مکمل ناول

صحرائے عشق : آخری حصہ

’’ ہوسکتا آنے والے دنوں میں بارڈر پر سختی بڑھ جائے مگر میں عالمزئی سے بات کر چکی ہوں، ہمیں نہیں روکا جائے گا۔ ‘‘ اس کے یقین پر اس کے اندر آگ لگ گئی تھی۔
’’ لیکن فریڈم آرمی تک اسلحہ پہنچانے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈو‘کوئی قابل اعتبار لوگ ۔ اس لڑکی نے یقینا ساری معلومات فوج کو دے دی ہوں گی۔ ‘‘ یہ درمیانی کرسی پر بیٹھا ایک سینتالیس سالہ آدمی بولا تھا ۔ لہجے سے لگ رہا تھا کہ زرتاشہ اس کے انڈر ہے ۔ لڑکی کے ذکر پر روحان کے کان کھڑے ہوئے تھے ۔ یہ یقینالالہ رخ کی بات ہو رہی تھی۔
’’اس لڑکی کو آج رات اپنے کیے کی سزا مل جائے گی اپنے گھر میں ہی ۔ فریڈم آرمی کا ڈیتھ سیل اس کے پیچھے ہے ۔ ان کو بتا دیا گیا ہے غداری کا اور غداری کی سزا موت ہے۔ ‘‘ زرتاشہ نے مسکراتے ہوئے اس آدمی کو تسلی دی تھی ۔ وہ بے اختیار کھڑا ہوگیا تھا یہ سب سن کر پھر فوری لالہ رخ کا نمبر ڈائل کیا جو آف جارہا تھا۔
’’ ڈیم اٹ… ‘‘ اس نے ہونٹ چباتے ہوئے دوبارہ سکرین آن کی ۔
وہ سب اب باری باری اٹھ کر باہر نکل رہے تھے ۔ اینڈ پر زرتاشہ بچی تھی بس‘ وہ بھی لیپ ٹاپ وغیرہ سمیٹ کر نکلنے کی تیاری میں تھی مگر اس سے پہلے ہی وہ ادھر پہنچ گیا تھا ۔ دروازہ کھلتے ہی اسے اندر آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہوگئی تھی۔
’’کون ہو تم۔ ‘‘ اسے دوبارہ دیکھ کر اب وہ مشکوک ہوئی تھی مگر اس نے سکون سے دروازہ بند کیا اوراس کی طرف بڑھا تھا۔
’’ کک…کون ہو تم‘کیا کر رہے ہو یہ ۔ تم جانتے بھی ہو کون ہوں میں ۔ میرے گارڈز نیچے کھڑے ہیں تم۔ ‘‘ وہ گھبراہٹ چھپاتے چھپاتے پیچھے ہوئی تھی مگر وہ اس کے سر پر آگیا تھا ۔ اس کے پاس آتے ہی اس نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تھا جس سے وہ نیچے گر گئی تھی۔
’’یہ…یہ…یہ…‘‘ وہ لڑکھڑاتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھے سیدھی ہوئی لیکن اس سے پہلے ہی وہ انگوٹھااس کی شہ رگ پر رکھ چکا تھا۔
’’ ویسے تو میں کسی عورت پر ہاتھ اٹھانے کا قائل نہیں ہوں مگر تم اس سے زیادہ ڈیزرو کرتی ہو۔ ‘‘ اس نے انگوٹھے کا دباؤ بڑھایا ۔
زرتاشہ کی گھٹی گھٹی چیخ نکلی تھی اور آنکھیں گویا باہر آنے کو تھیں ۔ وہ اب ڈر اور حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی مگر بول نہیں پا رہی تھی۔
’’ کون گیا ہے لالہ رخ کے پیچھے،کس کو بھیجا ہے تم نے۔ ‘‘ وہ غرایا تھا۔آنکھوں میں گویا خون اترا ہوا تھا ۔
’’مم…مم…‘‘ وہ بول نہیں پا رہی تھی۔
’’بولو۔ ‘‘ اس نے اب دباؤ اتنا بڑھایا کہ اس کی چیخیں بلند ہوگئی تھیں ۔ اسے ایسا لگ رہا تھا کوئی ہانڈی میں اس کا سر رکھے ابال رہا تھا۔
’’لل…فریڈم آرمی…عباس…لل۔ ‘‘کہتے ساتھ ہی اس کی گردن ڈھلک گئی تھی ۔
’’اے۔ ‘‘ اس نے اس کا چہر ہ تھپتھپا یا تھا ۔
’’ نانسینس،اتنی جلدی مر گئی۔ ‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھا اور پھر مونچھیں اور داڑھی اتارتے ہوئے اس نے سر پر سے سیاہ بالوں کی وگ بھی اتار دی تھی ۔ ساتھ ہی چہرے سے وہ جھلی بھی۔
