مکمل ناول

صحرائے عشق : آخری حصہ

’’ میرا اس میں کوئی کمال نہیں‘یہ میرا فرض تھا۔ ‘‘ روحان نے کہا ۔ وہ لالہ رخ کو دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔
’’ میرا خیال ہے مجھے چلنا چاہئے اب۔ ‘‘ اس کے کہنے پر لالہ رخ کی آنکھوں کی بے چینی بڑھ گئی تھی۔
’’ ابھی نہیں، بابا جان سے مل کر جاناْ ‘‘ مہروز کے کہنے پر وہ رکا۔
’’ مجھے کیمپ جانا ہے‘ واپسی کی تیاری کرنی ہے ۔ میں واپسی پر چکر لگاؤں گا۔ ‘‘ مہروز سے مصافحہ کرتے ہوئے اس نے ایک نظر اب لالہ رخ بھی دیکھا تھا جو داسی بنی اسے جاتا دیکھ رہی تھی ۔ وہ فوراََ باہر نکل آیا تھا، ایک بھی پل اور رکتا تو شاید نہ آ پاتا۔
پچھلی رات کو جہاں لالہ رخ کو محفوظ کرنے میں وہ کامیاب ہوا تھا وہیں لالہ رخ کی دو دن پہلے بھیجی جانے والی معلومات کو لے کر اس نے جو دو ٹیمز بنائی تھیں، انہوں نے تقریباََ خاران سے فریڈم آرمی کا دی اینڈ کردیا تھا ۔ اس وقت ڈیڑھ سو سے زائد ان کے کارکن فوج کی قید میں تھے جن کے زریعے انہیں باقی علاقوں میں ان کے نیٹ ورک کو توڑنا تھا۔ زرتاشہ کو بھی وہ ختم کر چکا تھا ۔ این جی او کی کمر ایک بار تو ٹوٹ گئی تھی ۔ جس علیحدگی کی تحریک کو انہوں نے نجانے کتنے سال لگا کر پروان چڑھایا تھا وہ ختم تو نہیں ہو ئی تھی مگر واپس اپنی شروعاتی مقام پر چلی گئی تھی اور اسے یقین تھا کہ اب جڑ ان کے ہاتھ میں ہے۔ اس لیے وہ دوبارہ پروان نہیں چڑھے گی ۔ ابھی بہت کام باقی تھا، پورے بلوچستان سے ان کا نیٹ ورک پکڑنا تھا ۔ یہ سب ضروری تھا لیکن اسے اطمینان تھا کہ اس کے ذمے جو مشن لگایا گیا تھا وہ اس میں کامیاب رہا تھا ۔ اپنے ضمیر کے آگے بھی، فوج کے آگے بھی ۔اس کا پہلے دن سے دعویٰ تھا کہ یہ سب ان کے اپنے لوگ ہیں ۔ اس نے بہت قبائل کو ساتھ ملایا تھا، فریڈم آرمی کے کم سے کم لوگوں کو مارنے کا حکم دیا تھا اور زیادہ سے زیادہ کو پکڑنے کا تا کہ قید میں ان کی تربیت ہوسکے ۔ ان کو بتایا جاسکے کہ انہیں استعمال کیا گیا ہے ۔ سو فیصد تو نہیں لیکن وہ اس اعصاب شکن مقابلے میں بہت زیادہ کامیاب رہا تھا ۔ جیت اس کی ہوئی تھی ۔ ہاں مگر دل اسے لگ رہا تھا کہ وہ ہار گیا ہے ۔ ایک دو دن میں وہ واپس چلا جائے گا اور لالہ رخ کے بغیر وہ کیسے رہے گا ۔ وہ نہیں جانتا تھا ۔ وہ اس کے ساتھ ایک مکمل زندگی جینا چاہتا تھا۔ ایک چھوٹا سا گھر، فیملی لیکن اس کا کام ۔ وہ کبھی لالہ رخ کو مکمل زندگی نہیں دے سکتا تھا ‘کبھی بھی مگر آج کی اس لڑکی کی ہمت اور بے اختیاری نے اسے خائف کردیا تھا ۔ وہ بے حد الجھا ہوا واپس کیمپ میں جارہا تھا ۔ سوچوں سے شل ہوتے دماغ کے ساتھ۔ کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کرے اور کیا نہیں۔
٭…٭…٭
سب کور کر کے وہ اب خاموش بیٹھا سردار کی کال کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اسے کچھ دیر پہلے موصول ہوئی تھی اور اسے حویلی آنے کی دعوت دی گئی تھی ۔
وہ جو فیصلہ کیے بیٹھا تھا کہ اسے جلد از جلد ادھر سے دور جانا ہے، لالہ رخ کے سامنے نہیں آنا، اس کے بغیر زندگی شاید اب پہلے جیسی نہ رہتی مگر وہ اس دوڑ میں اس کو شامل کر کے غیر محفوظ اور غیر یقینی کی زندگی نہیں دینا چاہتا تھا ۔ جس گھر اور فیملی کا خواب اس نے دیکھا تھا وہ اس پیشے میں رہ کر پورا ہونا ناممکن تھا اور اس پیشے کو وہ عبادت مانتا تھا ۔ اسے چھوڑنا بھی اس کے لیے ناممکن تھا ۔ فی الوقت اسے یہی بہتر لگا تھا کہ ایک بار ادھر سے چلا جائے، لالہ رخ ایک مضبوط لڑکی تھی، جلد یا با دیر وہ سنبھل ہی جاتی ۔ باقی رہی اس کے دل کی بات تو اسے نہیں لگتا تھا کہ وہ کبھی سنبھل سکے گا مگر وہ خود غرض نہیں ہوسکتا تھا ۔ یہ اس کے جینز میں ہی نہیں تھا ۔
اب سردار کی کال کے بعد وہ الجھا بیٹھا تھا ۔ جانا بھی ضروری تھا، انہوں نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔ زندگی میں شاید پہلی بار وہ اس قدر کنفیوژن کا شکار ہوا تھا ۔ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے سردار سے الوداعی ملاقات کا فیصلہ کیا اور باہر سب کو روانگی کا کہہ کر وہ جیپ کی طرف بڑھا ۔ جیپ کا رخ پہاڑوں کی اوڑھ میں آباد زائر قبیلے کی طرف تھا ۔ وہ خود کو نارمل کرتے ہوئے ساتھ اس صحرا کو بھی دیکھ رہا تھا ۔ یہاں اس نے موت، زندگی، خوشی، بے بسی، تکلیف، نفرت اور محبت ہر جزبہ اس نے اس ریت کے سمندر میں دیکھا تھا، محسوس کیا تھا ۔ ہر لمحے کو جیا تھا ۔زندگی کے بے حد نئے رنگوں کو جانا تھا ۔ اپنوں میں چھپے دشمن کو باہر نکالا تھا ۔ اس کے لیے یہ مشن پل صراط تھا جس میں وہ ہر ہر سیکنڈ محتاط رہا تھا اور اللہ سے ڈرتا رہا تھا کہ کہیں اس سے کوئی بے گناہ نا مارا جائے ۔ اپنی کامیابی پر وہ مطمئن تھا مگر اب بھی بار بار اللہ سے معافی مانگ رہا تھا کہ اس کی وجہ سے کوئی ایسا اپنی جان سے نہ گیا ہو جو واپس آسکتا ہو اور وہ اسے واپس نہ لا سکا ہو ۔
ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ اس نے خاران کے صحرا کو الوداع کہا تھا ۔ یہ ریت کا سمندر اپنے اندر بہت کچھ دفن کر چکا تھا ۔ بہت داستانیں، کہانیاں، جزبات، خون، آنسو اور ہنسی سب ۔ جیپ روک کر اس نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں بھری اور پھر بیگ میں ڈالی تھی ۔ یہ واحد یادگار تھی جو وہ ساتھ لے کر جارہا تھا ادھر سے ۔ پھر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے اس نے گاڑی پہاڑ کی عقبی سمت میں موڑ دی تھی۔
زائر قبیلے میں داخل ہوتے ہی وہ چائے والا کھوکھا نظر آیا تھا ۔
اس بوڑھے آدمی نے اسے آج بڑے دل سے سلیوٹ مارا تھا ۔ وہ بے اختیار دل سے مسکرایا تھا ۔ ہاں وہ یہاں سے ایک اور چیز بھی لے کر جارہا تھا ۔ بے پناہ محبت، خالص لوگوں کی دعائیں ۔ مسکراتے ہوئے اس نے جیپ روکی اور نیچے اتر آیا تھا ۔ وہ مرعوب سااس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
’’ آج چائے نہیں پلاؤ گے؟‘‘ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔ وہ پرجوش سا اس کو بٹھا کر چائے بنانے لگا ساتھ ہی ساتھ باتیں بھی۔
’’ جب تم پہلی بار آیا تھا ادھر‘میرے کو تب ہی لگا تھا کہ تم کوئی عام آدمی نہیں ۔ اس لیے میں تم کو سردار پاس لے گیا تھا۔ ‘‘ وہ قدرے فخریہ انداز میں بتا رہا تھا۔
روحان مسکراتے ہوئے اس کی باتیں سن رہا تھا ۔ تبھی سیاہ جیپ ادھر رکی تھی ۔ دونوں نے بے اختیار اسر اٹھایا تھا ۔ جیپ میں سے سیاہ چادر سے چہرہ لپیٹے لالہ رخ اتری تھی ۔ غیر متوقع طور پراسے دیکھ کر وہ کھڑا ہوگیا تھا بے اختیار اور نواز بلوچ چائے والے کو تو گویا کرنٹ لگ گیا تھا۔
’’بی بی…بی بی جی آپ۔ ‘‘ وہ گھبرایا ہوااس کی طرف آیا تھا مگر لالہ رخ نے اسے ہاتھ اٹھا کر روک دیا تھا ۔
روحان پر نظریں گاڑھے اس کی طرف بڑھی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں غصہ تھا، جنون تھا یا کیا تھا ۔ روحان نے مسکرانے کی کوشش کی مگر وہ کوئی خاص کامیاب نہیں رہا تھا۔
’’میری جیپ میں بیٹھو۔ ‘‘ اس کا لہجہ سرد تھا۔
’’ میں بس آہی رہا تھا ۔ بس چائے دیکھ کر ادھر رک گیا۔ ‘‘ وہ بہت نارمل ہو کر کہہ رہا تھا ۔
’’میری جیپ میں بیٹھو۔ ‘‘ اس نے دہرایا تھا۔
’’آپ جائیے میں آرہا ہوں دس منٹ تک چائے پی کر… ‘‘ اب وہ بھی سنجیدہ ہوا تھا ۔ وہ اب نواز بلوچ کی طرف مڑی تھی۔
’’یہاں کوئی چائے نہیں بنے گی اس آدمی کے لیے ۔ ‘‘
اس کے حاکمانہ لہجے پر روحان نے بے اختیار ہونٹ بھینچے تھے اور بنا کچھ کہے ایک بڑا نوٹ نواز بلوچ کی ٹیبل پر رکھ کر خاموشی سے اپنی جیپ کی طرف بڑھ گیا ۔ وہ بھی تیزی سے پیچھے آئی تھی۔
’’میری جیپ میں بیٹھو۔ ‘‘ وہ اب قدرے چیخی تھی ۔
’’ میں تمہارا زرخرید نہیں ہوں ۔ ‘‘ اس کا لہجہ نرم تھا مگر سرد تھا۔بنا مڑے وہ جیپ میں بیٹھ گیا تھا ۔ اور جیپ سٹارٹ کرکے رخ حویلی کی طرف کیا تھا ۔ پیچھے سے وہ بھی آگ بگولہ ہوتی جیپ دوڑاتی آرہی تھی۔
٭…٭…٭
حویلی کے سامنے پہنچتے ہی وہ ناک کی سیدھ میں سیدھا سردار کے ملاقاتی کمرے میں گیا تھا جہاں مہروز اور سردار پہلے ہی اس کا انتظار کر رہے تھے ۔اسے دیکھتے ہی دونوں گرمجوشی سے اس سے ملے تھے۔
’’مجھے خوشی ہے تم آئے‘ بہت دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ ‘‘ سردار کے کہنے پر وہ مسکراتا ہوا بیٹھ گیا تھا ۔ اس ضدی لڑکی کی وجہ سے وہ ان کی محبتوں کو نہیں ٹھکرا سکتا تھا۔
’’بس پیک کرتے ہوئے ٹائم لگ گیا زیادہ۔ ‘‘ اس نے وجہ بتائی۔
’’ اصل میں بابا جان کی خواہش تھی کہ آج آپ جارہے ہیں تو کھانا ہمارے ساتھ کھائیں ۔ آپ کی مہمان نوازی کا موقع ہی نہیں ملا۔ ‘‘ مہروز نے اس کے برابر بیٹھ کر کہا تو وہ سر جھکا گیا تھا۔
’’یہ تو آپ کی محبت ہے ۔ میں قرض دار رہوں گا ہمیشہ۔ ‘ ‘ جھکے سر کے ساتھ ہی اس نے کہا پھر آنکھوں میں آئی نمی کو بالکل پیچھے دھکیل کر اس نے دوبارہ سر اٹھایا ۔ ملازم وہیں نیچے بچھائے دستر خوان پر کھانا لگا رہا تھا ۔سب کی پیروی میں ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا تھا۔
کھانے کے دوران بھی وہ اگلے آپریشن کی باتیں کرتے رہے جو فوج جلد دوسرے علاقوں میں شروع کرنے جارہی تھی۔
’’ مجھے تم سے ایک بے حد ضروری بات کرنا ہے روحان۔‘‘ سردار کے کہنے پر اس کا قہوے کی طرف بڑھتا ہاتھ ایک لمحے کے لیے رکا ۔پھر اس نے اٹھالیا تھا۔
‘‘جی ضرور… ‘‘ اس نے بغور ان کے تاثرات جانچنے چاہے مگر وہ کچھ اخذ نہیں کرسکا تھا۔
’’ یہ بات تو تمہارے بڑوں سے کرنی چاہیئے مگر مجھے علم ہوا کہ وہ حیات نہیں ہیں اس لیے تم سے ہی بات کر رہا ہوں میں۔ ‘‘ انہوں نے تمہید باندھی اور روحان نے تیز ہوتی دھڑکن کو۔
’’ بیٹی کا باپ اور اس قبیلے کا سردار ہونے کے ساتھ ساتھ میں ایک روشن خیال آدمی ہوں ۔ مجھے لالہ رخ کی تم میں دلچسپی کا پتہ ہے اور وہ ایسا نہیں کہ نادان ہے ۔ وہ بہت سال باہر رہا ہے، پڑھا ہے، ہمارا بیٹی ہے ۔ہم کواس پر بھروسہ ہے ۔ اس نے کبھی یہ بھروسہ توڑا نہیں لیکن اب اس نے اپنے لیے کوئی ایسا شخص پسند کیا ہے جو ہر حوالے سے بہترین ہے تو ہمارا اعتراض کرنا جائز نہیں ۔ ‘‘ وہ تفصیل سے بات کر رہے تھے سکون سے اور روحان کے ماتھے پر پسینہ آرہا تھا ۔
’’ ہم جانتا ہے تم کو بھی لالہ رخ اچھا لگتا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم دونوں کی جلد از جلد شادی ہوجائے تاکہ میں بھی اپنے فرض سے بر وقت سبکدوش ہوجاؤں ۔ ‘‘ وہ بات مکمل کر چکے تھے۔
روحان کا سانس سینے میں اٹک گیاتھا ۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اسے ہلکی سی شرم بھی آرہی تھی ،لڑکی کے باپ کے منہ سے یہ سب سنتے ہوئے ‘مگر وہ پر یقین تھا کہ لال رخ کو نہیں آئی ہوگی سب بتاتے ہوئے۔
’’ آپ کی بیٹی بہت قابل ہے اور ایسا ہم سفر قسمت والوں کو ملتا ہے ۔ ‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر لفظ ڈھونڈ رہا تھا۔
اس کے الفاظ پر جہاں سردار اور مہروز کے چہرے پر اطمینان آیا تھا وہیں باہر کھڑی لالہ رخ کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ ابھری تھی ۔ زرمینے نے اسے زور کے شرارتی کہنی ماری تھی۔
’’مگر… میں یہ شادی نہیں کرسکتا،بے حد معذرت ۔‘‘ وہ نظریں اٹھانے کی ہمت نہیں کر رہا تھا اس لیے نظریں جھکائے جھکائے کہا تھا ۔
آسمان گرا تھا لالہ رخ پر یا زمین اس کے پاؤں کے نیچے سے کھینچی تھی کسی نے،وہاں موجود سب ہی افراد اس غیر متوقع جواب پر ساکت ہوئے تھے ۔ اس خاموشی پر وہ شرمندہ سا کھڑا ہوگیا تھا۔
’’ لالہ رخ سے شادی کرنا میری زندگی کی اولین خواہش ہے، لیکن میں… میں اسے ایسی زندگی نہیں دے سکتا جیسی وہ ڈیزرو کرتی ہے ۔ موت کے منہ میں رہتے ہوئے میں نہیں جانتا کب کہاں میں اس کا شکار ہوجاؤں گا، کب کھو جاؤں گا ۔ کتنا وقت اس کو دے سکوں گا، کتنا نہیں ۔ آئی کانٹ بی آ فیملی مین… ‘‘ آخر میںاس کی آواز قدرے بھاری ہوئی تھی ۔ اور ایسے میں اسے الفاظ نہیں ملتے تھے تو وہ انگلش بولنے لگتا تھا ۔ لالہ رخ یہ جانتی تھی۔
’’ وہ مجھ سے بہتر ڈیزرد کرتی ہے ورنہ آپ کی فیملی کا حصہ بننا میرے لیے کس قدر… ‘‘
ابھی بات اس کے منہ میں تھی جب وہ تن فن کرتی اندر آئی تھی اور ایک زور دار تھپڑ روحان کے منہ پر مارا تھا ۔ بابا جان اور مہروز کھڑے ہوئے تھے ۔ جبکہ وہ ضبط کی آخری منزل پر ہاتھ منہ پر رکھے ابھی بھی نظریں جھکائے کھڑا تھا۔
’’لالہ رخ… ‘‘ بابا جان کی دھاڑ پر وہ پیچھے ہوئی تھی۔
’’ چلے جاؤ یہاں سے، بزدل… ‘‘ وہ عادتاََ چیخی تھی ۔ روحان نے نچلا ہونٹ اس قدر سختی سے دبایا تھا کہ خون رس آیا تھا۔
’’ہم بات کر رہے ہیں لالہ… ‘‘ مہروز نے لالہ رخ کو باہر جانے کا اشارہ کیا مگر وہ غضبناک وہیں کھڑی تھی ۔
’’ کوئی بات نہیں کرے گا ۔ کوئی بھی، کوئی ضرورت نہیں بھیک مانگنے کی اس شخص سے میرے لیے‘میں نہیں مرتی اس کے بغیر۔ ‘‘ وہ اونچا اونچا بولتے ہانپنے لگی تھی ۔
اور وہ واقعی مجسمہ بنا ویسے ہی کھڑا تھا سر جھکائے۔
’’اس کو باہر لے کر جاؤ زرمینے۔ ‘‘ بابا جان نے اب زرمینے سے کہا تھا ۔ وہ فوراََ اندر آئی مگر وہ کہاں قابو میں آنے والی تھی۔
’’تم… تم…‘‘ اس نے اب روحان کا گریبان پکڑا تھا۔
’’ کیا سمجھتے ہو تم‘کسی کے بھی جزبات سے کھیل کر تم پھر مہان بن جاؤ گے اور میں‘میں مر جاؤں گی ہے ناں؟‘‘ وہ اب اسے جھنجھوڑتے ہوئی چیخی تھی۔
روحان نے اس کے دونوں ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر پیچھے کرنا چاہا تھا سر اٹھا کر لیکن پھر وہ بت بن گیا تھا ۔ سامنے کھڑی لڑکی کی آنکھوں میں رقم اذیت، آنسو، تکلیف، کشمکش بہت کچھ تھا۔ اس سے اس کی پسندیدہ چیز لی جارہی تھی ۔ وہ تڑپ رہی تھی ۔ وہ لڑکی جو دھڑکن بن کر اس کے اندر دھڑکتی تھی ۔ اسے لگا وہ ہل نہیں سکے گا ۔ وہ کتنی تکلیف میں تھی اس کی آنکھوں اور چہرے پر رقم تھا۔
’’ کوئی نہیں مرتا لیکن‘ میں واقعی مر جاؤں گی روحان… ‘‘ وہ بے بسی اب اس کے لہجے میں اتر آئی تھی اور آنسو گالوں پر۔
’’ تم جیسے کہو گے میں ویسے ہی رہ لوں گی ہمیشہ، لیکن… ‘‘
وہ اب بول نہیں پا رہی تھی۔ روحان کو اس وقت وہ کوئی دیوانی لگی تھی ۔ شرمندگی،ندامت نجانے کیا کچھ اس نے ایک پل کے لیے محسوس کیا تھا ۔ پھر نرمی سے اس کے ہاتھ پیچھے کیے اور بابا جان کی طرف دیکھا۔
’’ میں شرمندہ ہوں کہ آپ کی بیٹی میری وجہ سے روئی ۔ آپ اس کے لیے مجھے سزا دے سکتے ہیں مگر میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایساا نہیں ہوگا کبھی بھی ۔ مجھے یہ مجھ سے زیادہ عزیز ہیں۔ ‘‘ ٹھہر ٹھہر کر اس نے مضبوط لہجے میں کہا ۔
وہ بے یقین سی اس کی طرف دیکھ رہی تھی امید ناامیدی کی کیفیت لیے۔ روحان کا دل چاہا تھا اسے چھپا کر کہیں دور لے جائے یہاں سے ابھی اسی وقت ۔ کتنی مضبوط لگتی تھی وہ اسے اور اندر سے وہ وہی تھی نازک سی لڑکی،جزبات سے گندھی ہوئی ۔ ایک بار جس پر سب ہار دیا تو بس ہار دیا۔
’’ آپ نکاح کی تیاری کریں ۔ میں کل آؤں گا بارات لے کر… آپ کی فرزندی میں آنا میرے لیے کسی سند سے کم نہیں۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے آگے ہو کر بابا جان کے ہاتھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔
مہروز بے اختیار مسکرایا اور بابا جان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا پھر گلے لگایا تھا ۔ ایک سکون یکدم ہی لالہ رخ کو اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہوا تھا ۔ وہ تیزی سے وہاں سے نکل گئی تھی ۔ جبکہ ملاقاتی کمرے میں وہ تمام معاملات طے کر کے وہاں سے نکلا تھا مسکراتا ہوا ۔ اب فیصلہ کر لیا تھا تو مطمئن ہوگیا تھا ۔ نکلتے ہوئے اس نے باغیچے میں کھلتی کھڑکی کی طرف دیکھا، کھڑکی بند تھی ۔ وہ مسکراتا ہوا وہاں سے نکل آیا تھا ۔ اسے اپنی بہن عائشہ کو پنجاب سے بلانا تھا بائے ایئر، اس لیے اس نے کل تک کا وقت لیا تھا ۔ ورنہ اس کا دل چاہا تھا آج ادھر اسی وقت اسے ساتھ لے جائے ۔ بے پایاں خوشی تھی، بے پناہ مسرت ۔ اسے لگ رہا تھا وہ آسمانوں میں اڑ رہا ہے ۔ لالہ رخ کا اعتراف اسے یکدم ہی بہت معتبر کر گیاتھا ۔ وہ واقعی الگ تھی۔ نفرت اگر اس نے کی تھی تو کھل کر کی تھی اور اب محبت تھی تو وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر ۔ وہ سارے خدشات جو اس کو لاحق تھے وہ کہیں دور جا سوئے تھے۔یاد تھیں تو وہ بے بس روتی آنکھیں اور وہ لہجہ۔
’’ کوئی نہیں مرتا روحان پر میں مر جاؤں گی سچ میں… ‘‘بھیگا ہوا ہارا ہوا لہجہ ۔
اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا اور وہ کبھی خود کو اس پر مغرور محسوس کرتا کبھی شرمندہ اور کبھی بس اپنی دھڑکنوں کے شور سے گھبرا کر دھیان بٹاتا۔
عائشہ کو اس نے جب کال پر بتایا تھا تواس کی خوشی دیدنی تھی ۔ اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی کو لے کر واقعی اتنا سنجیدہ ہوگیا ہے کہ شادی کرنے جارہا ہے ۔ اس کے لیے تو بس اس کا کام ہی سب کچھ تھا ۔ عائشہ اور امان سے بات کر کے وہ خود کو اور بھی ریلیکس محسوس کر رہا تھا ۔ بڑے دنوں بعد جنگی صورتحال اور اعصاب شکن لڑائی سے نکل کر گھر اور فیملی والے احساس آئے تھی ۔ شہر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے لالہ رخ کو کال کی تھی جواباََ اس نے کال کاٹ دی تھی۔روحان کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی ۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اس نے میسج ٹائپ کیا تھا سوری کا لیکن پھر مٹا دیا تھا۔
’’ جب وہ آئے گی ادھر میرے سامنے‘ تب بتاؤں گا ۔‘‘ اس نے سوچا۔
’’مگر تب میں کہہ سکوں گا کچھ؟ اس وقت اتنا ہوش ہی کہاں ہوگا۔ ‘‘ اس نے مزید سوچا پھر دوبارہ ٹائپ کیا۔
دوسر ی جانب میسج کی بیپ پر ابٹن لگواتی لالہ رخ نے دزیدہ نگاہوں سے سکرین کی طرف دیکھا تھا جہاں روحان کا میسج جگمگا رہا تھا۔ اس نے فوری فون اٹھایا تھا۔
’’ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہاں سے شروع کروں ۔ کب تم مجھے اتنی اچھی لگی مجھے یاد نہیں مگر اس سے پہلے کبھی مجھے کوئی اتنا اچھا نہیں لگا ۔ اتنا اچھا کہ شاید میں نے اپنی بتیس سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ گھر بسانے کا سوچا مگر میں خود غرض نہیں ہونا چاہتا تھا اس لیے انکار کیا ورنہ تم سے دور جانا میرے لیے کیسا تھا شاید میں لفظوں میں نہیں بتا سکتا ۔اور ہاں‘ تمہاری آنکھیں بہت پیاری ہیں ۔ اتنی پیاری کہ باندھ لیتی ہیں ساتھ… ‘‘ لالہ رخ کے گال سرخ ہوئے تھے اور ہونٹ مسکرائے تھے ۔ اس سادہ سے اظہار نے اسے بہت پرسکون کردیا تھا۔
٭…٭…٭
اگلا دن زائر قبیلے میں کسی جشن کا دن تھا ۔
پورا قبیلہ سجا ہوا تھا ۔ بڑی مختصر سی بارات تھی دو گاڑیوں پر۔ عائشہ، اس کا شوہر امان، اس کا بیٹا عبداللہ، روحان کے دو دوست اور وہ خود تھا ۔ آج اس نے سیاہ رنگ نہیں پہنا تھا ۔آف وائٹ سادہ سی شیروانی میں اس کا درازقد اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ کھڑے نقوش ۔ وہ کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا ۔مستزاد اس پراس کی براؤن آنکھوں میں آج الگ ہی چمک تھی۔
’’تم نے واقعی اس مشن پر دل سے کام کیا ہے۔ ‘‘ حویلی میں گاڑی داخل ہوتے ہی عدیل نے اس کے کان میں کہا تھا۔
وہ مسکراہٹ چھپاتا منہ دوسری طرف کرگیا تھا جہاں مہروز اور باقی سب پھولوں کے ہار لے کر کھڑے تھے ۔ قبیلے کے رواج کے مطابق اسے پگڑی پہنائی گئی تھی اور گلے میں سفید پھولوں کی مالا ۔ نکاح کے بعد اس کو رسم کے مطابق لالہ رخ کے ساتھ بٹھایا گیا تھا جو قندھاری سرخ رنگ کے لباس میں گھونگٹ اوڑھے اس کے سنگ آکر بیٹھی تھی ۔ روحان کا دل سینے کی دیواروں سے باہر آنے کو تھا ۔ قبائلی رقص میں مہروز نے اسے دعوت دی تھی ۔ آج تو اس سے کوئی جان بھی مانگتا تو وہ دے دیتا۔ وہ بڑی خوشی سے شامل ہوا تھا۔
’’ لالہ رخ تیرا دلہا تو بہت سوہنا ہے ۔‘‘
’’لالہ رخ کو فوجی ہی چاہئے تھا مل گیا۔ ‘‘
ایسی بہت سی باتیں تھیںجو اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں مگر وہ مبہوت سی دوپٹے کی اوٹ سے اسے سب کے ساتھ رقص کرتا دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے کی چمک اور خوشی… لالہ رخ نے نظر لگنے کے ڈر سے نگاہ چرا لی تھی۔
’’ماشااللہ ۔ ‘‘ عائشہ نے اس کا گھونگھٹ اٹھایا تھا اور اس کے چاند چہرے کو دیکھ کر بے اختیار ماشاء اللہ کہا تھا۔
لالہ رخ پہلی نظر میں ہی پہچان گئی تھی کہ وہ روحان کی بہن ہے ۔اس کی آنکھیں بالکل روحان جیسی تھیں اور سب سے بڑی مماثلت تھی ان کی نرم سی مسکراہٹ‘بالکل روحان کی طرح کی ۔ و ہ احتراماََ کھڑی ہوئی اس کو دیکھ کر مگر عائشہ نے فوراََ اس کا گھونگھٹ نیچے کر کے بٹھایا تھا۔ اور خود بھی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی ۔رسموں کے بعد رخصتی ہوئی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس کے سنگ شہر پہنچ گئی تھی جہاں کرائے پر اس نے دو ہفتوں کے لیے گھر لیا تھا ۔ اس کے بعد پنجاب جانا تھا ۔ عائشہ اسے کمرے میں بٹھا کر ہر چیز سیٹ کر کے گئی تھی ۔ لالہ رخ کو اس سے بالکل روحان والی فیلنگ آرہی تھی ۔ ویسی ہی نرم خو، مسکراتی ہوئی اور پیاری، دونوں بہن بھائی جانتے تھے دل جیتنا۔
تھوڑی دیر بعد ہی وہ آیا تھا اندر اچانک اور وہ جو گھونگھٹ اتارے ٹیکا سیٹ کر رہی تھی اسے دیکھ کر بوکھلائی اور گھونگھٹ فوری اوپر ڈالا تھا ۔ وہ مسکراتا ہوا اس کے پاس آیا۔
’’اسلام علیکم… ‘‘ اس کے لہجے میں چھپی گرمجوشی اور بے تابی ۔ لالہ رخ کے ہاتھوں میں پسینہ آیا تھا۔
’’اس کا کوئی فائدہ تو نہیں ویسے سوائے اس کے کہ جتنی دیر یہ رہا میرا دھیان بٹا رہا۔ ‘‘ اس نے گھونگھٹ ہٹایا تھا ۔
سرخ قبائلی کڑ ھائی والے دوپٹے میں ماتھے پر ٹکی قدیم طرز کا ٹیکا تھا بڑا سا ۔ اس پر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرتی پلکیں جھکائے لالہ رخ۔
’’گھائل تو میں پہلے ہی ہوں پھر ان ہتھیاروں کا مقصد۔ ‘‘ اس کا مسکراتا لہجہ اب گھمبیر ہوا تھا۔
ہاتھ بڑھا کر اس نے ٹیکا سائیڈ پر کیا تھااور اس کے ماتھے پر اے سی میں بھی آئے پسینے کے چند قطروں کو انگلی کی پور سے صاف کیا تھا ۔ یہ گھبرائی سی لالہ رخ، اسے مندر والی گھڑی یاد آئی تھی ۔ تب بھی وہ ایسے ہی گھبرائی تھی۔
’’ یہ تو کوئی اور ہی لڑکی ہے‘میری لالہ تو بڑی بولڈ ہے۔ ‘‘ اب کہ اس کا لہجہ شرارتی تھا۔اس کا ہاتھ تھامے اس نے اسے خود پر گرایا تھا ۔لالہ رخ کا پورا وجود کپکپایا تھا۔۔
’’یہ،یہ…‘‘
لالہ رخ نے احتجاج کرنا چاہا تھا پیچھے ہٹ کر مگر گرفت مضبوط تھی ۔ قدرے غصے سے اس نے اوپر دیکھا مگر ایک لمحہ بھی اس کی جزبے لٹاتی بولتی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکی تھی ۔ اسے واقعی اظہار کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں تھی،اس کی آنکھیں ہی کافی تھیں ۔روحان نے اس کی حالت پر ترس کھا کر اسے چھوڑا تھا پھر جیب سے پائل نکالی تھی ۔ وہ قدرے حیرت سے پائل دیکھ رہی تھی۔
’’ جب پہلی بار تمہیں دیکھا تھا، تم نے وہ کافی ماڈرن سا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اونچا سا ۔ آئی تھاٹ کہ تمہیں پائل پہننی چاہیئے۔ ‘‘اس کے بتانے پر لالہ رخ کا منہ بے اختیار کھلا تھا۔پھر وہ ہنسی تھی بے اختیار۔
’’ تم نے تب بندھے ہوئے یہ بات سوچی تھی ؟ ‘‘ وہ ابھی بھی ہنس رہی تھی ۔
اسے بے اختیار اپنے شوہر پر پیار آیا تھا ۔ سادہ سے لفظوں والاشوہر ، کوئی ڈائیلاگ بھی اسے نہیں مارنا آتا تھا۔
’’ نہیں سوچی نہیں تھی، مجھے لگا کہ پہنو تو اچھی لگے گی۔ ‘‘ وہ یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا۔
’’پہناؤ پھر… ‘‘ لالہ رخ نے پاؤں آگے کیا، روحان نے جھک کر بوسہ دیا تھا۔ اس نے بے اختیار پیچھے کیا۔
’’ یہ کیا حرکت ہے‘ پاؤں ہے۔ ‘‘ اسے اچھا نہیں لگا تھا۔
‘‘ ساری عمر یہی کرنا ہے۔ آج سے ہی پریکٹس کر رہا ہوں۔اچھا شوہر بننے کی۔ ‘‘ وہ بڑی معصومیت سے بولا۔
وہ دوبارہ ہنسی تھی اس کی بات پر‘ اب کہ اس کے ساتھ وہ بھی ہنسا تھا ۔
’’ میں زیادہ لفاظی کا قائل نہیں ہوں مگر اتنا میں جانتا ہوں ۔ جب تک میری زندگی ہے میں تم سے غافل نہیں ہوسکتا کبھی بھی‘میں تمہیں اگنور نہیں کرسکتا کبھی بھی ۔ میری فیملی میں تمہارے اور عائشہ کے علاوہ کوئی نہیں اور اس زمین پر ان دو لوگوں سے زیادہ عزیز مجھے کوئی نہیں۔ ‘‘اسے پائل پہناتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا۔
لالہ رخ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
’’اچھے اور برے دونوں دن ہم نے دیکھے ہیں ساتھ ۔ شدید نفرت میں بھی ہم ساتھ تھے ایک دوسرے کے ‘کبھی ایک دوسرے کو نہیں چھوڑا ۔ آگے بھی ایسا ہی ہوگا ۔ ہر طرح کے دن ، ہر موسم میں میں تمہاری وفادار رہوں گی ۔ کبھی تمہارے کام میں رکاوٹ نہیں بنوں گی۔ ‘‘ اس کا لہجہ دھیما تھا ۔وہ مسکراتے ہوئے جھکا تھا ۔ لالہ رخ نے آنکھیں بند کی تھیں۔
’’کیا مجھے تمہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ… ‘‘ اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے وہ رکا ۔ لالہ رخ کی دھڑکن بھی رکی۔وہ اس کے بے حد قریب تھا۔
’’کہ… ‘‘ وہ بے چین تھی۔
’’ کہ روحان ابراہیم تمہارے بغیر کچھ نہیں ۔ ‘‘ اس نے اب دونوں آنکھوں کو چوما تھا۔
ایک طمانیت تھی جو اس کے اندر تک اتر گئی تھی ۔ زندگی آسان تو نہیں مگر خوبصورت ہوگئی تھی ۔ آگے کا راستہ صاف تھا ۔ ساتھ تھا تو سب آسان تھا ۔ دونوں دل ہی دل میں اپنی اپنی جگہ بے حد شکرگزار تھے۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے