گھپ اندھیرا تھا لیکن جیپ کی آگے کی ہیڈ لائٹس آن ہونے کے باعث اندر روشنی آرہی تھی۔
روحان نے جھک کر اس کا ناک اور منہ بند کیا تھا، کچھ ہی لمحوں میں وہ کسمسانے لگا تھا ۔ اس کوہوش میں آتا دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ کر کھڑا ہوگیا تھا۔
’’یہ…یہ سب…یہ تم…‘‘ ہوش میں آتے ہی اس نے لالہ رخ کو دیکھا اور پھر روحان کو۔
’’کیا ہوا، یاداشت چلی گئی کیا ؟ ‘‘ روحان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا اور زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا۔
’’کیا نام ہے تمہارا، جلدی بولو۔‘‘ اس نے انگوٹھا اب اس کی شہ رگ پر رکھ کر زور سے دبایا اور غراتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’جلدی بولو۔ ‘‘ اس کی طرف سے جواب نہ پاکر اس نے انگوٹھے کا دباؤ بڑھایا جس سے اس ک آنکھیں باہر آنے والی ہوگئی تھیں۔
’’یہ…یہ تم کیا کررہے ہو۔ ‘‘لالہ رخ نے بے اختیار کہا تھا۔
’’ تم خاموش رہو۔ ‘‘ وہ اسی طرح غرایا تھا ۔
وہ بے اختیار کپکپا کر پیچھے ہوگئی ۔ اس نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا روحان کو غصے میں‘ بلکہ غصہ بھی نہیں وہ سفاکیت تھی۔
’’امری…امریند…ر۔ ‘‘ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کے اس کے منہ سے نکلے تھے۔
’’مگر یہ تو ڈاکٹر… ‘‘ اس کے بولنے پر وہ پھر بے اختیار بولی۔
روحان نے ہونٹ بھینچ کر اس آدمی کو چھوڑا اور مڑ کر لالہ رخ کا بازو پکڑ کر اسے ایک طرف بٹھایا،پھر ہاتھ میں پکڑی پٹی اس کے منہ پر باندھی تھی۔
’’امید ہے اب تم خاموش رہو گی۔ ‘‘ اس کے ہاتھ پیچھے کی طرف باندھتے ہوئے وہ سرد لہجے میں کہتا دوبارہ اس کی طرف مڑا۔
’’ کہاں سے آئے ہو تم‘کب سے ادھر ہو ۔ ‘‘ روحان نے اس کا سر زرا سا اٹھایا تاکہ وہ کلیئر بول سکے۔
’’یہ…یہ انگوٹھا ہٹا…لو…یہ…‘‘ وہ گڑگڑایا تھا ۔ تشدد برداشت کرنا آسان تھا مگر یہ تکلیف ایسی تھی کہ اس جیسا ٹرینڈ بندہ بھی برداشت نہیں کرسکا۔
’’جو پوچھا ہے وہ بتاؤ ۔ ‘‘ روحان نے دباؤ بڑھایا، وہ چیخ اٹھا تھا۔
’’مم… میں… میں…دس سال سے ادھر ہوں ۔ ڈاکٹر جنید کے نام سے ۔ میں این جی او کے زریعے ادھر اپائنٹ ہوا ہوں ۔ ہم…ہم سب‘ میری طرح کے سب لوگ ۔ ہم یہاں کے پڑھے لکھے طبقے کو ٹرین کرتے ہیں، ان کوبتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کس قدر زیادتی ہوئی ہے جو ان کی ریاست نے کی ہے ۔ یہ… یہ زہر آہستہ آہستہ ان کے اندر ڈال کر علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دیتے ہیں ۔ اب تو سب کچھ کامیاب ہونے والا یہ علاقہ کبھی بھی‘ تمہارا نہیں ہوسکتا ‘کبھی نہیں … یہاں کے ستر فیصد لوگ ۔ تمہاری ریاست کا پرچم اپنے گھر پر دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ ‘‘ اس کے جملہ مکمل کرتے ہی روحان نے دباؤ اس قدر بڑھا دیا تھا کہ اس کا سانس تنگ ہونے لگا تھا اور حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکلنے لگی تھیں گویا حالت نزع میں ہو۔
’’کس کو رپورٹ کرتے ہو تم،کون ہے ہیڈ تم سب کا ۔ ‘‘ اس کے پوچھنے پر وہ بولنے کے باوجود بول نہیں سکا۔ روحان نے ہاتھ قدرے پیچھے کیا۔
’’این… این… جی۔ ‘‘ یہ آخری لفظ تھے جو اس کے منہ سے نکلے تھے ساتھ ہی اس کی گردن ڈھلک گئی تھی۔
’’بس اتنا ہی دم تھا۔ ‘‘ روحان نے اسے ڈھلکتا دیکھ کر پیچھے ہوتے ہوئے کہا ۔
اس کا چہرہ اب بالکل نارمل تھا، ابھی کچھ لمحے پہلے والی بربریت بالکل غائب تھی ۔ وہ حیرت سے ٹکر ٹکر خود کو دیکھتی لالہ رخ کی طرف بڑھا اور اسے کھول دیا تھا۔
’’ یہ سب‘ کیا واقعی یہ سچ ہے۔ ‘‘ وہ ابھی بھی گویا بے یقین تھی۔
’’تم نے خود سنا ہے سب۔ ‘‘ اس نے کندھے اچکا کر کہا۔
’’لیکن یہ سچ ہے کہ ہمیں کبھی اپنا نہیں سمجھا گیا، ہمارے علاقے محروم رہے ہیں ہمیشہ سے ۔ ہم آزاد ہو کر اپنا بہتر کل خود بنا سکتے ہیں۔ ‘‘ اس کی بات پر وہ حیران سا مڑا ۔
اسے اب اندازہ ہوا تھا کہ ان کے ذہن کس قدر پختہ ہوچکے تھے اس بات پر کہ آزاد ہونے کے علاوہ کوئی چیز انہیں مسئلے کا حل ہی نہیں لگ رہی تھی ۔ سب کچھ اپنے کانوں سے سن چکی تھی وہ پھر بھی۔
’’زیادتی ہوئی ہے لالہ رخ، می مانتا ہوں لیکن اپنوں میں گلے شکوے ہو جاتے ہیں ۔ گھر کے اندر سو لڑائی جھگڑا ہوجاتا ہے لیکن پھر کیا گھر کی باگ دوڑ دشمن کے حوالے کر دیتے ہیں ؟ اپنے مسئلے خود ہی حل کرنے ہوتے ہیں ۔ باہر والے ان مسئلوں کو بڑھاتے ہیں، وہ ہمارے خیر خواہ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ‘‘ وہ اسے سمجھا رہا تھا ‘وہ خاموش تھی ۔ سالوں کی ذہن سازی کو وہ ایک دو منٹ میں نہیں بدل سکتا تھا۔
’’تم بہت ظالم ہو۔ ‘‘ جواباََ اس نے سائیڈ پر پڑی لاش دیکھ کر بس اتنا کہا تھا ۔
’’اور تم تو انتہائی رحمدل ۔ ‘‘ اس نے دانت پیستے ہوئے اس کے ٹانگ مار کر جیپ الٹانے والا اور اڈے پر اسے مارنے والا منظر یاد کر کے گویا اسے شرم دلائی تھی لیکن کامیاب نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ بے نیازی سے باہر کی طرف بڑھ گئی تھی۔