اپنے اصلی حلیے میں وہ باہر آگیا تھا ۔ تبھی اسے طاہر کی طرف سے سب اجازت نامے موصول ہوگئے تھے ۔یہ اجازت نامے ایک مشہور سیاسی شخصیت عالمزئی کے حکم سے جاری کیے گئے تھے ۔ وہ ہونٹ بھینچے جیپ کی طرف بڑھا ۔ رات تو شروع ہوگئی تھی اور لالہ رخ بھی کال اٹینڈ نہیں کر رہی تھی ۔ اس کا رخ اب صحرا کی طرف تھا وہ جلد از جلد زائر قبیلے پہنچنا چاہتا تھا
٭…٭…٭
رات گہری ہوگئی تھی ۔ اس نے اس سفید محل میں داخل ہونے کے لیے عقبی سمت کو ہی ترجیح دی تھی تاکہ پہرے داروں کی نظر سے بچ سکے ۔ اندر آتے ہی وہ پچھلی سائیڈ سے ہی زنان خانے میں آیا تھا ۔ اب تو اسے یہ راستہ ازبر ہوگیا تھا ۔ دبے پاؤں وہ لالہ رخ کے کمرے کی طرف بڑھا تھا ۔ بظاہر تو سب ٹھیک لگ رہا تھا ادھر لیکن زرتاشہ نے خود آج رات کا ذکر کیا تھا ۔ کمرہ اندر سے لاکڈ تھا ۔ روحان کی دھڑکن ایک لمحے کو تیز ہوئی ۔ بہت آہستہ سے اس نے ناک کیا تھا ۔ اندر بالکل خاموشی تھی ۔ کوئی جواب نہیں آیا تھا ۔ اس نے دوبارہ ناک کیا تھا ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ۔ تبھی اسے قدموں کی آواز دروازے کی دوسری سمت سے آتی سنائی دی تھی۔
’’کون ہے۔ ‘‘ لالہ رخ کی آواز بتا رہی تھی کہ وہ نیند سے جاگ کر آئی ہے۔اس کی آواز سن کر اس نے بے اختیار ایک اطمینان کا سانس لیا تھا۔ وہ محفوظ تھی۔
’’زرمینے؟‘‘ اس نے کہتے کوئے دروازہ کھول دیا تھا اور سامنے کھڑے بندے کو دیکھ کر وہ شاک ہوئی تھی ۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، وہ تیزی سے اس کا بازو پکڑ کر اندر آگیا تھا اور دروازہ بند کردیا تھا۔
’’یہ، تم…‘‘ اس نے کچھ کہنا چاہا تھا مگر روحان نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی تھی ۔
وہ وہیں چپ ہوگئی تھی ۔ وہ تیزی سے کھڑکی کی جانب بڑھا تھا جو ہمیشہ کی طرح کھلی تھی ۔ اس نے فوری اسے بند کیا تھا ۔پھر مڑ کراس کی طرف دیکھا تھا جو پنک کلر کے ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر شرٹ میں اس کے سامنے نیند میں ڈوبی آنکھیں لیے کھڑی خاموشی اور حیرت سے اسے دیکھے جارہی تھی۔ روحان نے بے اختیار نظر چرائی۔
’’تمہارا فون کہاں ہے۔ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’تم کیسے آئے ادھر۔ ‘‘ بولنے کی اجازت ملتے ہی اس نے فوراََ اپنا سوال داغا۔
’’پہلے میری بات کا جواب دو۔ ‘‘ روحان کے کہنے پر وہ خاموشی سے اس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
روحان کو وہ قدرے غصے میں لگ رہی تھی۔ اس کے آنے پر نہ ہی کوئی خوشی آئی تھی اس کے چہرے پر۔ بس وہ حیران تھی۔
’’میں نے آف کر کے رکھ دیا ہے۔ ‘‘ اس نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’وجہ… ‘‘ وہ اب پورااس کی طرف مڑا تھا جو بیڈ پر اس کے قریب بیٹھی ہوئی تھی۔
’’میری مرضی۔ ‘‘ اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
’’کیا ہوا ہے تمہیں۔ ‘‘ روحان نے اب بغوراس کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا جو نظریں نہیں ملا رہی تھی اس کے ساتھ۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ اس نے اسی لہجے میں جواب دیا تھا ۔ روحان نے بے اختیار سر پکڑا تھا ۔ ایک تو یہ عورتیں… اسے زاہد یاد آیا تھا۔
’’اوکے میں جارہا ہوں پھر۔ ‘‘ وہ کھڑا ہوگیا تھا۔
’’ظاہر ہے تمہیں تو جلدی ہے‘ جاکر کسی ڈانس پارٹی میں شرکت کرنا ہوگی۔ ‘‘ اس کے سنانے پر وہ قدرے حیرت سے مڑا پھر مڑ کراس کی طرف دیکھا جو انجان بنی بند کھڑکی کو ہی دیکھے جارہی تھی۔
’’تمہیں کس نے بتایا کہ میں ڈانس پارٹی میں گیا تھا۔ ‘‘ وہ واقعی حیران تھا۔
’’کافی وائرل ویڈیو چل رہی تھی سوشل میڈیا پر… ‘‘ اب کہ اس کا لہجہ سرد تھا ۔وہ کچھ دیر اس کے تاثرات دیکھتا رہا پھر مسکرایا تھا۔
’’تم نے پہچان لیا مجھے؟‘‘ وہ اب مسکرا رہا تھا۔
’’مجھے ویسے امید نہیں تھی کہ تم پہچان سکتی ہو مجھے۔ ‘‘ وہ اب محفوظ ہو رہا تھا اور وہ تپ کر سرخ۔
’’تو اس طرح کی حرکتوں کے لیے تم نے یہ حلیہ رکھا ہوا ہے۔ ‘‘اس کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
’’تمہیں برا لگ رہا ہے ؟ ‘‘ اس کے شرارتی انداز میں کہنے پر وہ پہلی باراس کی طرف مڑی تھی اوراس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔
’’مجھے کیوں برا لگنے لگا ۔ میری طرف سے تم جو مرضی کرو‘ میں تو اس لیے حیران تھی کہ اتنی ٹف سچوئیشن میں بھی تمہیں ان کاموں کے لیے وقت مل جاتا ہے۔امیزنگ…‘‘ اس کے چبھتے ہوئے انداز میں کہنے پر وہ اب زور سے ہنسا تھا۔
’’پوری بیوی لگ رہی ہو۔ ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’حد ہے ویسے بد اعتمادی کی‘ کچھ معلومات چاہیئے تھیں اس لیے وہ سب کیا۔ ‘‘اس نے مسکراتے ہوئے اسے پکڑ کر اب دوبارہ ساتھ بٹھایا تھا ۔ لالہ رخ کے چہرے کے تنے تنے تاثرات کچھ نارمل ہوئے تھے ۔
’’ حیرت ہے پورے ہال میں تمہیں وہ ہی پر کٹی ملی تھی معلومات لینے کے لیے وہ بھی ڈانس کے زریعے۔ویری گڈ… ‘‘ اتنی بھی نارمل نہیں ہوئی تھی ۔
روحان نے سر جھکا دیا تھا مسکراہٹ چھپانے کے لیے۔
’’ بالکل بھی شرمندہ نہیں ہو تم۔ ‘‘ وہ اسے مسکراتا دیکھ چکی تھی اور اب مزید تپی تھی۔
‘‘ایم سوری۔‘‘ اس نے سر اٹھا کر بڑی معصومیت سے ہتھیار پھینکے ۔ لالہ رخ کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی۔
’’اٹس اوکے۔ اب بتاؤ کیوں آئے ہو‘‘ کمال بے نیازی تھی۔
‘‘ویسے ہی تم سے ملنے کا دل چاہ رہا تھا۔ ‘‘ روحان کا لہجہ گہرا ہوا تھا ۔ وہ گڑبڑا کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’صحیح بات بتاؤ۔ ‘‘ وہ تھوڑا پیچھے ہوئی تھی ۔
’’ مجھ سے شادی کرو گی لالہ رخ۔ ‘‘ اس کے کہنے پر وہ بے یقینی اور حیرت سے اسے دیکھنے لگی تھی منہ کھولے۔ یہ کون سا ٹائم تھا پرپوز کرنے کا۔
’’پلیز… ‘‘ وہ اس کی طرف جھکتا ہوا بڑے جان لیوا انداز میں مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔ لالہ رخ گھبرا کر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’تم…تم۔ ‘‘ اس نے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے خود کو نارمل کیا تھا۔
’’ یہ کوئی مذاق کا وقت ہے ۔ ‘‘ وہ اب قدرے غصے سے بولی تھی۔لیکن آواز کپکپا رہی تھی۔
’’اوکے،اوکے ریلیکس۔‘‘ روحان نے اس کی حالت کے پیش نظر بات بدلی تھی۔
’’اصل میں، زرتاشہ سے پتہ چلا تھا کہ فریڈم آرمی کے ڈیتھ سیل کو تمہیں آف کرنے کی زمہ داری دی گئی ہے۔ ‘‘ اس نے مناسب سے الفاظ میں بتایا ۔ لالہ رخ کے چہرے پر سمجھی ناسمجھی کے تاثرات ابھرے تھے ۔ روحان نے مختصراََ اسے ساری بات بتا دی تھی۔وہ اب بنا آنکھ جھپکے روحان کو دیکھ رہی تھی۔
’’تم زرتاشہ کے پیچھے میری وجہ سے گئے تھے ناں۔ ‘‘ روحان کو اس کا لہجہ بھیگا ہوا لگا تھا۔
’’ہماری وجہ سے۔ ‘‘ اس نے تصیح کی تھی۔
’’اگر ڈیتھ سیل کو میری زمہ داری دی گئی ہے تو وہ مجھے ہر صورت ختم کریں گے۔ ‘‘ اس کے لہجے میں عجیب سی آنچ تھی۔
’’ایسا نہیں ہوگا‘مارنے والے سے بچانے والا بہت طاقتور ہے۔ ‘‘ روحان نے اسے ریلیکس کرنا چاہا تھا۔مگر وہ نہیں ہوئی تھی۔
’’تم میرے ساتھ چلو لالہ رخ، ہماری پناہ میں تم محفوظ رہو گی ۔ میں اس لیے ہی یہاں آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے اب مقصد بتایا تھا ادھر آنے کا۔
’’میں نہیں جاسکتی، تم جاؤ میں خود نپٹ لوں گی ان سے۔ ‘‘اس کی آواز باہر تیزی سے ہونے والے دھماکوں میں دب گئی تھی ۔
دھماکہ اتنی زور کا تھا کہ وہ دونوں ہی اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکے تھے اور گر گئے تھے ۔ روحان تیزی سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف بھاگا تھا۔
’’رک جاؤ، روحان…رک جاؤ۔ ‘‘ وہ چیخی تھی۔
’’کھڑکی بند کرلو‘باہر مت آنا ۔ اگر زرا سی بھی میری کوئی اہمیت ہے تمہاری زندگی میں لالہ رخ تو باہر مت آنا۔ ‘‘ اس کا ہاتھ تھامے وہ بہت جلدی میں تھا ۔ باہر دھوئیں کے بادل اڑ رہے تھے ہر طرف ۔پوری حویلی سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔
’’اور ہاں۔ وہ پرپوزل مذاق نہیں تھا۔ ‘‘ آخری بات اس نے مسکراتے ہوئے کہی تھی اور باہر کود گیا تھا جبکہ وہ ساکت کھڑی کھڑکی کو دیکھ رہی تھی ۔ باہر ایک اور زوردار دھماکہ ہوا تھا اور لالہ رخ کو لگا تھا گویا چھت اس کے سر پر گر گئی ہے۔
٭…٭…٭
زندگی میں ہم بہت کچھ اپنی آنکھوں سے ایسا ہوتے دیکھتے ہیں جو بالکل غیرمتوقع ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی سب ایسا ہی تھا ۔ دوماہ پہلے تک کوئی روحان ابراہیم اس کی زندگی میں نہیں تھا اور دو ماہ بعد اسے لگ رہا تھا کہ اس انسان کے بغیراس کی زندگی ہی ممکن نہیں ۔ نفرت، دشمنی، بیزاری، مفاد پرستی، آشنائی، دوستی اور پھر…پھر شاید محبت یا عادت ۔ بڑی ترتیب سے ساری منزلیں اس نے طے کی تھیں ۔
کوئی نوکیلی چیز اس کے سر میں لگی تھی بہت زور سے اور آخری احساس اس کے ذہن میں یہی تھا کہ وہ اب اسے دوبارہ نہیں دیکھ سکے گی ۔ اس کے بعد ہر طرف تاریکی چھا گئی تھی۔
اور جب ذہن کچھ بیدار ہوا تھا تو اسے لگا تھا کہ اس کی آنکھوں پر منوں وزن ہے ۔ بمشکل اس نے آنکھیں کھولی تھیں اور کافی دیر غائب دماغی سے اوپر دیکھتی رہی پھر کچھ کچھ یاد آنے پر اس نے اردگرد دیکھا ۔ وہ ہاسپٹل میں تھی ۔ اس کا ذہن جھماکے سے اب جاگا تھا ۔ وہ تو اپنے کمرے میں گری تھی پھر ادھر کیسے آئی اور کیا ہوا تھا ۔ سب کہاں تھے اور روحان۔ اسے اس کا جانا اور پھر دھماکے کا ہونا یاد آیا ۔وہ فوراََ اٹھ بیٹھی تھی کمر کی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنے ہاتھ پر لگا کینولا کھینچنا چاہا۔
’’ارے ارے… یہ کیا کر ری ہو۔ ‘‘ آواز تھی یا جادو۔ اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر دیکھا اور سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھ کر اسے لگا تھا ساری کائنات ادھر ہی تھم گئی تھی ۔اس کا ہاتھ وہیں رک گیا تھا ۔ پھر وہ بے یقین سی اٹھ کر کھڑی ہوئی تھی ۔ وہ مسکراتا ہوا اس کے پاس آگیا تھا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ اس نے ا س کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی ۔ لالہ رخ نے آنکھیں جھپکیں زور سے پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو چھوا تھا اور پھر اس کے گلے لگ گئی تھی ۔ اب کے بے جان ہونے کی باری روحان کی تھی ۔ وہ بے تحاشہ تیز دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے آنسوؤں سے اپنی شرٹ بھیگتی ہوئی محسوس کر رہا تھا ۔ اسے لگا تھا کہ اس میں اتنی بھی جان نہیں کہ وہ بازو اٹھا کر اسے چپ کروا سکے۔
’’مجھے،مجھے لگا میں نے …میں نے کھو دیا تمہیں۔میرا دل بند ہوگیا تھا۔ ‘‘ وہ روتے ہوئے بولی تھی ۔ روحان نے دوسری بار اسے روتے ہوئے دیکھا تھا۔
’’اور میرا اب بند ہورہا ہے۔ ‘‘ اس نے کہنا چاہا مگر کہہ نہیں سکا ۔ اس لڑکی کی قربت اسے ہمیشہ ایسے ہی خاموش کردیتی تھی ۔ اس سمے بس اسے اپنا دل ہی اپنے ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہوتا تھا اور الفاظ نہیں ملتے تھے ۔ بہت لڑکیوں سے اس کی بہت دوستی رہی تھی مگر لالہ رخ ۔ اس میں تھا ایسا کچھ کہ وہ واقعی اپنا آپ بھولنے لگتا تھا اس کے پاس آکر۔
اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے اس نے سر اٹھایا تھا اور بھیگی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا تھا پھر قدرے پریشانی اس کی آنکھوں میں آئی تھی ۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے اس کی آنکھوں کے پاس پڑے نشان کو چھوا تھا۔
’’یہ؟‘‘ اس نے سوالیہ نظروں سے روحان کو دیکھا جو اس کے سینے پر سر ٹکائے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے امتحان میں ڈالے ہوئے تھی اور وہ بے بس سا مسکرا بھی نہیں پا رہا تھا۔
’’یہ تھوڑی سی چوٹ لگ گئی۔ ‘‘ روحان نے قدرے پیچھے ہونا چاہا مگر وہ دونوں بازو بڑی مضبوطی سے اس کے گرد لپیٹے کھڑی تھی۔
’’لالہ رخ ۔ ‘‘ روحان نے نرمی سے اس کو پیچھے کرنا چاہا اب لیکن وہ نہیں ہلی تھی۔
’’ کون لے کر آیا مجھے ادھر‘کیا ہوا تھا تب ۔ ‘‘ وہ بولی ۔
’’ایسے، ایسے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔ ‘‘ اس کی بے بسی اب اس کے لہجے میں اتر آئی تھی۔ وہ خاموشی سے پیچھے ہوگئی تھی اور بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔
’’اب بتاؤ۔ ‘‘ اس نے اب کچھ نروٹھے لہجے میں کہا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بتاتا مہروز اندر آیا تھا ۔ روحان تیزی سے پیچھے ہوگیا تھا ۔
’’لالہ… ‘‘ وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھا اور اسے ساتھ لگایا تھا۔
’’ شکر ہے تم ٹھیک ہو۔ ‘‘ اس کا ماتھا چومتے ہوئے وہ بولا تھا۔
’’ باقی سب ٹھیک ہیں کیا؟‘‘ لالہ رخ نے پوچھا۔
’’ ہاں سب ٹھیک ہیں۔ باغی تھے، انہوں نے حملہ کردیا تھا ۔ ان کو پتہ تھا کہ بابا جان فوج کا ساتھ دے رہے ہیں ۔ یہ تو شکر ہے روحان کو اطلاع مل گئی تھی اور اس نے سب سنبھال لیا ورنہ… ‘‘ مہروز کے بتانے پر ایک طرف سر جھکائے کھڑا روحان مروتا مسکرایا تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے